1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏26 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟
    جِدھر سب کچھ لُٹا آئے
    جِدھر آنکھیں گنوا آئے
    کہا ، سیلاب جیسا تھا، بہت چاہا کہ بچ نکلیں مگر سب کچھ بہا آئے
    کہو ، وہ ہجر کیسا تھا ؟
    کبھی چُھو کر اسے دیکھا
    تو تُم نے کیا بھلا پایا
    کہا ، بس آگ جیسا تھا ، اسے چُھو کر تو اپنی رُوح یہ تن من جلا آئے
    کہو ، وہ وصل کیسا تھا ؟
    تمہیں جب چُھو لیا اُس نے
    تو کیا احساس جاگا تھا ؟
    کہا ، اِک راستے جیسا ،جدھر سے بس گزرنا تھا ، مکاں لیکن بنا آئے
    کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟
    فلک سے جو اُتر آیا !
    تمھاری آنکھ میں بسنے
    کہا ، وہ خواب جیسا تھا ، نہیں تعبیر تھی اسکی ، اسے اِک شب سُلا آئے
    کہو ، وہ عشق کیسا تھا ؟
    بِنا سوچے بِنا سمجھے ،
    بِنا پرکھے کیا تُم نے
    کہا ، تتلی کے رنگ جیسا ، بہت کچا انوکھا سا ، جبھی اس کو بُھلا آئے
    کہو ، وہ نام کیسا تھا ؟
    جِسے صحراؤں اور چنچل ،
    ہواؤں پر لکھا تُم نے
    کہا ، بس موسموں جیسا ، ناجانے کس طرح کس پل کسی رو میں مِٹا آئے​
     
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اب کسی سے مرا حساب نہیں
    میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

    خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
    یہ مرا خون ہے شراب نہیں

    میں شرابی ہوں میری آس نہ چھین
    تو مری آس ہے سراب نہیں

    نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال
    طاقت شوخئ جواب نہیں

    اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب
    اور خود جیسا اب دو آب نہیں

    غم ابد کا نہیں ہے آن کا ہے
    اور اس کا کوئی حساب نہیں

    بودش اک رو ہے ایک رو یعنی
    اس کی فطرت میں انقلاب نہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں