1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کہاوتوں کی کہانیاں

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالمطلب, ‏25 اگست 2016۔

  1. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    یک نہ شد دو شد
    اس کہاوت کے لفظی معنی تو یہ ہیں، "ایک نہ ہوا دو ہوئے۔" اور یہ اس وقت بولی جاتی ہے جب ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مصیبت بھی سر پر آ پڑے۔
    اس کہاوت کی کہانی یوں ہے کہ ایک شخص منتر پڑھ کر مردوں کو زندہ کرنے اور دوسرا منتر پڑھ کر انہیں دوبارہ مارنے کا جادو جانتا تھا۔ وہ مردوں کو زندہ کر کے ان سے باتیں کرتا اور پھر انہیں دوبارہ جادو کے زور سے قبر میں داخل کر دیتا۔ وہ شخص جب مرنے لگا تھ اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ جادو سکھا دیا۔ اس کے مرنے کے کچھ عرصے بعد شاگرد نے ایک قبر پر جا کر یہ منتر پڑھا اور مردے سے باتیں کیں، لیکن مردے کو دوبارہ قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا۔ شاگرد بہت گھبرایا اور جب گھبرا کر بھاگنے لگا تو وہ مردہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا۔ اب وہ جہاں بھی جاتا مردہ اس کے پیچھے آتا۔ بہت کوشش پر بھی جب اسے منتر یاد نہ آیا تو اسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ استاد کی قبر پر پہنچا اور مردے کو زندہ کرنے کا منتر پڑھا اور استاد کے قبر سے نکلنے پر اس سے دوسرا منتر پوچھنے لگا، لیکن استاد صاحب ایسی دنیا میں پہنچ چکے تھے جہاں انہیں کوئی پچھلی بات یاد نہ تھی اور اب استاد کا مردہ بھی پہلے مردے کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ نتیجہ یہ کہ شاگرد وہاں سے یہ کہہ کر بھاگا کہ، "یک نہ شد دو شد۔"
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    دودھ کا دودھ پانی کا پانی
    اس کہاوت کا مطلب ہے انصاف ہونا اور یہ ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب سچ اور جھوٹ الگ ہوجائیں اور کسی کو اس کے اچھے یا برے کام کا بدلا ملے۔
    اس کا قصہ یوں ہے کہ ایک گوالا بڑا بے ایمان تھا اور دودھ میں پانی ملا کر بیچا کرتا تھا۔ بہت جلد اس نے اچھے خاصے پیسے جمع کر لئے۔ ایک روز اس نے ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور اپنے گاؤں کی طرف چلا۔ گرمی کا موسم تھا۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔ گوالے کے راستے میں ایک دریا پڑا۔ اس نے سوچا چلو نہا لیتے ہیں۔ رپوں کی تھیلی اس نے ایک درخت کے نیچے رکھی۔ تھیلی پر کپڑے ڈال دئیے اور لنگوٹ کس کر پانی میں کود پڑا۔ اس علاقے میں بندر بہت پائے جاتے تھے۔ اتفاق کی بات ایک بندر درخت پر چڑھا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ گوالے کے پانی میں اترتے ہی بندر درخت سے اترا اور رپوں کی تھیلی لے کر درخت کی ایک اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔ گوالا پانی سے نکلا اور بندر کو ڈرانے لگا، لیکن بندر نے تھیلی کھولی اور رپے ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا۔ درخت دریا کے کنارے سے بہت قریب تھا اور رپے اڑا اڑا کر پانی میں گرنے لگے۔ گوالے نے رپوں کو پکڑنے کی بہت کوشش کی، لیکن پھر بھی آدھے رپے پانی میں جا گرے۔ راستہ چلتے لوگ جو گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے اور یہ تماشہ دیکھنےجمع ہوگئے تھے گوالے کی چیخ و پکار سن کر کہنے لگے، "دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔" یعنی گوالے نے جو آدھے پیسے دودھ میں پانی ملا کر بے ایمانی سے کمائے تھے وہ پانی میں مل گئے۔
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا
    لنڈورا یعنی دم کٹا۔ مطلب یہ کہ کسی کام میں نقصان ہو جائے تو مزید نقصان سے بچنے کے لئے اس کام کو چھوڑ دینا چاہئے۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی چالاک شخص اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کسی کو دھوکا دینا چاہے اور وہ اس سے ایک دفعہ نقصان اٹھا چکنے کی وجہ سے دوبارہ اس کی باتوں میں نہ آئے۔
    اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک بلی نے ایک چوہے کو پکڑنے کے لئے چھلانگ لگائی۔ چوہا جھکائی دے کر بچ نکلا مگر پھر بھی بلی نے جاتے جاتے ایک پنجہ مار کر اس کی دم اکھیڑ لی۔ چوہا جان سلامت لے کر بل میں پہنچا تو خدا کا شکر ادا کیا اگرچہ اسے لنڈورا ہونے کا بے حد دکھ تھا۔ بلی بہت کائیاں تھی۔ اس نے ہاتھ آیا شکار جو یوں جاتے دیکھا تو ایک چال چلی۔ چوہے کے بل کے پاس جاکر بولی، "ارے بھانجے، تو تو مجھ سے خواہ مخواہ ہی ڈر گیا۔ میں تو تیری خالہ ہوں۔ تجھ سے مذاق کر رہی تھی۔ چل آ باہر آ! تیری دم جوڑ دوں۔ لنڈورا بہت برا معلوم ہوگا۔" مگر چوہا بھی بہت سیانا تھا۔ بلی کی نیت بھانپ کر بولا، "بخشو بی بلی میں لنڈورا ہی بھلا"
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب
     
    عبدالمطلب نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ہاہاہا :87:
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    اندھیر نگری، چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی، ٹکے سیر کھاجا
    یعنی ایسی جگہ جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو یا ایسی حکومت جہاں ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہو، حاکم وقت نا اہل اور کارندے نالائق ہوں۔ یہ فقرہ ایک لوک کہانی سے لیا گیا ہے۔ ایک گرو اپنے چیلے کے ساتھ سفر کو نکلے تو ان کا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جس کا نام اندھیر نگری تھا اور جہاں کا حاکم چوپٹ راجاؔ کہلاتا تھا۔ اندھیر نگری کے بازاروں میں چھوٹی بڑی ہر چیز بھاجی (ترکاری) سے لے کر کھاجا (اعلیٰ قسم کی ایک مٹھائی) تک ایک ٹکے (نہایت چھوٹا سکّہ) میں ایک سیر (تقریباً آدھا کلو گرام)ملتی تھی۔چیزوں کی ایسی ارزانی دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا اور اس نے گروجی کے سمجھانے کے باوجود وہیں ٹھہر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جلد ہی وہ کھا پی کر موٹا تازہ ہو گیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک دوکان کی دیوار اچانک کسی طرح گر گئی اور ایک راہ گیر دب کر مر گیا۔چوپٹؔ راجا کو خبر ہوئی تو اس نے اُس راج کی پھانسی کا حکم دے دیا جس نے دیوار بنائی تھی۔ راج نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’مہاراج، قصور میرا نہیں اِس بھشتی کا ہے جس نے گارے میں پانی زیادہ ڈال کر اس کو کمزور کر دیا تھا۔ ‘‘ راجا کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور اس نے راج کے بجائے بھشتی کی پھانسی کا حکم صادر کر دیا۔ اتفاق سے بھشتی بہت دُبلا پتلا تھا۔ اس نے عرض کی کہ ’’حضور میری گردن اتنی پتلی ہے کہ پھندا اُس کے لئے بہت بڑا ہو گا۔بھلا مجھ کو پھانسی دینے سے کیا ملے گا۔ پھانسی تو کسی موٹے آدمی کو ملنی چاہئے۔ ‘‘ راجا چوپٹؔ نے فوراً کسی موٹے آدمی کی تلاش کا حکم دے دیا۔اتفاق سے شہر میں وہی چیلہ سب سے زیادہ موٹا تھا چنانچہ اسے پکڑ کر پھانسی کے تختے کی طرف لایا گیا۔ یہ دیکھ کر گروجی نے کوتوال سے کہا کہ ’’میرے چیلے کے بجائے مجھے پھانسی دے دو۔ میری گردن بھی موٹی ہے۔‘‘ کوتوال نے حیرت سے پوچھا ’’گروجی! بھلا آپ کیوں پھانسی چڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ گروجی نے کہا ’’بیٹا! آج کا دن اتنا مبارک ہے کہ جو پھانسی چڑھے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ ‘‘ یہ سن کر کوتوال کہنے لگا کہ ’’یہ بات ہے تو پھر میں ہی کیوں نہ جنت میں جاؤں۔ پھانسی مجھ کو دی جائے گی۔ ‘‘ راجا کا وزیر وہیں کھڑا تھا۔اُس نے یہ سُن کر کہا کہ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے پہلے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھانسی میں چڑھوں گا۔ ‘‘ چوپٹؔ راجا صاحب نے یہ سب دیکھا تو غصہ میں آ گئے اور فرمایا کہ ’’میرے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ جنت میں پہلے داخل ہو جائے۔ پھانسی پر میں خود چڑھوں گا۔‘‘ چنانچہ چوپٹؔ راجہ کو پھانسی دے دی گئی۔ گرو جی نے اس چال سے اپنے چیلے کی جان بچا لی اور اس کو سمجھایا کہ ’’بیٹا اندھیر نگری رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ا س کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘‘ چنانچہ دونوں وہاں سے کہیں اور چلے گئے۔
     
    آصف احمد بھٹی، پاکستانی55 اور عبدالمطلب نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ جناب
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں
    مطلب یہ کہ جس سے فائدہ پہنچے گا ہم اس کی ہاں میں ہاں ملائیں گے۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی خوشامدی موقعے کے مطابق کسی بڑے کی ہاں میں ہاں ملائے اور اس کی اپنی کوئی رائے نہ ہو۔
    اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک بادشاہ کا وزیر بہت خوشامدی تھا۔ بادشاہ جو بھی کہتا وزیر فورا اس کی تائید کرتا۔ ایک دن بادشاہ نے کہا، "بیگن بہت اچھی ترکاری ہے۔"
    وزیر کہنے لگا، "سرکار، بینگن کے کیا کہنے ہیں۔ ذائقے دار، خوبصورت۔ ترکاریوں کا بادشاہ ہے۔ حکیموں کا کہنا ہے بینگن کئی بیماریوں کا علاج ہے۔"
    اگلے دن بادشاہ کسی اور موڈ میں تھا۔ بادشاہوں کا تو یہی حساب ہوتا ہے کہ پل میں ماشہ پل میں تولہ۔ کہنے لگے، "بینگن بری ترکاری ہے۔"
    وزیر نے فورا ہاں میں ہاں ملائی اور بولا، "جی حضور، بینگن بھی بھلا کوئی ترکاری ہے۔ کالا منہ ہے۔ نہ شکل ہے نہ ذائقہ۔ حکیموں کا کہنا ہے کہ بینگن کھانے سے خون میں خرابی ہوجاتی ہے۔"
    بادشاہ نے حیران ہو کر کہا، "کل جب میں بینگن کی تعریف کر رہا تھا تو تم بھی تعریف کر رہے تھے اور آج میری دیکھا دیکھی بینگن کی برائی کر رہے ہو؟"
    وزیر نے جواب دیا، "جہاں پناہ، میں آپ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں۔"
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    آپ سے آتی ہے تو آنے دو

    یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز قرار دینے کا حیلہ تلاش کر رہا ہو۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ ایک مولوی صاحب کے گھر میں پڑوسی کا مرغ آ گیا۔ ان کی بیوی نے مرغ پکڑ لیا اور ذبح کر کے پکا بھی لیا۔ جب مولوی صاحب شام کو کھانے پر بیٹھے تو مرغ دیکھ کر پوچھا کہ ’’یہ کہاں سے آیا؟ ‘‘ بیوی کے بتانے پر انھوں نے فرمایا کہ ’’یہ تو حرام ہے، بھلا میں کسی اور کا مال اس طرح نا جائز طور پر کیسے کھا سکتا ہوں ؟ ‘‘ بیوی نے جواب دیا کہ’’ سو تو ٹھیک ہے لیکن سالن تو ہمارے ہی پیسوں کا بنا ہوا ہے۔اس میں کیا قباحت ہے؟ ‘‘ مولوی صاحب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور انھوں نے بیوی سے کہا کہ وہ اُن کو صرف سالن نکال دے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا لیکن احتیاط کے باوجود ایک بوٹی پیالے سے لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گری۔ بیوی نے اس کو نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے کہا کہ’’ نہیں نہیں ! جو بوٹی آپ سے آتی ہے اُس کو آنے دو۔ ‘‘ بیوی نے کہا کہ’’ وہ مرغ بھی تو آپ سے ہی ہمارے گھر آ گیا تھا۔‘‘ مولوی صاحب کی نیت تو پہلے ہی ڈانوا ڈول تھی۔ فوراً بیوی کی بات پر راضی ہو گئے اور دونوں مفت کا مرغ ہضم کر گئے۔
     
    آصف احمد بھٹی، پاکستانی55 اور عبدالمطلب نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    عمدہ جناب
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    ناؤ میں خاک اڑانا
    ناؤ کا مطلب ہے کشتی۔ اب آپ کہیں گے کہ کشتی میں خاک یعنی مٹی بھلا کوئی کیسے اڑا سکتا ہے۔ یہ تو بے تکی بات ہوئی، تو جناب اس کہاوت کا مطلب ہے بے تکا بہانہ بنانا۔ یہ کہاوت ایسے موقعے پر بولی جاتی ہے جب کوئی شخص ایک نا حق بات کہے اور پھر اسے صحیح ثابت کرنے کے الٹے سیدھے بہانے تراشے یا کوئی کسی پر ظلم کرنے کے لئے بے تکی دلیل دے۔
    اس کا قصہ بھی سنئیے۔ ایک کشتی میں شیر اور بکری اکٹھے دریا پار جارہے تھے۔ بکری کو دیکھ کر شیر کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے سوچا کہ کسی بہانے سے اسے ہڑپ کرنا چاہیے۔ آخر کوئی بہانہ نہ ملا تو بولا، "اے نالائق! ناؤ میں خاک کیوں اڑا رہی ہو؟ اگر میری آنکھ میں خاک چلی گئی تو؟"
    بکری نے جواب دیا، "ناؤ میں بھلا خاک کہاں؟"
    اس پر شیر بولا، "بد تمیز، زبان چلاتی ہے۔" اور اسے کھا گیا۔
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب ۔ ۔ ۔ یہ سلسلہ بہت عمدہ ہے ۔ ۔ ۔ اسے جاری رکھئیے ۔ ۔ ۔ کم از کم میرے لیے یہ تمام کہانیاں نئی ہیں اور سبق آموز بھی ۔ ۔ ۔
     
    عبدالمطلب نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ جناب

    ضرور جتنا ممکن ہو سکےگا
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. بنت الهدی
    آف لائن

    بنت الهدی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جون 2012
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوبصورت سلسلہ ہے کہانی کی کہانی اور محاورے کا محاورہ
    تعلیم و تربیت ساتھ ساتھ
     
    پاکستانی55 اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    الٹی گنگا بہانا
    اس کہاوت کا مطلب ہے عقل کے خلاف بات کہنا یا رواج کے خلاف کرنا۔ جب کوئی شخص ایسی بات کہے جو بالکل الٹی اور کم عقلی کی بات ہو یا ناممکن ہو تو ایسے موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
    اس کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ ایک عورت بہت ضدی تھی۔ اس کا شوہر اس سے جو کہتا وہ اس کے برعکس کام کرتی۔ ایک روز شوہر نے تنگ آ کر کہا، "تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ۔"
    وہ بولی، "ہرگز نہیں جاؤں گی۔"
    شوہر نے کہا، "اچھا مت جاؤ۔"
    کہنے لگی، "ضرور جاؤں گی۔"
    شوہر بولا، "کل جانا۔"
    بولی، "ابھی اور اسی وقت چلی جاؤں گی۔"
    شوہر نے کہا، "خود ہی جاؤ اکیلی۔"
    کہنے لگی، "تم چھوڑنے چلو گے، اکیلی تو ہرگز نہیں جاؤں گی۔"
    مجبوراً شوہر اس کے ساتھ ہولیا۔ دونوں چلے۔ راستے میں دریائے گنگا پڑتا تھا۔
    شوہر نے کہا، "تم ٹھہرو میں کشتی لاتا ہوں۔"
    عورت بولی، "کشتی نہیں چاہئے۔ میں تیر کر جاؤں گی۔"
    شوہر نے اسے بہت سمجھایا کہ پانی گہرا ہے اور بہاؤ بھی تیز ہے، مگر اس ضدی عورت نے ایک نہ مانی اور پانی میں کود پڑی۔ ظاہر ہے ڈوبنا تو تھا ہی۔ پانی میں غوطے کھانے لگی اور پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ بہتی ہوئی جانے لگی۔ شوہر نے یہ دیکھا تو اسے بچانے کے لیے دوڑا، مگر بہاؤ کے ساتھ دوڑنے کے بجائے بہاؤ کی مخالف سمت کنارے کنارے بھاگنے لگا۔ ایک شخص یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا، "وہ پانی کے ساتھ بہہ کر نیچے کی طرف گئی ہوگی، تم بہاؤ کے الٹ اوپر کیوں اسے پکڑنے جا رہے ہو؟"
    اس پر اس نے جواب دیا، "تم اسے نہیں جانتے۔ وہ بہت ضدی ہے۔ یہاں بھی الٹی گنگا بہائے گی۔"
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    بھیگی بلی بن جانا یا بھیگی بلی بتانا
    اس محاورہ کا مطلب ہے کمزور اور سیدھا سادہ بن جانا یا ڈر کر چپ ہو جانا۔ اسے یوں بھی بولتے ہیں بھیگی بلی بتانا۔ جس کا مطلب ہے سستی کی وجہ سے بہانہ کرنا، ٹالنا، کام نہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ کر دینا، کام چوری کرنا۔ اگر کوئی شخص کام کو ٹالنے کے لیے کوئی بہانہ کرے تو کہا جاسکتا ہے، "یہیں پر بیٹھے بیٹھے بھیگی بلی بتا رہے ہو۔"
    اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک صاحب نے اپنے نوکر سے لیٹے لیٹے پوچھا، کیا باہر بارش ہو رہی ہے؟
    نوکر بھی چارپائی پر پڑ اینڈ رہا تھا۔ نیند آ رہی ہو تو کس کا جی اٹھنے کو چاہتا ہے۔
    اس نے وہیں پڑے پڑے کہہ دیا، "ہاں جی ہو رہی ہے۔"
    ان صاحب نے کہا، "تم عجیب آدمی ہو۔ باہر گئے نہیں اور دیکھے بغیر کہہ دیا کہ ہاں ہو رہی ہے۔"
    نوکر نے جلد بہانہ کیا، "ابھی بلّی باہر سے آئی تھی۔ میں نے دیکھا تو وہ بھیگی ہوئی تھی۔"
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں
    مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کر کے خود کو بہت قابل سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئے۔

    اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحب زادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ یہ حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحب زادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔ جواب آیا "اوسط گہرائی چار فٹ"۔ اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔ اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔ بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے حساب لگا کر دیکھا ہے۔ اس دریا کی اوسط گہرائی چار فٹ ہے۔ یہ سن کر گھر والے دریا پار کرنے کو تیار ہو گئے۔ پورا کنبہ یعنی گھر والے سامان لے کر دریا میں کود پڑے اور دریا کے بیچ میں پہنچ کر آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ کشتی والوں نے بڑی مشکل سے انہیں بچایا۔ صاحب زادے پانی میں شرابور کنارے پر پہنچے تو دوبارہ حساب جوڑا۔ وہی جواب آیا۔

    پریشان ہو کر بولے، "حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟"
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں