1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کچھ اردو زبان کے بارے میں

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از بانیاز خان, ‏23 جنوری 2012۔

  1. بانیاز خان
    آف لائن

    بانیاز خان ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2012
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان


    دوستو یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ ہماری قومی زبان اردو ہے
    تو مجھے اردو زبان کے حوالے سے کچھ پس منظر جاننے کا اتفاق ہوا تو
    سوچا اسے آپ لوگوں سے بھی شیئر کیا جائے
    ہوسکتا ہے بہت سے ممبرز کے لیے یہ معلومات نئی ہوں اور انکے علم میں اضافے کا باعث بنیں


    اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں ۔ 1637ء کے بعد جو شاہی لشکر دہلی میں مقیم رہا وہ اردوۓ معلی کہلاتا تھا ۔ اس لۓ اس کو عام طور پر لشکری زبان بھی کہا جاتا تھا ۔ کیونکہ یہ ہندی،ترکی،عربی،فارسی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب تھی ۔ لیکن بعض محققین کا یہ خیال ہے کہ یہ آریاؤں کی قدیم زبان کا لفظ ہے ۔ سر سید احمد خان اور سید احمد دہلوی کا دعوی ہے کہ اردو زبان کی ابتدا شاہجہانی لشکر سے ہوئی اس لۓ اس کا نام اردو پڑا ۔ بہرصورت اس وقت اس زبان کو ہندوی، ہندوستانی ، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا ۔
    اردو زبان کو مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کیں اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گۓ ۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔
    ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کسی فرد کی تخلیق نہیں ہوتی بلکہ زبان کو معاشرتی ضرورت نے پیدا کیا اور اس کا ارتقاء زمانہ کی ضرورت اور حالات و افکار کے تابع رہا جس میں صدیوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔
    بقول باباۓ اردو مولوی عبدالحق ۔
    "" جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے ۔ پتے نکلتے ،شاخیں پھیلتی ،پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تناور درخت ہو جاتا ہے اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ہے ۔ بڑھتی اور پھیلتی ہے ۔ ""
    دور اول میں اردو زبان درج ذیل ناموں سے موسوم رہی ہے ۔ اور اس کا ارتقائی سفر جاری و ساری رہا ۔
    1۔ حافظ محمود شیرانی اور بعض دیگر ماہرین لسانیات کے مطابق قدیم اردو کو ہندوستان کی نسبت سے ہندی یا ہندوی کہا جاتا رہا ہے ۔ قاضی خان بدر اور سراج الدین علی خان آرزو نے ہندوستان کی زبان کو ہندی یا ہندوی لکھا ہے ۔ مفتاح الفضلاء اور دستورالبیان میں بھی اس زبان کو ہندی ہی لکھا گیا ہے ۔
    صوفیاۓ کرام نصیرالدین چراغ دہلوی ۔ شریف الدین یحیی منیری اور اشرف جہانگیرسمنانی نے بھی اس زبان کو ہندی یا ہندوی ہی کہا ہے ۔ مغل فرمانروا بابر نے اپنی کتاب تزک بابر میں ایک شعر کو ہندوی کے طور پر درج کیا ہے ۔ شاہ عبدالقادر نے بھی اس زبان کے لۓ ہندی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔
    2۔ رام بابو سکسینہ نے اپنی کتاب "" تاریخ ادب اردو "" میں لکھا ہے کہ قدیم انگریز مورخ جنہوں نے ہندوستان کے حالات لکھے تو اردو کو "" اندوستان "" سے تعبیر کرتے تھے ۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے 1877ء میں سب سے پہلے لفظ "" ہندوستانی "" اردو زبان کے واسطے استعمال کیا ۔ میرامن "" باغ و بہار "" میں ہندوستانی کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
    اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو زبان کو ہندوستانی زبان کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے ۔
    3۔ ""ریختہ"" کے لفظی معنی ہیں بنانا ،ایجاد کرنا، نۓ سانچے میں ڈھالنا ،موزوں کرنا ۔ لیکن ہندوستانی ادبیات میں اسے اردو زبان کے قدیم نام کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔
    مولانا محمد حسین آزاد اردو کے اس نام ریختہ کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
    "" مختلف زبانوں نے اسے پختہ کیا جیسے دیوار کو اینٹ ، مٹی چونا اور سفیدی سے پختہ کرتے ہیں ۔ یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری پڑی چیز ۔ پریشان چیز ۔ چونکہ اس میں الفاظ پریشان جمع ہیں اس لۓ اسے ریختہ کیا گیا ہے ۔
    میر تقی میر نے اپنے تذکرہ "" نکات الشعراء "" میں ریختہ کی وضاحت اور تشریح کی ہے ۔ اس کے علاوہ بابا فرید گنج شکر اور شیخ بہاؤالدین کے ہاں بھی ریختہ کا تذکرہ ملتا ہے ۔ پہلے یہ زبان نثری تحریروں کا خاصا تھی لیکن بعد میں شاعری کے لۓ معروف اور مقبول ہو گئی ۔
    اسداللہ غالب کے ہاں اردو دیوان میں کئی مقامات پر ریختہ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں اس کا ذکر کیا ہے ۔

    ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب لشکر یا فوج اور چھاؤنی ہے ۔ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں ۔عام طور پر لشکر ،پڑاؤ، خیمہ،بازار ، حرم گاہ اور شاہی قلعہ اور محل کے لۓ استعمال ہوتا ہے ۔
    اردو کا لفظ سب سے پہلے بابر نے تزک بابری میں استعمال کیا ہے ۔ عہد اکبری میں یہ لفظ عام طور پر معروف و مقبول ہو چکا تھا ۔ شہنشاہ شاہ جہاں نے نئی دہلی آباد کرکے شاہی قلعے کو "" قلعہ معلی "" کے نام سے موسوم کیا تو عربی ،فارسی ،ہندی وغیرہ سے ملی جلی زبان کو جس کا رواج شاہی لشکر میں ہو گیا تھا ۔ اردو معلی کا دیا ۔ آگے چل کر وہ زبان اپنے خاص محاوروں اور اصطلاحوں کے ساتھ قلعہ معلی میں بولی جاتی تھی ۔ اردوۓ معلی سے اردو قرار پانے کے عمل تک کے بارے میں ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار کے بقول ۔
    "" قدیم اردو کا نام اٹھارھویں صدی عیسوی تک ہندی یا ہندوی لیا جاتا رہا ۔ اس کے بعد زبان کا معیار شہری طبقے ( دہلی کے شرفاء ) کا روز مرہ قرار پایا تو اسے زبان اردوۓ معلی کہا جانے لگا ۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں معلی کی نسبت ترک کرکے زبان کا نام اردو لیا جانے لگا ۔""

    خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہی میر و مرزا کی
    کہیں کس منہ سے اے مصحفی اردو ہماری ہے


    وقت گزرنے کے ساتھ اس زبان کو ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا جانے لگا اور یوں یہ بہتری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے لگی اور آج یہ اکثر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔
    بہرحال اس کی آب یاری اور ترویج و ترقی میں شمالی ہند کے تمام علاقوں نے حصہ لیا ۔ یہیں کے لوگ اسے دکن میں لے گۓ اور یہ وہاں دکنی اور گجراتی زبان کہلائی ۔ اس کے فروغ میں حیدرآباد دکن اور پنجاب کی خدمات اتنی ہی اہم ہیں جتنی دہلی اور یوپی کی ۔ خصوصا پنجاب نےاس کے علمی و ادبی خزانوں میں بیش بہا اضافہ کیا ۔ جس کی کوئی مثال نہیں پیش کی جا سکتی ۔


    ♣♣♣♣♣♣♣
    بانیاز خان
    ♣♣♣♣♣♣♣
     
  2. بانیاز خان
    آف لائن

    بانیاز خان ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2012
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ اردو زبان کے بارے میں

    سندھ میں اردو


    یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوزبان وجود پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں

    ”مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔“

    اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان، لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاو اسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل“ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوےٰ کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔ بقول ڈاکٹر غلام حسین

    ”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کی ابتداء کا قیاس شاید درست نہ ہوگا۔“

    اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگئی۔ اس آمیز ش کا ہیولیٰ قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔
     
  3. بانیاز خان
    آف لائن

    بانیاز خان ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2012
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ اردو زبان کے بارے میں

    پنجاب میں اردو


    حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی ابتداء پنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتداء اس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمو د غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیام سے تقریباً دو سو سال تک یہ فاتحین یہاں قیام پذیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پذیر ہوا اس نظریے کی صداقت کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس علاقے کے بہت سے شعراء کا کلام پیش کیا ہے۔ جس میں پنجابی،فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:

    سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ 1000ء سے 1026ء تک جاری رہا اور پنجاب و سندھ کے علاوہ قنوج، گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا البتہ 1025ءمیں لاہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے، علماء اور صوفیا نے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گروہ درگروہ اسلام قبول کرنے لگے اس سماجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر پڑا۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاںکی زبان کو بول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان، عربی، فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔

    مسلمان تقریباً پونے دو سو سال تک پنجاب، جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔ 1193ء میں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہوگئے۔ اب لاہور کی بجائے دہلی کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو لازماً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی، ان کے ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی۔

    تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے علاوہ پرفیسر محمود خان شیرانی، اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں: ”اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء و افعال کے خاتمے میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد، افعال مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔

    مختصراً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی بناء پر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔

    پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتداً اختیار کی وہ وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ، نوسو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔

    حافظ محمود شیرانی کی تالیف ”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی مولانا محمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتداء کے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ ذرا مشکوک سا ہو گیا۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتداء کے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے سکے۔ یوں حافظ محمودشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔


    ♣♣♣
    ♣♣♣♣
    بانیاز خان
    ♣♣♣♣♣♣♣


    [​IMG]
     
  4. جبران
    آف لائن

    جبران ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جنوری 2012
    پیغامات:
    39
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ اردو زبان کے بارے میں

    بازبان نیاز بھائی بہت اچھی معلومات شیئر کیں آپ نے ان میں سے بہت سی باتیں پہلے علم میں‌نہیں تھیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں