1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کوئی نہ تھیں مرے اوپر قیود ماضی میں

'آپ کی شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مزمل حسین چیمہ, ‏28 اپریل 2016۔

  1. مزمل حسین چیمہ
    آف لائن

    مزمل حسین چیمہ ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جون 2014
    پیغامات:
    17
    موصول پسندیدگیاں:
    28
    ملک کا جھنڈا:
    ہماری اردو کے لیے ایک غزل


    کوئی نہ تھیں مرے اوپر قیود ماضی میں
    رقیبوں کے لیے تھیں بس حدود ماضی میں

    چھپائے بیٹھی تھیں میری نگاہیں جس غم کو
    فقط تمہارے لیے تھا شہود ماضی میں

    وہی زباں مری رسوائی کی کرے چرچا
    کہ جس زباں پہ تھی میری حمود ماضی میں

    ہم ایک دوسرے بن رہ نہ پائیں مر جائیں
    کچھ ایسے ہی تھے ہمارے عمود ماضی میں

    اتار بیٹھے ہیں جس سانچے میں محبت ہم
    کہ ایسی تو نہ تھی کوئی نمود ماضی میں

    اداس آنکھیں نظر آئیں آئینے میں فقط
    میں چھوڑ آیا ہوں باقی وجود ماضی میں

    ابھی یہ حال ہے رو دیتے ہیں تمہیں تک کر
    تمہاری دید غزل تھی کشود ماضی میں

    شاعر: مزمل حسین چیمہ
    (جی سی بوسال)
     
    عبدالمطلب اور مخلص انسان .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں