1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کچھ جقیقت کچھ کہانی 2

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ 2, ‏26 اکتوبر 2018۔

  1. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    شاہ بلیغ الدین رحمۃ اللہ علیہ
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
    قریش کے سردار کا کہنا تھا کہ ۔۔۔ اخلاق اچھے ہوں، آدمی ظلم نہ کرے اور غرور و تکبر سے بچا رہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ کوئی کہتا ہے اس سردار نے ایک سو دس برس عمر پائی، کوئی کہتا ہے ۵۷۹ء میں ۸۲ برس کی عمر میں خانۂ کعبہ کے اس رکھوالے کا انتقال ہوا۔ اس وقت ابرہہ اشر م کے واقعہ کو کوئی آٹھ برس گزر گئے تھے۔
    یہ سردار یثرب میں پیدا ہوا، سات آٹھ برس کی عمر تک وہیں رہا، پھر مکہ آیا۔ ہجرت کے بعد یثرب کی بستی مدینۃ النبی کہلانے لگی۔ اس سردار کی والدہ سلمیٰ بنو نجار کی تھیں اور آج جہاں مسجد نبوی ہے اس کے پاس ہی رہتی تھیں۔ ابھی یہ سردار پیدا نہیں ہوا تھا کہ فلسطین کے شہر غزہ میں اس کے باپ کا انتقال ہو گیا۔ ہاشم نام تھا، عمر مشکل سے پچیس برس کی ہو گی۔ اسی زمانے میں قریش کا یہ سردار اپنے ننھیال میں پیدا ہوا۔ عجیب بات یہ تھی کہ نومولود کے سر میں ایک گچھا سفید بالوں کا تھا۔ اسی لیے عزیز رشتہ دار اسے ’’شیبۃ الحمد‘‘ پکارنے لگے۔ نام عامر تھا لیکن شہرت چچا کے نام سے ہوئی جو مطّلب کہلاتے تھے۔ چونکہ چچا بھتیجا اکثر ساتھ رہتے تھے اس لیے لوگوں نے بھتیجے کو عبدالمطّلب پکارنا شروع کیا یعنی، مطلب کا غلام!
    عبدالمطّلب تجارت کرتے تھے۔ شام اور یمن کے علاقوں میں ان کا کاروبار تھا۔ اونٹوں کے بہت بڑے گلے کے مالک تھے۔ طائف میں بھی ایک کنواں ان کے پاس تھا۔ خانۂ کعبہ کے رکھوالوں میں ان کا بڑا اعزاز تھا اور مکے کی یاترا کے موقع پر دو بڑے کام ان کے سپرد تھے۔’’سقایہ‘‘ یعنی پانی پلانا اور ’’رفادہ‘‘ یعنی کھانا کھلانا۔ یاتری بڑی تعداد میں مکے میں جمع ہوتے تو آج کی اصطلاح میں عبدالمطلب کا ہوٹل کا کاروبار خوب چمک جاتا تھا۔ وہ بڑے خوش اخلاق اور فیاض آدمی تھے۔ ان کی مہمان نوازی کی دور دور شہرت تھی۔ دسترخوان ہمیشہ وسیع رکھتے تھے۔ انھوں نے بہت سے کنویں کھدوا دئیے تھے۔ زمزم کو پھر سے کھدوانے کے لیے انھوں نے تین راتوں تک مسلسل خواب دیکھا تھا۔ زمزم کا کنواں بڑے عرصے پہلے عمرو بن حارث جرہمی نے بند کرا دیا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی نہ یاد رہا تھا کہ یہ کنواں کہاں واقع تھا۔ عبدالمطّلب کا شمار موحدین میں ہوتا ہے۔ وہ دینِ ابراہیمی کے پیروکار تھے اور رمضان کا مہینہ غارِ حرا میں گزارتے تھے، جہاں بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ ابنِ حزم نے لکھا ہے کہ یہاں آپ ارادۂ الٰہی کی وجہ سے جاتے تھے۔ ان کی زیادہ اولاد ان کی بیوی بنو مخزوم کی فاطمہ کے بطن سے ہوئی۔ جن سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم اور چچاؤں میں زبیر اور ابو طالب کے علاوہ اُمّ حکیم البیضاء بھی تھیں جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی نانی تھیں۔ اُمّ حکیم حضرت عبداللہ کی تَواَم بہن تھیں۔ ان کے علاوہ عاتکہ، برّہ، اُمیمہ اور ارویٰ بھی سگی بہنیں تھیں، یہ تفصیل ابنِ سعد کی ہے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابو لہب بھی انھی کے بطن سے تھا۔ لیکن مستند روایت یہ ہے کہ ابو لہب کی والدہ بنی خُزاعہ کی تھی۔ چھے برس کی عمر میں جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو حضرت عبدالمطلب اپنے پوتے کو اپنے گھر لے آئے۔ وہ آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں یقین تھا کہ آمنہ کا جگر گوشہ بڑا نام پانے والا ہے۔ جب یہ بچہ آٹھ برس کا ہوا تو ایک دن اپنے دادا کی چارپائی کے پاس بیٹھا زار و قطار رو رہا تھا کیونکہ یتیم پوتے کے سر پر دستِ شفقت رکھنے والے سربراہِ خاندان نے وفات پائی تھی۔
    حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۵۳ برس کی عمر میں مدینہ ہجرت فرمائی، آٹھ برس کی عمر سے لے کر ۵۳ برس تک کل ۴۵ سال ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں خاندان کے تین سربراہ منتخب ہوئے۔ دادا کی وفات کے بعد جیسا کہ طبقاتِ ابن سعد میں ہے زبیر جو عبدالمطلب کے وصی اور جانشین تھے، خاندان کے سربراہ بنائے گئے۔ حربِ فُجّار اور حلف الفُضول کے وقت وہی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست اور خاندان کے سربراہ تھے۔ انھی کی بیوی عاتکہ نے حضرت آمنہ کی وفات کے بعد ان کے چھے سالہ بیٹے کو ماں کا پیار دیا۔ الاصابہ کی روایت ہے کہ ان کے بیٹے عبداللہ نظر آ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرطِ محبت سے پکار اٹھتے کہ یہ میری پیاری ماں کا بیٹا ہے۔
    بعض روایتوں کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۱، ۲۲ برس کی تھی اور سیرت الحلبیہ کے مطابق ۲۴ برس کی تھی کہ زبیر کا انتقال ہوا اور ان کی جگہ ابو طالب خاندان کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ابو طالب نے ہجرت سے دو ڈھائی سال پہلے شعبِ بنو ہاشم میں انتقال کیا تو خاندان کا سربراہ ابو لہب منتخب ہوا۔ جو بدر کی لڑائی کے بعد سرطان میں مبتلا ہو کر فوت ہوا۔ اس وقت اسلامی مملکت قائم ہو چکی تھی۔ بنو ہاشم اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا سربراہ سمجھتے تھے۔
    ابو طالب کی وفات کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر انچاس سال آٹھ مہینے گیارہ دن تھی۔ مکّی زندگی میں دین کی تبلیغ صرف دو چچاؤں نے کی۔ ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے، دوسرے امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے! امیر حمزہ رضی اللہ عنہ دارِ ارقم میں ایمان لے آئے۔ یہ نبوت کے پانچویں سال کی بات ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، آخری بیعت عقبہ کے موقع پر صرف وہی اللہ کے نبی کے ساتھ تھے۔ ان کی بیوی اُمّ الفضل بالکل ابتدائی ایمان لانے والوں میں شامل ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ایمان کا اعلان فتح مکہ سے ایک دن پہلے ’’جحفہ‘‘ کے مقام پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آخر المہاجرین کا خطاب عطا فرمایا۔ امیر حمزہ رضی اللہ عنہ تو اُحد کی لڑائی میں شہید ہوئے، لیکن حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے۔ آپ کے بعد کوئی بارہ سال زندہ رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں باغ فدک کی نگرانی ان کے اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے سپرد کر دی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ۸۸ برس میں ان کا انتقال ہوا۔
    سربراہِ خاندان چاہے کوئی بھی رہے ہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کسی نے نہیں کی۔ آپ کے والد کے ترکے سے آپ کی آمدنی اتنی کچھ ہوتی تھی کہ آپ ہمیشہ خوشحال رہے اور دوسروں کی مدد فرماتے رہے۔
     
    آصف احمد بھٹی، پاکستانی55، ھارون رشید اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    سامری جادوگر کا بچھڑا
    اللہ نے موسی علیہ السلام سے توریت کے نزول کا وعدہ کیا تو نزول کتاب میں تاخیر ہوئی اور موسی علیہ السلام نے بھائی ہارون علیہ السلام بو بنی اسرائیل کے درمیان چھوڑ دیا اور خود میقات چلے گئے۔
    موسی علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کو ہدایت کی تھی کہ بنی اسرائیل کے مسائل کو دیکھیں اور ان کا انتظام و انصرام سنبھالیں اور خود کوہ طور چلے گئے۔
    طے پایا تھا کہ موسی علیہ السلام 30 دن تک روزے رکھیں گے اور کوہ طور میں ہی رہیں گے لیکن عوام کی آزمائش کی غرص سے یہ وعدہ 40 دن تک بڑھ گیا اور جب کوہ طور میں اللہ کا کلام موسی علیہ السلام کو ملا اور دس مقدس فرامین تختوں پر تحریر کئے گئے، تو آپ نے واپسی کا فیصلہ کیا۔
    ادھر موسی علیہ السلام کے وعدے میں تاخیر ہوئی اور تیس دن گذر گئے مگر آپ پلٹ کر نہیں آئے، تو بنی اسرائیل پر شیطان کا کامیاب حملہ ہوا اور وہ دھوکہ کھا گئے اور سامری نامی شہرت پسند، اقتدار پسند، اور جاہ پسند بنی اسرائیلی شخص نے سونے کا بچھڑا بنایا اور فریب سے اس سے کچھ آوازیں نکلوائیں اور لوگوں سے کہا: موسی علیہ السلام نے وعدہ خلافی کی ہے، موسی علیہ السلام واپس نہیں آئیں گے اور ہماری تمام بدبختیوں کا واحد سبب یہ ہے کہ ہمارا کوئی "بت" نہیں ہے۔ اسی لئے میں نے سونے کا ایک بت بنا رکھا ہے۔
    نادان و احمق و سادہ لوح اور دھوکہ کھانے کے شوقین سامری کے گرد اکٹھے ہوئے، اس کی باتوں کا یقین کرلیا اور بت پرستی میں مصروف ہوئے۔
    موسی علیہ السلام واپس پلٹ آئے تو فضا الہی نہیں تھی ہر سو سامری اور اس کے بنائے ہوئے بت کا چرچا تھا اور ہارون علیہ السلام کو جان کا خطرہ پڑ گیا تھا اور کوئی ان کی بات سننے کے لئے تیار نہ تھا؛ موسی علیہ السلام نے یہ دیکھا تو غضبناک ہوئے اور فرمایا: تم نے بہت برا کیا کہ اس بھونڈے فعل میں مصروف ہوگئے۔ اور اس قدر غضبناک ہوئے کہ طور سے لائے ہوئے تختوں کو زمین پر پھینک دیا اور بھائی ہارون علیہ السلام کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا: تم نے لوگوں کو کیوں سامری کے بچھڑے کا دھوکہ کھانے دیا؟
    ہارون علیہ السلام نے عرض کیا: بھائی جان مجھ پر ملامت نہ کرنا، اور دشمنوں کی زبانوں کو شماتت کے عنوان سے میری طرف دراز مت کرنا، ان لوگوں نے میری بات نہیں سنی مجھے کمزور دیکھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے مگر میں پھر بھی ان کے کرتوتوں سے متفق نہیں تھا۔
    موسی علیہ السلام نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ خداوند متعال تمہیں بخش دے اور ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچا دے جنہوں نے اس بدعت کی بنیاد رکھی۔
    موسی علیہ السلام سامری کے پاس پہنچے اور فرمایا: اے سامری! یہ کیا تھا جو تو نے کیا؟ کہنے لگا: جو کچھ لوگ نہیں سمجھ سکے، میں سمجھ چکا، اور اللہ کے فرستادے جبرائیل کے نقش پا میں سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی اور اسے گوسالے کے جسم پر پھینک دیا اور میرے نفس نے اس طرح میرے لئے فریب کاری کردی۔
    موسی علیہ السلام نے فرمایا: تو تم چلے جاؤ تیری زندگی کا انجام یہ ہوگا کہ جو بھی تیرے قریب آئے، تو اس سے کہہ دے کہ مجھے چھونا مت اور تیرے لئے ایک وعدہ گاہ ہوگی ٹل نہیں سکے گی، اور اب تو اپنے معبود کو دیکھ لینا، جس سے تو مسلسل چھپکا رہتا تھا، ہم اسے ضرور جلا ڈالیں گے اور اس کی راکھ کو دریا برد کریں گے۔ (1
    اور ہاں ! موسی علیہ السلام نے اس بچھڑے کو جلا کر راکھ کردیا اور سمندر میں بہایا اور ایک عذاب سامری کے اوپر نازل ہوا کہ آخر عمر تک جو بھی اسے ہاتھ لگاتا شدید بخار میں مبتلا ہوجاتا تھا۔
    ۔۔۔۔۔
    1- اقتباس از سورہ اعراف و سورہ طہ آیات 1 و 95 - 98.
     
  3. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    جنید بغدادی ؒ کے زمانے میں ایک بہت مشہور ڈاکو تھا، وہ ڈاکہ زنی سے باز نہیں آتا تھا یہاں تک کہ کئی مرتبہ پکڑا گیا ،قاضی اسے ہر بار پکڑے جانے پر کبھی 100، کبھی 200، کبھی 300دروں کی سزا دیتے، اسے اس وقت تک 16ہزار درے لگ چکے تھے مگر وہ اس قبیح فعل سے باز نہیں آتا تھا حتیٰ کہ اس کا ایک ہاتھ بھی کاـٹ دیا گیا مگر وہ باز نہ آیا اور اپنےایک ہاتھ سے ہی چوری اور ڈاکہ زنی کرتا رہا۔لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ، کوئی اس کے سامنے جانے کی جرأت نا کرتا
    ایک دن ایسا ہوا کہ وہ ڈاکو جنید بغدادیؒ کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہو گیا۔حضرت جنید بغدادیؒ نے تجارت کی غرض سے کچھ کپڑے اور دیگر اشیا منگوا کر رکھی ہوئی تھیں اور انہیں دو تین گٹھڑیوں میں باندھ رکھا تھا۔ مشہور ڈاکو جب دیوار کود کر گھر میں داخل ہوا تو اسے وہ سامان جو گٹھڑیوں میں بندھا پڑا تھا نظر آگیا ۔ وہ ایک ہاتھ ہونے کے باعث ان کو اٹھا کر لے جانے سے قاصر تھا اور ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ کسی کو اس سامان کو اٹھا لے جانے کیلئے مدد کیلئے لایا جائے کہ اسی اثنا میں حضرت جنید بغدادی ؒ نماز تہجد کیلئے نیند سے بیدار ہوئے اور اپنے گھر کے صحن میں تشریف لائے۔ڈاکو کی نظر آپ پر پڑی اور اس نے سمجھا کہ شاید یہ اس گھر کا کوئی نوکر ہے جو مالکوں کے بیدار ہونے سے قبل گھر کے کام کیلئے بیدار ہوا ہے۔اس نے حضرت جنید بغدادیؒ کو نہایت سخت آواز میں اپنے پاس بلایا’’ادھر آئو! اور یہ گٹھڑی اٹھا کر میرے سر پر رکھو‘‘حضرت جنید بغدادیؒ اس کی جانب بڑھے اور گٹھڑی اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دی۔ اس نے جب دیکھا کہ گھر کا ایک نوکر اس کے رعب میں آچکا ہے اور اس کے احکامات کی جوں کے توں تعمیل کر رہا ہے تو اس نے بجائے اپنے سر پر گٹھڑیاٹھوانے کے حضرت جنید بغدادیؒ کے سر پر گٹھڑی اٹھوانے کا ارادہ کیا اور انہیں اسی سخت لہجے میں حکم دیا کہ ’’میرے سر پر یہ گٹھڑی نہ رکھو بلکہ اپنے سر پررکھو‘‘۔ حضرت جنید بغدادیؒ آمادہ ہو گئے ، اس نے اپنے ایک ہاتھ سے گٹھڑی آپؒ کے سر پر رکھنے میں مدد کی ، جب آپؒ نے گٹھڑی سر پر اٹھا لی تو اس نے حکم دیا کہ’’ جلدی کرو اور میرے ساتھ چلو ،فجر ہونیوالی ہےاور سورج کی روشنی ہو جائے گی اس سے پہلے پہلے تم نے یہ گٹھڑی میری مطلوبہ جگہ تک چھوڑ کر آنی ہے اور اگر تم نے دیر کی تو میں ڈنڈے سے تمہاری مرمت کروں گا‘‘۔حضرت جنید بغدادیؒ اپنا مال اپنے سر پر رکھ کر اس کے گھر کی جانب چل پڑے۔حضرت جنید بغدادیؒ راستے میں تھک گئے ، وزن زیادہ ہونے کے باعث آپ کا سانس بھی پھول چکا تھا،آپ کی رفتار آہستہ ہو جاتی جس پر وہ بدنام زمانہ ڈاکو آپ کو ڈنڈے سے مارنے لگ جاتا یہاں تک حضرت جنید بغدادیؒ وہ گٹھڑی سر پر اٹھائے اس کے گھر تک پہنچا دیتے ہیں اور گھر واپس آجاتے ہیں۔بدنام زمانہ ڈاکو نے ایک دن گزارا، وہ رات کو نہایت اطمینان سے سویا اور اگلی صبح اٹھا ۔ اسے خیال آیا کہ جس گھر میں میں نے گزشتہ روز چوری کی واردات کی ہےاور سامان سرکا اسی گھر کے نوکر کے ذریعے یہاں تک لایا ہوں کہیں وہ میرا راز فاش نہ کردے، مجھے اس سے متعلق خبر رکھنی چاہئے اور چل کے دیکھنا چاہئے کہ آیا وہاں لوگ جمع ہیں یا نہیں اگر تو جمع ہوئے تو یقیناََ اس نوکر نے میرا راز فاش کر دیا ہو گا اور وہ تفتیش کر رہے ہونگے اور اگر وہاں خاموشی ہوئی تو یقیناََ نوکر نے میرے متعلق کسی کو ڈر کے مارے نہیں بتایا ہو گاچنانچہ وہ آپؒ کے گھر کی جانب چل پڑا ۔ وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ لوگ آرہے ہیں اور گھر میں قطار در قطار داخل ہو رہے ہیں۔گھر میں داخل ہونے والے افراد حلئے سے نہایت پرہیز گار اور متقی لگ رہے تھے۔ وہ بڑا حیران ہوا اس نے کسی سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔اسے بتایا گیا کہ کیا جانتے نہیں کہ یہ گھر ایک بہت بڑے شیخ ، پیر کامل کا ہے۔اس نے استفسار کیا کہ کیا میں ان کو دیکھ سکتا ہے۔ بتایا گیا کہ ہاں دیکھ سکتے ہو، معلومات دینے والے نے اسے اپنے ساتھ لیا اور گھر میں داخل ہو گیا۔ اس دوران ڈاکو نے اپنا کٹا ہواہاتھ چھپا لیا کہ کہیں گھر کا نوکر اسے پہچان نہ لے۔ گھر میں داخل ہو کر اس نے دیکھا کہ وہی نوکر جس سے اس نے گٹھڑی اٹھوائی اور گھر تک مارتا ہوا لے گیا تھا وہ مسندِ ارشاد پر تشریف فرما ہے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ حضرت جنید بغدادیؒ ہیں جو ولی کامل ہیں ۔ اس کے دل کی دنیا بدل گئی، آپ کی مجلس میں گناہوں سے توبہ کی اور آپ سے بیعت ہوا۔ روایات میں آتا ہے کہ بغداد کایہ بدنام زمانہ ڈاکو پھر ایسا ہوا کہ حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے اپنی خلافت عطا فرمائی۔اللہ والوں کی مجلس کا اپنا ہی اثر ہے۔ کہاں بغداد کا مشہور چور اور ڈاکو اور کہاں جنید بغدادیؒ کا خلیفہ۔ یہ اللہ والوں کی محفل کا اثر تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی اور راہ راست اختیار کی۔
     
    Last edited by a moderator: ‏28 دسمبر 2018
  4. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    بچا ہوا سالن _ بچی ہوئی روٹی
    ایک دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا . تمہاری ماں کی سب سے پسندیدہ ڈش کون سی ہے.
    دوسرے دوست نے بہت سوچا. بہت ذہن گھمایا مگر پھر آنکھوں میں آنسو لے کر کہنے لگا :
    "میری ماں کی پسندیدہ ڈش بچا ہوا سالن اور بچی ہوئی روٹی ہے "
    دوست جو کہ مغربی معاشرے میں پلا بڑھا تھا پوچھنے لگا . وہ کیسے
    دوسرے دوست نے جواب دیا.
    میں نے بہت سوچا. پچھلے بیس برسوں کا منظر میرے ذہن میں گھوم گیا لیکن مجھے ایک بار بھی یہ سننے کو نہیں ملا کہ بیٹا آج بہت دل کر رہا تھا فلاں کھانے کو تو میں نے بنا لیا. ایک بار بھی ایسا نہیں سنا. گزرے ہوئے بیس برسوں میں بس یہ آوازیں ہی سنائی دیں.
    بریانی بنائی ہے میرے بیٹے کو پسند ہے
    کڑاہی گوشت بنایا ہے میری بیٹی کو پسند ہے.
    فلاں چیز بنائی ہے کہ میرے بھائی یا بہن کو پسند ہے .
    فلاں چیز بنائی ہے کہ میرے میاں جی کو پسند ہے.
    اور کبھی تو گھر کا ایک شخص کہے کہ مجھے آج چاول کھانے ہیں اور دوسرا کہے کہ نہیں مجھے تو آج سبزی کھانی ہے تو ماں نے دونوں کے لئے الگ الگ کھانے بنائے.
    آج جب تم نے یہ سوال پوچھا تو میں سوچنے لگا کہ پچھلے بیس برسوں میں ماں نے اپنے لئے کیا پکایا!!
    کچھ بھی تو نہیں . بس ایک ہی شوق تھا کہ بیٹے سے یا بیٹی سے جو بچ جائے گا وہ میں کھا لوں گی.
    اور کبھی کہتی کہ بیٹا اور ڈالو اور خوب پیٹ بھر کے کھاو. ابھی سالن بہت پڑا ہے. جبکہ سالن کچھ نہ ہوتا اور میں ختم کر جاتا.
    بعدمیں پتا چلتا کہ ماں آج بھوکی سو گئی.

    رب ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
    اے میرے رب ! ان دونوں (ماں ۔ باپ) پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی
     
    ھارون رشید، زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو۔۔۔ تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا۔

    2 جنوری کے دن مسلمانوں کی ایک عظیم الشان سلطنت کا سقوط ہوا تھا۔ 1492 میں اسپین میں عظیم مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا تھا۔مسلمانوں کی آخری ریاست غرناطہ بھی عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی تھی، تاریخ کے مطابق یورپ کے اس خطے پر مسلمانوں نے کم و بیش 7 سے 8 سو سال حکومت کی، 711 ء میں مسلمان افواج نے طارق بن زیاد کی قیادت میں بحری جہازوں پر سوار ہو کر اسپین کو فتح کیاتھا، مسلمانوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہاں تعلیم کی روشنی پھیلی اور ایک وقت ایسا آیا کہ اسپین خوبصورتی، تعلیم اور فن و ثقافت کا مرکز بن گیا، مسلمانوں کی علم دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد 300 سال تک جرمنی، اٹلی اور فرانس کے شاہی درباروں میں مسلمانوں کی تدوین کردہ کتب کے یورپی زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے، اس کے باوجود اندلس میں کتب خانوں کے تہہ خانے مزید کتابوں سے بھرے پڑے تھے جنہیں ہاتھ تک نہ لگایا جاسکا، سقوط غرناطہ کے وقت اسپین میں آخری مسلم امارت غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے عیسائی حکمرانوں ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح اسپین میں صدیوں پر محیط عظیم مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا، اس کو مور کی آخری آہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
    منقول
     
    ھارون رشید اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    بہت کم لوگ اس تلخ حقیقت سے واقف ہوں گے کہ پاکستان کا پہلا صدر مملکت بنایا جانے والا شخص اسکندر مرزا اسی بدنام زمانہ ننگ ملت ننگ ادم ننگ دین غدار میر جعفر کا پڑپوتا تھا جس نے قوم و ملت کے سپاہی شیر بنگال نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیز آقاؤں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ گورے آقاؤں نے چن چن کر ایسے” با صلاحیت کرداروں ” کو اہم عہدے دلوائے جن میں ان کی فرمانبرداری اور ملک و ملت سےغداری کے سارے جراثیم موجود ہوں۔ سو عالمی فتنہ گروں نے پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بھی ان سے سر کا خطاب پانے والے چوہدری ظفر اللہ جیسے اس قادیانی زندیق کو بنوایا جس نے بابائے قوم قائد اعظم رح کا جنازہ پڑھنے سے صاف انکار کر دیا۔ سامراج اور مغربی صلیبی طاقتوں کے پروردا ان سب غداروں کی کالی کرتوتوں کی بدولت تاریخ میں سولہ دسمبر 1971ء کا سیاہ ترین دن ملت اسلامیہ اور پاکستانی قوم کی ذلت و رسوائی کی شرمناک داستان بن کر آج بھی کلیجہء مسلم سلگا رہا ہے۔ محمد شاہ رنگیلے کے فطری وارثین، میر جعفر و صادق کے ازلی پیروکار سیاہ ست دانوں، حکمرانوں اور شراب و شباب میں ڈوبے جنرل رانی برانڈ جرنیلوں نے قوم و ملت کے ماتھے پر ایسا بدنما و بدصورت داغ لگایا جو دمِ حشر نہ دھلے گا نہ مٹے گا۔ دھرتی سے کی گئی غداریوں کے صلے میں انگریزوں کی عطا کردہ جاگیروں کو بچانے کیلئے مر مٹنے والے کچھ جاگیرداروں اور کسی بھی قیمت پر حصول اقتدار کیلئے سرگرم سیاستدانوں کی مشرقی بنگال میں لگائی ہوئی آگ ایک شرابی مسخرے جرنل یحیی خان اور اس کے ناعاقبت اندیش ٹولے نے پٹرول سے بجھانے کی کوشش میں بھڑکتا ہوا تندور بنا دی۔ قحبہ خانے چلانے والی جنرل رانی جیسی فاحشائیں ہندوآتہ اور سامراج کی آلہ کار بن کر ایوانان اقتدار پر قابض مدہوش عاشقوں کے فیصلے خود لکھتی رہیں۔ اور پاک دھرتی کا مقدس بدن دو لخت ہو کر قوم کا کلیجہ چاک چاک کر گیا۔
    تاریخ اسلام میں کالے حروف سے لکھی گئی شرمناک شکستوں کے احوال پڑھ کر آج بھی مسلمانوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ نئی نسل بھول چکی ہو گی مگر سقوط مشرقی پاکستان کے وقت اوباش جرنیلوں کے ہاتھوں پاکستانی قوم اور اسلامی تاریخ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذلت کے سائے، دلدوز و تلخ یادیں، دردناک احساس اور کرب محبان پاکستان کے دل و دماغ میں آج بھی موجود ہے۔ اس روز مشرقی و مغربی بنگال سے لیکر پنجاب اور بحیرہء عرب کے ساحلوں سے لیکر پختون خواہ کوہساروں تک کے مسلمانوں کی قربانیوں اور خونِ جگر و دل سے معرض وجود میں آنے والا پاکستان دولخت ہو گیا۔ پاکستان کے آدھے وجود کی شہادت پر نوے ہزار فوجی اپنے بدترین اور ازلی و ابدی دشمن بھارت کی قید میں چلے گئے۔ میں اہل حق لکھاریوں کے اس موقف سے کلی متفق ہوں کہ شکست کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیل اور انتخابات کا لازمی جزو ہو سکتا ہے مگر حق و باطل کے معرکہ اور بقائے قوم و ملت کی جنگ میں شکست کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہ معرکہء بدر و حنین یو یا فتح بیت المقدس اور ہسپانیہ کے خونی ٹکراؤ، اسلامی نظریاتِ حق کے مطابق جنگ صرف اور صرف فتح و نصرت کے لئے لڑی جاتی ہے۔
    ہسپانیہ (اسپین) میں اسلام دشمن عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے مغرب کی سرزمین پر مسلم اقتدار کا آغاز کرنے والے طارق بن زیاد نے ساحل پر کشتیاں جلا کر یہ ایمان افروز درسِ جہاد دیا کہ جنگ کا انجام صرف فتح یا موت ہے، حق باطل کے معرکہ میں کسی کلمہ گو کے پاس ان دو کے سوا کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں۔ تاریخ بار بار یاد دلاتی ہے کہ بزدلانہ شکست کی ذلت سے عزت و غیرت کی موت کہیں بہتر ہے۔ سلطان ٹیپو شہید نے میسور کی جنگ میں اپنے کلماتِ فطرت ” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ” کو جان دے کر سچ کر دکھایا۔ تاریخ اسلام کے سانحات و سقوط ہمیں بار بار یاد دلاتے ہیں کہ بزدلانہ شکست تسلیم کرنے والے عیاشوں اور ننگ دین و ملت غدارینِ امت وں کا انجام ہمیشہ دردناک اور عبرت ناک ہوا ہے۔ مستعصم بالله وہ آخری عباسي خلیفہ تھا جس کے دور میں اسی کے ایک شیعہ وزیر ابن علقمی کی دعوت پر ہلاکو خان کی ظالم منگول فوجوں نے وحشیانہ انداز میں حملہ آور ہو کربغداد کو تباہ و برباد کیا تھا۔ تاریخ نوحہ خواں ہے کہ ہلاکو نے اپنی فتح کے بعد پورے شہر بغداد کو آگ لگا کر لاکھوں مسلمانوں کو انتہائی بے دردی و سفاکی سے قتل کر دیا۔ آہ کہ خون مسلم سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا تھا۔ ہلاکو کے سامنے خلیفہ مستعصم بااللہ کو پیش کیا گیا تو خلیفہ فاقے سے بے حال تھا۔ ہلاکو خان نے اسی کے خزانے سے لوٹے ہوئے ہیرے جواہرات اور طلائی زیورات طنزاً ایک طشتری میں رکھ کر کھانے کیلئے پیش کئے تو خلیفہ نے کہا کہ مجھے کھانا چاہیے، میں ہیرے جواہرات کیونکر کھا سکتا ہوں؟ ہلاکو نے طیش میں آ کر وہ تاریخی الفاظ کہے جو بعد میں آنے والے تمام عیاش مسلم حکمرانوں کیلئے حروف سبق تھے۔ ہلاکو نے کہا کہ تم نے ان ہرے جواہرات اور طلائی زیورات کو اکٹھا کرنے کے بجائے اپنے دشمن کے ساتھ لڑنے کیلئے جنگی ساز و سامان کا انتظام کیوں نہ کیا، اگر تم نے اپنی سلطنت کی حفاظت کیلئے اس قیمتی خزانے کی بجائے اپنے لشکر و سامان حرب کی بہتری کا بندوبست کیا ہوتا تو آج یوں بے بس نہ ہوتے۔ اس کے بعد خلیفہ کو ایک قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں کے سموں سے کچھ اس طرح ہلاک کیا گیا کہ خون کی ایک بوند تک زمین پر نہ گر سکے۔ خلیفہ کو ایک قالین میں لپیٹ کر اس کے اوپر اس وقت تک گھوڑے دوڑائے گئے کہ جب تک ان کا قالین میں لپٹا جسم کچل کر قیمہ نہ بن گیا۔
    مسلم تاریخ کا ایک اور شرمناک و عبرت انگیز باب اندلس کی وہ شکست ہے جس کے بعد مغرب میں سپین، پرتگال اور فرانس کے خطوں پر مشتمل عظیم الشان مسلم سلطنت الاندلس کے آٹھ سو سالہ سنہری اقتدار کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ تاریخ کے راقم لکھتے ہیں کہ وہ دن سب مسلمانوں پر بڑا بھاری تھا ۔ وہ سقوط غرناطہ کی پہلی شام تھی جو مسلمانوں کیلئے کبھی نہ ختم ہونے والی طویل ترین خونی شب کا آغاز ثابت ہوئی۔ آہ کہ اس شبِ کرب و بلا کی تاریکی ابھی تک نہیں چھٹ سکی۔ اس منحوس دن کی شام پہلی بار مساجد سے اذان مغرب کی صدا کی بجائے چہار سو صرف قتل وغارت کا شکار تڑپتے اور سسکتے ہوئے نہتے مسلمانوں کی چیخ پکار سنائی دیتی تھی۔ ایک طرف حوا کی بے لباس مسلمان بیٹیاں اپنی عزتیں بچانے کیلئے پناہ کی تلاش میں بھاگ بھاگ تھک کر عیسائی فوجیوں کی جنسی بربریت کے سامنے بے یارومددگار لٹ رہی تھیں ۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان میں بھارتی بھیڑیوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے والےجرنیلوں جیسا غرناطہ کا بے غیرت حکمران ابو عبداللہ بابِ دل معاہدے کے تحت ملکہ ازابیلا اور شہنشاہ فرڈ ننڈس کو شہر غرناطہ کی چابیاں پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ واہ رے مسلمانی کہ شکست خوردہ عیاش حکمرانوں کی طرف سے امت مسلمہ کی ذلالت و زذالت کی نمائش کا اہتمام پوری شہنشائی شان و شوکت سے کیا جا رہا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کیلئے آخری اندلسی حکمران ابو عبداللہ ، اس کے رنگیلے خاندان کے ننگ دین ارکان اور شراب و شباب کے رسیا درباری امرا، یوں اطلس و کمخواب کے زرق برق لباس زیب تن کئے تھے کہ گویا عید و جشن فتح کا اہتمام ہو۔ شہر خون مسلم سے رنگین تھا مگر اندلس کی شکست خوردہ فوج کے سپہ سالاروں کے زرہ بکتر سونے چاندی اور جواہرات کی رنگین لڑیوں سے چمک دمک رہے تھے۔
    اور پھر تاریخ مسلم ایک بار پھر دہرائی گئی سقوط مشرقی پاکستان کے دلدوز موقع پر عیاش فوجی جرنیلوں نے ایک بار پھر سے اسلامی تاریخ کو داغدار کر دیا۔ اندلس کے شکست خوردہ حاکم ابو عبداللہ نے شہر کی چابیاں دشمنان ملت کے حوالے کیں تو اس کے ہم نام امیر عبداللہ نیازی نے نوے ہزار فوجی دستیاب ہونے کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا آدھا حصہ ” باعزت انداز” میں اپنے بدترین دشمن بھارت کے حوالے کر دیا۔ اس سانحہء عبرت کے بعد کئی روز تک ایک ہزار برس مسلمانوں کے غلام رہنے والے اسلام دشمن بھارتی جشن فتح مناتے ہوئے اب پورا پاکستان مٹا دیں گے کے دجالی نعرے لگاتے رہے۔ صد افسوس کہ پاکستان کا بیغیرت جرنیل امیر عبد اللہ خان نیازی ملی بے حمیتی اور اخلاقی پستی میں غرباطہ کے حکمران ابو عبداللہ سے بھی چند قدم آگے نکل گیا ۔ نگاہ فلک نے یہ تماشہ بھی دیکھا کہ کلف لگی وردی اور سبز ہلالی ٹوپی کی کلغی میں ایک بے غیرت مرغے نے خود ائرپورٹ جا کرفاتح بھارتی جرنیل اروڑہ کا استقبال کیا۔ بھارتی جرنل اجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے سرنڈر سے قبل شکست کی دستاویزات کی تیاری کیلئے اروڑہ کا نمائندہ آیا تو جرنل نیازی اسے فحش لطیفے سناتا یا خوش گپیاں کرتا نظر آیا۔ احباب تاریخ مسلم گواہ ہے کہ ابو عبداللہ اندلسی نے سقوط غرناطہ کے بعد ندامت یا سلطنت چھن جانے کے غم میں چند آنسو ضرور بہائے تھے۔ مگر غیرت سے عاری جنرل امیر عبداللہ نیازی کو پوری زندگی امت کی عزت و آبرو اپنے مکار دشمن کے سامنے گروی رکھنے کا کچھ افسوس نہ ہوا۔ بے شرمی اور بے غیرتی کی انتہا یہ تھی کہ وہ مرتے دم تک بڑے فحر سے کہتا رہا کہ نوے ہزار فوجیوں کو زندہ سلامت نکال لانا میرا ہی کارنامہ ہے۔
    کالم نگار فضل حسین اعوان لکھتے ہیں کہ جب جنرل نیازی بھارتی جنرل کو اپنا پستول پیش کر رہا تھا تو ایک بنگالی مسلمان نے ان کے سر پر جوتے مارتے ہوئے کہا کہ اگر تم میں ذرا بھی غیرت ہوتی تو آج مر جاتے مگر دشمن کے سامنے ہتھیار نہ پھینکتے۔ کاش یہ بنگالی مسلمان ہی غیرت سے عاری پاکستانی جنرل کو گولی مار دیتا۔ قابل صد لعنت کہ جنرل نیازی انتہائی ڈھٹائی سے ہتھیار ڈالنے کے جواز میں ”حاکم وقت کا حکم تھا اسلام میں امیر کی اطاعت واجب ہے تاریخ میں امیر کی حکم عدولی کی مثال نہیں ملتی۔“ کے خودساختہ و بزدلانہ کلمات ادا کرتا رہا۔ دراصل بات اس ملی و قومی غیرت کی ہے جو اس جرنیل میں ہوتی تو مسلم اور غیر مسلم غیرت مند سپاہیوں کی تاریخ انگنت مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جنرل انامی کورے چیکا دوسری جنگ عظیم میں شکست خوردہ جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرنڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر تباہ کن ایٹمی حملوں کے بعد جاپان پر مذید ایٹمی حملوں کی دھمکی دے رکھی تھی۔ جاپانی شہنشاہ نے اپنے جنگی جرنیلوں کی طرف سے جنگ جاری رکھنے کی تجویز سے اتفاق نہ کیا اور ذاتی فیصلے کے تحت ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اس موقع پر کہا کہ ”ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے“ جنرل انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ ایسا موقع جنرل نیازی پر بھی آیا لیکن اس کے بعد جو کچھ اس باغیرت جنرل انامی نے کیا وہ ایک بے غیرت جنرل نیازی کبھی نہ کر سکا۔ سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز ہی جنرل انامی نے اپنے پستول سے خودکشی کر لی۔ جنرل انامی کورے چیکا نے اپنے لئے ایک باوقار موت کا انتخاب کیا۔ کاش جنرل نیازی ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دی ہوتی -
     
    ھارون رشید اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    "یہ کہانی ایک 10 سالہ بچی براءة کی ہے، جس کے والدین ڈاکٹر تھے اور جو بہتر معیارزندگی کےلیے سعودی عرب شفٹ ہو گئے تھے۔ اس عمر میں‌ براءة نے قرآن مجید مکمل تجوید کے ساتھ حفظ کیا۔ وہ بہت ذہین تھی اور اس کے استاد اسے کہتے تھے کہ وہ ذہانت میں اپنی عمر سے کافی آگے ہے۔
    اس کا خاندان چھوٹا تھا اور اسلامی تعلیمات پر کاربند تھا۔ اچانک ایک دن اس کی ماں کو پیٹ میں شدید تکلیف شروع ہو گئی اور کچھ ضروری ٹیسٹ کے بات یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اسے کینسر ہے اور وہ بھی آخری مراحل میں ہے۔ ماں نے سوچا کہ اسے یہ بات اپنی بیٹی کو بتا دینی چاہیے، کہیں‌ ایسا نہ ہو کہ ایک دن وہ سو کر اٹھے اور اپنی ماں کو اپنے پاس نہ پائے۔ اس نے براءة سے کہا:
    "براءة ! میں تم سے پہلے جنت میں جاؤں گی، لیکن تم ایسا کرو کہ جو قرآن تم نے حفظ کیا ہے اسے میرے سامنے تلاوت کیا کرو، کیونکہ یہ تمھیں اس دنیا میں حفاظت دے گا"۔
    چھوٹی بچی براءة بالکل نہ سمجھ سکی کہ اس کی ماں کیا کہنا چاہ رہی ہے، لیکن اسے اپنی ماں کی بیماری کی وجہ سے بدلتی ہوئی حالت محسوس ہونے لگ گئی تھی۔ خاص طور پر جب اس کی ماں‌کو مستقل بنیادوں پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ براءة روزانہ ہسپتال جاتی اور شام تک اپنی ماں کے پاس اس وقت تک تلاوت کرتی رہتی جب تک اس کا والد اسے لینے نہ آ جاتا۔
    ایک دن ہسپتال انتظامیہ نے براءة کے والد کو کال کی کہ اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچنا ہو گا، کیونکہ براءة کی والدہ کی طبیعیت بہت سخت خراب تھی۔ براءة کے والد نے اسے سکول سے لیا اور فورا ہسپتال گیا۔جب وہ ہسپتال پہنچے تو براءة کے والد نے اسے کار ہی میں‌ رکنے کو کہا۔۔۔ اس خیال سے کہ کہیں اسے اپنی والدہ کی اچانک وفات کا صدمہ نہ لگے۔
    براءة کا والد گاڑی سے نکلا ، آنکھوں میں‌ آنسو تھے اور وہ جلدی جلدی سڑک پار کر کے ہسپتال میں‌ داخل ہونے لگا۔ جیسے ہی وہ سڑک کے درمیان میں‌پہنچا، ایک تیز رفتار گاڑی آئی اور اسے روندتی ہوئی چلی گئی۔ براءة کا باپ اس کی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے چل بسا۔
    ابھی براءة کا یہ صدمہ دور نہیں ہوا تھا کہ اس کی ماں ( جس سے اس کے شوہر کی وفات کو پوشیدہ رکھا گیا تھا) بھی پانچ دن کے بعد وفات پا گئی۔ وہ اپنے والدین کے بغیر بالکل اکیلی ہو گئی۔ اس کے والدین کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ مصر میں براءة کے رشتہ داروں کو تلاش کیا جائے، تاکہ وہ اس کا خیال رکھ سکیں۔
    کچھ ہی عرصہ بعد براءة کو بھی پیٹ میں‌ ویسی ہی تکلیف شروع ہو گئی جیسی اس کی والدہ کو تھی، اور سب سے بڑھ کی یہ کہ وہ ہر ایک سے یہی کہتی تھی کہ "الحمد للہ ، اب میں اپنے والدین سے مل سکوں‌گی"۔ اس کے سب رشتہ دار حیران رہ گئے، کہ چھوٹی سی بچی صدمے پر صدمہ اٹھا رہی ہے اور پھر بھی اللہ کے کیے ہوئے فیصلے پر کتنی مطمئن ہے۔
    لوگوں میں‌براءة کی کہانی کافی مشہور ہو گئی اور ایک سعودی نے اس کا خیال رکھنا شروع کیا اور اسے علاج کے لیے انگلینڈ بھیج دیا۔ ایک اسلامی چینل "الحفیظ" نے اس سے رابطہ کیا اور اس سے گزارش کی کہ وہ اپنی پیاری آواز میں تلاوت قرآن سنائے۔ یہ اس کی خوبصورت تلاوت ہے:

    [ame]

    چینل والوں نے اسکے کومے میں جانے سے پہلے ایک مرتبہ پھر رابطہ کیا اور اس نے اپنے والدین‌ کے لیے دعا کی
    اب یہ نیں معلوم کے وہ زندہ ہے یہ اس دنیا سے چلی گی ،، اگر وہ دنیا میں ہے تو اللہ اس کو لمبی زندگی عطا آمین اور اگر اس کی وفات ہو گی ہے تو اللہ اس کو اعلی درجات عطا فرمائے آمین
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    ہارون الرشید نے ایک دن شاہی باورچی سے دریافت کیا ، کیا جزدر (ایک قیمتی و نایاب جانور) کا گوشت ہے مطبخ خانے میں ؟
    ہر طرح کا ہے حضور ۔ شاہی باورچی نے جواب دیا
    تو آج رات کا کھانا اسی سے ہوگا۔ ہارون الرشید نے حکم دیا۔
    رات کا کھانا لگایا گیا ، ہارون الرشید نے جزدر کے گوشت کا ایک نوالہ منہ میں رکھا پاس اس کا وزیر جعفر برمکی کھڑا تھا وہ ہنس دیا ، ہارون الرشید نے دریافت کیا کہ تم ہنسے کیوں ؟
    جعفر نے کہا کہ بس چھوڑیئے ۔ ہارون الرشید کہنے لگے نہیں جب تک بتاو گئے نہیں میں کھانا نہیں کھاوں گا
    آپ کے خیال میں یہ جو ابھی ایک لقمہ آپ نے کھایا ہے اسکی مالیت کیا ہوگی ؟ جعفر نے دریافت کیا ؟
    قریبا تین ہزار درہم ۔ ہارون الرشید کا جواب تھا
    نہیں حضور اسکی قیمت 4 لاکھ درہم ہے ، جعفر حیران کرنے پر تلا ہوا تھا
    یہ سن کر ہارون الرشید کے کان کھڑے ہوگئے پوچھا وہ کیسے ؟
    جعفر کہنے لگا کہ کچھ عرصہ قبل بھی آپ نے اس گوشت کی فرمائش کی تھی اتفاق سے یہ گوشت اس وقت موجود نہ تھا آپ نے کہا کہ یہ گوشت شاہی باورچی خانے میں موجود رہنا چاہیے آپ تو یہ بات کرکے بھول گئے لیکن ہر روز اس جانور کے گوشت کی فراہمی یقینی بنائی گئی لیکن آپ نے دوبار ہ فرمائش نہیں کی ، آج کی ہے اور ابھی تک 4 لاکھ درہم کا گوشت خریدا جاچکا ہے ، بس مجھے اسی بات پر ہنسی آگئی کہ ایک ڈش کے لیے چار لاکھ درہم ابھی تک صرف ہوچکے ہیں
    یہ سننا تھا کہ ہارون الرشید کا خوف کے مارے برا حال ہوگیا زاروقطار رونے لگا کہ اسکی وجہ سے اتنا اسراف ہوگیا حکم دیا کہ دسترخوان اٹھا لیا جائے اور کچھ نہ کھایا ، مداوا کے لیے دو لاکھ درہم مکہ و مدینہ کے مستحق لوگوں کی طرف بطور خیرات بھیجے اور اتنے ہی کوفہ و بغداد کے فقرا میں تقسیم کیے لیکن قلق پھر بھی باقی رہا اور غم کے مارے کچھ نہ کھا سکا ، یہاں تک کے قاضی ابویوسفؒ تشریف لائے پوچھا اس حال کی کیا وجہ ہے ؟ خلیفہ نے ماجرا بیان کیا
    ابویوسفؒ نے ساتھ کھڑے جعفر برمکی سے پوچھا کہ یہ جو ہرروز جانور ذبح کیا جاتا تھا کیا اسکا گوشت ضائع ہوجاتا تھا ؟ اس نے جواب دیا نہیں ضائع تو نہیں ہوتا تھا بلکہ اسکو غریب لوگوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا
    ابویوسفؒ نے یہ سن کر خلیفہ کو تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہو بلکہ آپ کی بدولت غریب لوگ بھی ایسا شاندار کھانا کھاتے رہے ہیں اور یہ ایک صدقے کی مانند ہے
    یہ سن کر خلیفہ کا رنج و الم دور ہوا اور اس نے کھانا کھایا۔
    بحوالہ البدایہ و النہایہ از امام ابن کثیرؒ
    تو کہنا یہ ہے کے رزق کی قدر کیجے ،،
    ہم سب کو رزق کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں