1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کوئل زنانہ :: از::اشرف صبوحی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از سید شہزاد ناصر, ‏18 اپریل 2019۔

  1. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ہیجڑوں، بھانڈوں اور زنانوں کا بھی ہندوستان میں بڑا زور تھا۔ درباروں سرکاروں تک رسائیاں تھیں۔ دنیا میں اور جگہ بھی یہ مخلوق پیدا ہوتی ہوگی، لیکن خدا جانے وہاں انھیں کس نگاہ سےدیکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو انُ کی خوب آؤ بھگت تھی۔ جس محفل میں یہ نہ ہوتے رانڈ سمجھی جاتی۔ان میں بھی بڑے بڑے نامی گرامی گزرے ہیں۔ اچپل، گل زار بھانڈ، شہزادہ، دولھا ہیجڑے، شام گھٹا اور کوئل زنانے اپنے اپنے وقت کے چمکتے ہوئے ستارے تھے۔وہ جو کہتے ہیں جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔ کسی نے سچ کہا ہے ؎
    خاکسارانِ جہاں رابہ حقارت منگر
    توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
    دنیا والے انھیں کسی نظر سے کیوں نہ دیکھیں، کیسا ہی حقیرو ذلیل سمجھیں، اللہ میاں کی مہربانیاں خاص نہیں عام ہیں۔ بارش جب ہوتی ہے کوڑی اور باغ پر یکساں۔ سورج جب چمکتا ہےپھول اور کانٹے سب اس کی شعاعوں سے برابر مستفید ہوتے ہیں ؎
    سنگ کیوں لعل ہوا؟ نیّر اعظم کی نگاہ
    دانہ کیوں سبز ہوا؟ مسکرمتِ ابر سیاہ
    ایسی اچھوتی مخلوق میں بعض بعض مائی کے لال صاحب کمال بھی تھے۔ کہتے ہیں آخری وقت میں غدر کے بعد کا ذکر ہے ایک ہیجڑے کو جو حج کی دھن سمائی تو اپنے سارے دھندےچھوڑ اگلے پچھلے گناہوں سے توبہ کر، گہنا پاتا بیچ سفر کی تیاری کرلی۔ سن رکھا تھا کہ گندی کمائی کے
    روپے سے حج نہیں ہوتا۔ مولویوں کے پاس پہنچا لیکن سب نے دھتکار دیا۔ بہت پریشان ، دل میں شمع رسالت کی لو لگی ہوئی۔ خیال آیا درویشوں سے پوچھنا چاہیے۔ ان دنوں ایک رند مشرب ملنگ شاہ میر کی بڑی شہرت تھی، ہچکچاتا ہوا ان کے پاس پہنچا۔ شراب کا دور چل رہا تھا دور سے دیکھتے ہی بولے:’’ابے حرام حلال کرنے والوں کے پاس جا، یہاں تو پینی پڑے گی‘‘ بیچارا چپ کھڑا ہوگیا۔شاہ میر: حج کا ارادہ اور مولویوں کی معرفت؟ہیجڑا: حضور سب کہتے ہیں کہ تیرا روپیہ گندا ہے۔شاہؔ میر: پھر وہ اپنی کوثر کا چھینٹا دے کر پاک نہیں کرسکتے؟ہیجڑا غریب کیا جواب دیتا۔ چپ منھ دیکھنے لگا۔شاہ میر:کھڑے کھڑے جائے گا؟ بیٹھتا کیوں نہیں۔ہیجڑا: )بیٹھ کر( حضور!شاہ میرؔ: )شراب کی پیالی بھر کر( لے یہ تو پی۔ہیجڑا: قبلہ توبہ کر چکا ہوں۔شاہ میرؔ: تو حج بھی ہوچکا۔ ابے اسی میں غوطہ مار کر حج ہوگا۔ہیجڑا:ؔ پیرو مرشد۔شاہ میرؔ: جا تو پھر مولویوں سے فتویٰ لے۔ یہاں تو اسی راہ سے حج کو بھیجا کرتے ہیں۔شاہ صاحب کی لال لال آنکھیں دیکھ کر کچھ تو وہ ڈرا اور کچھ انُ پر اعتقاد ، جھٹ پیالہ اٹھا کر منھ سے لگالیا۔ عجب مزا پایا۔ شراب کیا تھی، دودھ اور شہد کے گھونٹ تھے۔شاہؔ میر: ہاں بھئی حج کو جاؤ گے؟ کتنا روپیہ ہے؟ہیجڑا:ؔ کچھ کم دو ہزار۔شاہ میرؔ: اچھا، کل اسی وقت یہاں لے آنا۔ ہم اسے پاک کردیں گے۔ہیجڑا کچھ دیر بعد وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر آیا۔ دن بھر اور رات بھر سوچتا رہا کہ روپیہ کس طرح پاک ہوسکتا ہے؟ شرابیوں کی باتیں ہیں، کوئی اور فتور نہ پڑ جائے۔ صبح ہوئی دل دھکڑ
    پکڑ تھا، مگر حج کی چٹیک بھی لگی ہوئی تھی۔ روپیہ پوٹلی میں باندھ سیدھا تکیے پہنچا۔شاہ میرؔ) ہیجڑے کو دیکھتے ہی پکار کر( آگئی سونے کیچڑیا) اپنے چیلے چانٹوں سے( کیا دیکھتےہو لوٹ لو بھٹی بنائیں گے۔ خدا نے دن پھیر دیے۔وہاں کیا دیر تھی اور ہیجڑے بیچارے کی کیا ہستی۔ جا دبوچا۔ پوٹلی چھین حصے بخرے ہونےلگے۔ اسُ کی س گم ، حواس باختہ، نہ لڑنے کی طاقت نہ واویلا مچانے کا دھرم۔ جنگل بیاباں قبرستان میں کون اس کی فریاد سنتا۔شاہ میر: کیوں بھئی حج کو جانے کا ارادہ ہے؟ہیجڑا آنسو بہا کر میاں، اب میں کیا کروں حرام حلال کی جیسی کمائی تھی وہ بھی تم نے لٹوادی۔شاہ میر: اللہ کو یاد کرو۔ہیجڑا:ؔ ہارے کی فریاد اللہ ہی سننے والا ہے۔شاہ میر: تو بھائی پاؤں پیدل چلے جاؤ۔ہیجڑا:ؔ میاں اتنا دم ہوتا تو اب تک کبھی کا چلا جاتا۔شاہ میرؔپیالہ بھر کر( اچھا لو، اسے پیو اور تمہاری ہم کیا خاطر کریں۔ کُڑھو نہیں حج کوجانے کا بھی انتظام ہوجائے گا۔ہیجڑا دم بہ خودشاہؔ میر: لال لال آنکھیں چمکا کر( پیتا ہے یا نہیں۔ زیادہ نخرے کیے تو یاد رکھ ابھی سونٹاپڑنے لگے گا۔ہیجڑا غریب سہم گیا۔ پینی پڑی۔ اب کے مرشد کے پیالے میں کچھ اور رنگ تھا۔شاہ میرؔ: اپنے چیلوں سے( یارو، ایک غریب حج کو جانا چاہتا ہے۔ حسب توفیق اس کی مددکرو جو جس کے پاس ہو، اسے دے دو۔ اتنا کہنا تھا کہ سب نے اپنی اپنی لوٹ کے روپے نکال کرسامنے رکھ دیے۔ ہیجڑے کو حیرت ہوئی۔ رومال پھیلا جلدی جلدی سمیٹنے لگا۔شاہ میرؔ: بس بھئی، اب تو خوش ہوئے۔ لو سدھارو اور جاکر اپنے مولویوں سے فتویٰ بھی چاہے لے لو۔ اٹھو روانہ۔ پیر مغاں سے ہمارا بھی سلام کہہ دینا۔ چنانچہ اسی سال وہ حج کو گیا اور وہیں کا ہورہا۔ ہر برس حاجی آکر سناتے کہ ہیجڑے کی تو
    تقدیر کھل گئی۔ روضہ اقدس پر اپنے سر کے بالوں سے جھاڑو دیا کرتا ہے ؎
    کیا شان دکھائی ہے اے سوختہ سامانی
    اسُ شمع رسالت کا پروانہ بنا دیکھا
    کوئل زنانہ نام سے ظاہر ہے کہ آبنوسی رنگ کا ہوگا۔ کوئل کو تو مرے ہوئے کم از کم چالیس برس ہوئے ہوں گے۔ شام گھٹا تو ابھی کوئی پندرہ برس ہوئے مرا ہے۔ حج کرکے خاصی صوفیوں مولویوں کی سی وضع اختیار کرلی تھی۔ کوئل کا رنگ اس سے زیادہ وار نشی تھا۔ لڑکپن کےزمانے کا کیا پوچھنا۔ زنانوں کی ٹولی میں جب پہلے پہل گایا ہے تو عاشق مزاجوں کے دلوں کا ستھراؤ کردیا۔ دّلی کے ہیجڑا پرستوں کا اس کے کوٹھے پر رمنا لگ گیا۔ کہتے ہیں گپو کار خانہ دار کے بیٹےسانولیا نے اسی پر افیم کھائی تھی۔ لال کنوئیں پر کئی دفعہ چاقو چلے تھے۔ ہیجڑوں کی وضع قطع، بولی ٹھولی تو دیکھی سنی ہوگی، کوئل کی رسیلی آنکھیں، چمکیلا رنگ، صاف ستھرا ناک نقشہ، پھر پھبن،اس بانکپن پہ کون نہ مرتا۔ اچھے اچھے ثقہ آنکھیں چرا چرا کر دیکھتے۔ صوفیوں کو دھوئیں میں ھّیا بن کر جس وقت وہ بانسری بجاتا، اس کی آواز پر بجلیاں چمکتی نظر آتیں۔ طور کا جلوہ دیکھتے۔ کن ہزاروں برسوں کی بھٹکی ہوئی گوپیوں کی روحیں جمع ہوکر تھرکنے لگتیں۔لیکن رہے نام سائیں کا۔ جوانی کا سایہ کیا اٹھا، روپ کیا ڈھلا کہ کوئل آندھی کا کوّا بن گئی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چھجو شاہ ایک مجذوب فقیر نے اپنا کرشمہ دکھایا۔ یہ ان کے پاس اکثر
    جایا کرتا تھا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں