1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کچہ خاص

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از كاشان عدنان, ‏25 جولائی 2011۔

  1. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    یہ صحیح ہے کہ سر سکندرحیات مرحوم لفظ ''پاکستان'' سے ہمیشہ گھبراتے رہے اور اس کی بجائے قرارداد لاہور کا لفظ استعمال کرتے تھے لیکن اس رات ان کا یکایک پچھلی صفوں سے اٹھ کر مولانا ظفر علی خاں کے پاس آکر بیٹھنا اور ترجمہ کے ایک ایک لفظ پر کڑی نگاہ رکھنا کہ آیا اردو الفاظ انگریزی متن کا صحیح مفہوم ادا کرتے ہیں یا نہیں، اس بات کا بین ثبوت تھا کہ انہیں قرارداد کی ترتیب و تدوین میں یقیناً بڑا دخل تھا۔

    (نوٹ :1961ء میں لندن میں پاکستان ڈے کے موقع پر ایک بڑے جلسے میں پڑھے گئے عاشق حسین بٹالوی کے مضمون سے چند دلچسپ اقتباسات پر ایک نظر،عاشق حسین بٹالوی کے اس مضمون کی واضح خوبی یہ ہے کہ وہ اس وقت اجلاس میں موجود تھے جب قرارداد پاکستان پیش کی گئی )۔
    23 مارچ 1940ء کو لاہور کے وسیع میدان منٹو پارک میں ایک لاکھ انسانوں کے سامنے اور قائد اعظم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے تقسیم ہند کی وہ مشہور قرارداد منظور کی تھی جس نے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام حاصل کیا گیا تھا۔ اسی قرارداد کی رو سے پاکستان کی مملکت وجود میں آئی۔ آیئے آج جب ہم اس تقریب کی سالگرہ منارہے ہیں اس روز سعید کی یاد تازہ کریں جب اسلامیان ہند کے نمائندوں نے جمع ہوکر یہ مصمم بالشان عزم باندھا تھا کہ وہ برعظیم میں ایک آزاد و مقتدر سلطنت قائم کرکے رہیں گے۔21 مارچ کی صبح قائداعظم لاہورتشریف لائے، اسی شام غروب آفتاب کے بعد لیگ کونسل کا اجلاس ہوا جس میں جنرل سیکرٹری کی رسمی رپورٹ کے بعد ضابطے کے مطابق مجلس انتخابِ مضامین (سبجیکٹس کمیٹی)کے چند ارکان نامزد کئے گئے ان میں پنجاب سے ڈاکٹر محمد عالم اور میاں فیروزالدین احمد کو جگہ ملی، سر سکندر مرحوم اس جلسے میں شریک تو ہوئے لیکن خلاف معمول بہت پیچھے بیٹھے تھے۔ان کی وجہ سے یونینسٹ پارٹی کے تمام ارکان بھی ان کے ساتھ پچھلی کرسیوں پر تشریف فرما تھے۔قائد اعظم نے لاہور پہنچتے ہی اخباری نمائندوں کو بیان دیا تھا کہ لیگ اس اجلاس میں ایک انقلاب آفرین اقدام کرے گی، ان کے اس ارشاد پر طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور قیاس آرائیاں ہونے لگیں، ہندو اخباروں نے بھی بڑے بڑے حاشیے چڑھائے لیکن بات کی تہہ تک کوئی نہ پہنچ سکا۔
    22 مارچ کی سہ پہر کو لیگ کا کھلا اجلاس ہوا، نواب شاہ نواز خان والئی ممدوٹ نے خطبہ استقبالیہ پڑھا، لوگ بڑے اطمینان اور سکون سے سنتے رہے ۔ قائد اعظم صدارتی خطاب کے لئے کھڑے ہوئے تو ہر طرف سناٹا چھا گیا، انہوں نے کچھ دیر اردو میں خیالات کا اظہار فرمایا پھر انگریزی میں بولنے لگے۔ گزشتہ دو سال کے واقعات کا خلاصہ بیان کیا، برطانوی حکومت، کانگریس اور دیگر مختلف عناصر میں سے ایک ایک کا تجزیہ کیا، پھر جنگ ِیورپ کے متعلق لیگ کی پالیسی کی وضاحت کی اور آخر میں دوقوموں کا نظریہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے لالہ لاجپت رائے کا ایک خط پڑھ کر سنایا جو موصوف نے 1924 ء میں بنگال کے مشہور لیڈر سی آر داس کو لکھا تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ان دونوں کو ایک دوسرے میں مدغم کرکے ایک قوم بنانا قطعاً ناممکن ہے۔ لالہ لاجپت رائے چونکہ ہندو قوم کی ذہنیت کے صحیح علمبردار سمجھے جاتے تھے۔ ان کے اس خط نے لوگوں کو ششدر کردیا۔ ملک برکت علی مرحوم سٹیج پر بیٹھے تھے، ان کے منہ سے نکل گیا کہ لاجپت رائے نیشنلسٹ ہندو تھے، قائد اعظم نے زور سے کہا کہ ہندو نیشنلسٹ نہیں ہوسکتا۔ اس پر پنڈال میں خوب تالیاں بجیں۔ پھر نواب زادہ لیاقت علی خان نے قرارداد پاکستان پیش کی۔ جس کا اہم جزو یہ تھا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی حصے میں ان خطوں کو جو جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے متصل و ملحق ہیں اور جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، علاقائی ردوبدل کے ساتھ باقی ہندوستان سے الگ کرکے مقتدر و خود مختار مملکتوں میں تبدیل کر دیا جائے۔ لیکن حاضرین کی رائے تھی کہ قرارداد چونکہ بے حد اہم ہے، انہیں اس کے مختلف پہلوؤں پر سوچنے کا مزید موقع دیا جائے۔ اس کے علاوہ قرارداد کا متن انگریزی میں تھا اور بعض لوگ انگریزی نہیں جانتے تھے، چنانچہ مولانا ظفر علی خان نے وہیں قرارداد کا اردو ترجمہ کیا اور مفصل بحث دوسرے دن پر ملتوی کردی گئی۔
    اس واقعہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب مولانا ظفر علی خان قرارداد کا ترجمہ کرنے لگے تو سرسکندر حیات خاں جو بہت پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، اپنی جگہ سے اٹھ کر مولانا کے پاس آکر بیٹھ گئے اور جب تک مولانا ترجمے میں مصروف رہے سر سکندر برابر قرارداد کے انگریزی متن اور اردو ترجمہ کے ایک ایک لفظ پر غور فرماتے رہے۔ مجھے ندامت سے اس بات کا اعتراف ہے کہ سر سکندر حیات خان کی زندگی میں ان کے ساتھ میرے تعلقات کچھ ایسے اچھے نہیں تھے، ورنہ میں ضرور ان سے پوچھتا کہ قرارداد کی ترتیب و تدوین میں ان کا کتنا حصہ تھا اور عبارت کا کون کون سا جملہ اور لفظ ان کا تجویز کردہ تھا، یہ صحیح ہے کہ سر سکندر مرحوم لفظ ''پاکستان'' سے ہمیشہ گھبراتے رہے اور اس کی بجائے قرارداد لاہور کا لفظ استعمال کرتے تھے لیکن اس رات ان کا یکایک پچھلی صفوں سے اٹھ کر مولانا ظفر علی خاں کے پاس آکر بیٹھنا اور ترجمہ کے ایک ایک لفظ پر کڑی نگاہ رکھنا کہ آیا اردو الفاظ انگریزی متن کا صحیح مفہوم ادا کرتے ہیں یا نہیں، اس بات کا بین ثبوت تھا کہ انہیں قرارداد کی ترتیب و تدوین میں یقیناً بڑا دخل تھا۔
    رات کے گیارہ بجے مجلس انتحاب مضامین کا اجلاس ختم ہوا۔ تو ملک برکت علی مرحوم اور میں ایک ہی موٹر میں واپس آئے۔ میں اس زمانے میں ٹمپل روڈ پر ملک صاحب کے پڑوس میں رہتا تھا۔ راستے میں میں نے ان سے کہا کہ قرار داد کے الفاظ میں کچھ نقص ہے۔ آپ رفع کرادیجئے۔
    انہوں نے پوچھا ''کیا نقص ہے ؟''۔
    میں نے عرض کیا کہ ''پہلے یہ بتائیے کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے سے جس کو آپ اپنی مملکت میں شامل کرنا چاہتے ہیں ، آپ کی مراد کیا ہے ؟''۔
    کہنے لگے ''یہی پنجاب ، سرحد ، بلوچستان اور سندھ ''۔
    میں نے کہا ''تو پھر آپ قرار داد میں واضح طور پر ان صوبوں کے نام کیوں نہیں لیتے ؟''۔
    ملک صاحب نے کہا۔''اس سے کیا فائدہ ہو گا ؟''۔
    میں نے عرض کیا۔ ''آپ کو معلوم ہے پورے پنجاب میں ہماری اکثریت نہیں۔ دس گیارہ ضلعے ایسے ہیں جہاں ہم اقلیت میں ہیں۔ اگر آپ نے علاقائی ردوبدل کے ساتھ مسلمانوں کے اکثریتی حصے کو باقی ملک سے علیحدہ کیا تو نصف پنجاب کٹ جائے گا۔ حالانکہ قرار داد مرتب کرتے وقت پورا پنجاب آپ کے ذہن میں تھا۔ اول تو جہاں آپ نے شمال مغربی ہند کا ذکر کیا ہے وہاں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد کے نام صراحت سے لینے چاہئیں اور دوسرے علاقائی ردوبدل کے الفاظ حذف کردیجئے۔
    ملک صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے رکن تھے اور قرار داد کی ترتیب وتدوین میں ان کا بھی ہاتھ تھا۔ اس لیے ضابطے کے مطابق وہ قرار داد پر اعتراض نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ دوسرے روز اسی مضمون کی ترمیم پیش کردوں۔ دوسرے روز بحث شروع ہوئی تو میں نے قرار داد میں ترمیم پیش کی اور تفصیل سے اپنا نقطہ نگاہ بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ اگر آپ لوگ پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو مجوزہ مملکتوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو جہاں آپ نے ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں کا ذکر کیا ہے۔ وہاں صاف لفظوں میں ان صوبوں کے نام لیجئے۔تاکہ ہمارے مخاطب اور مخالف دونوں ہمارے مطالبے کی حقیقت کو ابھی سمجھ جائیں۔ ورنہ علاقائی ردوبدل کے تحت پنجاب اور بنگال کا تقریباً نصف حصہ کٹ جائے گا۔ میری ترمیم کا جواب نواب زادہ لیاقت علی خاں نے دیا اور فرمایا کہ ''ہم نے ایک مصلحت کی وجہ سے صوبوں کے نام نہیں لیے ، اگر ہم پنجاب کا نام لے دیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری مملکت کی سرحد گوڑہ گانوہ تک ہو گی حالانکہ ہم علاقائی ردوبدل کے تحت دہلی اور علی گڑھ کو جوہماری تہذیب وتعلیم کے مرکز ہیں، مجوزہ مملکت میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔آپ مطمئن رہئیے علاقائی ردوبدل کا یہ مطلب نہیں کہ پنجاب کا کوئی حصہ ہاتھ سے دینا پڑے گا ''۔
    نوابزادہ صاحب کے اس جواب پر ایوان میں خوب تالیا ں بجیں۔ مجلس انتخاب مضامین کے اس اجلاس میں دو ایک لطیفے بھی ہوئے۔ قائد اعظم تقریر کررہے تھے کہ باہر بہت شوراٹھا۔ قائد اعظم نے پوچھا یہ شور کیسا ہے۔ ایک شخص اٹھ کر باہر گیا اور واپس آکر انگریزی میں کہنے لگا کہ شیر بنگال آئے ہیں۔اتنے میں مولوی فضل الحق جھومتے ہوئے پنڈال میں داخل ہوئے، کلکتہ سے لاہور تک کے سفر کی کوفت چہرے سے عیاں تھی۔ اسٹیشن سے سیدھے یہاں چلے آرہے تھے شیو نہ بنانے کی وجہ سے داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور بغیر پھندنے کی ترکی ٹوپی پر حسب معمول ایک ایک انچ میل چڑھا ہوا تھا۔ چہرے کی سیاہ رنگت کے ساتھ سپید انگرکھا عجیب بہار دکھا رہا تھا۔ قائد اعظم نے ان کو اس شان سے آتے دیکھا تو کہنے لگے ''جب شیر آجائے تو میمنے کو چھپ جانا چاہیے ''۔
    یہ کہہ کر کْرسی پر بیٹھ گئے۔ جب مولوی صاحب کو جگہ مل گئی اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئے تو قائد اعظم یہ کہہ کر پھر کھڑے ہو گئے کہ ''اب شیر کو زنجیروں میں جکڑ دیاگیا ہے۔ اس لیے میمنا پھر باہر نکل آیا ہے ''۔حاضرین ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے۔ میرٹھ کے سریا مین خاں اور مدراس کے عبدالحمید خاں نے قرار داد کی حمایت میں بہت اچھی تقریر کی تھی۔ بریلی کے مولوی عزیز احمد خاں نے بھی حمایت کی تھی لیکن ان کا نقطہ نگاہ بالکل مختلف تھا۔ جب یہ ہنگامہ ختم ہوگیا تو قائد اعظم نے پوچھا کہ کل کھلے اجلاس میں قرار داد پاکستان کو ن پیش کرے گا۔ متعدد نام سامنے آتے رہے۔ قائد اعظم نے چودھری خلیق الزماں سے فرمایا کہ یہ فرض ادا کریں۔ لیکن دوسرے روز جب اجلاس عام میں قرار داد پیش کرنے کا وقت آیا تو چودھری صاحب کے بجائے مولوی فضل الحق تشریف لائے۔ معلوم ہوا صبح فیصلے میں تبدیلی کی گئی ہے کہ قرار داد مولوی فضل الحق پیش کریں گے۔مولوی فضل الحق کی تائید میں چودھری خلیق الزمان نے خلاف معمول بہت پر جوش جذبات سے مرصع تقریر کی۔ قائد اعظم کا قاعدہ تھا کہ لیگ کے سالانہ اجلاس پر اہم ترین تجویز کی حمایت میں ہندوستان کے ہر صوبے سے ایک ایک نمائندے کی تقریر کرایا کرتے تھے ، اس قرار داد کی حمایت کرنے والوں میں بمبئی سے ابراہیم اسمعٰیل چندریگر ، سی پی سے عبدالرؤف شاہ ، مدراس سے عبدالحمید خان ،سرحد سے اورنگزیب خاں، آسام سے عبدالمتین چودھری ، بہار سے نواب محمد اسمعیٰل خاں اور پنجاب سے مولانا ظفر علی خاں شامل تھے۔
    اجلاس ختم ہوا تو اکثر لوگوں کی زبان پر یہ فقرہ تھا کہ ''تجویز تو منظور ہو گئی ہے دیکھیں پاکستان کب بنتا ہے ؟''۔
    قلعہ لاہور نے بڑے بڑے تاریخی انقلاب دیکھے ہیں۔ بادشاہوں کا عروج وزوال ، شہزادوں کی بغاوتیں ، سلطنتوں کی تباہیاں ، حملہ آوروں کی خون ریزیاں، سبھی کچھ قلعہ کی دیواروں کے نیچے ہوتا رہا ہے۔ لیکن ایسا انقلاب اس نے آج تک نہ دیکھا تھا کہ برعظیم ہند کے دس کروڑ مسلمانوں کے غیر مسلح ، امن پسند اور عافیت کیش نمائندے اس کی دیواروں کے سامنے جمع ہوکر یہ عہد باندھتے ہیں کہ اس سرزمین پر اپنے لیے ایک آزاد اور خود مختار مملکت بنا کر دم لیں گے۔
     
  2. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچہ خاص

    واہ اے کرکٹ تیرا نشہ'ورلڈ کپ نہ ہوا عالمی جنگ ہوگئی 'چھکا یوں لگتا ہے جیسے سرحد پار دشمن پر میزائل گرادیا۔ وہ ملک جن کے درمیان رسہ کشی'کھنچائو اور کسی حد تک دشمنی موجود ہے ۔ ان کی کرکٹ ٹیمیں اپنے کمانڈرانچیف کے ہمراہ میدان میں پورے جاہ وجلا ل کے ساتھ اترتی ہیں اور

    عوام اپنی اس کرکٹ کی فوج کا اسی طرح ساتھ دیتے ہیں جیسے میدان جنگ میں فوج کا۔ ابسکرین پر اس قومی جذبے کو ابھارنے کے لئے جو نغمات تیار کیے جاتے ہیں وہ بھی اس جنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن امن کا چھکا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔
    مشہور گیت ''امن کا چھکا'' جو بہت خوبصورتی سے باسط علی نے گایا ہے اور جس کی دھن بھی بڑی دلکش ہے ۔خاص طور پر کرکٹ ورلڈ کپ2011ء کے لئے تیار کیا گیا ہے امن کے چھکے سے مراد موجودہ حالات میں جہاں دہشت گردی روز بروز پروان چڑھ رہی ہے ۔دنیا کو کرکٹ کے ذریعے امن کا پیغام دینا ہے۔ خدا کرے کہ امن کا ایک ایسا چھکا لگے جس کے بعد دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ناسور ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔

    حقیقت یہ ہے کہ دہشت کا چھکا روز لگتا ہے امن کے چھکے کا انتظار ہی رہتا ہے اب تو بادصبا بھی بارود کی بو کے ساتھ ہی گلستان میں داخل ہوتی ہے ۔خود کش بمبار اور ہماری سپر طاقتیں البتہ دنیا کے امن وبرباد کرنے کے لئے بڑا زور دار چھکا لگاتی ہیں۔اب اگر کرکٹ کے میدان سے امن کا بول بالا ہو جائے تو واقعی ایک بڑا معجزہ دنیا میں سرزدہو۔ کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی بھی عائد نہیں ہے اور نہ لگ سکتی ہے جس طرح سے ایک گناہ اور سہی' اسی طرح سے ایک خواب اور سہی 'ویسے بھی پاکستانی خواب دیکھنے کے زیادہ عادی ہیں۔ حقیقت نہ ہم سے برداشت ہوتی ہے اور نہ سننے کے لئے تیار ہیں اب امن کے لئے شاہد آفریدی سے مدد کے طلب گار ہیں۔
    شاہد آفریدی کے لئے چھکا لگانا توکوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن امن کا چھکا لگانا ممکن نہ ہو بلکہ جب سے امن کے چھکے کا اس سے مطالبہ کیا گیاہے تب سے ہمارا شاہد آفریدی چھکا لگانا بھی بھول گیا ہے ۔ہمارا تو شاہد آفریدی کو یہ ہی مشورہ ہے کہ بھائی تم امن کے چکر میں نہ پڑو بس چھکا لگائو اور ٹیم کا دشمن سمجھ کر ہی مقابلہ کرو۔ یہ تم نے اپنے کاندھوں پر کہاں امن کی ذمہ داری سنبھال لی ہے ۔ سیاست اور میڈیا کے کھیل میں مت پڑو۔ بلے اور گیند پر نظر رکھو اور وہ جو تمہارے دس ساتھی ہیں ان پر خاص کر کامران اکمل پر اس کے ہاتھ سے کوئی گیند چھوٹ نہ پائے۔ میرا یہ کالم جب چھپ کرآئے گا تو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ ہو چکا ہوگا۔ آسٹریلیا کو جس طرح پوری ٹیم نے اجتماعی کوششوں کے ساتھ شکست فاش دی تھی اسی طرح سے ویسٹ انڈیز کالی آندھی کو بھی دنیا ان کو امن کے چھکے کا گانا مت سنا دینا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آئیگا بلکہ پٹڑی سے اتر جائیں گے۔ یہ صرف ہمارے پاکستایوں اور ہندوستانیوں کا حکیمی نسخہ ہے ہاں جب تمہارا میچ اگر ہندوستان سے ہو تو امن کا چھکا والا نغمہ ان کو تین مرتبہ سنا دینا شاید ان پر اور ان کی عوام پر اثر ہو جائے۔ یہ گانا اصل میں ان ہی کو سنانے کے لئے بنایا گیا ہے کیونکہ وہ سروں کی زبان اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔شا ید ان کی عقل میں کچھ بات پڑ جائے اور وہ ہمارے کشمیر کو آزاد کردیں۔ کرکٹ ڈپلومیسی اس سے پہلے بھی ہوئی تھی لیکن امن کے چھکے کا خیال کسی کے بھی ذہن میں نہیں آیا تھا۔ اس طرح کے سارے بے تکے خیالات ہمارے وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کے دماغ میں آتے ہیں یا جیو ٹی وی کے۔ ہاں ایک چھکا ضرور لگا تھا جو شارجہ کے میدان میں پاکستان کے مایہ ناز سابق کھلاڑی جاوید میاںداد نے مارا تھا وہ امن کا چھکا تو نہیں تھا لیکن میانداد نے اس چھکے سے عزت بھی کمائی اور نوٹ بھی۔ بس وہ ہی چھکا ضرب المثل ہے ۔ ''میانداد کا چھکا''اب جو خواہش امن کے چھکے کی ہے دراصل وہ شاہد آفریدی کو نہیں سپر پاور امریکہ کو لگاناچاہیے ابھی حال ہی میں امریکہ نے ایک چھکاملک لیبیا پر لگایا ہے اور اسی طرح کا ایک چوکا بحرین میں انٹرنیشنل امپائر سعودی عرب کے ساتھ مل کرلگایا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ چوکے چھکے کتنا امن لاتے ہیں۔ رہ گئے ہم پاکستانی تو ہم پر تو ڈرون حملے چھکوں کی صورت میں برس رہے ہیں اور سب سے بڑا چھکا ریمنڈ ڈیوس نے لگایا اور چلا گیا اور پوری قوم کو کلین بورڈ کر گیا ۔ امن کا چھکا کب لگے گا ۔آپ بھی منتظر رہیں اور ہم بھی انتظار کر رہے ہیں ہم نے توآج تک ایسا کوئی چھکانہیں دیکھا جس سے امن قائم ہوگیا ہو۔
     
  3. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچہ خاص

    کتاب معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے۔ اگر آئینہ دھندلا اور بدنما ہو تو تصویر بھی دھندلی اور بدنما ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کتاب کی اہمیت پڑھنے والوں کی تعداد کے حوالے سے ہے، نہ اچھی کتابیں زیادہ تعداد میں سامنے آرہی ہیں۔ ہماری بحث کا عنوان کتاب کی اہمیت نہیں ہے بلکہ ''کتابوں پر عائد ہونے والی پابندی'' ہے ۔ یقینا عنوان کا نام سنتے ہی ذہن میں اردو زبان کے نعروف شاعر سید ضمیر جعفری کا یہ شعر گھوما ہو گا:
    ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
    کہ جن کو پڑھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
    تاریخ کے صفحات کھنگالیے اس عمل یعنی کتابوں پر پابندی کا آغاز مذہبی اداروں کی جانب سے ہوا ۔ چرچ کے سرکردائوں کی جانب سے ایسی کتابوں کی پہلی فہرست پیش کی گئی جسے پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پہلی فہرست پوپ پال چہارم نے بنائی۔ لیکن ردعمل کے طور پر جن مصنفین کی کتابیں ضبط کرنے کی کوششیں ہوئیں انہوں نے ان کی اشاعت کے لیے قریبی ملکوں کا رُخ کیا اور چھپوانے میں کامیاب بھی رہے۔
    اس وقت سے ابتک سیاسی' مذہبی یا دیگر وجوہات کی بنا پر کتابوں پر پابندی کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاہ دور میں جہاں فلسفے کی کتاب ملتی ، یورپ کے عقائد پرست اس گھر کو آگ لگا دیتے' مگر کتاب چھپتی رہی تاوقتیکہ انہی نظریات کو مقبولیت ملی جن نظریات کی کتابیں کلیسا کے نزدیک جرم تھیں۔ انہی نظریات کی اشاعت نے یورپی نشاة ثانیہ کی راہ ہموار کی، انہی سے صنعتی انقلاب کو راہیں ملیں' جدید سیاسی نظاموں کے خدوخال ڈھلے اور علوم نے وہ جست لگائی کہ آج:
    عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
    ملکوں نے قا نونی سطح پر طے کررکھا ہے کہ کیا شائع ہونا ہے اور کیا نہیں۔مختلف ادوار ،علاقوں اور ریاستوں کی سطح پر پابندی کی نوعیت مختلف رہی ہے۔ بعض کتابوں پر پابندیوں کی نوعیت علاقائی تھی اس لیے وہ صرف ان علاقوں میں ''قابلِ ضبطی'' قرار پائیں جن کے حوالے سے کتاب کا مواد حساس ہوتا ہے۔
    مختلف کتابوں کو قابل ضبط یا لائقِ پابندی بنانے کی وجوہات مختلف رہی ہیں۔ عام طور پر ان کے مواد کو فحاشی پر مبنی قرار دے کر انہیں ممنوع قرار دیا جاتا رہا ہے حالانکہ ابھی تک فحاشی کی کوئی ایسی تعریف بھی متعین نہیں ہوسکی جو عالمی سطح پر متفقہ ہو ۔ افغانستان میں فحاشی کی تعریف امریکہ کی ثقافتی تعریف سے یقینا مختلف ہے ۔نسلی تعصب' رنگوں کا تعصب' نشہ ' اخلاقی اقدار یا سماجی اقدار کا تحفظ ایسے عوامل ہیں جو مختلف ملکوں میں سرکاری سطح پر کتابوں کی ضبطی کا باعث بنتے رہے ہیں۔
    سب سے خطرناک صورتِ حال تب بنتی ہے جب استبدادی اور آمرانہ حکومتیں اپنے اقتدار کے دوام کے لیے کتاب و قلم کے تقاضے کو قابلِ گردن زدنی قرار دیتی ہیں۔ آمرانہ حکومتیں اپنے سربراہ کی زیر سرکردگی نظریات و تصورات کا ایک ماورائی تصور دیتی ہیں اور پھر اس سے ہٹ کر کسی بھی نظریے کی تبلیغ کے حوالے سے نشر ہونے والا مواد قابل تعزیر قرار پاتا ہے۔ بعض اوقات جمہوری حکومتیں بھی کتاب کے مواد کو عوامی مفاد کے برخلاف یا پھر ذاتی مفاد کے پیش نظر تصور کرتے ہوئے ضبط کرلیتی ہیں۔ یہ پابندیاں بعض اوقات مذہبی کتابوں پر بھی لگتی ہیں۔ مذہبی اقتباسات سے معمور ٹالسٹائی کی کتاب''دی کنگڈم آف گاڈ از ود ِان یو" کو روسی سلطنت نے حکومت کے خلاف کھلی تنقید قرار دے کر ضبط کرلیا تھا۔
    بھارت میں کچھ عرصہ قبل جسونت سنگھ کی کتاب''جناح۔انڈیا۔پارٹیشن۔انڈیپینڈنس" پر پابندی لگانے کی بات اٹھی جو بعد میں عدالت کے فیصلے کے بعد شانت ہوئی۔ سلمان رشدی کی کتاب''سیٹنک ورسز''پر مسلمانو ں کے جذبات مجروح ہونے کے باعث پابندی لگا دی گئی ۔
    انسانی تاریخ میں جو اہم کتابیں ضبط ہوئیں' ' جلائی گئیں یا جنہیں چیلنج کیا گیا ان کا مختصر تذکرہ ذیل میں دیا جارہا ہے۔
    جان ملٹن کی کتاب''آرکوپیگیٹیکا'' کو سیاسی وجوہ کی بنا پر سلطنت برطانیہ نے ضبط کیا۔ 1932ء میں ایلڈس ہکسلے کا ناول''بریو نیو ورلڈ''فحاشی کے زیر الزام ضبط کیا گیا۔ 1930ء میں والٹیئر کا ناول''کینڈڈ'' کسٹم حکام نے ضبط کرلیا۔ 1914ء میں کینیڈا میں بالزاک کی کہانیوں کے مجموعے'ڈرالز اسٹوریز'' کو پابندیوں کاسامنا کرنا پڑا۔ تسلیمہ نسرین کے ناول ''لجا'' کو بنگلہ دیش اور بھارت کی کچھ ریاستوں میں ضبط کیا گیا۔ ہٹلر کی سوانح عمری''مین کمف''کو جرمنی میں یورپی ریاستوں اور سویت روس میں پابندیوں کا سامنا رہا۔ کافکا کے ناول''دی میٹا مار فاسز''کو نازی جرمنی میں مکمل بندش برداشت کرنا پڑی۔ جارج آر ویل کا ناول'' "1984 روس' امریکہ اور برطانیہ میں پابندیوں کا شکار رہا جس میں حکمرانوں پر طنز کیا گیا تھا۔ اسٹینلے ولپرٹ کی کتاب''نائن آورز ٹو راما'' بھارت میں بندش کا شکار رہی۔ اس کتاب میں ان اشخاص کا تذکرہ تھا جو سکیورٹی لیپس کے ذمہ دار تھے جس کی وجہ سے گاندھی قتل ہوئے۔ انسانی حقوق کے علمبردار تھامس پین کی کتاب''دی رائٹ آف مین'' کو برطانیہ میں نہ صرف ضبط کیا گیا بلکہ انقلاب فرانس کی حمایت کی بنیاد پر غداری کا مقدمہ بھی قائم ہوا۔ روس میں بھی اس کتاب پر پابندی رہی۔ برٹرنڈرسل کی کتاب''ان آرمڈوکٹری '' کو بھارت میں بین کیا گیا۔ ایلس و اکر کا ناول ''دی کلر پرپل '' ،برٹ ایسٹین ایلس کی''امریکن سائیکو''بھی ضبط شدہ کتابوں میں شامل ہیں۔
    کتاب، انسان کی فکری و عقلی اور روحانی ضرورت ہے جسے سب سے بہتر دوست قرار دیا جاتا ہے۔ اس لئے کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے عالمی اخلاقیات کا پیدا کرنا ہی وہ ضرورت ہے جو اسے پابندیوں سے بچا سکے۔
     
  4. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچہ خاص

    یہ بات بہت پرانی ہے کہ جب انسان بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو اسکی نیند کم ہوجاتی ہے۔ کچھ ماضی کی غلطیاں اسے سونے نہیں دیتی ہیں اور کچھ مستقبل میں ہونے کا خوف اسے ہراساں رکھتا ہے۔ اس بیچ کے عرصہ میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ اتنا یاد نہیں رہتا ہے۔ اس عرصہ میں بڑے ہوتے ہوئے بچے اس سے دور ہوجاتے ہیں اور وہ ان ہی بچوں میں شبیہہ ڈھونڈتا رہ جاتا ہے۔
    یہی حال کچھ اپنے پاکستان کا ہے۔ 63 سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا ہے۔ کئی حکومتیں آئیں اور کتنی چلی گئیں۔ کتنے لوگوں کی جانیں گئیں۔ کتنے ہی لوگوں نے مرمر کے اس پودے کو سینچا، پانی ڈالا اور ہرا بھرا رکھنے کی کوششیں کیں اور کتنے ہی لوگوں نے اسکے ہرے بھرے پتوں کو پیڑوں سے توڑ کر زمین پر پھینک دیا، کتنی ہی کلیوں کو روندا گیا اور تناور درخت بنتے بنتے اس پودے کی جڑیں سوکھنے لگیں۔ وجہ ہماری ہی غلطی ہے جس کا خمیازہ ہماری آنیوالی نسلیں بھگتیں گی۔ اس پودے کے پتے جب اپنے درخت سے ٹوٹ کر بکھرنے لگے تو اڑ اڑ کر دوسرے ملکوں میں جاکر بس گئے کہ کم از کم ہرے بھرے تو رہیں گے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔
    آج کل ٹی وی پر ہر طرف اٹھو، جاگو، پاکستان'' اور نہ جانے کتنے ایسے ہی پروگرام دکھائے جا رہے ہیں۔ شائستہ واحدی کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ لوگ صبح صبح اس پروگرام کو دیکھ کر خوش ہوں۔ مختلف لوگوں کی محاذ آرائی، خودنمائی، اچھے میک اپ اور اچھے کپڑوں کے ساتھ اچھی لگتی ہے۔ خواتین کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اینکر کے نت نئے ڈیزائن اور کپڑے دیکھ کر خوش ہوں۔ مختلف شوز میں ''لان میلہ'' کے پرنٹ دیکھنا دل کو خوش کر جاتا ہے مگر ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا کہ اس پروگرام میں ''پاکستان کیسے جاگ گیا''… کیا صرف ہنسی مذاق، باتیں، تبصرے پاکستان کو جگا دینگے۔ ہم کہاں سے اٹھ کر پاکستان کی قسمت بدل دینگے، کیونکہ پاکستان کی قسمت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ تو سو رہے ہیں۔ اچھا طرزعمل، اچھی تعلیم، اچھی سوچ، اچھے لوگ اور اچھی حکومت ہی پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے مگر لوگ ہی بیچارے کیا کریں جن کے پاس مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔ جن کے پاس روٹی، کپڑا اور مکان جیسے وسائل کی کمی ہے۔ جن کے پاس اچھی عدالتیں نہیں، جن کے پاس قانون کے رکھوالے نہیں، جن کے پاس تعلیم نہیں، بلکہ تعلیم کے نام پر مذاق ہورہا ہے۔ جن کے چولہے بجھے رہتے ہیں۔ جن کے گھروں میں اندھیرا رہتا ہے۔ جہاں پانی کی کمی رہتی ہے۔ ان ساری چیزوں کی کمی کے بعد بھی پاکستان کو جگائے رکھنا بہت ہمت کی بات ہے۔
    ہم سب کو پتہ ہے کہ ساری چیزیں ناپید ہونے کے باوجود ہم کوشش تو کر ہی سکتے ہیں کیونکہ ابھی آگے نہ جانے کتنی بڑی زندگی پڑی ہے جس کو صرف جھیلنا ہے اور 63 سال کے پاکستان کو ہلا ہلا کر جگانا ہے۔ اسکی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کو سینچنا ہے اور کچھ کرنے کا وقت ہے۔
    ابھی تھوڑے دن پہلے جاپان کے شہر سینڈائی میں اندوہناک زلزلہ اور پھر سونامی نے تو پورے شہر کو نیست و نابود کردیا۔ ایک قیامت بپا ہوئی اور ابھی تک اندازے کے مطابق تقریباً 18 ہزار لوگ لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ ابھی تک نہ جانے کتنے لوگ غائب ہیں جن کو سمندر کی لہریں کھا گئیں۔ ایسی خبریں دیکھ کر تو دل تقریباً دھڑکنا بھول جاتا ہے مگر بعد میں مختلف کلپس میں لوگوں کا حوصلہ، انکی خاموش ہمت اور متحد ہو کر ایک جگہ کھڑے ہو کر انکی کارکردگی دیکھ کر دل عش عش کر اٹھا۔ تقریباً پندرہ ممالک کے بھیجے ہوئے امدادی کارکن اور امداد انکو حوصلہ دینے کیلئے موجود ہیں۔ ان حالات میں لوگ نہ کسی کو لوٹ رہے ہیں نہ جیبیں کاٹ رہے ہیں نہ سامان لیکر بھاگ رہے ہیں نہ ہی بے حوصلگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یہ قدرتی آفات ہر جگہ ہر ملک ہر شہر میں بپا ہوسکتی ہیں، ان پر تو کسی کا بس نہیں کیونکہ اللہ کے سامنے ہم سب مجبور ہیں۔ اسکی قدرت کب حساب دہ ہوجائے، کسی کو نہیں پتہ، سوائے ''توبہ'' کے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر پاکستان میں سونامی جیسی چھوٹی چھوٹی آفات آرہی ہیں جو سب کو کھا رہی ہیں۔ کسی بھی وقت دھماکہ ہوجاتا ہے۔ چالیس سے پچاس لوگ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ میں کتنے ہی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے جا رہے ہیں اور اپنے پیچھے پورے خاندان کو مرنے کیلئے چھوڑ جاتے ہیں۔ کتنے ہی غربت کے ہاتھوں خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، کتنے ہی نوجوان جیلوں میں پولیس کے ہاتھوں مر جاتے ہیں مگر ان سب آفات کو ختم کرنے کیلئے باہر سے کوئی امداد نہیں آئیگی۔ ہم اپنے گھر کو ختم کرنے کیلئے خود ہی مجرم ہیں۔ تو پھر باہر سے کسی مدد کا انتظار کیوں؟
    پاکستان میں زلزلہ آیا، طوفان آیا، سیلاب آیا، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے اصولوں پر سب کام کئے مگر ان میں ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے مدد کے نام پر خوب نوچا کھسوٹا، غریبوں کو تو شاید چار آنے کا بھی فائدہ نہیں ہوا مگر نہ جانے کتنے لوگوں کی تجوریاں بھر گئیں۔ جن کے گھر بنے تھے بہہ گئے مگر دوسری طرف لوگوں کے گھر اور اونچے ہوگئے اور بیچارے جو ان چیزوں کا شکار ہوئے وہ ابھی تک کسمپرسی کی زندگی گزار ر ہے ہیں۔
    اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو کیسے جگایا جائے؟ جہاں کے وزیر پارلیمنٹ میں بیٹھے بیٹھے سو جاتے ہیں۔ جن کو کسی آفات کا ڈر نہیں، جن کو کسی مسئلہ سے دلچسپی نہیں، انہیں ایسی ہی نیند آجاتی ہے۔ ''اٹھو، جاگو پاکستان'' جیسے کسی پروگرام میں یہ کلپس دکھائی گئیں اور سوال تھا کہ کون گہری نیند سو رہا ہے؟ یہ دیکھ کر شرم تو آئی مگر افسوس زیادہ ہوا کہ جب پورا پاکستان بھوک، غربت، بیروزگاری، لاچاری، بے کسی سے جاگ رہا ہے تو یہ کیوں سو رہے ہیں؟ اسکو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ''اٹھو، جاگو پاکستان'' جیسے پروگرام بار بار دکھائے جائیں کہ شاید یہ کبھی جاگ جائیں۔
     
  5. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچہ خاص

    انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین نفسیات کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک پولیس، عدلیہ اور معاشرے میں حقوق نسواں کے بارے میں شعور پیدا نہیں کیا جاتا۔
    نوشین نقوی
    8 مارچ کو ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس سال یعنی2011 ء میں اس سلسلے کا 100واں سال منایا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں خواتین کو اپنے حقو ق سے متعلق آگاہی اور ان کی جدو جہد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے بہت سی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ خوا تین کو ہمیشہ سے ہی اپنے حقوق کے لئے جدو جہد کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ آج کی عورت زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے شا نہ بشانہ بلکہ کئی جگہ پر مردوں سے بڑھ کر اپنا کردار نبھا رہی ہے۔ اس کے با وجود ہم آئے روز اخبارات اور مختلف چینلز پر خواتین پر تشدد کے حوالے سے رپورٹس اور خبریں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں ۔
    خواتین کو سب سے زیادہ گھر میں عدم تحفظ کا شکار بنا دیا جاتا ہے جس کی عام شکل گھریلو تشدد ہے اور ان واقعات میں شادی شدہ خواتین کے شوہر، سسر، ساس، دیور، اور نندیں ذمہ دار ہوتی ہیں۔ جبکہ غیرشادی شدہ خواتین پر تشدد کرنے میں ان کے والدین یا بہن بھائی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے رونما ہونے کی وجوہات میں زیادہ تر جائیداد اور وراثت کے معاملات، گھریلو تنازعات، جبری شادی، غربت، غلط فہمی، خاوند کا احساسِ محرومی، اور بے جا شک گردانے گئے ہیں۔
    پاکستان یا بھارت جیسے ممالک کے تنا ظر میں دیکھیں تو گھریلو تشدد کے واقعات اکثر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے ، جس کے باعث مجرم تو دندناتے پھرتے ہیں لیکن مظلوم گھٹ گھٹ کر مرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین نفسیات کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک پولیس، عدلیہ اور معاشرے میں حقوق نسواں کے بارے میں شعور پیدا نہیں کیا جاتا۔
    خواتین پر تشدد پاکستانی یا بھارتی خواتین ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے سبھی ممالک میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانا عام سی بات ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ادارے نے خصوصی سروے بھی کیا۔ جس کے مطابق جاپان سے اس سروے میں شامل ہونے والی تیرہ فیصد خواتین نے گھریلو تشدد کا اعتراف کیا، جبکہ ایتھوپیا میں یہ تعداد بڑھ کر پچاس فیصد ہوگئی۔ اس سروے کے مطابق آپ دنیا میں کہیں بھی رہ رہی ہوں لیکن اگر آپ خاتون ہیں اور آپ پر حملہ ہوا ہو تو عام طور پر یہ آپ کے کسی قریبی نے کیا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ مسئلہ دنیا کے سامنے آنا چاہئے تا کہ اس کا حل نکل سکے۔ اس سروے میں شامل پچاس فیصد خواتین نے کہا ہے کہ ان پر ہونے والے تشدد کے واقعات بارے انہوں نے کبھی کسی سے بات نہیں کی۔ یہاں تک کے بعض معاشروں میں گھریلو تشدد قابل قبول فعل ہے۔ کچھ خواتین نے خود یہ بات کہی کہ انہیں مارنے پیٹنے کا ان کے شوہروں کا فیصلہ صحیح تھا۔
    اس مسئلہ سے جنوبی ایشیائی ممالک دیگر ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دوچار ہیں کیونکہ ان علاقوں میں خواتین کو کمتر صنف تصور کیا جاتا ہے۔ گھریلو تشدد کا ذکر آتے ہی غیر تعلیم یافتہ، غریب اور ایسی خواتین کی شبیہ ذہن میں ابھرتی ہے جو اپنے حقوق سے بھی بے بہرہ ہیں اور معاشی طور پر اپنے شوہروں پر انحصار کرتی ہیں، اس کے باوجود بھارت میں گھریلو تشدد کے واقعات میں حیران کن حد تک اونچے طبقے کی خواتین تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں اور بیشتر خواتین ایسی ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ بھارت میں ایک اندازے کے مطابق پانچ خواتین میں سے ایک گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ اس قسم کے واقعات کی جو مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں ان میں بدمزہ کھانا پکانے جیسے معمولی فعل سے لے کر بدچلنی جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔ گھریلو تشدد ہی کے بارے میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے پیش کئے جانے والے ایک عالمی مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں ہر چھ میں سے ایک خاتون کو اپنے خاوند یا اپنے قریبی رشتہ دار مرد ساتھی کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور ہر اٹھارہ سیکنڈ میں ایک خاتون تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مسئلہ دنیا بھر کے معاشروں میں موجود ہے اور اسکی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا گھریلو تشدد کے بارے میں یہ مطالعہ جاپان، برازیل، ایتھوپیا، بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ سمیت دس ممالک میں چوبیس ہزار خواتین کے سروے پر مبنی ہے۔
    خواتین پر گھریلو تشدد یقینا قابل مذمت اور ناقابل برداشت فعل ہیں۔ ہمیں ترقی یافتہ معاشرہ کہلانے کے لیے خواتین کو برابر کے حقوق دینا ہوں گے اور تشدد کی یہ روایات دفن کرنا ہوں گی۔ دنیا کو خوبصورت اور ترقی یافتہ بنانے کے لئے مروجہ رجحانات کو یکسربدل کر مثبت تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں