1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کہاں سے آ گیا کہاں یہ شام بھی کہاں ہوئی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏13 نومبر 2017۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    کہاں سے آ گیا کہاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
    نہ ہم نفس نہ ہم زباں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
    بجھی نظر، بجھے قدم، نہ راہبر، نہ ہمسفر
    نہ رہگزر نہ کارواں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
    نہ شمعِ دل نہ شمعِ رُخ، نجومِ شب نہ ماہِ شب
    نگاہ و دل دھواں دھواں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
    نہ گیسوؤں کی چھاؤں ہے نہ عارضوں کی چاندنی
    نہ مانگ کی وہ کہکشاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
    حیات غم کے بوجھ سے دبی دبی، تھکی تھکی
    لٹی لٹی سی بزمِ جاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
    لگی ہے جیسے آگ سی، چتا میں جل رہا ہوں میں
    پگھل رہے ہیں جسم و جاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
    پیامؔ اس مقام پر ہے آج دل کا کارواں
    جہاں زمیں نہ آسماں، یہ شام بھی کہاں ہوئی

    پیام فتح پوری
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں