1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کورونا وائرس سے ڈرنا نہیں‘لڑنا ہے ۔۔۔۔۔۔ نسیم الحق زاہدی

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 مارچ 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کورونا وائرس سے ڈرنا نہیں‘لڑنا ہے ۔۔۔۔۔۔ نسیم الحق زاہدی


    اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وطن ِعزیز میں تاحال کورونا وائرس کے پھیلنے کی شرح نہایت کم ہے‘ اس کے باوجود کہ پاکستان‘ چین اور ایران سے متصل ملک ہے۔ کورونا وائرس سے دنیا کے کئی ممالک میں لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں‘ یہ موت کا خوف ہے یا پھر اس وائرس کے بار بار کا تذکرہ اور اسی کو موضوع بحث بنائے رکھنے سے یہ ہمارے اعصاب پر طاری ہوا ہے‘ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے معلومات اور موضوع بحث بنانے کے حوالے سے اعتدال میں لانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ یہ وائرس لگے یا نہ لگے ‘ہم خدانخواستہ اس سے نفسیاتی طور پر کسی بیماری کا شکار نہ ہوجائیں اور خوف کے باعث ہمارا مدافعتی نظام کمزور ہو کر نفسیاتی عوارض یا پھر جسمانی بیماری کا شکار نہ ہوجائیں۔ حکومت نے جواقدامات اٹھائے ہیں ‘اگر حکومت ایسا نہ کرتی تو خواہ مخواہ کی تنقید کا شکار ہوتی۔ بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی حفاظت کیلئے پیشگی اور ممکنہ اقدامات کرے۔ بطورِ مسلمان اگر اس وباء کے حوالے سے ہم اپنے کردار وعمل کا جائزہ لیں تو افسوس ہوتا ہے کہ مسلمان ممالک میں ایسے ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں ‘جو ہمارے ایمان کے متزلزل ہونے کی دلیل ہے۔ مسجد الحرام کی بندش اور طواف کاموقوف ہونا کس قدر تکلیف دہ مقام ہے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کویت میں مساجد بند کر کے الصلوۃ فی البیوت کا لفظ اذان میں شامل کردیا گیا ہے۔محولہ دونوں فیصلوں اور خاص طور پر اذان میں تحریف کے حوالے سے علمائے کرام ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں۔ احتیاط کے تقاضوں سے انکار ممکن نہیں‘ لیکن بطور ِمسلمان زندگی وموت پر ہمارا جو عقیدہ ہے‘ اس کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ جب ساعت آتی ہے تو اس میں لمحہ بھر کی تعجیل ہوتی ہے اور نہ تقدیم ممکن ہے۔ کسی وبا کا خوف ہمارے اس عقیدے کو خدانخواستہ متاثر نہ کرے۔ اس امر کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ بطور ِمسلمان ہی نہیں‘ بلکہ بطور بنی نوع انسان ایک نہ ایک دن ہمیں اس دنیا سے جانا ہی ہے۔ احتیاط ضرور کرنے کی ضرورت ہے‘ مگر نفسیاتی طور پر خود پر اس قدر خوف کہ جان نکالنے والی ہو‘ مسلمان کا شیوہ نہیں۔ عقیدہ اسلام سے قطع نظر دنیاوی وسائنسی طور پر بھی حوصلہ بلند رکھنے اور ہمت کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرنے کا طریقہ کار اختیار کرنے کی ہدایت ہے‘ اگر ہم خیبرپختونخوا کی بات کریں‘ تو کچھ عرصہ قبل کی باتیں ہیں کہ جب اس صوبے میں ایک ہی دن میں کئی خود کش دھماکے ہوتے تھے‘ روزانہ کی بنیاد پر خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے عوام کا واسطہ رہا ‘ان حالات کا مقابلہ ہم نے ہمت اور جوانمردی کے ساتھ کیا۔ ہمارے جوانوں نے خود کو قربان کر کے لوگوں کا تحفظ کیسے کیا کیا؟ سوائے ذات باری تعالیٰ پر ایمان اور موت وحیات اسی ذات عالی کے ہاتھ میں ہونے اور بصورت موت شہادت کے عظیم رتبے پر فائزہونے کے یقین کے علاوہ اور کوئی حوصلے کا باعث امر تھا؟ یقینا نہیں۔ بطورِ مسلمان خواہ انہوں نے وردی زیب تن کی ہو یا عام آدمی ‘امیر ہو یا غریب‘ ہر کسی کیلئے عقیدہ دین اسلام سے بڑھ کر ہمت کا باعث کچھ اور ہے ہی نہیں۔ ہم مسلمان ہیں‘ موت کے معین وقت پر ہمارا ایمان ہے۔ ہم اس دنیا کے بعد کی زندگی پر پوری طرح قائل اور اس پر مکمل عقیدہ رکھتے ہیں‘ لہٰذا ہمیں ذات ِباری تعالیٰ پر توکل رکھنا چاہیے‘ باقی ممکنہ احتیاطی تدابیر پر حکومت کی ہدایات اور فیصلوں پر عملدر آمد ایک دوسرے کا خیال اور ممکنہ احتیاط‘ بطورِ مسلمان اور بطورِ پاکستانی ہم پر فرض اور ہمارے دین کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ وبا سے جس قدر بھی احتیاط کی جائے‘ خود کو مکمل طور پر بچانا ممکن نہیں ہوتا‘ اس لئے احتیاط ضرور کیجئے‘ مگر اسے اپنے ذہن پر خوف طاری نہ ہونے دیں۔آخر میں یہی عرض ہے کہ کورونا وائرس سے ہمیں ڈرنا نہیں‘ بلکہ اس کیخلاف لڑنا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں