1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کچھ جقیقت کچھ کہانی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏18 دسمبر 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    نیک دل بادشاہ کا لنگر کھلا رہتا اور مخلوق خدا صبح شام آتی اور کھانا تناول کرتی، نئے وزیر خزانہ نے بادشاہ کو مشورہ دیا، سرکار یہ لنگر حکومتی خزانے پر بوجھ ہے اس کو ختم کر دیں،
    بادشاہ نے وزیر کے کہنے پر لنگر بند کر دیا بادشاہ نے رات کو خواب دیکھا کہ وه اپنے خزانے کے باہر کھڑا ہے اور مزدور خزانے کی بوریاں کمر پر لاد لاد کر باہر لے جا رہے ہیں بادشاہ ایک مزدور سے پوچھتا ہے کہ خزانہ کہاں لے کر جا رہے ہو، مزدور نے بتایا اس خزانے کی اب یہاں ضرورت نہیں رہی
    بادشاہ کو یہ خواب مسلسل تین دن آیا، پریشان ہو گیا اور ایک اللہ والے کو بلایا اور پورا قصہ سنایا
    اللہ والے نے بادشاہ کو نصیحت کی کہ فوراً لنگر کھول دو اس سے پہلے کہ تمہاری بادشاہی چھن جائے اور تم کنگال ہو جاؤ
    بادشاہ نے فوراً لنگر کھول دیا اور مخلوق خدا اپنا پیٹ بھرنے لگی، اُسی رات بادشاہ خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ خزانے کے دروازے پر کھڑا ہے اور مزدور خزانے کی بوریاں واپس لا رہے ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا اب یہ بوریاں واپس کیوں لا رہے ہو۔ مزدورں نے کہا: ان کی یہاں پر ضرورت پڑ گئی ہے
    عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے
    کہ بانٹنے سے گھٹتا نہیں بڑھتا ہے​
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    پرواز کے بیس منٹ بعد درازقد جوان کاک پٹ کی جانب بڑھا، ایئر ہوسٹس نے بڑے ادب سے کہا تھا۔ ’’سر آپ تشریف رکھیں، کاک پٹ میں جانیکی اجازت نہیں۔‘‘ مگر خوبرو فضائی مہمان کو جواب دینے کے بجائے یہ نوجوان دھکا دیتے ہوئے کاک پٹ میں گھس گیا۔ ایئر ہوسٹس جو گرتے گرتے سنبھلی تھی، اسکی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ اسے یہ سانسیں بھی آخری لگ رہی تھیں۔ ایک لمحے میں اس کا چہرہ خوف سے پسینے سے شرابور ہوا اور سرخ و سفید سے زرد پڑ گیا۔ نوجوان نے کاک پٹ میں داخل ہوتے ہی پسٹل نکال کر پائلٹ کی کن پٹی پر رکھ دیا۔ اسی دوران اس دہشتگرد کے دو ساتھی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور پسٹل مسافروں پر تان لئے۔
    یہ فلمی کہانی نہیں، یہ پی کے 554 پرواز تھی۔ یہ پاکستان میں 25 مئی 19988ء کو اغوا ہونیوالے مسافر جہاز کا ناقابل فراموش واقعہ ہے جس میں ہر لمحے ڈرامائی موڑ آتے رہے۔
    پی آئی اے فوکر 277 تربت ایئرپورٹ سے اڑا، گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے مزید مسافروں کو لے کر کراچی روانہ ہوا۔ اس میں 33 مسافر اور عملہ کے پانچ افراد سوار تھے۔ اسے ساڑھے چھ بجے کراچی پہنچنا تھا مگر اب اسکی منزل کا فیصلہ ہائی جیکروں نے کرنا تھا۔
    دہشتگرد کی انگلی ٹریگر پر تھی، اس نے کیپٹن عزیر کو حکم دیا۔ ’’جہاز کراچی نہیں انڈیا دہلی ائیرپورٹ لے جائے‘‘۔ دہشتگرد نے کیپٹن کو انڈیا سول ایوی ایشن سے رابطہ کر کے اترنے کی اجازت مانگنے کو کہا۔ کیپٹن عزیر نے ایسا ہی کیا اور ساتھ ہی جہاز کی سمت بھی بدل دی۔ اسی لمحے ایئرہیڈ کوارٹرکو بھی خبر ہو گئی اور آناً فاناً دو فائٹر جیٹ ایف 16 فضا میں بلند ہو گئے۔ کیپٹن عزیر دہشتگردوں کے اناڑی پن کو بھانپ گئے تھے۔ دہشتگرد کے کہنے پر کیپٹن عزیر نے دہلی ایئر پورٹ سے رابطہ کیا۔ وہ دراصل اپنے ملک میں ہی ہیڈ کوارٹر کیساتھ رابطے میں تھے جبکہ دہشتگردوں کو باور کرایا جارہا تھا کہ دہلی ایئر پورٹ سے رابطہ ہے۔ ہیڈ کوارٹر میں حکام کی ارجنٹ میٹنگ میں ایکشن پلان بنایا گیا، ایکشن پلان میں فیصلہ یہ ہوا کہ فوکر کو حیدر آباد سندھ ایئرپورٹ پر اتارا جائے۔
    کیپٹن عزیر نے دہشتگردوں کو بتایا کہ ہمارے پاس کافی ایندھن نہیں ہے جو ہمیں دہلی لے جا سکے، ہمیں قریبی ایئر پورٹ سے ایندھن اور خوراک لینا پڑیگی۔ ہائی جیکر ہر صورت جہاز دہلی لے جانا چاہتے تھے۔ انکے پاس نقشہ تھا۔ وہ نقشہ دیکھتے ہوئے بھوج ایئرپورٹ کا ذکر کر رہے تھے۔ انکی باتیں سن کر کیپٹن نے کہا کہ انڈیا کا بھوج ایئر پورٹ قریب پڑتا ہے۔ دہشتگردوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ اب اگلا مرحلہ تھا بھوج ایئرپورٹ رابطہ کر کے اترنے کی اجازت کا تھا۔ کیپٹن عزیرنے وہاں رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہائی جیکر بھوج ایئر پورٹ پر اترنا چاہتے ہیں۔ جواب میں ٹھیٹھ ہندی میںایئر پورٹ آفیسر نے کال ہینڈل کرنا شروع کر دی۔ دہشتگردوں نے اسے بتایا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں وہ حکومت پاکستان کے انڈیا کے مقابلہ میں نیوکلیئر تجربے کرنے کے کیخلاف ہیں اور اس ہائی جیک سے وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی تجربہ نہ کرے۔ تھوڑے انتظار کے بعد دوسری طرف بتایا گیا کہ پردھان منتری نے انکو بھوج ایئر پورٹ پر لینڈ کرنیکی اجازت دیدی ہے۔ جس پرخوشی سے دہشتگردوں نے جے ہند اور جے ماتا کی جے کے نعرے لگائے۔
    یہ سب کچھ حیدر آباد ایئرپورٹ کے اردگرد فضا میں ہو رہا تھا۔ ہنگامی طور پر حیدر آباد ایئر پورٹ سے تمام جہاز ہٹا دیئے گئے۔ پولیس فورس نے ایئر پورٹ کی جانب جانیوالے تمام راستے بند کر دیئے۔ ایس ایس جی کمانڈوز، پولیس اور رینجرز مستعد کھڑے تھے، افسران کی نگاہیں سکرین پر تھیں، اب جہاز نے ٹائم پاس کرنا تھا اس لئے کہ وہ پہلے ہی حیدر آباد کی حدود میں ہی تھا۔ کیپٹن عزیر کمال ہوشیاری اور ذہانت سے جہاز مزید بلندی پر لے گئے اور وہیں ایک ہی زون میں گھماتے رہے اور ظاہر یہ کرتے رہے کے وہ انڈیا جا رہے ہیں جبکہ ایف 16 فائٹر جیٹ انکے اردگرد تھے۔ رات کو اس وقت حیدر آباد ایئر پورٹ پر تمام لائٹس بند کر دی گئیں۔ ایئر پورٹ سے ہلالی پرچم اتار کر ترنگا لگا دیا گیا۔ ہیڈ کوارٹر سے ہدایات ہندی میں ہی دی جا رہی تھیں۔ کیپٹن صاحب جہاز کو جعلی بھوج ایئرپورٹ پر لینڈ کرانے والے تھے۔ سارا ایئرپورٹ خالی تھا۔ وہاں دہشتگردوں نے انڈیا کا پرچم لہراتے دیکھا تو جے ہند کے نعرے بلند کئے، ساتھ ہی کیپٹن عزیر کو گالیاں دیں۔ جہاز کو ایک سائیڈ پر پارک کر دیا گیا تو مذاکراتی ٹیم جہاز میں داخل ہوئی۔ یہ ٹیم ایس ایس پی حیدر آباد اختر گورچانی، اے ایس پی ڈاکٹر عثمان انور اور ڈپٹی کمشنر سہیل اکبر شاہ پر مشتمل تھی انہوں نے اپنا تعارف باالتریب اشوک بھوج ایئرپورٹ منیجر، رام اسسٹنٹ ایئرپورٹ منیجر کے طور پر کرایا سہیل اکبر شاہ نے خود کو ڈی سی راجستھان ظاہر کیا۔ انہوں نے ہندی میں دہشتگردوں سے بات چیت کی گویا یہ انڈیا تھا اور یہ بھوج ایئر پورٹ۔ دہشتگرد ایندھن اور خوراک چاہتے تھے لیکن بات چیت طویل ہوتی جارہی تھی، تینوں اہلکاروں کا ہدف تھا کہ وہ جہاز کے اندر کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ خاص طور پر وہ شخص جس نے جسم پر پیکٹ باندھ رکھے تھے وہ انکے ہتھیاروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس ٹیم نے دہشتگردوں سے کہا کہ عورتوں بچوں کو یہیں اتار کر آپ دہلی چلے جائیں یہ چونکہ دہشتگردوں کے ہمدرد تھے اس لئے بات مان لی۔ رات گیارہ بجے جہاز سے عورتیں اور بچے اترنا شروع ہوئے ان مسافروں کے جہاز سے اترنے کی دیر تھی کہ جہاز کے چاروں طرف اندھیرے میں خاموشی سے رینگتے ہوئے کمانڈوز ایک ہی ہلے میں تیزی کے ساتھ پہلے اور دوسرے دروازے سے اللہ اکبر کے نعروں کیساتھ حملہ آور ہوگئے۔ اللہ اکبر کے نعرے نے دہشتگردوں کو حیرت زدہ کر دیا۔ بد حواسی میں ایک دہشتگرد نے ڈپٹی کمشنر پر فائر کردیا تاہم نشانہ خطا گیا۔ دو منٹ کے اندر تینوں دہشتگردوں کو قابو کر کے باندھ دیا گیا۔ وہ حیران پریشان تھے اور یہ بھوج ایئرپورٹ پر اللہ اکبر والے کہاں سے آگئے۔ چیف کمانڈو نے آگے بڑھ کر زمین پر بندھے ہوئے دہشت گردوں کیطرف جھکتے ہوئے انکی حیرت زدہ آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہو کہا۔ ’’ویلکم ٹو پاکستان‘‘ کپیٹن عزیر بڑے سکون سے بیٹھے ساری صورتحال دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ ا پنا بیگ اٹھاتے ہوئے دہشتگردوں کے قریب سے مسکراتے ہوئے جہاز سے اتر گئے۔ حواس بحال رہیں تو کیپٹن عزیز جیسے کارنامے انجام دینا ناممکن نہیں۔
    اس واقعہ کے ہیرو کپٹن عزیر کو اعزازی میڈل دیئے گئے۔ ان دنوں سندھ میں معین الدین حیدر گورنر تھے۔ انہوں نے پولیس کیلئے خصوصی اعزازات کی سفارش کی۔ سترہ سال بعد دو ہزار پندرہ کو تینوں دہشتگردوں کو اٹھائیس مئی کو سزائے موت دے دی گئی۔ یہ وہی دن ہے جب ایٹمی دھماکوں کی یاد میں قوم پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی سالگرہ مناتی ہے​
     
  3. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    اس نے گاڑی پوسٹ آفس کے باہر روک دی،
    ابا یہ لیجیے آپ یہ 100 روپے رکھ لیجیے جب پینشن لے چکیں گے تو رکشے میں گھر چلے جائیے گا، مجھے دفتر سے دیر ہو رہی ہے"۔۔
    بوڑھے باپ کو اُتار کر وہ تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا آگے نکل گیا،
    افضل چند لمحے بیٹے کی دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھتا رہا پھر ایک ہاتھ میں پینشن کے کاغذ اور ایک ہاتھ میں بیٹے کا دیا ہوا سو روپے کا نوٹ پکڑے وہ اُس لمبی سی قطار کے آخرمیں جا کر کھڑا ہو گیا جس میں اُسی جیسے بہت سے بوڑھے کھڑے تھے، سب کے چہروں پر عمر رفتہ کے نشیب و فراز پرانی قبروں پر لگے دُھندلے کتبوں کی مانند کندہ تھے۔
    آج پینشن لینے کا دن تھا، قطار لمبی ہوتی جارہی تھی، پوسٹ آفس کی جانب سے پینشن کی رقم ادا کرنے کا عمل خاصا سست تھا۔ سورج آگ برساتا تیزی سے منزلیں طے کرنے میں مصروف تھا، بے رحم تپتی دھوپ بوڑھوں کو بے حال کرنے لگی، کچھ اُدھر ہی قطار میں ہی بیٹھ گئے، افضل بھی بے حال ہونے لگا، اُس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا اور لڑکھڑا کر اُدھر قطار میں ہی بیٹھ گیا،
    اچانک ذہن کے پردے پر اپنے بیٹے کا بچپن ناچنے لگا، وہ جب کبھی اچھلتے کودتے گر جاتا تو وہ کیسے دوڑ کر اُسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا تھا، اس کے کپڑوں سے دھول جھاڑتا، اُس کے آنسو نکلنے سے پہلے ہی اُسے پچکارتا، پیار کرتا، مگر آج وہ خود لڑکھڑا کر دھول میں لتھڑ رہا تھا اور اُسے اٹھانے والا اُسے یہاں اس طرح چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
    وہ مٹھی کھول کر100 روپے کے اس نوٹ کو دیکھنے لگا جو صبح بیٹا اُس کے ہاتھ میں تھما کر چلا گیا تھا،
    وہ سوچنے لگا کہ ساری عمر ایمانداری سے ملازمت کر کے، بیٹے کو پڑھا لکھا کر، اُس کی شادی کر کے کیا اُس کی زندگی کا سفر اس 100 روپے کے نوٹ پر آ کر ختم ہو گیا ہے
    اپنے والدین کی قدر کریں ،
     
  4. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    میں تمہیں طلاق دینا چاہتا ہوں

    میز پہ کھانا لگاتے ہوئے اسکا پورا دھیان پلیٹیں سجانے میں تھا اور میری آنکھیں اسکے چہرے پہ جمی تھیں۔ میں نے آہستگی سے اسکا ہاتھ تھاما تو وہ چونک سی گئی
    "میں تم سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں" کافی ہمت جتانے کے بعد بلآخر میرے منہ سے نکلا
    وہ چپ چاپ کرسی پہ بیٹھ گئی، اسکی نگاہیں چاہے میز پہ مرکوز تھیں پر ان میں سے اٹھتا درد میں بخوبی محسوس کررہا تھا۔
    ایک پل کے لیے میری زبان پہ تالہ سا لگ گیا پر جو میرے دماغ میں چل رہا تھا اسے بتانا بہت ضروری تھا۔
    "میں تمہیں طلاق دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔" میری آنکھیں جھک گئیں
    میری امید کے برعکس اس نے کسی قسم کی حیرانی یا پریشانی کا اظہار نہ کیا بس نرم لہجے میں اتنا پوچھا
    "کیوں۔۔۔۔۔؟"
    میں نے اسکا سوال نظرانداز کیا۔ اسے میرا یہ رویہ گراں گزرا۔ ہاتھ میں پکڑا چمچ فرش پہ پھینک کے وہ چلانے لگی اور یہ کہہ کے وہاں سے اٹھ گئی کہ
    "تم مرد نہیں ہو۔۔۔"
    رات بھر ہم دونوں نے ایکدوسرے سے بات نہیں کی۔ وہ روتی رہی۔ میں جانتا تھا کہ اسکے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر ہماری شادی کو ہوا کیا ہے۔۔۔ میرے پاس اس دینے کے لیے کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ اسے کیا بتاتا کہ میرے دل میں اسکی جگہ اب کسی اور نے لے لی ہے۔۔۔ اب اسکے لیے میرے پاس محبت باقی نہیں رہی۔ مجھے اس پہ ترس تو بہت آرہا تھا اور ایک پچھتاوا بھی تھا۔ پر اب میں جو فیصلہ کر چکا تھا اس پہ ڈٹے رہنا ضروری تھا۔
    طلاق کے کاغذات عدالت میں جمع کرانے سے پہلے میں نے اس کی ایک کاپی اسے تھمائی جس پہ لکھا تھا کہ وہ طلاق کے بعد گھر، گاڑی اور میرے ذاتی کاروبار کے 30 فیصد کی مالکن بن سکتی ہے۔
    اس نے ایک نظر کاغذات پہ دوڑائی اور اگلے ہی لمحے اسکے ٹکڑے کرکے زمین پہ پھینک دیے۔ جس عورت کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے دس سال بتائے تھے وہ ایک پل میں اجنبی ہوگئی۔ مجھے افسوس تھا کہ اس نے اپنے انمول جذبات اور قیمتی لمحے مجھ پہ ضائع کیے پر میں بھی کیا کرتا میرے دل میں کوئی اور اس حد تک گھر کر چکا تھا کہ اس کھونے کا تصور ہی میرے لیے ناممکن تھا۔
    بلآخر وہ ٹوٹ کے بکھری اور میرے سامنے ریزہ ریزہ ہوگئی۔ اسکی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا تھا۔ شائد یہی وہ چیز تھی جو اس طلاق کے بعد میں دیکھنا چاہتا تھا۔
    اگلے روز پورا دن اپنی نئی محبت کے ساتھ بتا کے جب میں تھکا ہارا گھر پہنچا تو وہ میز پہ کاغذ پھیلائے کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ میں نے اس پہ کوئی دھیان نہ دیا اور جاتے ہی بستر پہ سو گیا۔ دیر رات جب میری آنکھ کھلی تو وہ تب بھی کچھ لکھ رہی تھی۔ اب بھی میں نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا۔
    صبح جب میں اٹھا تو اس نے طلاق کی کچھ شرائط میرے سامنے رکھ دیں۔ اسے میری دولت اور جائیداد میں سے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ وہ بس ایک مہینہ مزید میرے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ اس ایک مہینے میں ہمیں اچھے میاں بیوی کی طرح رہنا تھا۔ اس شرط کی بہت بڑی وجہ ہمارا بیٹا تھا جسکے کچھ ہی دنوں میں امتحانات ہونیوالے تھے۔ والدین کی طلاق کا اسکی تعلیم پہ برا اثر نہ پڑے اس لیے میں اسکی یہ شرط ماننے کو بالکل تیار تھا۔
    اسکی دوسری اور احمقانہ شرط یہ تھی کہ میں ہرصبح اسے اپنی باہوں میں اٹھا کے گھر کے دروازے تک چھوڑنے جاؤں۔ جیسا شادی کے ابتدائی دنوں میں مَیں کرتا تھا۔ وہ جب کام پہ باہر جانے لگتی تو میں خود اسے اپنی باہوں میں اٹھا کے دروازے تک چھوڑ آتا تھا۔ حالانکہ میں اسکی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا لیکن ان آخری دنوں میں اسکا دل توڑنا مناسب نہیں لگ رہا تھا اس لیے میں نے یہ شرط بھی مان لی۔
    اس کی ان شرائط کے بارے میں جب میں نے اپنی نئی محبت سے ذکر کیا تو وہ ہنس بولی
    "وہ چاہے جو بھی کرلے ایک نہ ایک دن طلاق تو اسے ہونی ہی ہے"
    میری بیوی اور میں نے اپنی طلاق کے معاملے سے متعلق کسی اور سے ذکر نہ کیا۔
    شرط کے مطابق پہلے دن جب مجھے اسے اٹھا کے دروازے تک چھوڑنے جانا تھا تو وہ لمحات ہم دنوں کے لیے بے حد عجیب تھے۔ ہچکچاتے ہوئے میں نے اسے اٹھایا تو اس نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اتنے میں تالیوں کی ایک گونج ہم دونوں کے کانوں میں پڑی
    "پاپا نے ممی کو اٹھایا ہوا ہے۔۔۔۔۔ ہاہاہا" ہمارا بیٹا خوشی میں جھوم رہا تھا۔
    اسکے الفاظوں سے میرے دل میں ایک درد سا اٹھا اور میری بیوی کی کیفیت بھی لگ بھگ میرے جیسی تھی۔
    "پلیز۔۔۔ ! اسے طلاق کے بارے میں کچھ مت بتانا" وہ آہستگی سے بولی
    میں نے جواباً سر ہلایا
    اسے دروازے تک چھوڑ کے بعد میں اپنے آفس کی طرف نکل پڑا اور وہ بس سٹاپ کی طرف چل دی۔
    اگلی صبح اسے اٹھانا میرے لیے قدرے آسان تھا، اور اسکی ہچکچاہٹ میں بھی کمی تھی۔ اس نے اپنا سر میری چھاتی سے لگا لیا۔ ایک عرصے بعد اسکے جسم کی خوشبو میرے حواس سے ٹکرائی۔ میں بغور اسکا جائزہ لینے لگا۔ چہرے کی گہری جھریاں اور سر کے بالوں میں اتری چاندی اس بات کی گواہ تھیں کہ اس نے اس شادی میں بہت کچھ کھویا ہے۔
    چار دن مزید گزرے، جب میں نے اسے باہوں میں بھر کے سینے سے لگایا تو ہمارے بیچ کی وہ قربت جو کہیں کھو سی گئی تھی واپس لوٹنے لگی۔ پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ قربت کے وہ جذبات بڑھتے گئے۔
    لمحے دنوں کو پَر لگا کے اڑا لے گئے اور مہینہ پورا ہوگیا۔
    اس آخری صبح میں جانے کے لیے تیار ہورہا تھا اور وہ بیڈ پہ کپڑے پھیلائے اس پریشانی میں مبتلا تھی کے آج کونسا لباس پہنے۔ کیوں کہ پرانے سارے لباس اسکے نحیف جسم پہ کھلے ہونے لگے تھے۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کتنی کمزور ہوگئی ہے۔ شائد اسی لیے میں اسے آسانی سے اٹھا لیتا تھا۔ اسکی آنکھوں میں امڈتے درد کو دیکھ کے نہ چاہتے ہوئے بھی میں اسکے پاس چلا آیا اور اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
    "پاپا۔۔۔ ! ممی کو باہر گھمانے لے جائیں۔۔۔۔ " ہمارے بیٹے کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ اسکے خیال میں اس پل یہ ضروری تھا کہ میں کسی طرح اسکی ماں کا دل بہلاؤں۔
    میری بیوی بیٹے کی طرف مڑی اور اسے سینے سے لگا لیا۔ یہ لمحہ مجھے کمزور نہ کردے یہ سوچ کے میں نے اپنا رخ موڑ لیا۔
    آخری بار میں نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اس نے بھی اپنے بازو میری گردن کے گرد حائل کردیے۔ میں نے اسے مظبوطی سے تھام لیا۔ میری آنکھوں کے سامنے شادی کا وہ دن گردش کرنے لگا جب پہلی بار میں اسے ایسے ہی اٹھا کے اپنے گھر لایا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ مرتے دم تک ایسے ہی ہر روز اسے اپنے سینے سے لگا کے رکھوں گا۔ میرے قدم فرش سے شائد جم سے گئے تھے اسی لیے میں بامشکل دروازے تک پہنچا۔ اس نیچے اتارتے ہوئے میں نے اسکے کان میں سرگوشی کی
    "شائد ہمارے درمیان قربت کی کمی تھی"
    وہ میری آنکھوں میں دیکھنے لگی اور میں اسے وہیں چھوڑ کے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ تیز رفتار میں گاڑی چلاتے ہوئے بار بار ایک خوف میرے دل میں گھر کررہا تھا کہ کہیں میں کمزور نہ پڑ جاؤں، اپنا فیصلہ بدل نہ دوں۔ میں نے اس گھر کے دروازے پہ بریک لگائی جہاں نئی منزل میرا انتظار کررہی تھی۔ دروازہ کھلا اور وہ مسکراتے ہوئے میرے سامنے آئی
    "مجھے معاف کردو۔ میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا" میرے منہ سے نکلے یہ الفاظ اسکے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ وہ میرے پاس آئی اور ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے بولی
    "شائد تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے یا پھر تم مذاق کررہے ہو"
    "نہیں ۔۔۔ ! میں مذاق نہیں کررہا۔ شائد ہماری شادی شدہ زندگی بے رنگ ہوگئی ہے پر میرے دل میں اسکے لیے محبت اب بھی زندہ ہے۔ بس اتنا ہوا ہم ہر وہ چیز بھول گئے جو اس ساتھ کے لیے ضروری تھی۔ دیر سے سہی پر مجھے سب یاد آگیا ہے۔ اور ساتھ نبھانے کا وہ وعدہ بھی یاد ہے جو شادی کے پہلے دن میں نے اس سے کیا تھا"
    نئے ہر بندھن کو توڑ کے بعد میں پرانے بندھن کو دوبارہ جوڑنے کے لیے واپس لوٹا۔ میرے ہاتھ میں پھولوں کا ایک گلدستہ تھا جس میں موجود پرچی پہ لکھا تھا
    "میں ہر روز ایسے ہی تمہیں اپنی باہوں میں اٹھا کے دروازے تک چھوڑنے آؤں گا۔ صرف موت ہی مجھے ایسا کرنے سے روک سکتی ہے"
    میں اپنے گھر میں داخل ہوا اور دوڑتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ میرے پاس اپنے بیوی کو دینے کے لیے زندگی کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔
    میں جب اس سے چند لمحوں کی دوری پہ تھا تبھی زندگی کی ڈور اسکے ہاتھوں سے سرک گئی۔
    کئی مہینوں تک کینسر کی بیماری سے لڑتے لڑتے وہ ہار چکی تھی۔ نہ اس نے کبھی اپنی تکلیف کا مجھ سے ذکر کیا اور نہ ہی مصروف زندگی نے مجھے اس سے پوچھنے کا موقع دیا۔ جب اسے میری سب سے زیادہ ضرورت تھی تب میں کسی اور کے دل میں اپنے لیے محبت کھوج رہا تھا۔
    وہ جانتی تھی کے اسکے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کے اسکی موت سے قبل طلاق کا اثر ہمارے بیٹے کے دل میں میرے لیے نفرت کا بیج بو دے۔ اس لیے بیتے ایک مہینے میں اس نے بیٹے کے سامنے انتہائی محبت کرنیوالے شوہر کا میرا روپ نقش کردیا۔۔۔ جو حقیقی تو نہیں تھا پر دائمی ضرور بن
    یہ کہانی ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے بے رنگ رشتوں میں رنگ بھرنے کی بجائے ان سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    کئی بار یہ سمجھنے میں ہم دیر کر دیتے ہیں کہ نئے رشتے قائم کرنا زیادہ صحیح ہے یا پھر پرانے رشتوں میں رنگ بھرے جائیں۔۔۔۔؟ اسکا فیصلہ آپکے ہاتھ میں ضرور ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ آپ وقت پہ فیصلہ نہ کر سکیں اور اس تاخیر میں ہاتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خالی رہ جائیں۔ تو دیر مت کیجئے۔
     
  5. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    وہ شخص ساری زندگی اسم اعظم کی تلاش میں رھا.. اس نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا.. وہ جانتا تھا کہ اسم اعظم اللہ کا وہ پاک نام ھے جس سے اسے پکارا جائے تو سارے بگڑے کام بن جاتے ھیں..
    بہت تحقیق کی ' سب کی رائے مختلف تھی.. کوئی کہتا کہ اللہ ھی اسم اعظم ھے.. کوئی کہتا کہ حی القیوم اسم اعظم ھے.. کوئی کہتا واحد اسم اعظم ھے.. اس نے پڑھا تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسم اعظم کا علم تھا.. یہ مبارک نام ان کی انگوٹھی پر نقش تھا جس کی وجہ سے ساری دنیا پر انھوں نے حکومت کی..
    اس کا دین سے کوئی خاص لگاؤ بھی نہیں تھا مگر یہ اسم اعظم کا خیال اس کے سر پر ھمیشہ سوار رھتا.. وہ اللہ کے مختلف نام جو اس کے خیال میں اسم اعظم ھوسکتے ھیں ' لے کر پکارتا.. پھر مشاھدہ کرتا کہ کیا اس سے اس کے حالات میں کوئی تبدیلی رونما ھو رھی ھے مگر اس کے حالات پہلے کی طرح ھی خستہ تھے..
    آج وہ سخت مایوس تھا.. ھر طرف سے ناکامی کے بعد جیسے اس نے زندگی کی آرزو ھی چھوڑ دی ھو.. اس نے خودکشی کا فیصلہ کیا اور خودکشی کے مختلف طریقوں پر غور کیا.. اسے خیال آیا کہ اگر کچھ ادویات زیادہ مقدار میں کھالی جائیں تو اس سے آدمی مر جاتا ھے.. اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ کون سی ادویات ھوتی ھیں.. اس کے گھر میں ادویات کا ذخیرہ تھا جو مختلف اقسام کی تھیں.. اس میں سیرپ اور بہت سی گولیاں تھیں.. اس نے کافی مقدار میں گولیاں کھائیں اور سیرپ پر سیرپ پینے شروع کردئیے..
    جب وہ یہ سب کچھ کرچکا تو اسے اللہ کا خیال آیا.. اسے اس بات کا خیال آیا کہ خودکشی حرام ھے اور اس کی سزا جہنم ھے.. اس پر شدید خوف طاری ھوگیا.. کچھ اس بات سے کہ وہ عنقریب مرنے والا ھے ' کچھ اس بات سے کہ جس طریقے سے مر رھا ھے وہ بھی حرام ھے..
    اس نے رونا شروع کردیا.. کچھ دیر بعد اٹھا ' وضو کیا ' جائے نماز بچھائی اور نماز پڑھنے لگا.. اس کے آنسو جائے نماز پر گر رھے تھے.. نماز کے بعد اس نے دعا کے لیے اللہ کے سامنے ھاتھ پھیلائے..
    آج جیسے پہلی بار دل سے دعا کررھا تھا.. " یااللہ مجھے بچا لے.. میں ناسمجھ ھوں.. یااللہ میں آئندہ کبھی بھی اس طرح کا عمل نہیں کروں گا.. "
    کافی دیر تک دعا میں روتا رھا.. سارا دن پریشان رھا کہ جو اس نے ادویات کھائی ھیں کہیں اس کی وجہ سے اس کا برا حال نہ ھوجائے مگر دن خیریت سے گزر گیا اور اسے کچھ نہ ھوا..
    اب اسے سمجھ آئی کہ اسم اعظم اللہ کو دل سے پکارنے کا نام ھے.. چاھے جس نام سے مرضی پکارو اللہ سنتا ھے..!!
    [​IMG]
     
  6. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    خوبصورت کہانی جو آپ کے ایمان کو پختہ کرے گی
    زندگی کی نہایت اہم رات
    اس کا نام ڈاکٹر احمد تھا اور وہ سعودی عرب کا معروف طبیب تھا۔ لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے کئی کئی دن تک انتظار کرتے۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔دارالحکومت میں ایک انٹر نیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ اس کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں نہ صرف کلیدی مقالہ پڑھے گا بلکہ اس موقع پر اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دی جائے۔ڈاکٹر احمداپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔
    وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
    فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کی فنی خرابی کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد ائیر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا:خواتین وحضرات! انجینئر نے بتایا ہے کہ فنی خرابی کے درست ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا مسافروں کے لیے متبادل طیارہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ کب آئے گا ؟کسی کو علم نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیا اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آسکتا ہے۔ ہم اس زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ کو ہوٹل پہنچا دیا جائے گا۔
    ڈاکٹر احمدکے لیے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والا تھا۔ آج رات تو اس کی زندگی کی نہایت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس رات کا منتظر تھا کہ جب اس کی تکریم ہونی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ائیر پورٹ کے اعلی افسر کے پاس جا پہنچا، اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں انٹر نیشنل لیول کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے ۔ مجھے آج رات دارالحکومت میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں یہ خبر سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ24 گھنٹے بعد آئے گا۔متعلقہ افسر نے اسے جواب دیا: محترم ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں ۔
    ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نیا طیارہ فوری طور پر فراہم کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔البتہ وہ شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہے، یہاں سے بذریعہ کار سے صرف تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے تو ائیر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے متعلقہ شہر پہنچ جائیں۔ ‘‘
    ڈاکٹر احمدلمبی ڈرائیونگ کرنا پسند نہ کرتے تھے۔ مگر اب یہ مجبوری تھی اس کے پاس کوئی متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔اس نے متعلقہ آفیسرکے مشورے کوپسند کیا اور ایئر پورٹ سے کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیاتھا کہ اچانک موسم خراب ہو نا شروع ہو گیا۔آسمان پر گہرے بادل نمو دار ہوئے۔تیز آندھی اس پر مستزادتھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زور دار بارش شروع ہوگئی اور ہر طرف اندھیر ا چھا گیا۔ موسم کی خرابی کی و جہ سے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ مسلسل چلتا گیا،بالآخر اسے یقین ہو گیاکہ وہ راستے سے بھٹک چکا ہے۔
    اب اسے بھوک اور تھکاوٹ کااحساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا۔اس نے سوچا تھا : تین چار گھنٹے ہی کا سفر تو ہے ، ا س لیے اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ لی تھی۔اب اسے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے اسے کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا تھا۔ چاروں طرف رات کا اندھیرا بھی چھا چکا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے غیر شعوری طور پراپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روک دی۔
    اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا جب اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آوازاس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہی تھی:جو بھی ہو اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ ڈاکٹراحمدگھر میں داخل ہو اتو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے خاتون سے کہا: اماں! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے، کیا میں اپنا موبائل چارج کر سکتا ہوں؟
    بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: میرے بیٹے کون سے فون کی بات کررہے ہو؟ تمھیں معلوم نہیں اس وقت تم کہاں ہو؟ ہما رے ہاں نہ تو بجلی ہے نہ ٹیلی فون،یہ تو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں شہری سہولتوں کاکوئی تصور نہیں ہے پھر اس نے مزید کہا! میرے بیٹے وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھاہے۔لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔راستہ بھٹک گئے ہو۔تم پہلے کھانا لو پھر بات کریںگے۔ لگتا ہے تم خاصا طویل فاصلہ طے کر کے آئے ہو۔ ڈاکٹر احمدنے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔سفر کی تھکاوٹ سے اسے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔اچانک خاتون کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔خا تون نے اس بچے کوتھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔
    ڈاکٹراحمدنے کھانا کھایا اور بوڑھی اماں سے کہنے لگا: اماں جان! آپ نے اپنے اخلاق ‘کرم اور میز بانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔آ پ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں ۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ’’میرے بیٹے! وہ بوڑھی گویا ہوئی۔‘‘ میرے اللہ نے میری تمام دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ہا ں بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعفِ ایمان کی وجہ سے پور ی نہیں ہوئی ۔تم تو مسافرہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے۔
    ڈاکٹر احمدکہنے لگا: اماں جان وہ کونسی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔آپ مجھے اپنا کام بتائیں میں آ پ کے بیٹے کی طرح ہوں ۔اللہ نے چاہا تو میں اسے ضرورکروں گا۔آپ کی جو مدد میرے بس میں ہو گی ضرور کروں گا۔ خاتون کہنے لگی: میرے عزیز بیٹے !وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیں بلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔اس کے ما ں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اسے ہڈیوں کی ایک بیما ری ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذو ر ہے۔میں نے قریبی حکیموں، مہمانوں سے اس کے بڑے علاج کرائے ہیں مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں ۔
    لوگو ں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں ایک ہی ڈا کٹر ہے جو اس ہڈیوں کے علاج کا ما ہر ہے، اس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے۔ وہی اس کا علاج کر سکتاہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دو ر رہتا ہے پھر سنا ہے بہت مہنگا بھی ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ تم میری حالت تو دیکھ ہی رہے ہو،میں بوڑھی جان ہوں۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ اس بچے کا اس ڈاکٹر سے علاج ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ اس یتیم بچے کو شفاء اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں مل جائے۔
    ڈاکٹر احمداپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے روتی ہوئی آواز میں کہا: اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا، راستے میں اُترنا پڑا کار کرائے پر لی، خوب طوفان آیا‘ آندھی او ر بارش آئی، راستہ بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے گھر زبر دستی بھجوا دیا۔اما ں آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ وہ ہڈیوں کا بڑا ڈاکٹر خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا علاج کروں گا۔‘‘
    جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کی سنتا ہے تو پھر اس کوپورا کرنے کے لیے اسباب بھی خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔کائنات کی ساری مخلوق چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، اللہ کے حکم اور اس کی مشیّت کی پابند ہے۔ اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی مختلف قوتوں کو کام میں لا کر بوڑھی اماں کی دعا کو پورا کرنے میں لگا دیا۔
    ارشاد باری تعالی ہے:
    أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ
    بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو.
    سورة النمل - الآية 62
    ختم نبوت اکیڈمی لندن
     
  7. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    پیزا_کےآٹھ_ٹکڑے
    بیوی نے کہا - آج دھونے کے لئے زیادہ کپڑے مت نکالنا ...
    - کیوں؟ شوہر نے کہا ..
    - آپ کی کام والی ماسی دو دن نہیں آئے گی ...
    - کیوں؟
    - اپنے نواسی سے ملنے بیٹی کے یہاں جا رہی ہے، کہہ رہی تھی ...
    - ٹھیک ہے، زیادہ کپڑے نہیں نکالتا ...
    - اور ہاں !!! پانچ سو روپے دے دوں اسے؟ ..
    - کیوں؟ ابھی عید آ ہی رہی ہے، تب دے دیں گے ...اور بھی دے دیں گے
    - ارے نہیں بابا !! غریب ہے بیچاری، بیٹی- نواسی کے یہاں جا رہی ہے، تو اسے بھی اچھا لگے گا ... اور اس مہنگائی کے دور میں اس کی تنخواہ سےکیا ہوگا۔ اپنوں کے پاس جا رہی ہے،کچھ ہاتھ میں ہوگا تو اچھا لگے گا !!
    - تم بھی نا ... ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہو جاتی ہو ...
    - ارے نہیں ... فکر مت کرو ... میں آج کا پیزا کھانے کا پروگرام منسوخ کر دیتی ہوں ...خواہ مخواہ 500 روپے اڑ جائیں گے، باسی پائو کے ان آٹھ ٹکڑوں کے پیچھے ...
    - واہ، واہ ... کیا کہنے !! ہمارے منہ سے پیزا چھین کر ماسی کی پلیٹ میں؟
    تین دن بعد
    ... پوچھا لگاتی ہوئی كام والی ماسی سے پوچھا ...
    - کیا ماسی ؟، کیسی رہی چھٹی؟
    - بہت اچھی ہوئی صاحب ... باجی جی نے پانچ سو روپے دیے تھے نا ..
    - تو ہوآئی بیٹی کے یہاآگیا۔
    . مل لیں اپنی نواسی سے ..۔۔
    - جی ہاں بھائی ... مزا آیا، دو دن میں 500روپے خرچ کر د یے ...
    - اچھا !! مطلب کیا کیا 500روپے کا؟
    - نواسی کے لئے 150روپے کی فراک، 40روپے کی گڑیا، بیٹی کو 50روپے کے پیڑے دئے ، 50 روپے کے ڀیڈے محلّےکےلوگو میہ 60 روپے کرایہ کے لگ گئے .. 25 روپے کی چوڑیاں بیٹی کے لئے اور داماد کے لئے 50روپے کا بیلٹ لیا اچھا سا ... بچے ہوئے 75روپے نواسی کو دے دیے کاپی-پنسل خریدنے کے لئے ... جھاڑو-پوچھا کرتے ہوئے پوراحساب اس کی زبان پر رٹا ہوا تھا ...
    - 500روپے میں اتنا کچھ ؟؟؟ وہ حیرت سے دل ہی دل میں غور کرنے لگا ...
    اس کی آنکھوں کے سامنے آٹھ ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا بڑا سا پیزا گھومنے لگا، ایک ایک ٹکڑا اس کے دماغ میں ہتھوڑا مارنے لگا ... اپنے ایک پیزا کے خرچ کاموازنہ وہ كام والی ماسی کے خرچ سے کرنے لگا ... پہلا ٹکڑا بچے کی ڈریس کا، دوسرا ٹکڑا پیڑےکا، تیسرا ٹکڑا محلے کے لوگو کے ڀیڈے چوتھا کرایہ کا، پانچواں گڑیا کا، چھٹھواں ٹکڑا چوڑيوں کا، ساتواں داماد کے بیلٹ کا اور آٹھوا ںٹکڑا بچی کی کاپی-پینسل کا ..
    آج تک اس نے ہمیشہ پیزا کا اوپری حصہ ہی دیکھا تھا، کبھی پلٹ كر نہیں دیکھا تھا کہ پیزا پیچھے سے کیسا لگتا ہے ... لیکن آج كا م والی ماسی نے پیزا کا دوسراحصہ دکھا دیا تھا ... پیزا کے آٹھ ٹکڑے ٹکڑے اسے زندگی کا مطلب سمجھا گئے تھے ۔.. زندگی کے لئے خرچ یا خرچ کے لئے زندگی کا جدید مفہوم ایک جھٹکے میں اسے سمجھ میں آگیا۔
     
  8. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حاجی صاحب نے آخری عمر میں فیکٹری لگالی اور چوبیس گھنٹے فیکڑی میں رہنے لگے- وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے دفتر میں کام کرتے تھے اور جب تھک جاتے تھے تو فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس میں سو جاتے تھے- حاجی صاحب کے مزاج کی یہ تبدیلی سب کیلیۓ حیران کن تھی…وہ تیس برس تک دنیاداری کاروبار اور روپے پیسے سے الگ تھلگ رہے تھے انہوں نے یہ عرصہ عبادت اور ریاضت میں گزاراتھا اور اللہ تعالی نے انہیں اس ریاضت کا بڑا خوبصورت صلہ دیا تھا وہ اندرسے روشن ہوگۓ تھے وہ صبح آٹھ بجے اپنی بیٹھک کھولتے تھے اور رات گۓ تک ان کے گرد لوگوں کا مجمع رہتا تھا،لوگ اپنی اپنی حاجت لے کر ان کے پاس آتے تھے-
    وہ ان کے لیۓ دعا کا ہاتھ بلند کر دیتے تھے اور اللہ تعالی سائل کے مسائل حل فرمادیتا تھا- اللہ تعالی نے ان کی دعاؤں کو قبولیت سے سرفراز کر رکھا تھا لیکن پھر اچانک حاجی صاحب کی زندگی نے پلٹا کھایا….وہ ایک دن اپنی گدی سے اٹھے، بیٹھک بند کی، اپنے بیٹوں سے سرمایہ لیا اور گارمنٹس کی ایک درمیانے درجے کی فیکٹری لگا لی- انہوں نے اس فیکٹری میں پانچ سو خواتین رکھیں- خود اپنے ہاتھوں سے یورپی خواتین کے لیۓ کپڑوں کے نۓ ڈیزائن بناۓ- یہ ڈیزائن یورپ بھجواۓ- باہر سے آرڈر آۓ اور حاجی صاحب نے مال بنوانا شروع کردیا- یوں ان کی فیکٹری چل نکلی اور حاجی صاحب دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹنے لگے- دنیا میں اس وقت گارمنٹس کی کم و بیش دو،تین کروڑ فیکٹریاں ہوں گی اور ان فیکٹریوں کے اتنے ہی مالکان ہوں گے لیکن ان دو تین کروڑ مالکان میں حاجی صاحب جیسا کوئی دوسرا کردار نہیں ہو گا …پوری دنیا میں لوگ بڑھاپے تک کاروبار کرتے ہیں اور بعدازاں روپے پیسے اور اکاؤنٹس سے تائب ہو کر اللہ اللہ شروع کر دیتے ہیں لیکن حاجی صاحب ان سے بالکل الٹ ہیں- انہوں نے پینتیس سال کی عمر میں کاروبار چھوڑا اللہ سے لو لگائی لیکن جب وہ اللہ کے قریب ہو گۓ توانہوں نے اچانک اپنی آباد خانقاہ چھوڑی اورمکروہات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی- وہ دنیا کے واحد بزنس مین ہیں جو فیکٹری سے درگاہ تک گۓ تھے اور پھر درگاہ سے واپس فیکٹری پر آگۓـ حاجی صاحب کی کہانی ایک کتے سے شروع ہوئی تھی اور کتے پر ہی ختم ہوئی…
    حاجی صاحب کی گارمنٹس فیکٹری تھی، حاجی صاحب صبح صبح فیکٹری چلے جاتے اور رات بھیگنے تک کام کرتے تھے- ایک دن وہ فیکٹری پہنچے تو انہوں نے دیکھا ایک درمیانے قد کاٹھ کا کتا گھسٹ گھسٹ کر ان کے گودام میں داخل ہو رہا ہے، حاجی صاحب نے غور کیا تو پتہ چلا کتا شدید زخمی ہے، شاید وہ کسی گاڑی کے نیچے آ گیا تھا جس کے باعث اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں اور وہ صرف ایک ٹانگ کے ذریعے اپنے جسم کو گھسیٹ کر ان کے گودام تک پہنچا تھا- حاجی صاحب کو کتے پر بڑا رحم آیا، انہوں نے سوچا وہ کتے کو جانوروں کے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، اس کا علاج کراتے ہیں اور جب کتا ٹھیک ہو جائے گا تو وہ اسے گلی میں چھوڑ دیں گے- حاجی صاحب نے ڈاکٹر سے رابطے کے لیۓ فون اٹھایا لیکن نمبر ملانے سے قبل ان کے دل میں ایک انوکھا خیال آیا اور حاجی صاحب نے فون واپس رکھ دیا…..
    حاجی صاحب نے سوچا کتا شدید زخمی ہے، اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں، اس کا جبڑا زخمی ہے اور پیٹ پر بھی چوٹ کا نشان ہے چنانچہ کتا روزی روٹی کا بندوبست نہیں کر سکتا- حاجی صاحب نے سوچا’ اب دیکھنا یہ ہے قدرت اس کتے کی خوراک کا بندوبست کیسے کرتی ہے، حاجی صاحب نے مشاہدے کا فیصلہ کیا اور چپ چاپ بیٹھ بیٹھ گئے…
    وہ کتا سارا دن گودام میں بیہوش پڑا رہا، شام کو جب اندھیرا پھیلنے لگا تو حاجی صاحب نے دیکھا ان کی فیکٹری کے گیٹ کے نیچے سے ایک دوسرا کتا اندر داخل ہوا، کتے کے منہ میں ایک لمبی سی بوٹی تھی- کتا چھپتا چھپاتا گودام تک پہنچا، زخمی کتے کے قریب آیا، اس نے پاؤں سے زخمی کتے کو جگایا اور بوٹی اس کے منہ میں دے دی- زخمی کتے کا جبڑا حرکت نہیں کر پا رہا تھا چنانچہ اس نے بوٹی واپس اگل دی- صحت مند کتے نے بوٹی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالی، بوٹی چبائی، جب وہ اچھی طرح نرم ہو گئی تو اس نے بوٹی کا لقمہ سا بنا کر زخمی کتے کے منہ میں دے دیا- زخمی کتا بوٹی نگل گیا….
    اسکے بعد وہ کتا گودام سے باہر آیا، اس نے پانی کے حوض میں اپنی دم گیلی کی، واپس گیا اور دم زخمی کتے کے منہ میں دے دی- زخمی کتے نے صحت مند کتے کی دم چوس لی- صحت مند کتا اس کروائی کے بعد اطمینان سی واپس چلا گیا- حاجی صاحب مسکرا پڑے- اس کے بعد یہ کھیل روزانہ ہونے لگا- روز کتا آتا اور زخمی کتے کو بوٹی کھلاتا، پانی پلاتا اور چلا جاتا،حاجی صاحب کئی دنوں تک یہ کھیل دیکھتے رہے…
    ایک دن حاجی صاحب نے اپنے آپ سے پوچھا “وہ قدرت جو اس زخمی کتے کو رزق فراہم کر رہی ہے کیا وہ مجھے دو وقت کی روٹی نہیں دے گی؟” سوال بہت دلچسپ تھا، حاجی صاحب رات تک اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہے یہاں تک کہ وہ توکل کی حقیقت بھانپ گئے، انہوں نے فیکٹری اپنے بھائی کے حوالے کی اور تارک الدنیا ہو گئے…
    وہ مہینے میں تیس دن روزے رکھتے اور صبح صادق سے اگلی صبح کاذب تک رکوع و سجود کرتے، وہ برسوں اللہ کے دربار میں کھڑے رہے، اس عرصے میں اللہ انہیں رزق بھی دیتا رہا اور ان کی دعاؤں کو قبولیت بھی- یہاں تک کہ وہ صوفی بابا کے نام سے مشہور ہو گئے اور لوگ ان کے پاؤں کی خاک کا تعویز بنا کر گلے میں ڈالنے لگے لیکن پھر ایک دوسرا واقعہ پیش آیا اور صوفی بابا دوبارہ حاجی صاحب ہو گئے….
    یہ سردیوں کی ایک نیم گرم دوپہر تھی، صوفی بابا کی بیٹھک میں درجنوں عقیدت مند بیٹھے تھے- صوفی بابا ان کے ساتھ روحانیت کے رموز پر بات چیت کر رہے تھے- باتوں ہی باتوں میں صوفی بابا نے کتے کا قصہ چھیڑ دیا اور اس قصے کے آخر میں حاضرین کو بتایا….
    “رزق ہمیشہ انسان کا پیچھا کرتا ہے لیکن ہم بیوقوف انسانوں نے رزق کا پیچھا شروع کر دیا ہے- اگر انسان کی توکل زندہ ہو تو رزق انسان تک ضرور پہنچتا ہے بلکل اس کتے کی طرح جو زخمی ہوا تو دوسرا کتا اس کے حصے کا رزق لے کر اس کے پاس آ گیا- میں نے اس زخمی کتے سے توکل سیکھی- میں نے دنیاداری ترک کی اور اللہ کی راہ میں نکل آیا- آج اس راہ کا انعام ہے میں آپ کے درمیان بیٹھا ہوں- ان تیس برسوں میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب اللہ تعالی نے کسی نہ کسی وسیلے سے مجھے رزق نہ دیا ہو یا میں کسی رات بھوکا سویا ہوں- میں ہمیشہ اس زخمی کتے کو تھینک یو کہتا رہتا ہوں جس نے مجھے توکل کا سبق سکھایا تھا-”
    صوفی بابا کی محفل میں ایک نوجوان پروفیسر بھی بیٹھا تھا، پروفیسر نے جینز پہن رکھی تھی اور اس کے کان میں ایم پی تھری کا ائر فون لگا تھا- نوجوان پروفیسر نے ائر فون اتارا اور قہقہہ لگا کر بولا “صوفی بابا ان دونوں کتوں میں افضل زخمی کتا نہیں تھا بلکہ وہ کتا تھا جو روز شام کو زخمی کتے کو بوٹی چبا کر کھلاتا تھا اور اپنی گیلی دم سے اس کی پیاس بجھاتا تھا- کاش آپ نے زخمی کتے کے توکل کی بجائے صحت مند کتے کی خدمت، قربانی اور ایثار پر توجہ دی ہوتی تو آج آپ کی فیکٹری پانچ، چھ سو لوگوں کا چولہا جلا رہی ہوتی-”
    صوفی بابا کو پسینہ آ گیا- نوجوان پروفیسر بولا “صوفی بابا! اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے، وہ صحت مند کتا اوپر والا ہاتھ تھا جبکہ زخمی کتا نیچے والا- افسوس آپ نے نیچے والا ہاتھ تو دیکھ لیا لیکن آپ کو اوپر والا ہاتھ نظر نہ آیا- میرا خیال ہے آپ کا یہ سارا تصوف اور سارا توکل خود غرضی پر مبنی ہے کیونکہ ایک سخی بزنس مین دس ہزار نکمے اور بے ہنر درویشوں سے بہتر ہوتا ہے” نوجوان اٹھا’ اس نے سلام کیا اور بیٹھک سے نکل گیا..حاجی صاحب نے دو نفل پڑھے، بیٹھک کو تالا لگایا اور فیکٹری کھول لی، اب وہ عبادت بھی کرتے ہیں اور کاروبار بھی۔
     
  9. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    مصروف قوم
    ایک انگریز پاکستان کی سیر کرنے آیا۔ وہ ایک پاکستانی گائیڈ کو لے کر لاہور کی سیر کر رہا تھا
    ریلوے پھاٹک بند تھا۔ انگریز نے گاڑی کھڑی کی اور دیکھا کہ ایک پاکستانی کندھے پر سائیکل اٹھائے ریلوے پھاٹک کراس کر رہا ہے۔
    انگریز نے پاکستانی گائیڈ سے پوچھا کہ یہ شخص کیا کر رہا ہے؟
    گائیڈ نے انگریز کو بتایا کہ اصل میں پاکستانی قوم کے پاس وقت نہیں ہے وہ گاڑی آنے کا انتظار نہیں کر سکتی۔
    اس لئے یہ شخص سائیکل کندھے پر اٹھائے پھاٹک کراس کر رہا ہے۔ جب گاڑی گزر گئی تو انگریز نے پھاٹک کراس کر کے دیکھا۔

    وہی شخص دوسری طرف بندر کا تماشا دیکھنے میں مشغول تھا
     
  10. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    راجہ صاحب کو واپس کام پر دیکھ کر خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگنے کے ساتھ چونک اٹھا۔

    ساجد صاحب میرے سینئر تھے اور سب انکو راجہ صاحب کہتے تھے۔
    سات سال پہلے راجہ صاحب اور میں اکھٹے کام کرتے تھے لیکن ایک دن راجہ صاحب کام کرتے کرتے اچانک بیہوش ہوگئے ہسپتال لیکر گئے تو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور بڑا ہسپتال ریفر کر دیا.
    بڑے ہسپتال لیکر گئیے تو وہاں انہوں نے صاف اور واشگاف انداز سے کلیر کر دیا کہ دماغ میں ایک خطرناک رسولی نے جڑ پکڑ لی ہے اور اسکا حل یہ ہے کہ یا تو یورپ میں جائیں یا واپس اپنے گھر چلے جائیں اور جا کر دن پورے کریں.
    راجہ صاحب مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں کہاں اتنا پیسہ افورڈ کرتے
    خاموشی سے واپسی کا سفر باندھا اور گھر چلے گئے. آج سات سال بعد انہیں واپس کام پر دیکھا تو حیران ہونے کے ساتھ تجسس بھی ابھرا کہ یہ بندہ بچ کیسے گیا حالانکہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا.
    خیر ان سے ملنے کے بعد میں نے پوچھا کہ راجہ صاحب یہ چمکتار کیسے ہو گیا یا کیا یورپ سے جا کر علاج کروایا ؟
    اب جو جواب ملا آپ انہیں کی زبانی سنیے
    کیا بتاؤں شاہ جی بس یہاں سے واپس گھر جا کر میں نے سب سے پہلے اپنی زمین کے اپنے گھر کے سب کے حصے بیٹوں بیٹیوں کے نام تقسیم کر کے خود اپنے دن پورے کرنے لگ پڑا اس بیچ مختلف قسم کے اور بڑے خطرناک دورے پڑتے ہوش و حواس کھو بیٹھتا. ان دوروں کا ٹائم بہت لمبا ہوتا کبھی تو دو دو دن کا دورانیہ ہوتا لیکن پھر ٹھیک ہو جاتا۔
    ایک دن یوں ہی مسجد جانے کے لیے نکلا تو پتہ چلا محلے میں ایک عورت مر گئی اور پیچھے ایک چھوٹی بچی چھوڑ گئ ۔ بچیطکا باپ تو بچی کی پیدائش سے پہلے ہی مر چکا تھا اب دنیا میں اس ماں کے علاوہ اس بچی کا کوئ نہیں تھا۔ میں نے ذمہ قبول کیا ۔ اور گھر لے آیا بہترین سے سکول داخل کروا دیا۔ آپ شاہ جی یقین کریں اسی سال میرے دورے ختم ہو گئے۔
    اسی طرح میں نے اپنے گھر سے دور اپنے بیٹوں کی مدد سے ایک گھر بنایا جو صرف اس نیت سے بنایا کہ اس گھر کا حصہ صرف اس بچی کو جائے گا ساتھ ہی دو تین اور بچے مل گئے جنہیں میں گھر لے آیا تاکہ یہ بھی تعلیم جاری رکھیں۔
    اب میں مجھے درد ہونا بھی ختم ہو گیا۔ یوں ہی ایک دن میں نے چیک اپ کروایا تو ڈاکٹر لوگ حیران ہوگیے پتہ چلا مجھے تو کچھ بھی نہیں نہ رسولی اور نہ ہی کوئی اور بیماری۔ بہرحال اب میں ادھر صرف چیک اپ کروانے آیا تھا یہاں سے چیک اپ کروا لیا اور ان ڈاکٹرز نے بھی مجھے صحت مند قرار دے دیا ہے۔ میں دو تین دن تک واپس گھر چلا جاؤنگا۔ اب شاہ جی میرا ارادہ ہے کہ مزید بچے اور لاوں اور ایک گھر اور بنواؤں تاکہ مزید سہولتیں دے سکوں۔
    اس کہانی کا مقصد آپ سمجھ چکے ہونگے ۔ مزہ یہ نہیں کہ آپ کے پاس پیسے ہیں تو لوگوں کی مدد کیجیے۔ بلکہ اصل مزہ یہ ہے کہ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہو تب بھی آپ جزبہ رکھیں کہ اس میں سے بھی کسی کی مدد کریں۔ میں نے خود راجہ صاحب کی حالت دیکھی تھی کوئی چانس ہی نہیں تھے بچنے کے لیکن دیکھ لیں اللہ تعالی بھی ان لوگوں کی موت کا وقفہ ڈال دیتے ہیں جو اس کے بندوں کی مدد کرتے رہتے ہیں ۔
    میرے بھائیو اور بہنو آپ سب سے التماس ہے کہ تھوڑی سی رحم دلی محبت دکھانا شروع کریں یوں ہی اپنے اردگرد دیکھ لیں کوی نہ کوئی بے بس سفید پوش آپ کو لازمی نظر آجائے گا اسکی مدد کر دیا کریں۔ یقین جانیے اسکا بے تحاشہ اجر اس دنیا میں بھی ہے اور اگلی دنیا کا تو اللہ دینے والا ہے۔
     
  11. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    اس نے ایک مانگنے والے کو جھٹ سے کچھ نکال کر دے دیا - میں نے کہا کہ بھائی دیکھ بھال کر دینا چاھئے یہ فراڈ لوگ ھوتے ھیں اور عام انسان کے جذبہ نیکی کو ایکسپلائٹ کرتے ھیں ! فرمانے لگے آپ نے بجا فرمایا میں پہلے ایسا ھی کیا کرتا تھا ،پھر ایک واقعے نے میری دنیا بدل کر رکھ دی -

    میں دھرم پورہ لاھور میں اپنے گھر سے سائیکل پہ نکلا تھا کہ ٹھیکدار سے اپنے بقایا جات وصول کر لوں ،میں اسٹیل فکسر تھا اور ایک کوٹھی کے لینٹر کے پیسے باقی تھے مگر ٹھیکدار آج کل پر ٹرخا رھا تھا، میں سائیکل پہ جا رھا تھا کہ ایک شخص اپنا بچہ فٹ پاتھ کے کنارے لٹائے اسپتال پہنچانے کے لئے ٹیکسی کا کرایہ مانگتا پھر رھا تھا۔

    وہ کبھی کسی پیدل کا بازو پکڑ کر ھاتھ جوڑ دیتا میرا بچہ بچا لیں ،مجھے ٹیکسی کا کرایہ دے دیں تو کبھی موٹر سائیکل والے کو ھاتھ دے کر روکتا ، کبھی کسی کار والے کے پیچھے بھاگتا کہ وہ کار میں اس کے بچے کو اسپتال پہنچا دے ،کوئی رکتا تو کوئی نہ رکتا ،، جو رُکتا وہ بھی اسے گھور کر دیکھتا اور آپ والی سوچ ،،، سوچ کر اسے ڈانٹتا ، کام کر کے کھانے کی نصیحت کرتا اور آگے نکل جاتا ۔

    میں جو سائیکل سائڈ پہ روکے ایک پاؤں زمیں پر ٹیکے اس کا تماشہ دیکھ رھا تھا ، اچانک اس کی نظر مجھ پر بھی پڑی اور اس نے میری سائیکل کا ھینڈل پکڑ لیا ، بھائی جان خدا کے لئے میرے بچے کی زندگی بچا لیں اس کو سخت بخار ھے ۔ آپ نیچے اتر کر اس کو دیکھ تو لیں آپ کو یقین آ جائے گا ، آپ دیں گے تو شاید کسی اور کو بھی اعتبار آ جائے ۔

    مگر میں بھی آپ کی طرح سوچ رھا تھا ،پھر جس جارحانہ انداز میں اس نے میری سائیکل کا ھینڈل پکڑ رکھا تھا لگتا تھا کہ ادھر میں سائیکل سے اترا اور ادھر وہ سائیکل پکڑ کے بھاگ جائے گا ،، میں نے بھی اسے کام کر کے کھانے کی تلقین کی اور پچھلے جمعے میں سنی ھوئی حدیث اس کو بھی سنا دی کہ ،الکاسب حبیب اللہ : کما کر کھانے والا اللہ کا دوست ھوتا ھے ، اور اپنا ھینڈل چھڑا کر بڑبڑاتا ھوا آگے چل پڑا " حرامخور ھمیں بے وقوف سمجھتے ھیں !!

    دو تین گھنٹے کے بعد جب میں بقایا جات وصول کر کے واپس آیا تو وہ ابھی اسی جگہ کھڑا مانگ رھا تھا ،بچے کو اب وہ سڑک کے پاس لے آیا تھا ، اور اس کے چہرے سے کپڑا بھی اٹھا رکھا تھا ،، وہ دھاڑیں مار مار کر رو رھا تھا ۔ اب وہ بچے کے کفن دفن کے لئے مانگ رھا تھا۔

    میں نے سائیکل کو روک کر پاؤں نیچے ٹیکا اور میت کے چہرے کی طرف دیکھا ،،، پھول کی طرح معصوم بچہ ،،، زندگی کی بازی ھار گیا تھا ، میرے رونگٹے کھڑے ھو گئے ،میں نے جیب میں جو کچھ تھا بقایا جات سمیت سب بغیر گنے نکال کر باھر پھینکا اور اس سے پہلے کہ اس کا باپ میری طرف متوجہ ھو ،سائیکل اس تیزی سے چلا کر بھاگا گویا سارے لاھور کی بلائیں میرے پیچھے لگی ھوئی ھیں۔

    میں گھر پہنچا تو میرا برا حال تھا ، تھڑی دیر کے بعد مجھے بخار نے آ گھیرا ،، بخار بھی کچھ ایسا تھا گویا میرے سارے گناھوں کا کفارہ اسی بخار سے ھونا تھا۔ گھر والے مجھے ہسپتال کے لئے لے کر نکلتے اور میں چارپائی سے چھلانگ لگا دیتا ،مجھے اسپتال نہیں جانا تھا ، میں اسی بچے کی طرح ایڑیاں رگڑ کر مرنا چاھتا تھا۔

    دو تین دن کے بعد بخار کو تو آرام آ گیا مگر میں ذھنی مریض بن گیا ،مجھے لگتا گویا میرا اپنا اکلوتا بیٹا جو تیسری کلاس میں پڑھتا تھا وہ اس بچے کے کفارے میں مر جائے گا۔ میں نے بچے کا اسکول جانا بند کر دیا ، بیوی کے بار بار اصرار کے باوجود میں بچے کو اسکول تو کیا دروازہ کھولنے بھی نہیں جانے دیتا تھا -

    40 دن گزر گئے تھے اور بچے کا نام اسکول سے کٹ گیا تھا ، وائف نے اپنے بھائی سے بات کی جو دبئ ایک کمپنی میں کیشئر تھا اس نے مجھے باھر بلانے کے لئے پاسپورٹ بنانے کو کہا ،مگر ایک تو میں شناختی کارڈ بھی پیسوں کے ساتھ نکال کر بچے کی میت پر پھینک آیا تھا ،دوسرا میں خود بھی بچے کو اکیلا چھوڑ کر باھر نہیں جانا چاھتا تھا - وہ چالیس دن قیامت کے چالیس دن تھے ۔

    چالیسویں دن دس بجے کے لگ بھگ ھمارے گھر کا دروازہ بجا ،، دروازہ میں نے خود ھی کھولا اور سامنے اس بچے کے باپ کو دیکھ کر مجھے چکر آگئے ۔ مجھے لگا جیسے ھم دونوں آمنے سامنے کھڑے خلا میں چکر کاٹ رھے ھیں ، درمیان میں بچے کا چہرہ بھی آ جاتا ۔ میری کیفیت سے بےخبر اس باپ نے مجھے دبوچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ۔وہ کچھ کہنے کی بجائے میری ٹھوڑی کو ھاتھ لگاتا اور اسے چوم لیتا ، جبکہ میں پتھر کا بت بنے اس کی گرفت میں تھا ،، کہ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میری چیخ کچھ اس طرح نکلی جیسے کسی کو پانی پیتے وقت اچھو لگ جاتا ھے اور پانی اس کے منہ اور ناک سے بہہ نکلتا ھے ۔

    میں اس بچے کے باپ کو سختی کے ساتھ سینے سے لگائے یوں رو رھا تھا گویا اس کا نہیں بلکہ میرا بچہ مر گیا ھے ،ھمارے رونے سے گھبرا کر پورا محلہ اکٹھا ھو گیا تھا ۔ آئستہ آئستہ 40 دنوں کا غبار نکلا ،، اس کو میں گھر میں لے کر آیا محلے والے بھی آگئے تھے جنہوں نے اس آدمی سے بہت افسوس کیا۔

    کچھ دیر بعد اس نے اپنی جیب سے میرا شناختی کارڈ نکالا اور مجھے واپس کیا ،پھر جیب میں ھاتھ ڈال کر کچھ پیسے نکالے اور میرا شکریہ ادا کر کے کہنے لگا کہ آپ کے پیسے بڑے برکت والے تھے ۔شاید یہ آپ کے خلوص کی برکت تھی کہ میرے بہت سارے کام ھو گئے سارے اخراجات کے بعد کچھ پیسے بچ گئے تھے ان میں کچھ پیسے میں نے ادھار لے کر ڈالے ھیں ۔ یہ آپ قبول کر لیجئے ،باقی میں بہت جلد آپ کو واپس کر دونگا۔

    میں نے پیسے واپس لینے سے سختی کے ساتھ انکار کر دیا ،، اور منت سماجت کر کے اسے پیسے رکھنے پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد میں یہاں بطور اسٹیل فکسر آ گیا ، میں جی جان سے کام کرتا تھا چند ماہ میں ترقی کر کے فورمین بن گیا - تین سال بعد میں نے سالے کی مدد سے اپنی کمپنی بنا لی اور اس بچے کے والد کو بھی اپنی کمپنی میں بلا لیا ، آج وہ میری کمپنی میں فورمین ھے ، اس بچے کے بعد اللہ نے اسے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ھے !! میں اسے آپ سے ملواؤں گا مگر اس سے سائیکل والا قصہ مت بیان کیجئے گا ، وہ آج تک نہیں پہچانا کہ میری سائیکل روک کر اس نے مجھ سے سوال کیا تھا ! وہ مجھے ولی اللہ سمجھتا ھے جس نے اس کے بچے کی لاش دیکھ کر سب کچھ نکال کے دے دیا !!

    قاری صاحب اس دن کے بعد میں کسی کا ھاتھ خالی نہیں لوٹاتا ،، تھوڑا سا دینے سے نہ وہ امیر ھوتا ھے اور نہ میں غریب ھوتا ھوں ،، بس دل کو تسلی ھوتی ھے کہ میں اس بچے کا خون بہا ادا کر رھا ھوں۔

    رہ گئ لُوٹنے کی بات تو قاری صاحب ھمیں کون نہیں لُوٹتا ؟ جوتے والا ھمیں لوٹتا ھے ،کپڑے والا ھمیں لوٹتا ھے ، سبزی اور گوشت والا ھم کو لوٹتا ھے، اتنا لٹنے کے بعد اگر کوئی ھمیں اللہ کے نام پہ لوٹ لے تو شاید حشر میں ھماری نجات کا سامان ھو جائے کہ یہ بندہ میری خاطر، میرے نام پہ لُٹتا رھا ھے !!
     
  12. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺍﮐﻠﻮﺗﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻬﺎ،ﮐﺎﻟﺞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﺗﻬﯽ،ﻣﺎﮞ ﮐﻮ
    ﻭﺭﺍﺛﺖ ﻣﯿﮟ 6 ﻣﺮﻟﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭘﻼﭦ ﻣﻼ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻏﺬﺍﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﭽﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻓﺴﺮ ﺑﻨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﭘﻼﭦ
    ﺧﺮﯾﺪﮮ ﮔﺎ،ﭼﻞ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﭽﮧ ﯾﮧ ﭘﻼﭦ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ اﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮ،ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎ،ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
    ﺍﺳﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﺳﯽ ﺟﺎﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﯽ،ﯾﻮﮞ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺮﮮ ﺩﻥ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﮯ..
    ﭼﻨﺪ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺐ "ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ" ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﮐﻞ ﭘﻨﺸﻦ ﯾﻌﻨﯽ
    8000ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﺭﺣﻢ ﻭ ﮐﺮﻡ ﭘﮧ ﭼﻬﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻟﮓ ﮔﮭﺮ ﺑﺴﺎﻟﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﮌﯼ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺋﯿﺮ ﮐﻨﮉﯾﺸﻦ ﺗﮏ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﻣﯿﺴﺮ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﺳﮯ ﻟﮓ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ،ﺑﺎﭖ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺁﺩﮬﺎ ﮔﻬﻨﭩﮧ ﭘﯿﺪﻝ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﺎﺯﮦ ﺩﻭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ،ﺟﺐ ﮐﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﻭﻗﺖ ﻟﻮﮈﺷﯿﮉﻧﮓ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﯾﺴﯽ ﭘﻨﮑﮭﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﭘﺴﯿﻨﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﮐﯽناﮐﺎﻡ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﺎ.. اﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺪﯾﺪ ﺑﺨﺎﺭ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻏﯿﺮ ﮨﻮﮔﺊ،ﺟﺐ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﮦ ﭘﮍﺍ ﺗﻮ ﺁﺱ
    ﭘﮍﻭﺱ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺎ،ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻬﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ:
    "ﻣﯿﺮﺍ ﺑﭽﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﭽﮧ"
    ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺟﺎﮐﺮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﮐﮧ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ آﭖ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﮨﮯ،ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ
    ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ،ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﮬﮑﺎ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ،ﺁﺝ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮ کﯿﻔﯿﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ ﻭە ﺷﺎﯾﺪ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ
    ﺗﮭﯽ،ﺑﺎﻵﺧﺮ ﻭﮦ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﺱ ﻭﺍﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﻮﺍ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺳﺮﺣﺪ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ.. ﺟﺐ ﻭە ﻭﺍﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﻬﺎ،ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺎﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﻟﭙﭩﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ،ﺟﺐ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﺼﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﻧﮧ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﺎ ،ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺎﮞباﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻠﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ
    ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺘﺎﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﮭﻠﻨﯽ ﮐﺮﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﺁﻭﺭ ﮨﻮﺍ،ﺟﺐ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮈﺍﻧﭧ ﮈﭘﭧ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺪﯾﮟ ﭘﺎﺭ ﮐﺮﭼﮑﺎ ﺗﻮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻣﺮﺩﮦ ﻧﻤﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ،ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ
    ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺮﺯﺗﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺩﺍ ﮐﺌﮯ:
    "ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﮈﺍﻧﭩﺘﮯ ﮨﻮ؟"
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮔﺮﺩﻥ ﻟﮍﮬﮑﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯلیے ﻓﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭘﺎﺭ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ.​
     
  13. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    حضرت علقمہ رضیﷲعنہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان پر حالت نزع طاری ہوئی تو دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان ان کو کلمہ شہادت کی تلقین کرنے آئے۔لیکن ان کی زبان اسے ادا نہیں کرپارہی تھی تو نبی پاک صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے ان کی والدہ کو بلاکر ان کا حال دریافت فرمایا تو ان کی والدہ نے کہا "وہ بہت زیادہ نماز پڑھنے والا ,روزے رکھنے والا اور صدقہ دینے والا تھا ۔"مزید کہا کہ "میں اس سے ناراض ہوں"وجہ پوچھی گئی تو وہ کہنے لگیں "وہ اپنی بیوی کو مجھ پر ترجیح دیتا تو رسولﷲ صلیﷲعلیہ وآلہ رسلم نے فرمایا"علقمہ کی ماں کی ناراضگی نے اس کی زبان کو کلمہ شہادت پڑھنے سے روک دیا ہے۔"پھر نبی پاک صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے ان کی والدہ محترمہ کو سمجھایا تو انہوں نے حضرت علقمہ کو معاف کردیا۔تو حضرت علقمہ رضیﷲعنہ کی زبان سے کلمہ شہادت جاری ہوگیا۔اور حضرت علقمہ کا وصال ہوگیا۔
    نبی پاک صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے ان کی قبر کے کنارے کھڑے ہوکر فرمایا"اے مہاجرین و انصار ۔جس نے اپنی بیوی کو اپنی ماں پر فضیلت دی اس پر اللہ عزوجل,فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔اللہ اس کے نہ نفل قبول فرمائے گا نہ ہی فرض مگر یہ کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرئے اور اپنی ماں سے حسن سلوک کرئے اور اس کی رضا چاہے ۔اللہ کی رضامندی ماں کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی ماں کی ناراضی میں ہے۔"
    (الزواجر عن اقتراف الکبائر جلد 2)
    جب بیوی جیسے مقدس رشتہ کو ماں پر ترجیح دینا اتنا بڑا گناہ ہے تو جو لوگ اپنی نام نہاد محبت کو اپنے والدین پر ترجیح دیتے ۔ان کی وجہ سے والدین کو دھوکا دیتے,ان کی وجہ سے والدین کی نافرمانی کرتے ان کا گناہ کتنا عظیم ہوگا۔
    *
    حضرت ابن عمر رضیﷲعنہ نے فرمایا"ایک عورت میرے نکاح میں تھی اور میں اس سے محبت کرتا تھا۔حضرت عمر رضیﷲعنہ (ان کے والد) اسے ناپسند کرتے تھے۔انہوں نے مجھ سے فرمایا "اسے طلاق دے دو"تو میں نے انکار کیا ۔حضرت عمر رضیﷲعنہ نے اس بات کا ذکر رسولﷲ صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم سے فرمایا تو نبی پاک صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا"اسے طلاق دے دو"
    (سنن ابو داؤد جلد3 حدیث نمبر 1697)
    اگر محبت والدین سے اہم ہوتی تو رسولﷲ صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم ہرگز طلاق دینے کا نہ کہتے.یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے فی زمانہ طلاق کو عیب سمجھا جاتا ہے اور بلاوجہ شرعی طلاق دینا ظلم ہے لہذا اس روایت کو پڑھ کر ہرگز یہ مطلب نہ نکالیں کہ ذرا سی گھریلو لڑائی جھگڑے میں ماں باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دے دی جائے بلکہ حتی الامکان مرد کو اس فعل سے بچنا چاہیئے کہ
    حلال چیزوں میں سب سے ناپسند اللہ کو طلاق دینا ہے۔
    *
    فرمان مصطفی صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم
    "اپنے والدین کی اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہیں مال اور تمہاری ہر چیز سے محروم کردیں۔
    (المعجم الاوسط جلد6 حدیث نمبر 7956)
    معلوم ہوا کہ والدین کی اطاعت محبت سے زیادہ اہم ہے۔
    اللہ پاک ہمیں والدین کی اطاعت کو ہر حال میں مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمی​
     
  14. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ۔قصہ ملکہ بلقیس
    حضرت سلیمان علیہ السلام کو کسی موقع پر ہدہد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہدہد کی متعلق مشہور ہے کہ جس مقام پر پانی سطح زمین سے نزدیک تر ہو اسے معلوم ہو جاتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ انھیں یہی ضرورت تھی یا کچھ اور تھی، انہوں نے پرندوں کے لشکر میں ہدہد کو تلاش کیا لیکن وہ وہاں نہ ملا۔ آپ کو اس بات کا سخت رنج ہوا اور فرمایا کہ یا تو وہ اپنی غیر حاضری کا کوئی معقول وجہ پیش کرے۔ ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح ہی کر ڈالوں گا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت فلسطین، شرق اردو اور شام کے کچھ علاقہ میں تھی۔ افریقہ میں بھی حبشہ اور مصر کا کچھ حصہ آپ کے زیر نگین آگیا تھا۔ لیکن جنوبی یمن کا علاقہ آپ کی سلطنت سے بہت دور تھا۔ ہدہد حضرت سلیمان کے لشکر سے غائب ہو کر یمن کے علاقہ سبا میں پہنچا تھا۔ یہاں کے لوگ تجارت پیشہ اور آسودہ حال تھے۔ کچھ دیر بعد ہدہد حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں اہل سبا کے کچھ ایسے یقینی حالات معلوم کرکے آرہا ہوں جن کی تاحال آپ کو کچھ خبر نہیں ہے۔ اور وہ یقینی خبر یہ کہ سبا کا ملک ایک زرخیز و شاداب علاقہ ہے ان لوگوں کو وہاں سب ضروریات زندگی وافر مقدار میں میسر ہیں۔ ان لوگوں پر حکمران ایک عورت ہے۔ ) ملکہ بلقیس( جو بڑے عالی شان تخت پر بیٹھ کر حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کا تخت سونے کا ہے۔ جس میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں اور اس وقت ایسا تخت کسی بادشاہ کے پاس نہیں ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہ لوگ مشرک اور آفتاب پرست ہیں۔ اور اپنے اس مذہب پر خوش اور نازاں ہیں۔ سورج پرستی کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ ہدہد نے یہ الفاظ کہہ کر گویا سلیمان علیہ السلام کو اس قوم پر جہاد کرنے کی ترغیب دی۔
    یعنی یہ لوگ سورج پرست بھی ہیں اور آخرت کے منکر بھی۔ لہذا وہ اپنی ساری کوششیں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں صرف کر رہےہیں۔ اور اسی کام کو اپنی زندگی کے منتہائے مقصد سمجھے بیٹھے ہیں اور شیطان نے انھیں یہی بات سمجھائی ہے کہ ان کی عقلی اور فکری قوتوں کایہی بہترین مصرف ہے کہ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنائیں۔
    ہدہد نے ملکہ سبا کے متعلق یہ یقینی خبر دی تھی کہ اس کا عرش عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عرش عظیم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس کے عرش کے مقابلہ میں کسی کا تخت عظیم نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی اللہ کے مقابلہ میں آفتاب یا دوسری اشیاء کو الٰہ کہا جاسکتا ہے۔ یا کسی ایسی چیز کو سجدہ کیا جاسکتا ہے۔
    سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کا جواب یا اس کی معذرت سن کر فرمایا: میں تمہیں ایک خط لکھ کر دیتا ہوں۔ یہ خط لے جاکر دربار میں ملے اور اس کے درباریوں کے سامنے پھینک دو۔ پھر انتظار کی خاطر ایک طرف ہٹ جاؤ۔ پھر دیکھنا کہ اس خط کا ان پر ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اور واپس آکر مجھے اس رد عمل کے مطابق اطلاع بھی دو۔ اس سے جہاں یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ اس یقینی خبر کو ہم تک پہنچانے میں کہاں تک سچے ہو۔ وہاں ان لوگوں کے ردعمل سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ لوگ کس ذہنیت کے مالک ہیں۔
    جس وقت نامہ بر ہدہد نے یہ خط دربار میں ملکہ سبا کے سامنے پھینکا اس وقت وہ سورج کی عبادت کے لئے تیار کر رہی تھی۔ اس خط نے اسے عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ کیونکہ یہ خط کئی پہلوؤں سے بہت اہم تھا۔ مثلاً ایک یہ کہ یہ خط اسے غیر معمولی طریقہ سے ملا۔ یعنی یہ خط کسی ملک کے سفارت خانہ کی معرفت نہیں بلکہ ایک نامہ بر پرندہ کے ذریعہ ملا تھا۔ دوسرے یہ کہ یہ خط کسی معمولی درجہ کے حاکم سے نہیں بلکہ شام و فلسطین کے عظیم فرمانروا کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ خط رحمن اور رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا کہ ان ناموں سے یہ لوگ قطعاً متعارف نہ تھے۔ اور چوتھے یہ کہ اس انتہائی مختصر سے خط میں ملکہ سے مکمل اطاعت کا اور پھراس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی بتلا دیا گیا تھا کہ میرے مقابلہ میں سرکشی کا راہ اختیار نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ پانچویں یہ کہ انداز خطاب ایسا تھا جس میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ پائی جاتی تھی۔
    اس کاا مطلب یہ ہے کہ اسلام لاکر یا مسلمان ہو کر میرے ہاں آؤ اور سورج پرستی چھوڑ دو۔ اور یہ حکم آپ کی نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور آپ چونکہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ لہذا اس سلسلہ میں اپنے سرکاری امیروں، وزیروں سے مشورہ کرنا ہی مناسب سمجھا۔ چنانچہ اس نے سب کو اکٹھا کرکے اس خط کے وصول ہونے اور اس کی مختلف پہلوؤں سے اہمیت سے آگاہ کیا پھر اسے پوچھا کہ: تم لوگ مجھے اس خط کے جواب کے بارےمیں کیا مشورہ دیتے ہو؟ اور یہ تو جانتے ہی ہو کہ میں سلطنت کے ایسے اہم کاموں میں پہلے بھی تم سے مشورہ کرتی رہی ہوں۔ اور از خود میں نے کبھی مشورہ کے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہیں کیا۔
    ملکہ کے مشیروں اور درباری لوگوں نے وہی جواب دیا جو عام طور پر درباری لوگ دیا کرتے ہیں۔ یہ وہ اپنے ذہن پر بار دال کر کوئی دانشمندانہ جواب دینے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ وہ اپنے سر کوئی ذمہ داری لینا چاہتے ہیں۔ وہ صرف جی حضور کہنا اور اپنے آپ کو حکم کے بندے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہی کچھ ان لوگوں نے بھی کیا۔ کہ ہماری خدمات حاضر ہیں۔ ہم زور آور بھی اور لڑائی کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ تاہم یہ فیصلہ کرنا کہ سلیمان سے جنگ کرنی چاہئے یا مطیع فرمان بن جانا چاہئے۔ آپ ہی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ گویا ملکہ کو اپنے مشیروں سے مشورہ کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا ماسوائے اس کے کہ اگر ملکہ مقابلہ کا ارادہ رکھتی ہو تو انہوں نے اپنی وفاداریوں کا اسے یقین دلا دیا۔
    البتہ اس سے یہ بات ضمناً معلوم ہوجاتی ہے کہ سبا میں اگرچہ شاہی نظام رائج تھا تاہم یہ استبدادی نظام نہ تھا۔ بلکہ فرمانروا اہم معاملات میں اپنے مشیروں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
    خط کے انداز خطاب سے ملکہ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ سلیمان عام فرمانرواؤں کی طرح نہیں بلکہ ان کی پشت پر کوئی غیر معمول طاقت ہے اور یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ اگر ملکہ اور اس کے کار پرداز مطیع فرمان بن کر سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر نہ ہوئے تو حضرت سلیمان ان کی سرکوبی کے لئے ضرور ان پر چڑھائی کریں گے۔ حضرت سلیمان یہ تو گوارا کرسکتے تھے کہ یہ لوگ سورج پرستی چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تو ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔ مگر یہ گوارا نہ کرسکتے تھے کہ ان کے پاس اسباب و وسائل موجود ہونے کے باوجود ان کے قرب و جوار میں اس طرح علانیہ ملکی سطح پر شرک اور سورج پرستی ہوتی رہے۔ لہذا ملکہ کے خطرات کچھ موہوم خطرات نہ تھے۔ اس نے ٹھیک اندازہ کر لیا تھا کہ ایک تو حضرت سلیمان ان کی سرتابی کی صورت میں ضرور ان پر چڑھائی کریں گے اور دوسرے اس نے یہ بھی اندازہ کرلیا تھا کہ حضرت سلیمان کے لشکروں کے مقابلہ میں ان میں مقابلہ کی تاب نہیں ہے۔ لہذا اس نے سترہ بی یا خاموشی کے انجام سے اپنے مشریوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اکثر یوں ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک کے وسائل معاش پر قبضہ کرکے اس ملک کو مفلس و قلاش بنادیتا ہے ۔ پھر وہاں کے سرکردہ لوگوں کو کچل کر ان کا زور ختم کر دیتا ہے تاکہ وہ دوبارہ کبھی اس کے مقابلہ کی بات بھی نہ سوچ سکے۔ اس طرح وہ اس مفتوحہ ملک کے تمام سیاسی، تمدنی اور معاشی وسائل پر قبضہ کرکے اس ملک کی طاقت کو عملاً ختم کرکے اپنی طاقت میں اضافہ کرلیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکابرین مملکت یا تو موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں یا پھر انھیں ذلیل و رسوا ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ لوٹ گھسوٹ اور قتل و غارت عام ہوتا ہے اور بسا اوقات شہروں کو آگ لگا دی جاتی ہے اور عام حالات میں ایسے ہی نتائج متوقع ہیں۔
    ملکہ کی اس تقریر سے یہ تو صاف واضح تھا کہ وہ مقابلہ کے لئے تیار نہیں۔ مگر وہ فوری طور پر مطیع فرمان ہونے پر بھی آمادہ نہ تھی۔ لہذا اس نے ایک دانشمندانہ قوم اٹھاتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کیا۔ جو یہ تھا کہ حضرت سلیمان کے پاس ایک وفد بھیجا جائے اور ساتھ کچھ تحفے تحائف بھی بھیجے جائیں ان لوگوں کے ردعمل سے ان کی ذہنیت پوری طرح واضح ہوجائے گی۔ چنانچہ اس نے ہدید کی صورت میں بہت سامان و دولت کچھ سونے کی اینٹیں اور کچھ نوادرات بھیجے اور وفد کے لئے ایسے آدمی انتخاب کئے جو بہت خوبصورت تھے اور اس سے دراصل ہو حضرت سلیمان کا امتحان لینا چاہتی تھی وہ کس قسم کی اشیاء کا شوق رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ اگر وہ دنیا دار بادشاہ ہے تو تحائف قبول کر لے گا۔ اندریں صورت اس سے جنگ بھی لڑی جاسکتی ہے اور نبی ہے تو تحفے قبول نہیں کرے گا نہ اس سے مقابلہ ممکن ہوگا۔
    جب یہ وفد تحائف لے کر حصرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے یہ تحفے قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھیں واضح طور پر بتلا دیا کہ مال و دولت سے مجھے کچھ غرض نہیں۔ نہ ہی میں مال و دولت کی رشوت لے کر اپنے ارادہ سے باز رہ سکتا ہوں۔ میں یہ دولت لے کر کیا کروں گا وہ تو میرے پاس پہلے ہی تم سے بہت زیادہ موجود ہے۔ یہ تمہارے تحفے تمہیں ہی مبارک ہوں۔ تمہارے لئے صرف دو صورتیں ہیں کہ تم مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ۔ اس صورت میں تمہارا ملک تمہارے ہی پاس رہے گا۔ مجھے کوئی اپنی سلطنت بڑھانے کا شوق نہیں ہے بلکہ میں شرک کا استیصال کرکے تمہیں اللہ کا فرمانبردار بنانا چاہتا ہوں۔ ورنہ پھر دوسری یہ صورت ہے کہ ہم تم لوگوں پر ایک پرزور حملہ کرینگے جس کی تم تاب نہ لاسکو گے۔ اس صورت میں تمہارا جو حشر ہوسکتا ہے وہ تم خود ہی سمجھ سکتے ہو۔
    یہاں درمیان میں ایک خلا ہے جسے مخاطب کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب یہ وفد واپس آیا اور تحائف کی واپسی اور حضرت سلیمان سے گفتگو کی تفصیلات ملکہ سبا نے سنیں تو انھیں اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ حضرت سلیمان کوئی دنیا دار بادشاہ نہیں۔ وہ آپ کی شان و شوکت اور اس کے ساتھ ساتھ خدا ترسی کے قصے پہلے بھی سن چکی تھی۔ تحائف کی واپسی اور وفد کے تاثرات نے تائید مزید کردی۔ لہذا ملکہ سبا نے یہی مناسب سمجھا کہ ایسے پاکیزہ سیرت بادشاہ کے حضور خود حاضر ہونا چاہئے۔ چنانچہ اس نے حصرت سلیمان علیہ السلام کو یروشلم میں عنقریب اپنے حاضر ہونے کی اطلاع بھیج دی۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا کے آپ کے ہاں آنے کی اطلاع مل گئی۔ تو آپ نے چاہا کہ ملکہ سبا کا وہی تخت، جس کے متعلق ہدہد نے کہا تھا کہ وہ بڑا عظیم الشان ہے اس کے آنے سے پہلے پہلے یہاں اپنے پاس منگوا لیا جائے۔ جن آپ کے تابع فرمان تھے اور وہ یہ کام کر بھی سکتے تھے اس سے حضرت سلیمان کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ کو کوئی ایسی نشانی بھی دکھلا دی جائے جس سے ملکہ پر پوری طرح واضح ہوجائے کہ وہ محض ایک دنیا دار فرمانروا نہیں۔ بلکہ اللہ نے انھیں بہت بڑی بڑی نعمتوں اور فضیلتوں سے نوازا ہے اور اسے یقین ہوجائے کہ آپ صرف ایک سلطنت کے فرمانروا ہی نہیں بلکہ اللہ کے نبی بھی ہیں۔
    آپ کے دربار میں انسان، جن اور پرند سب حاضر ہوتے تھے۔ آپ نے سب درباریوں کو مخاطب کرکے پوچھا: تم میں سے کون ہے جو ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے پہلے اس کا تخت یہاں اٹھا لائے؟ ایک بھاری قد و قامت والا جن بول اٹھا: آپ تو ملکہ کے آنے سے پہلے کی بات کرتے ہیں۔ میں اس تخت کو آپ کے یہ دربار برخواست کرنے سے پہلے پہلے یہاں اپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ مجھ میں ایسی طاقت بھی ہے۔ علاوہ ازیں میں اس تخت کے قیمتی جواہر ہیرے وغیرہ چراؤں بھی نہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ وہ تخت آپ کے پاس لا حاضر کروں گا۔
     
  15. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ابھی اس دیو ہیکل کی بات ختم نہ ہونے پائی تھی کہ دربار میں ایک اور شخص بول اٹھا کہ میں اس تخت کو کم سے کم وقت میں آپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ آپ اگر آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں پھر نگاہ نیچے لوٹائیں تو صرف اتنی مدت میں وہ تخت آپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔
    وہ شخص کون تھا؟ جن یاانسان؟ وہ کتاب کونسی تھی؟ ام الکتاب یعنی لوح محفوظ تھی یا قرآن تھا یا کوئی اور کتاب تھی؟ وہ علم تقدیر الٰہی کا علم تھا یا کسی اور قسم کا علم تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں سمجھنا انسان کی محدود عقل سے ماوراء ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ شخص آپ کا وزیر آصف بن پرخیا تھا۔ کتاب سے مراد کتب سماویٰ ہے۔ اور اسم اعظم ۔۔۔ یا اللہ کے اسماء اور کلام اللہ کی تاثیر سے واقف تھا لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ البتہ نتیجہ قرآن نے واضح طور پر بتلا دیا کہ وہ شخص اپنے دعویٰ میں بالکل سچا تھا۔ اور فی الواقعہ اس نے چشم زدن میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لاحاضر کیا تھا۔
    ایسے واقعات اگرچہ خرق عادت ہیں تاہم موجودہ علوم نے ایسی باتوں کو بہت حد تک قریب الفہم بنادیا ہے۔ مثلاً یہی زمین جس پر ہم آباد ہیں سورج کے گرد سال بھر چکر کاٹتی ہے اور اس کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ بنتی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس قدر عظیم الجثہ کرہ زمین برق رفتاری کے ساتھ چکر کاٹ رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ ایسی بات ہے کہ ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ اب اس زمین کی جسمات اور وزن کے مقابلہ میں ملکہ بلقیس کے تخت کی جسامت اور وزن دیکھئے اور مارب سے یروشلم کا صرف ڈیرھ ہزار میل فاصلہ ذہن میں لاکر غور فرمائے گا کہ اگر پہی بات ممکن ہے تو دوسری کیوں ممکن نہیں ہوسکتی۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص چشم زدن میں تخت لایا تھا تو وہاں بھی اللہ ہی کی قدرت کام کر رہی تھی۔ یہ اس شخص کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا۔ اور نہ ہی وہ تخت ظاہری اسباب کے ذریعہ وہاں لایا گیا تھا۔
    بلقیس جب حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچی تو اسے تخت دکھا کر پہلا سوال ہی یہ کیا گیا کہ کیا تمہارے پاس بھی ایسا تخت ہے؟ وہ بڑی عقلمند عورت تھی اس نے فوراً پہچان لیا کہ یہ تخت اسی کا ہے۔ البتہ اس میں کچھ تبدیلیاں کر لیگئی ہیں۔ لہذا اس نے جواب بی سوال کے مطابق دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو بالکل ویسا ہی لگتا ہے اگر اس سے یہ سوال کیا جاتا کہ کیا یہ تیرا تخت ہے۔ تب وہ یہ جواب دیتی کہ ہاں یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس امتحان سے حصرت سلیمان نے اس کے عقلمند ہونے کا اندازہ کرلیا۔
    اس سوال کے بعد جو بات سلیمان علیہ السلام اسے سمجھانا چاہتے تھے اس کا اس نے خود ہی اظہار کردیا اور کہنے لگی۔ یہ عرش کے یہاں لانے کا کام واقعی معجزانہ ہے جو آپ کی نبوت پر دلیل ہے۔ لیکن ہمیں تو اس سے پہلے ہی آپ کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہوچکی ہیں۔ اور آپ کے تابع فرمان بن کر ہی یہاں آئے ہیں۔
    یہ بلقیس کی عقل کا دوسرا امتحان تھا۔ حصرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے محل کا صحن کچھ انداز سے بنوایا تھا جس کے اوپر شیشہ جڑا ہوا تھا۔ لیکن جب کوئی شخص محل میں داخل ہوتا تو اس کا زاویہ نگاہ ایسا ہوتا تھا کہ اسے وہ صحن ایک گہرا پانی کا حوض معلوم ہوتا تھا۔ جس میں پانی لہریں مار رہا ہو۔ اور اس کی کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے کسی دور سے دیکھنے والے کو ریت کا تودہ یا سراب ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی نظر آتا ہے۔ آپ نے بلقیس سے فرمایا کہ چلو اب محل میں چلیں۔ بلقیس نے جب صحن کا یہ نظارا دیکھا۔ تو اسے پانی کا گہرا حوض سمجھ کر اپنی پنڈلیوں سے اپنے پائنچے اٹھا لئے۔ تب سلیمان علیہ السلام نے اسے بتلایا کہ پائنچے اوپر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ پانی کا حوض نہیں بلکہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔ گویا وہ اس امتحان میں دھوکا کھا گئی۔
    یعنی جس طرح میں نے شیشہ کے صحن کو پانی کا لہریں مارنے والا گہرا حوض سمجھ کر غلطی کھائی ہے۔ اسی طرح میں اور میری قوم سورج کی چمک اور دمک دیکھ کر اسے معبود سمجھنے لگے تو یہ بھی ہماری فاش غلطی اور اپنے آپ پر ظلم تھا۔
    بلقیس جو اللہ رب العالمین پر ایمان لائی تو یہ علی وجہ البصرت تھا۔ کئی واقعات پہلے ایسے گزر چکے تھے۔ جن سے اسے یہ یقین ہوتا جارہا تھا کہ سلیمان علیہ السلام واقعی حق پر ہیں اور اللہ کے نبی ہیں اور اس کے مذہب کی بنیاد باطل پر ہے۔ سب سے پہلے تو اس نے خط کے مضمون سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس قسم کا خط بھیجنے والا کوئی عام فرمانروا نہیں ہوسکتا۔ پھر جس نامہ بر کے ذریعہ اسے یہ خط پہنچا تھا وہ بھی ایک غیر معمولی بات تھی۔ اور تحائف کی واپسی سے بھی اس نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کوئی دنیا دار فرمانروا نہیں نیز یہ کہ وہ کبھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے گی۔ پھر تحائف لانے والے وفد نے جو عظیم فرمانروا کے منکسرانہ مزاج اور پاکیزہ سیرت کے حالات بیان کئے تھے تو ان باتوں سے بھی وہ شدید متاثر ہوچکی تھی۔ پھر جب وہ حضرت سلیمان کے پاس پہنچی تو جس تخت کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئی تھی اسے اپنے سامنے پڑا دیکھ کر وہ حضرت سلیمان کی نبوت کی دل سے قائل ہوچکی تھی۔ اب محل میں داخلہ کے وقت جس چیز نے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ چیز تھی کہ اتنا بڑا فرمانروا جس کے پاس اس سے کئی گناہ زیادہ مال و دولت اور عیش و عشرت کے سامان موجود ہیں وہ اس قدر اللہ کا شکر گزار اور منکسرالمزاج اور متواضع بھی ہوسکتا ہے۔ ان سب باتوں نے مل کر اسے مجبور کردیا کہ وہ حضرت سلیمان کے سامنے اب برملا اپنے ایمان لانے کا اعلان کردے۔
    تذکیری و اخلاقی پہلو
    ۱۔شکر گذاری
    حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کی اتنی عنایت اور نعمتیں پاکر مغرور نہیں ہوئے بلکہ آپ نے شکر گذاری کا رویہ اختیار کیا۔قرآن میں متعدد مقامات پر یہ مضمون دہرایا گیا ہے کہ انسان کی دنیا میں آزمائش صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے یا ناشکرا بن کر رہتا ہے۔ نیز ایمان کی ضد بھی کفر ہے۔ اور شکر کی ضد بھی کفر ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان اور شکر کا آپس میں گہرا تعلق ہے ویسا ہی کفر اور ناشکری میں گہرا تعلق ہے۔ جو شخص جس قدر زیادہ مضبوط ایمان والا ہوگا اس قدر وہ اللہ کا شکرگزار بندہ ہوگا اور جو شخص جس درجے کا کافر ہوگا۔ اتنا ہی وہ ناشکرا ہوگا۔ حضرت سلیمان چونکہ اللہ کے نبی تھے اس لئے وہ جب کوئی اللہ کا انعام یا اس کا فضل دیکھتے تو فوراً اللہ کا شکر ادا کرنے میں مشغول ہوجاتے۔ اور یہ انبیاء اور ایمانداروں کا دستور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کافر پر جب اللہ تعالیٰ کوئی انعام فرماتا ہے تو شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی ۔۔۔ مزید سرکشی اور تکبر کی طرف مائل ہونے لگتی ہے اور وہ اترانے اور شیخیاں بگھارنے لگتا ہے۔
    ۲۔ عجز و انکساری کا صلہ
    ملکہ بلقیس کا رویہ خاصا عقلمندانہ تھا۔ اس نے پہلے تو خط ملنے کے بعد مشاورت کی اور مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی ۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے تحفے رد کرکے اسے اسلام قبول کرنے کی پیش کش کی تو اس نے حضرت سلیمان کی طاقت، حکمت اور بصارت کی بنا پر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔یہ اس کی عجز و انکساری کی برکت ہی تھی کہ وہ راہ راست پر آگئی وگرنہ عام طو رپر حکمران استکبار کی بنا پر حق قبول کرنے سے عام طور پر قاصر رہتے ہیں۔
    نوٹ: اس تحریر کا ترجمہ و تفصیل مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی تفسیر تسیر القرآن سے کاپی کی گئی ہے
     
  16. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    لیلیٰ مجنوں کا قصہ
    یہ ایک عربی داستان ہے۔اس کے کرداروں کو تاريخی طور پر ثابت مانا جاتا ھے۔ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی عاشق تھے ۔صدیوں تک اس میں بہت کچھ افسانہ طرازی کی گئی۔عربی سے فارسی میں اس کو پہلے پہل "رودکی" نے منتقل کیا۔اس کے بعد نظامی گنجوی نے اس کو فارسی میں لکھا۔اب تک ہزار سے زاہد مرتبہ اس داستان کو مختلف زبانوں میں، مختلف لوگ نثر و نظم میں لکھ چکے ہیں۔سب سے زیادہ مقبولیت و اہمیت نظامی گنجوی کی
    مجنوں کا اصل نام ، قیس ابن الملوح ابن مزاحم ہے۔مجنوں لغوی طور پر پاگل، دیوانے اور عاشق کو کہتے ہیں۔
    لیلیٰ کا نام لیلیٰ بنت مہدی ابن سعد بیان کیا جاتا ہے۔عربی و عبرانی میں لیلیٰ یا لیلہ رات کے لیے بولا جاتا ہے۔عربی میں لیلیٰ مجنوں کی بجائے مجنون لیلیٰ بولا جاتا ہے۔ ترکی میں ایک اسم صفت لیلیٰ کی طرح سے مراد محبت کی وجہ سے پاگل، جنونی کے لیے بولا جاتا ہے۔محققین نے لیلیٰ کے عربی لیلیٰ (رات) سے اس کے معنی سانولی رنگت بھی لیا ہے۔کئی مصنفین نے اپنے قصے میں لیلیٰ کو سانولی صورت والی بنا کر پیش کیا ہے۔ مشہور ہے کہ لیلیٰ کالی یعنی سیاہ رنگت والی تھی۔
    لیکن اگر لیلیٰ کو عربی النسل بیان کیا جاتا ہے تو اس طرح لیلیٰ کا کالا ہونا ایک خلاف واقعہ بات ہوگی۔
    بچپن میں قیس اور لیلیٰ دونوں اپنے قبیلے کی بکریاں چراتے تھے۔ وہ ساتھ بیٹھتے اور آپس میں باتیں کرتے۔ اس دوران انھیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی
    نظامی گنجوی کے قصے لیلیٰ مجنوں کے مطابق لیلیٰ اور مجنوں بچپن میں ایک ہی مدرسے میں پڑھنےجاتے تھے ان میں باہمی الفت پیدا ہوئی۔ مجنوں کی توجہ تعلیم کی بجائے لیلیٰ کی طرف رہتی، جس پر استاد سے اسے سزا ملتی، مگر استاد کی چھڑی مجنوں کے ہاتھوں پر پڑتی اور درد لیلیٰ کو ہوتا۔ استاد نے یہ بات لیلیٰ و مجنوں کے گھر والوں کو بتائی، جس پر لیلیٰ کے مدرسے جانے اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گی ایک دن پھر مجنوں کی نظر لیلیٰ پر پڑ گی، اور بچن کا عشق تازہ ہو گيا۔ مجنوں نے لیلیٰ کا ہاتھ مانگا، مگر لیلیٰ کے باپ نے انکار کردیا۔ لیلیٰ کا بھائی تبریزمجنوں کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ مکر مجنوں اس کو قتل کر دیتا ہے۔ جس پر مجنوں کوسرے عام محبت کا اظہارکرنے اورلیلی کے بھائی کو مارنے پر سنگسار کرنے کی سزا سنائی گئی۔ کچھ کہانیوں میں تبریز کے قتل کا قصہ نہیں ہے بلکہ، رشتہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد لیلیٰ کی شادی کسی دوسرے کے ساتھ کر دی جاتی ہے۔ جس پر قیس، پاگل سا ہوجاتا ہے۔
    جامعہ ازہر شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم المصری لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کی شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین نے خیال ظاہر کیا ہے۔ یہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے جو عرب کے نجد کے علاقے میں رونما ہوا اور لازوال بن گیا۔
    مجنوں ایک مالدار نجدی قبیلے بنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہ ایک گوراچٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا۔ شاعر تھا
    قیس نے لیلی کے اوپر شاعری کرتے ھوے ایک جگہ لکھا ھے۔
    ترجمہ۔ ’’وہ ایک چاند ہے جو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے، وہ نہایت حسین ہے۔ اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت نہیں۔
    قیس کے والدیں اپنے خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئے اور لیلیٰ کا رشتہ مانگا۔ لیلیٰ کے ماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا اور انھوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا اس دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا، لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا۔ لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔
    قیس اس قدر مضطرب ھوا کہ وہ بیمار ہو گیا۔ اس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نگل گیا تھا کہ واپسی ممکن نہ تھی۔ رفتہ رفتہ قیس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ لوگوں نے قیس کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اسے مکہ لے جائے اور بیت اللہ کی پناہ میں دعا مانگے۔ قیس کا باپ الملوح اسے لے کر مکہ گیا اور حرم شریف میں اس سے کہا کہ غلاف کعبہ سے لپٹ کر لیلیٰ اور اس کی محبت سے نجات کی دعا مانگے۔ اس کے جواب میں جب قیس نے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ! مجھے لیلیٰ اور اس کی قربت عطا فرما تو الملوح قیس کو واپس لے آئے۔
    راستے میں اس نے ایک جگہ پہاڑی پر اپنے آپ کو گرانے کی بھی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔اپنے قبیلے میں واپس پہنچ کر قیس کا باپ ایک بار پھر لیلیٰ کے باپ کے پاس گیا تا کہ اسے لیلیٰ کی اپنے بیٹے سے شادی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے، مگر پھر انکار ھو گیا۔
    لیلیٰ کی شادی اس دوسرے لڑکے سے کر دی گئی جس کا پیام آیا تھا۔ لیلیٰ خود بھی قیس کی محبت میں گرفتار تھی مگر خاندان کی نیک نامی اور والدین کی اطاعت سے مجبور تھی۔ قیس کو یہ معلوم ہوا کہ لیلیٰ کی شادی ہو گئی ہے تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ اپنے وجود کو بھول گیا۔ گوشہ نشین ہو گیا اور پھر ایک دن صحرا میں نکل گیا۔ لیلیٰ کو آوازیں دیتا، پہاڑوں، درختوں، جنگلی جانوروں سے پوچھتا لیلیٰ کہاں ہے۔اسی حال میں ایک دن اس کی نظر ایک ہرنی پر پڑی۔ وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔اس کے گھر والے صحرا میں اسے ڈھونڈتے رہے۔چوتھے دن وہ انھیں ایک پتھریلی وادی میں ریت پر مردہ پڑا ملا--روایات کے مطابق لیلیٰ بھی شاعرہ تھی اور یہی چیز ہے جس نے اس محبت بھرے قصے کو ایک المیہ بنا دیا جس کے لیے دل اور آنکھیں روتے ھیں۔
    یہ ممکن تھا کہ یہ محبت شادی کے ذریعے ان کے اجتماع پر منتج ہوتی اور خوشیوں بھری زندگی انھیں حاصل ہوتی۔ مگر تقدیر کے آگے تدبیر کا کہاں بس چلتا ھے۔
    انسانی عشق کا یہ قصہ عشق الٰہی تک پہنچانے کا ذریعہ بن گیاامیر خسرو نے اس واقعہ کہ 1299ع میں کتابی شکل دی اور جامی نے 1484ع میں لیلی مجنوں پر 3860 صفحوں کی کتاب لکھی۔ شیرازی جیسے بڑے فارسی شاعر نے اس قصے کو 1520ع میں لکھا۔
    بلھے شاہؒ فرماتے ھیں۔
    کیتا سوال میاں مجنوں نوں
    تیری لیلا رنگ دی کالی اے
    دتا جواب میاں مجنوں نے
    تیری انکھ نہ ویکھن والی اے
    قرآن پاک دے ورق چٹے
    اتے لکھی سیاہی کالی اے
    چھڈ وے بلھیا دل دے چھڈیا
    تے کی گوری تے کی کالی اے
    خلاصہ ترجمہ۔ کسی نے مجنوں سے کہا تیری لیلی تو رنگ کی کالی ھے۔ مجنوں نے جواب دیا۔ تیری آنکھ دیکھنے والی نھیں۔ قران پاک کے سفید کاغذوں پہ کالی سیاھی سے لکھا ھوا ھے۔ دل کے سودے میں کالی اور گوری کوی معنی نھیں رکھتے
     
  17. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ ﺑﺴﻄﺎﻣﯽ ﮐﮯ ﭘﮍﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔
    ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺁﭘﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺗﯽ ﺭﮨﯽ۔
    ﺁﭖ ﻧﮯ ﺻﺒﺢ ﺍﺱ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮐﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﯼ۔ ﺍﻧﺪﺭ ﻣﺮﺩ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺩ ﻧﮩﯿﮟ
    ﮨﮯ۔
    ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ ﺑﺴﻄﺎﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯽ۔ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ
    ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺌﯽ ﻣﺎﮦ ﺳﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻋﺮﺻﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﮞ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺑﭽﮧ ﺭﻭﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﻞ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﭘﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺎﺝ ﺭﮐﮫ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﮔﺰﺭ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔
    ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯽ ﮨﺮﭼﯿﺰ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕﮐﻮ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺷﺎﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﺟﺴﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪﺑﺴﻄﺎﻣﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮑﺎﺭﺗﯽ ﮨﮯ
    ۔ ﮨﺎﺗھ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻞ ﮐﯽ ﮐﭙﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺌﯽ ﺭﻭﺯ ﺗﮏ ﺁﭖ ”ﺑﮯ ﺳﮩﺎﺭﺍﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ
    ﺿﺮﻭﺭﯼ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎﻣﮑﺎﻥ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﻣﯿﮟﻧﮧ ﮈﻭﺏ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﮮ۔ﮐﭽﮫ ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﻔﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺮﯾﮧ
    ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ ﺑﺴﻄﺎﻣﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ۔ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺋﯽ
    ﺷﮑﺮﯾﮧ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﻓﺮﺽ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﯿﺎﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺨﺖ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﻭﺳﯽ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺣﻘﻮﻕ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽﺣﻀﻮﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﻣﯿﮟ
    ﭼﮭﭙﺎﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺁﻗﺎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺩﻭ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﺎ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎﺩﻭ ﺟﺲﮐﯽ ﻏﻼﻣﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ
    ﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻨﺪ ﻣﺮﺗﺒﮯ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﺍﺱ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺮﻟﯿﺎ۔
     
  18. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    بادشاہ نے بہت ہی عالیشان محل تعمیر کیا جو دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا محل نہیں تھا جنت کا ٹُکڑا تھا
    غرضیکہ جو بھی آتا دیکھتا اور ششدر رہ جاتا مگر بادشاہ نے عجیب شرط رکھ دی جو شخص محل کو ایک متعین وقت میں دیکھے گا پورا محل اُسے دے دیا جائے گا لیکن جو شخص اُس متعین وقت میں نہیں دیکھ پائے گا اُس کا سر قلم کردیا جائے گا
    بہت سارے سر پھرے نوجوان منع کرنے کے باوجود جان گنوا بیٹھے جو بھی جاتا پورا کیا آدھامحل بھی نہ دیکھ پاتا کے وقت پورا ہوجاتا اور اجل کا پیغام لیکر ہی آتا اس بات کا شہرہ بہت دُور تک پہنچ گیا ایک نوجوان دیہاتی کے کانوں تک بھی یہ خبر اُڑتی اُڑتی پہنچ گئی نوجوان نے جب پوری بات سُنی تصدیق کی اور بادشاہ کے محل پہنچ گیا درباری وزیروں مشیروں اور جلادوں نے بھی منع کیا مگر وہ دُھن کا پکا نکلا اجازت لی اور متعین وقت دیدیا گیا نوجوان محل میں پہنچا دیا گیا نوجوان نے ایک سرے لیکر دوسرے سرے تک در و دیوار کمرے راہداریاں فانوس قمقمے قالین صوفے تالاب حوض باغ پگڈنڈیاں الغرض ایک ایک چیز کڑے پہرے میں دیکھ لی اور وقت ختم ہونے سے پہلے بادشاہ کے روبرو پیش کردیا گیا بادشاہ اور تمام درباری گویا سناٹے میں آگئے بادشاہ نے کہا نوجوان میں اپنی شرط پر قائم ہوں محل اب تیرا ہے مگر یہ بات سمجھ نہیں آئی وقت ختم ہونے سے پہلے طے شدہ وقت میں اتنا خوبصورت جسکے درودیوار کیاریاں باغات حوض تالاب کمرے رہائشیں اتنی خوبصورت ہیں تم سے پہلے جو گیا کوئی باغ مین پہنچ کر باغ کے خوبصورتی میں کھو گیا کوئی کیاریاں کوئی قمقے کوئی درودیوار کے نقش ونگار میں کھوگیا اور وقت ختم کردیا اور جان گنوا بیٹھا تم نے پورا وقت بھی نہیں لگایا اور محل بھی دیکھ لیا نوجوان نے بادشاہ کی بات سُن کر بھرپور قہقہ لگایا اور کہا بادشاہ سلامت مجھ سے پہلے جتنے لوگ بھی محل دیکھنے آئے سب کے سب پرلے درجے کے بے وقوف تھے جو محل کی خوبصورتی میں کھو گئے اور جانیں گنواتے رہے بادشاہ سلامت محل کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی میں نے اپنی آنکھیں نیم وا کرلی تھیں اور پورا محل آنکھیں بند کر کے دیکھ آیا میں اتنا بے وقوف نہیں جو محل کی خوبصورتی میں کھو کر اپنی جان گنوا دیتا بادشاہ سلامت اب محل میری ملکیت ہے میں اُسے جی بھر کر دیکھتا رہونگا

    دوستو " وہ محل دُنیا ہے بادشاہ وہ کریم ذات ہے اور محل کے خوبصورتی میں کھو جانے والے ہم انسان ہیں اور نیم وا آنکھ والے وہ دانا اور کامیاب انسان ہیں جو اس دُنیا کی خوبصورتی میں کھو نہیں جاتے بلکہ بامقصد زندگی گزار کر اللہ کے حضور پہنچ جاتے ہیں.
     
  19. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ایک نیک آدمی شادی کے بعد بیوی کو لے کر اپنے گھر لوٹ رھا تھا۔ راستے میں سمندر عبور کرنا پڑتا تھا۔ آدمی نے ایک کشتی کا انتظام کیا اور وہ دونوں سمندر عبور کرنے لگے۔ کشتی بیچ سمندر پہنچی ہی تھی کی سمندر میں طوفان آ گیا۔
    اس صورتحال میں بیوی کا خوف سے برا حال ھو گیا لیکن آدمی ایسے اطمینان سے بیٹھا رھا جیسے کچھ غیرمعمولی نہیں ہو رہا۔
    یہ دیکھ کر بیوی کو حیرت ہوئی وہ غصے سے چلا اٹھی۔
    آپکو نظر نہیں آ رہا۔ طوفان کشتی کو ڈبونے لگا ہے۔ ہماری موت سر پر ہے اور آپ اطمینان سے بیٹھے ہیں۔
    یہ سنتے ہی خاوند نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور بیوی کی شہ رگ پر رکھ دی۔
    بیوی ہنس پڑی اور بولی یہ کیسا مذاق ہے؟
    خاوند نے پوچھا کیا آپ ابھی موت سے خوفزدہ نہیں ہو رہی۔ کیا آپ کو نہیں لگ رہا کہ میں آپکا گلا کاٹ دوں گا۔
    یہ سن کر بیوی بولی مجھے آپ پر اور آپکی محبت پر اعتماد ہے۔ مجھے پتا ہے آپ مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور یہ تلوار آپ کے ہاتھ میں ہے تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
    یہ سن کر خاوند بولا جیسے آپکو میری محبت پر اعتماد ویسے ہی مجھے اللہ کی محبت پر یقین ہے اور یہ طوفان بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو اسے روک لے چاہے تو ہماری کشتی ڈبو کر بھی ہمیں بچا لے۔
    یاد رکھو اللہ جو بھی فیصلہ کرے وہ ہمارے حق میں بہترین ہوتا ہے۔​
     
  20. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ابو حفص کی ابتدائے توبہ کا واقعہ بڑا عجیب ہے
    .
    عالم شباب میں ایک لونڈی پر آپ فریفتہ ہو گئے - ہر چند منانے کی تدبیریں کیں مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی -
    .
    لوگوں نے بتایا کہ نیشا پور میں ایک یہودی رہتا ہے جو سحر و عمل کے ذریعہ اس کام کو آسان کر سکتا ہے ابو حفص اس کے پاس گئے اور اپنا حال بیان کیا -
    یہودی نے کہا ،
    .
    اے ابو حفص ! " تمھیں چالیس دن نماز چھوڑنا ہوگی اور اس اثناء میں نہ تو زبان دل پر خدا کا نام لانا ہوگا اور نہ نیکی کا کوئی کام - "
    اگر اس پر راضی ہو تو میں جنتر منتر پڑھتا ہوں تاکہ تمہاری مراد بر آئے -
    حضرت ابو حفص نے یہودی کی یہ شرط مان لی ، اور چالیس دن اس طرح گزار لیے -
    یہودی نے اپنا سحر و عمل کیا مگر اُن کی مراد بر نہ آئی -
    یہودی کہنے لگا ! غالباً تم نے شرط پوری نہیں کی ضرور تم سے کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے اور نیکی کا کوئی کام کیا ہے - ذرا سوچ کر بتاؤ ؟
    ابو حفص نے کہا ! میں نے نہ کوئی نیکی کی اور نہ ظاہر اور باطن میں کوئی عمل خیر کیا - البتہ ایک دن میں نے راستے میں پتھر پڑا دیکھا اس خیال سے اُسے پاؤں سے ہٹا دیا کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے -
    اس پر یہودی کہنے لگا ! " افسوس ہے تم پر کہ تم نے چالیس دن تک اُس کے حکم کی نافرمانی کی اور اُسے فراموش کیے رکھا - لیکن خدا نے تیرے ایک عمل کو بھی ضائع نہیں جانے دیا -"
    یہ سن کر ابو حفص رحمتہ علیہ نے صدق دل سے توبہ کی اور وہ یہودی بھی اسی وقت مسلمان ہوگیا -
    ~کشف المحجوب​
     
  21. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت سری سقطیؒ نے ایک شرابی کو دیکھا جو مدہوش زمین پر گرا ہوا تھا
    .
    اور اپنے شراب آلودہ منہ سے ﷲ ﷲ کہہ رہا تھا۔ حضرت سری سقطیؒ نے وہیں بیٹھ کر اس کا منہ پانی سے دھویا
    .
    اور فرمایا:’’اس بے خبر کو کیا خبر؟ کہ کس منہ سے کس پاک ذات کا نام لے رہا ہے۔‘‘ اس کا منہ دھو کر آپ چلے گئے
    ۔ جب شرابی کو ہوش آیا تو لوگوں نے اسے بتایا: ’’تمہاری بے ہوشی کے عالم میں حضرت سری سقطیؒ یہاں آئے تھے اور تمہارا منہ دھو کر گئے ہیں۔‘‘
    شرابی یہ سُن کر بڑا پشیمان اور نادم ہوا اور رونے لگا، اپنے نفس کو مخاطب کر کے بولا:’’ بے شرم! اب تو سری سقطیؒ بھی تجھے اس حال میں دیکھ گئے ہیں، ﷲ عزوجل سے ڈر اور آئندہ کے لیے توبہ کر۔‘‘
    رات کو حضرت سری سقطیؒ نے خواب میں کسی کہنے والے کو یہ کہتے سنا۔ ’’اے سریؒ! تم نے شرابی کا ہماری خاطر منہ دھویا۔ ہم نے تمہاری خاطر اس کا دل دھو دیا۔ ‘‘
    حضرت سری سقطیؒ تہجد کے وقت مسجد میں گئے تو اس شرابی کو تہجد پڑھتے ہوئے پایا۔ آپؒ نے اس سے پوچھا:’’ تم میں یہ انقلاب کیسے آ گیا؟‘‘ وہ بولا: ’’آپ مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں، جب کہ ﷲ عزوجل نے آپ کو بتا دیا ہے​
     
  22. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    قبول اسلام سے قبل مکے میں کوئی شخص مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے زیادہ حسین و خوش پوشاک اور نازو سے نعمت سے نہیں پلا تھا۔.

    ان کے والدین کو ان سے شدید محبت تھی، خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے اپنے مال ودولت کے بل بوتے پر اپنے جگر گوشے کو بہت ناز و نعم سے پالا تھا۔ وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے عمدہ سے عمدہ پوشاک پہنتے اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے وہ جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے،
    .
    جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی۔
    لیکن جب ان کے مشرف بہ اسلام ہونے کی خبر ان کی والدہ اور ان کے اہلِ خاندان کو ہوئی۔ توپھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت نفرت میں بدل گئی،
    .
    سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ’’مجرم توحید‘‘ کو مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا۔ اہل خاندان کے ظلم وستم سے تنگ آکر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم پر پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی ، اور پھر مدینہ کی فضا نے وہ منظر بھی دیکھا کہ قیمتی پوشاکیں پہننے والا ایک چھوٹی سی بوسیدہ چادر سے جسم ڈھانپے پھر رہا ہے
    .
    احد کے میدان میں جب داد شجاعت دینے کی باری آئی تو ایک بار پھر علم جہاد آپ ہی کے ہاتھ میں تھا۔ اور اس علم کو اس انداز میں سربلند رکھا کہ جب مشرکین کے ایک شہسوار ابن قمیۂ نےتلوار کے وار سےآپ کا داہنا ہاتھ شہید کر دیا تو فوراً بائیں ہاتھ میں علم کو پکڑ لیا۔
    .
    اور پھر جب بایاں ہاتھ کٹ گیا تو دونوں بازوؤں کا حلقہ بنا کر پرچم کو تھام لیا اور اسے سرنگوں نہ ہونے دیا اور جب دشمن کے نیزے کے وار سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جامِ شہادت نوش کیا تو آپ کی بھائی نے جھنڈا سنبھال لیا
    وہی مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ آج اس حال میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہے تھے کہ ان کے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر تھی۔ سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے، پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر ننگا ہو جاتا بالآخر اس حال میں دفن ہوئے کہ سر ڈھانپ دیا گیا اور پاؤں پر گھاس پھونس ڈال دی گئی۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی لاش کے قریب تشریف لائےاور یہ آیت تلاوت فرمائی:۔
    مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ
    (اہل ایمان میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا)
    پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا۔ لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے۔ بے شک اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں کامیاب رہو گے​
     
  23. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    دنیا مکافات عمل ہے اور ہم جو برا کسی کے ساتھ کرتے ہیں وہ کل ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ھے
    اس کہانی کو پڑھئے اور اپنا محاسبہ کیجئے کہ کہیں شیطان کے بہکاوے میں آکر آپ بھی اسی طرح کی كوى غلطی تو نہیں کر رہے؟
    وہ ہمیشہ سے بہت لا ابالی تھا۔ ہر بات میں شغل کا کوئی پہلو نکال ہی لیتا تھا۔ کبھی کسی بات کو سنجیدہ ہی نہیں لیا۔کھیل، ٹی وی، ورزش دوستوں کے ساتھ تفریح اور موبائل پر ایس ایم ایس، یہ تھی اسکی زندگی۔جب دیکھو موبائل پر واہیات ایس ایم ایس ہوتے اور لڑکیوں کے نمبر۔
    اسکی بہن جو اسی کالج میں تھی، اسکے فون سے سارے نمبر چراتا رہتا تھا اور سارا دن اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر ان لڑکیوں کو تنگ کرتا رہتا تھا۔کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ وہ بھی تو کسی کی بہنیں ہیں۔ دوستوں کے ساتھ شرطیں لگاکر لڑکیوں کا جینا حرام کر دیتا کہ وہ کئی کئی دن گھر سے نکلنا ہی بند کر دیتیں۔جب بھی کسی نے سمجھانے کی کوشش کی تو ایک ہی جواب،"دو دن کی زندگی ہے، اسے بوریت میں گزار دوں کیا؟ ذرا سا انجوائے کرنے میں کیا جاتا ہے"
    ایک دن اچانک بہن بیمار ہو گئی، اچانک ہی جانے کیا ہوا کہ بستر ہی پکڑ لیا،ایک ڈاکٹر سے دوسرا مگر کسی کو مرض سمجھ ہی نہ آیا۔اسے بہن بہت پیاری تھی۔ ایک ہی تو بہن تھی اسکی۔ پہلی بار اسے پتہ چلا کہ پریشانی بھی کوئی شے ہے۔اس کے بغیر کالج جانا پڑتا تھا مگر وہاں دوست اسے پھر سے ہنسی مذاق میں مشغول کر دیتے۔گھر آتا تو سوچ میں پڑ جاتا کہ کیا مسئلہ ہے جو اسکی ہنستی کھیلتی بہن یوں بستر سے آلگی ہے۔وہ سوچتا ہی رہ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ختم ہو گئی۔ اسکے دماغ کی رگ پھٹ گئی تھی۔ کوئی کچھ نہ کر سکا۔
    بہن کے بعد وہ بجھ سا گیا۔ سارا دن کمرے میں بند نہ کالج نہ دوست۔بہن کے کمرے میں جاکر اسے یاد کرتا رہتا۔ ایک دن اسکا موبائل دیکھا تو یونہی میسیج باکس کھول کر دیکھنے لگا۔ ایک پیغام پر نظر رک گئی۔ ایک اجنبی نمبر سے کوئی واہیات عشقیہ پیغام تھا۔ تجسس میں اس نمبر سے آئے پیغام پڑھتا گیا جو سب ایک سے بڑھ کر ایک بیہودہ تھے اور ہر ایک میں ایک ہی گلہ کہ جواب کیوں نہیں دیتیں اور جگہ بتاؤں گا، آکر ملو ورنہ تمھارے گھر آجاؤں گا۔ بہن کے نام آنے والی دھمکیاں پڑھ کراسکی رگیں پھٹنے والی تھیں۔ اسکا خون کھول رہا تھا۔اب وہ سمجھا کہ اس ذہنی اذیت نے اسے بستر پر لا پھینکا تھا۔
    اور پھر وہ آخری پیغام جو اسکی موت کے دن موصول ہوا تھا۔ "میں تمہارے بھائی کا دوست تھا۔اسکے فون سے تمہارا نمبر لیا تھا۔ وہ دوسروں کی بہنوں پر شرطیں لگاتا رہا ہے تو اسکی بہن پر بھی تو کسی کا حق ہونا چاہئے تھا۔ میں نے حساب چکا دیا اس ذہنی اذیت کا جو اس نے میری بہن کو دی۔کیونکہ تم بیمار ہو اس لئے میں اب تمہیں آزاد کرتا ہوں"
    اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ وہ پیغام پڑھا اور اسکے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا۔سوائے پچھتانے کے اس کے پاس کچھ نہ بچا تھا، وہ اپنی ہی نظروں میں خود گرگیا تھا،​
     
  24. علقمہ ریاض
    آف لائن

    علقمہ ریاض ممبر

    شمولیت:
    ‏13 اپریل 2017
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ
     
    حنا شیخ نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟
    عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔
    اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟
    گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
    عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔
    اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
    عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟
    اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔
    عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟
    اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
    عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔ ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔
    نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛ جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔
    یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟
    آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟
    نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟
    آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔
    نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟
    آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟
    نوجوان نے کہا: ہم نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے اور جا۔
    آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟
    نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
    آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟
    نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دیدے۔
    اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟
    نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔
    اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟
    نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم۔
    آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔
    نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔
    آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔
    نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دے۔
    اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟
    نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!
    آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔
    نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ تجھے ظلم لگ رہا ہے۔
    اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔
    اور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کیلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔ اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔








     
  26. علقمہ ریاض
    آف لائن

    علقمہ ریاض ممبر

    شمولیت:
    ‏13 اپریل 2017
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    *----کیا ہماری بہنیں محفوظ ہیں---؟*
    *-------ایک جھنجوڑ دینے والا واقعہ---------*
    *____کامران غنی صبا، پٹنہ______*

    گزشتہ روز بس سے اسکول جاتے ہوئے میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی۔اس ملاقات نے مجھے اندر تک جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ میرے ہاتھ میں اردو کا اخبار تھا۔ نوجوان نے مسکراتے ہوئے مجھ سے اخبار طلب کیا۔ ’’معاف کیجیے گا، میرے پاس اردو کا اخبار ہے۔‘‘ میرے جواب پر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ’ کوئی بات نہیں میں تھوڑی بہت اردو پڑھ لیتا ہوں۔‘مجھے لگا شاید یہ نوجوان مسلمان ہے، کیوں کہ بہت سارے مسلم نوجوان بھی اچھی طرح اردو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ اس سے پہلے کہ مزیدمیں اس سے کچھ دریافت کرتا اُس نے خود ہی کہنا شروع کیا ’’ میری گرل فرنڈ مسلمان ہے اور اُس نے ہی مجھے اردو لکھنا پڑھنا سکھایا ہے۔‘‘مجھے اس کی بات پر زیادہ حیرانی نہیں ہوئی البتہ میں نے مزید وضاحت کے لیے براہ راست بات کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔’’آپ ہندو ہیں؟‘‘ میرے اس سوال پر وہ تھوڑی دیر تک مسکراتا رہا پھر کہنے لگا کہ میں خاندانی طور پر ہندو اور نظریاتی طور پر ’ناستک‘ (ملحد) ہوں، البتہ اب مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔
    ’’آپ اپنی مرضی سے مسلمان ہونا چاہتے ہیں یا آپ کی گرل فرنڈ کا حکم ہے۔‘‘
    ’’نہیں۔۔ اُس نے ایسا کبھی نہیں کہا ،ہاں مجھے اسلام کے بارے میں بتاتی ضرور ہے، لیکن شاید وہ خود بھی اپنے مذہب کے بارے میں بہت کم ہی جانتی ہے۔‘
    اب وہ نوجوان خود ہی اپنے بارے میں تفصیل سے بتانے لگا۔ اس نے بتایا کہ وہ ’کانپور‘ کا رہنے والا ہے اور اپنے کسی دوست کی شادی میں بہار آیا ہوا ہے۔ نوجوان بہت زیادہ پڑھا لکھا نہیں لگ رہا تھا لیکن اُس کی باتوں میں سنجیدگی اور ٹھہرائو تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اسلام کے متعلق جاننا چاہتا ہے لیکن اس خوف سے اپنی خواہش کا برملا اظہار نہیں کرتا کہ اس کے گھر والے اور سماج کے لوگ اسے جینے نہیں دیں گے۔ اس نے بتایا کہ اترپردیش کا ماحول بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ ہندوتنظیموں کا اثر و رسوخ دن بدن بڑھتا جا رہاہے۔ نئی حکومت بننے کے قبل سے ہی ہندو تنظیموں خاص طور سے ’’بجرنگ دل‘‘ اور ’’ہندو یووا واہنی‘‘ کے کام کرنے کے طریقوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اُس نوجوان نے بتایا کہ ہندو تنظیموں کی پوری کوشش مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کو ان کے دین سے بدظن کرنا ہے۔ اس کے لیے ان تنظیموں نے بہت ہی مضبوط لائحۂ عمل بنایا ہے۔ شادی شدہ عورتوں کو ’طلاق‘، ’گھریلو مظالم‘ اور آزادی کے نام پر ورغلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلمان عورتوں سے پیسے دے کر، نقاب پہنا کر اسلام مخالف بیانات رکارڈ کروائے جا رہے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کیا جا رہا ہے۔مسلم لڑکیوں کو ورغلانے کے لیے بہت ہی خطرناک منصوبے کے تحت کام ہو رہا ہے۔ اس کے لیے باضابطہ نوجوان لڑکوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ انہیں خاص طور سے اردو زبان سکھائی جاتی ہے۔ لڑکیوں کے اندر جلد متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ لہذا جب وہ غیر مسلم لڑکوں کی زبان سے اردو زبان کے الفاظ اور اشعار سنتی ہیں تو فطری طور پر متاثر ہوتی ہیں اور یہیں سے ان کی بربادی کی داستان شروع ہو جاتی ہے۔ نوجوان نے بتایا کہ ہندو تنظیموں کی جانب سے ایک مسلمان لڑکی کو گمراہ کرنے کے عوض دو لاکھ روپے کی پیش کش کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی جاتی ہے کہ چھ مہینے سے سال بھر کے اندر اندر لڑکی کو اس حالت میں لا کھڑا کرنا ہے کہ وہ یا تو خود کشی کر لے یا سماج میں منھ دکھانے کے لائق بھی نہ رہے۔
    نوجوان کی باتوں نے مجھے اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے اپنے حوصلے کو جمع کرتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اُس سے سوال کیا کہ ’’ آپ کے پاس ایک اچھا موقع ہے، آپ دو لاکھ روپے کی پیش کش کیوں ٹھکرا رہے ہیں؟‘‘ ۔ میرے اس سوال پر وہ انتہائی سنجیدہ ہو گیا، کہنے لگا۔ ’’بھائی جان! ظلم ہندو کرے یا مسلمان، ظلم ظلم ہی ہوتا ہے ،اوپر والا ظلم کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتا۔‘‘
    نوجوان کی منزل آ چکی تھی۔ وہ آداب، سلام اور مصافحہ کر کے بس سے اتر چکا تھا۔ اس کے جانے کے بعد میں سوچتا رہا کہ کیا اِن منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے پاس بھی کوئی منصوبہ ہے؟ کیا ہماری بہنوں کے اندر وہ قوت ایمانی ہے کہ وہ ان ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں؟کیا مسلم لڑکیوں کی تربیت کا ہمارے پاس ایسا کوئی انتظام ہے کہ کوئی انہیں گمراہ نہ کر سکے؟مجھے نہیں معلوم کہ جس نوجوان سے میری ملاقات ہوئی اس کی باتوں میں کتنی سچائی تھی، ممکن ہے وہ خود بھی ’کسی منصوبہ‘ کے تحت کام کرتا ہو لیکن اُس کی باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا گھر سے باہر اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں ہماری بہنیں محفوظ ہیں؟
    ------------------------------------------------------
    *برائے کرم اس تحریر کو اپنی مسلم بہنوں کو ضرور فارورڈ کریں*
     
    حنا شیخ 2 اور حنا شیخ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    بات میں دم تو ہے ،، مطلب کے ایسا ہو سکھتا ہے ،،
     
  28. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی بڑی تلخ مزاج تھی۔
    ایک شخص خراسان سے شاہ صاحب سے بیعت ہونے کے لیے آیا
    اور گھر میں پوچھا کہ حضرت کہاں ہیں؟
    بیوی نے کہا ، ،،،،، واہ! شیخ کیا ہے میخ ہے وہ تو، وہ کوئی بزرگ وزرگ نہیں ہے،
    تم لوگ نہ جانے کن چکروں میں پھنس گئے ہو۔ حضرت حضرت کرتے ہو ،
    رات دن تو میں ان کے ساتھ رہتی ہوں، وہ تو بڑے ’’حضرت‘‘ہیں۔ ان سے ذرا ہوشیار رہنا یہ بڑے چکرباز ہیں۔۔۔۔!!!!
    اب وہ بیچارہ رونے لگا کہ یااﷲ!!!! ہزار میل دور سے بزرگ سمجھ کر آیا تھا ور یہ عورت اتنی شکایتیں کررہی ہے، ,
    اتنے میں محلہ والوں نے کہا '''''
    بے وقوف! بیوی کی سند مت لے، بیوی شاید ہی کسی کو سند دے
    یہ عورت بدتمیز ہے، ان کو بہت ستاتی ہے
    لیکن ان کا ظرف ہے کہ اس کو برداشت کررہے ہیں، اس کے ساتھ نباہ کررہے ہیں۔
    جاؤ! جنگل میں جاکر ان کی بزرگی دیکھو۔!!! جب وہ جنگل گیا تو دیکھا کہ
    شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اﷲ علیہ
    --- شیر پر بیٹھے-- لکڑی لادے چلے آرہے ہیں اور ہاتھ میں سانپ کا کوڑا ہے۔
    مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲعلیہ مثنوی میں اس قصہ کو بیان فرمارہے ہیں۔
    اب تو یہ حیران رہ گیا کہ یا اﷲ! بیوی تو شکایت کررہی تھی کہ بزرگ نہیں ہے اور اِدھر یہ کرامت۔
    تب شیخ نے فرمایا!!!----
    لگتا ہے تم میرے گھر سے آرہے ہو تبھی چہرہ اُتراہوا ہے، میری بیوی سے تم نے کوئی شکایت سنی ہو گی،
    اس کا خیال مت کرو،
    مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ---- کا شعر مثنوی کا ھے
    گر نہ صبرم می کشیدے بارِزن
    کے کشیدے شیرنر بے گارِ من----
    میں جو اس کے ساتھ نباہ کررہا ہوں اﷲ تعالیٰ نے اسی کی برکت سے یہ کرامت دی ہے کہ
    میں شیرِنر سے بے گار لے رہاہوں، یہ شیر میرے قبضے میں ہے، میں روزانہ اس پر لکڑی لاد کر لے جاتا ہوں اور
    سانپ کا کوڑا بھی اﷲ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے، مجھے آسمان سے آواز آئی تھی کہ
    تو نے جو میری کڑوی زبان والی بندی کی کشتی پار لگادی اس کے صدقہ میں تجھے اتنی بڑی کرامت دیتا ہوں۔۔
    - اگر میں اسے طلاق دیتا ہوں ---- تو میرے کسی اور مسلمان بھائی کو ستائے گی۔
    اس لیے اللہ تعالیٰ کی بندی سمجھ کر اس سے نباہ کررہا ہوں، میں اس کو بیوی کم سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی بندی زیادہ سمجھ کر اس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتا ہوں
    ----یہ کرامت----
    اس عورت کی تکلیفوں پر صبر کرنے سے اللہ نے مجھے دی ہے۔
    (منازل سلوک )ازڈاکٹر شاہد محمود چوہدری ​
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG] اماں کس کے گھر جائیں گی؟
    تینوں بیٹوں اور دونوں بیٹیوں کے چہرے پر ایکہی سوال تھا۔
    اور وہ سب کے سب گزشتہ ایک گھنٹے سے ہسپتال کے برآمدے میں ٹہل ٹہل کر اس سوال کا جواب سوچ رہے تھے
    میرا خیال ہے -------اظفربھائی سب سے بڑے ہیں ۔--------ان کا فرض ہے --------کہ اماں کو---------اپنے گھر لے جائیں صائمہ نے بڑی دیر کے بعد اٹکتے ہوے کہا
    اظفر نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو مسلسل تسبیع کے دانے رول رہی تھی۔ اور اماں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔
    ؛؛میں اپنے فرض سے انکار نہیں کرتالیکن تم سب جانتے ہو حرا سروس کرتی ہے اور اماں کیلئے اب فل ٹائم عورت کی ضرورت ہے میرا خیال ہےتم گھر رہتی ہو تم اماں کی دیکھ بھال اچھی طرح کر لو گی۔ خرچہ کی فکر نہ کرنا وہ میں دوں گا
    اظفر نے خرچے پر زور دے کر کہا میری تو بڑی خواہش ہے کہ اماں کی خدمت کروں مگر آپ تو جانتے ہوکہ میرے سسرال والے کس طرح کے ہیں اور میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتی کے میرے بھائیوں کو کو ہی برا کہے
    پھر؟---------- کچھ لمحوں کیلئے پھر سکوت چھاگیا۔
    میرا خیال ہے ظفر بھاہی -----کے پاس-------اماں زیادہ آرام سے --------رہ سکتی ہیں سائرہ نے بکلاتے ہوے منجھلے بھاہی کی طرف دیکھا۔
    میرا بھی یہ ہی خیال ہے اظفر نے فوراََ چھوٹی بہن کی تائید کی
    ظفر اور اسکی بیوی نے آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہا
    اصل میں --------اماں کا----- کبھی بھی -------- ہمارے گھر دل نہیں لگا وہ تو ہمارے گھر دو دن سے زیادہ رہتی ہی نہیں ۔
    بیماری میں تو انسان تنہائی سے گھبراتا ہے ۔
    شاہنہ نے شوہر کے کچھ کہنے سے قبل ہی صفائی پیش کر دی
    پھر --------- اب کیا ------ہوگا؟
    میری تو مجبوری ہے ------میریآمدنی بھی کم ہے----پھر میرے گھر میں تو بالکل جگہ نہیں اظہر نے کہا۔
    پھر-------پھر-------اماں کس کے گھر جائیں گی ؟
    سب مجبور تھے اور سوچوں میں غرق تھے۔
    آپ سب وارڈ نمبر 2 کی مریضہ کے رشتہ دار ہیں ؟
    ان سب نے گھبرا کر سر اٹھایا
    جی--------جی-------
    آپ کو وارڈ میں ڈاکٹر بلا رہے ہیں
    خدا خیر کرے
    وہ سب تیزی سے وارڈ میں داخل ہوے
    آئی ایم سوری شی از expired
    ڈاکٹر نے اظفر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا
    سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔سب کے چہروں پر ظاہری غم کے ساتھ ہی ایک کمینی سی مسرت کا عکس بھی تھا۔[​IMG]
    940834_10151365836765766_1562174049_n.jpg
     
  30. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    – ایک سبق آموز کہانی
    بہت عرصہ ہوا بغداد میں ایک نیک انسان احمد رہتا تھا احمد ایک سوداگر تھا۔ اور وہ اپنا تجارت کا سامان لے کر دوسرے شہروں میں جاتا تھا بغداد کے سب لوگ احمد کو جانتے تھے اس نے کبھی کسی سے دھوکہ نہیں کیا تھا کسی کو پریشان نہیں کیا تھا۔ اس لیے سب لوگ اس سے بہت خوش تھے۔ایک بار احمد نے تجارت کے لیے دوسرے شہر جانے کا ارادہ کیا اس نے تجارت کاسامان خریدااور سفر کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ سفر پر جانے سے ایک دن پہلے اس نے دیکھا کہ اس کے پاس ایک ہزار اشرفیاں ہیں ۔وہ ان اشرفیوں کو اپنے ساتھ تو لے جانہیں سکتا تھا اس لیے سوچنے لگا کہ ان اشرفیوں کوکہاں رکھے۔سوچتے سوچتے اسے خیال آیا کہ وہ ان اشرفیوں کو ایک تھیلی میں ڈال کر یوسف سنار کے پاس امانت کے طور پر رکھوا دیتا ہے یوسف سنار بھی ایک نیک انسان تھا۔
    اس نے سرخ رنگ کے کپڑے کی تھیلی لی۔ اس میں اشرفیوں کو ڈال کر تھیلی کو گرہ لگا کر باندھ دیا اور یوسف سنار کے پاس جاپہنچا اور بولا”یوسف بھائی چند دنوں کے لیے میری یہ امانت اپنے پاس رکھ لو۔ میں سفر سے واپس آﺅں گا تو اسے لوں گا“۔یوسف سنا ر نے خوشی خوشی وہ امانت اپنے پاس رکھ لی۔ احمد سفر پر روانہ ہوگیا۔ ایک دن یوسف سنار نے اپنی تجوری سے اشرفیوں کی تھیلی نکال کر دیکھی۔ تھیلی کافی وزنی تھی یوسف سنار کے منہ میں پانی بھر آیا وہ سوچنے لگا کہ دیکھوں اس تھیلی میں کیا ہے۔یہ سوچ کر وہ تھیلی پر بندھی گرہ کھولنے لگا۔پھر کچھ سوچ کر رک گیا کہ اگر میں نے تھیلی کو کھولا تو احمد سوداگر کو پتہ چل جائے گا۔ کیونکہ اس نے تھیلی کی گرہ مخصوص انداز میں باندھی تھی۔ اب وہ سوچنے لگا کہ کیا کروں۔ آخر اس نے تھیلی کو ایک طرف سے تھوڑا سا کاٹا۔ تو اشرفیاں چھن چھن نیچے گرنے لگی۔
    دن گزرتے رہے یوسف سنار کے دل میں خوف تھا کہ جب احمد اپنی تھیلی لے کرجائے گا اور اس میں سے اشرفیاں کے بجائے پتھر نکلیں گے تو وہ اپنی اشرفیوں کا مطالبہ کرے گا۔ اب کیا کیاجائے یہی سوچتے سوچتے دن گزرنے لگے۔آخر وہ دن بھی آہی گیا جب احمد سوداگر اپنے سفر سے واپس آگیا وہ بہت تھکا ہوا تھا اس نے سارا دن تو اپنے گھر پر آرام کیا۔پھر دوسرے دن ناشتہ کرکے وہ یوسف سنار کے پاس پہنچا تاکہ اس سے اپنی تھیلی لے سکے۔یوسف سنار احمد سوداگر کے ساتھ بڑی خوش اخلاقی سے ملا۔ پھر اس نے اس کی تھیلی اس کے حوالے کردی ۔ تھیلی میں اشرفیاں نہیں تھیں۔ بلکہ اس میں تو پتھر بھرے ہوئے تھے۔بے چارہ احمد تو اپنا سر پیٹ کر رہ گیا وہ فوراً یوسف سنا رکے ہاں پہنچا اور بولا”یوسف بھائی میری اس تھیلی میں تو اشرفیاں بھری ہوئی تھی۔ا ب اس میں سے پتھر نکلے ہیں“۔یہ سن کر یوسف سنار نے ڈھٹائی سے جواب دیا”مجھے کیا معلوم میں نے تو تمہاری تھیلی کو کھولا بھی نہیں“۔احمد سوداگر نے کہا
    ”میں جانتا ہوں کہ تم نے میری تھیلی کو نہیں کھولا مگر اس میں سے اشرفیاں کیسے غائب ہوگئیں“۔احمد بے چارہ خاموشی سے گھر واپس آگیا اسے رہ رہ کر اپنی اشرفیوں کا خیال آرہا تھا۔ آخر وہ شہر کے قاضی کے پاس فریاد لے کر پہنچا۔ شہر کے قاضی نے یوسف سنار کوبلایا تو اس نے لا علمی کا اظہار کیا پھر بولا”قاضی صاحب میں نے اس کی تھیلی کو کھولا تک نہیں پھر اس کی اشرفیاں تھیلی سے کیسے نکال سکتا ہوں احمد سوداگر نے بھی کہا”میں جانتا ہوں کہ اس نے میری تھیلی کو نہیں کھولا۔مگر پھر بھی تھیلی سے اشرفیاں غائب ہیں“۔اب تو قاضی صاحب بھی چکرا کر رہ گئے ۔انہوں نے دوسرے دن عدالت میں حاضر ہونے کے لیے کہا۔تھیلی قاضی صاحب نے اپنے پاس رکھ لی تھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کیسے کریں۔آخر قاضی صاحب عدالت سے اٹھ کر گھر آگےے۔ تھیلی قاضی صاحب کے پاس موجود تھی۔ گھر آکر بھی وہ پریشان رہے۔ بیوی نے جب قاضی صاحب کو پریشان دیکھا تو پریشانی کی وجہ پوچھی۔قاضی صاحب نے بیوی کو ساری بات بتائی تو بیوی سوچ میں پڑ گئی پھر بولی
    ”ذرا تھیلی مجھے دکھانا“۔قاضی صاحب نے تھیلی بیوی کی طرف بڑھا دی ۔قاضی صاحب کی بیوی غور سے تھیلی کو دیکھنے لگ۔ کتنی ہی دیر گزر گئی۔ پھر اچانک قاضی صاحب کی بیوی اچھل پڑی اور بولی”احمد سوداگر سچ کہتا ہے۔ اس نے اس تھیلی میں اشرفیاں رکھی تھیں اور بے ایمان یوسف سنار نے تھیلی میں سے اشرفیاں نکال لیں“۔قاضی صاحب یہ سن کر حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے
    ”تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ یوسف سنار نے اس تھیلی سے اشرفیاں نکالی ہیں“۔بیوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا”اس لیے کہ اس تھیلی کو کاٹ کر اشرفیاں نکالی گئی ہیں اور بعد میں اس تھیلی کو رفو کرادیا گیا ہے یہاں غور سے دیکھیں آپ کو رفو کا ہلکا سا نشان نظر آجائے گا“قاضی صاحب نے جلدی سے تھیلی لے کر دیکھا بہت ہی غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا تھا کہ اس تھیلی کو کاٹ کر رفو کرایا گیا ہے۔ اب قاضی صاحب ساری بات سمجھ گئے انہیں یوسف سنار پر بے تحاشا غصہ آنے لگا۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ کل یوسف سنار کو بڑی سخت سزادیں گے۔دوسرے دن عدالت لگی تو احمد سوداگر اور یوسف سنار دونوں عدالت میں حاضر تھے ۔قاضی صاحب نے غو رسے احمد سوداگر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا؛
    ”کیا واقعی تم نے اس تھیلی میں اشرفیاں رکھی تھیں؟“۔احمد سوداگر نے کہا”قاضی صاحب میں سچ کہہ رہاہوں میں نے اس تھیلی میں اشرفیاں رکھی تھیں۔قاضی صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔”ہمیںپتہ ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو“۔یہ کہہ کر قاضی صاحب اپنی جگہ سے اٹھے انہوں نے نیام سے اپنی تلوار نکالی اور یوسف سنار کے سر پر پہنچ گئے۔یہ دیکھ کر یوسف سنار تھر تھر کانپنے لگا۔قاصی صاحب گرج دار آواز میں بولے ،،
    ”ہم جانتے ہیں کہ تم نے اس تھیلی سے اشرفیاں نکالی ہیں۔ اور بعد میں اس تھیلی کو رفو کرادیا ہے ہم اس رفو گر سے بھی مل چکے ہیں“۔
    یہ سن کر یوسف سنار کا رنگ زرد پڑ گیا،اور وہ گڑگڑا کر کہنے لگا”قاضی صاحب مجھے معاف کردیں میں نے ہی احمد کی تھیلی سے اشرفیاں نکال لیں “۔قاضی صاحب نے فوراً کوتوال کو اس کے ساتھ اس کے گھر بھیجا جو احمد سوداگر کی اشرفیاں لے کر آئے اور قید کی سزا کا حکم سنایا۔احمد سوداگر تو اپنی اشرفیوں کو پاکر خوش ہوگیا تھا۔ قاضی صاحب کے انصاف کی وجہ سے نہ صرف اسے اس کی اشرفیاں مل گئی تھیں بلکہ مجرم کو اس کے کئے کی سزا بھی مل گئی تھی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں