چلیں مل کر ان تصاویر میں پوشیدہ پیغاموں کی کچھ تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سین ، غوری ، مریم سیف ، پاکستانی55 ، نعیم ، ھارون رشید ، نایاب
پہلی تصویر سے میں شروع کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے اس تصویر میں سوشل میڈیا کے عادی افراد پر طنز کیا گیا ہے۔ وہ دنیا کو حقیقی نظروں سے دیکھنے کی بجائے سوشل میڈیا کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔
مجھے لگتا ہے کہ اس تصویر کے ذریعے یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج کی دنیا کے لوگ خود کو پہروں محبوس کرکے فیس بک کے ذریعے دنیا کو دیکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اصل دنیا کا حسن کھورہے ہیں۔
سنگلاخ چٹانوں میں پیسہ اور اسلحہ پہچانے والوں نے سادہ لوح جاں نثاروں کو گوں ناگوں مشکلات میں پھنسا دیا مگر کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اسی کے پیش نظر کوہساروں میں کشت و خون سے نبرد آزماء جوانوں نے کس سادگی سے راکٹ لانچر تیار کیا اور پھر اسے پیٹ کی آگ بجھانے کے چکر میں کہاں سے کہاں دوڑاتے رہے۔
یہ راکٹ لانچر والی فوٹو میں مجھے کچھ ironical اورsatirical اشارہ محسوس ہوتا ہے مگر میں وضاحت کرنے سے قاصر ہوں
جمہوری معاشروں میں ووٹ کا حق ایسی طاقت ہے جس کے ذریعے عوام الناس اپنے لئے حاکم کا انتخاب کرتے ہیں مگر ایسے معاشرے جہاں آذادی کا نام لینا گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے اور جہاں اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا غداری کے زمرے میں گردانا جاتاہے۔ اور وہاں انتخابات کے نظام کو اس قدر پیچیدہ اور مہنگا بنا دیا جاتا ہے کہ عوامی نمائندے صرف ووٹ کا حق ہی استعمال کرسکتے ہیں مگر امیدوار ہونے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ جبکہ طاقت ور سامراج اور اس کا مسلط کردہ انتخابی نظام بے حس بیوکریسی اور طاقت ور پولیس کی نگرانی میں مخصوص نمائندوں کو کامیاب کروانے کے لئے ایک عمومی مشق ہے جس میں کون کس کو ووٹ ڈالتا کوئی نہیں جانتا۔۔ مندرجہ بالا تصویر میں عوام الناس کو بھیڑ بکریوں کی طرح ظاہر کیا گیا ہے اور ووٹ والے خانے کو سبز رنگ اس لئے دیکھایا گیا ہے کہ جانور سبز چارے کی تلاش میں نجانے کہاں کہاں کی گرد چاٹتے پھرتے ہیں کہ انھیں سبزہ زار مل جائے مگر سامراجی نظام میں سبزہ زار ایک سراب سے مختلف نہیں ہوتا۔۔۔۔ گویا 2013 الیکشن پاکستان۔