1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کنوئیں کے مینڈک مت بنیں ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم تبسم

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏6 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کنوئیں کے مینڈک مت بنیں ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم تبسم

    کسی آدمی کو مچھلی پالنے کا بہت شوق تھا مگر اس کے پاس مچھلی رکھنے کی جگہ نہ تھی بہر کیف شوق تو پھر شوق ہے پورا کرنا ہی تھا چنانچہ وہ سمندر سے ایک مچھلی پکڑ لایا اور اسے اپنے گھر میں موجود کنوئیں میں ڈال دیا۔اس کنوئیں میں مینڈکوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی یوں کہہ لیجیے کہ حکومت ہی مینڈکوں کی تھی۔ مینڈکوں کی ساری عمر یہیں گزری تھی مچھلی ان کے لیے بالکل نئی چیز تھی اب جب ایک نئی چیز دیکھی تو پہلے تو وہ ڈرے گھبرائے دور دور گھومنے لگے۔ آخر کار ایک بڑے مینڈک نے ہمت دکھائی اور مچھلی کے تھوڑا قریب گیا اور پوچھا: تم کون ہو ؟
    میں مچھلی ہوں ! مچھلی نے جواب دیا۔
    مینڈک : تم کہاں سے آئی ہو؟
    مچھلی : سمندر سے۔
    مینڈک : وہ کیا ہوتا ہے؟
    مچھلی : وہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ اور اس میں پانی ہوتا ہے۔
    مینڈک نے کہا : کتنا بڑا ؟
    مچھلی : بہت بڑا۔
    یہ سن کر مینڈک نے اپنے گرد چھوٹا سا گول چکر کاٹا اور پھر مچھلی سے پوچھا : کیا اتنا بڑا ہوتا ہے ؟
    مچھلی مسکرائی اور بولی نہیں بڑا ہوتا ہے۔
    مینڈک نے تھوڑا بڑا چکر لگایا اور کہا اتنا بڑا ؟
    مچھلی ہنسی اور کہا نہیں بہت بڑا ہوتا ہے۔
    مینڈک اب جوش میں آ گیا اور اس نے آدھے کنوئیں کا چکر لگا کر مچھلی کی طرف دیکھا، جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب ؟
    مچھلی نے پھر نفی میں سر ہلایا۔
    اب تو مینڈک نے پوری رفتار سے پورے کنوئیں کا چکر لگایا اور مچھلی سے کہا کہ اب اس سے بڑی تو کوئی چیز نہیں ہے۔
    مچھلی مسکرائی اور مینڈک سے کہا : تمہارا قصور نہیں ہے کہ تمہاری سوچ ہی اس کنوئیں تک ہے۔
    یہ کہانی دلچسپ ہے مگر مسئلہ سوچ سمجھ اور ظرف کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی سوچ اس کنوئیں کے مینڈک کے برابر ہوتی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ وہی اپنے عقائد و نظریات میں سچے اور کھرے ہیں ایسے لوگوں کا دوسرا بڑا مسئلہ کم ظرفی ہے۔ آپ ان سے کسی بھی موضوع پر بات کریں وہ بات سنیں گے تو جواب دینے کیلئے نہ کہ سمجھنے کیلئے۔ ایسے لوگ اپنے اسی روئیے کی وجہ سے سیکھنے سمجھنے، کچھ بڑا اہم، عمدہ اور بہترین کرنے کی صلاحیتوں پر فل سٹاپ لگا چکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے لڑائی یا بحث کرنے کی بجائے ان کو ان کے حال پر چھوڑدیں اور انکی سوچ پر مسکرا کر آگے نکل جائیں۔ تیسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا اپنا وژن نہیں ہوتا۔ہوا کے تنکے طرح ہوتے ہیں جس سے متاثر ہوئے اُسی ڈگر پر چل دئیے، اپنی سوچ نہیں ہوتی۔شاید سوچنا چاہتے بھی نہیں۔
    آپ اس کہانی سے اپنے اردگرد موجود لوگوں اور تعلقات کو تو پرکھ چکے ہیں اب ذرا موڑ کاٹیں اور اپنے گریبان میں جھانکیں۔ کہیں آپ بھی کنوئیں کے مینڈک تو نہیں؟ اپنا ظرف وسیع رکھیے، لوگوں کو خامیوں کے ساتھ قبول کیجیے البتہ ان کی خوبیاں تلاش کیجیے۔ تعصب تکبر کی عینک اتار لیجیے۔ کنوئیں کے مینڈک کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوا کرتی وہ عموماً ان جملوں کو ہی دہراتا ہے جن کو سن کر متاثر ہوتا ہے ۔ اب کنوئیں سے نکلنے کا طریقہ بھی جان لیجیے۔ سب سے پہلا اصول ایک اچھے سامع بنیے یعنی دوسروں کی بات توجہ سے سنیے ،دوسرا اصول باتوں میں غور و فکر کیا کریں۔تیسرا اصول مطالعہ کیجیے اور خوب مطالعہ، چوتھا اصول اپنی ''میں ‘‘کو ختم کیجیے یعنی خود کو کچھ اور بہت کچھ سمجھنا چھوڑ دیجیے۔ پانچواں اصول منزل کا تعین کریں اور اس کے حاصل کرنے کے لیے پلاننگ اور اس پلاننگ پر عمل کریں۔ چھٹا اصول تعلقات بڑھائیے لوگوں کی خوبیاں تلاش کیجیے اور ان خوبیوں کو اپنی ذات کا حصہ بنائیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں