1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کم عقل دوست ۔۔۔۔ نعمان خالد

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏6 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کم عقل دوست ۔۔۔۔ نعمان خالد

    شان اور مان دونوں بچپن کے دوست تھے۔یہ ایک ہی محلے میں بڑے ہوئے اور دونوں کے گھر ساتھ،ساتھ ہونے کی وجہ سے ہر وقت کا ملنا جلنا رہتا تھا۔وقت گزرتا گیا اور دونوں جوان ہو گئے۔
    قسمت سے شان کو اچھی نوکری مل گئی جبکہ مان قابل ہونے کے باوجود کوئی مناسب کام تلاش نہ کر سکا۔پہلے پہل تو وہ اچھی نوکری کی تلاش میں لگا رہا لیکن ہر جانب سے انکار سننے کے بعد وہ مایوسی کا شکا ر ہونے لگا اور ہمت ہار کر گھربیٹھ گیا۔دوسری جانب شان ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے کام میں ترقی کرتا جا رہا تھا۔شان کی اب تک شادی نہیں ہوئی تھی اور اس کے ساتھ گھر میں بوڑھے ماں،باپ ہی رہتے تھے۔کچھ عرصے کے بعد شان کے والد کا انتقال ہوا تو بوڑھی ماں گھر میں اکیلی رہ گئی۔شان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ جس وقت وہ کام پر ہو تب اس کی ماں کو گھر میں اکیلے نہ رہنا پڑے۔اسی لئے اس نے ایک ملازمہ کو کام پر رکھ لیا ،جو رات کو شان کے گھر لوٹنے کے بعد واپس چلی جاتی تھی۔اس کے باوجود شان کو ہر وقت ایک ڈر سا لگا رہتا تھا کہ آج کل زمانہ بہت خراب ہے اور کسی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

    ایک روز شان کو اطلاع ملی کہ اسے کام کے سلسلے میں چند روز کے لئے دوسرے شہر جانا پڑے گا۔سب سے پہلا خیال جو شان کے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ وہ امی کے پاس کسے چھوڑ کر جائے گا۔ملازمہ پر وہ زیادہ اعتبار نہیں کرتا تھا ،اس لیے چاہتا تھا کہ کسی ایسے شخص کو چھوڑ کے جائے جس کی طرف سے اسے اطمینان ہو۔اچانک شان کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ مان سے بات کی جائے۔وہ اس کے بچپن کا دوست اور قابلِ اعتبار بھی ہے۔شان نے مان سے بات کی تو وہ فوراً راضی ہو گیا کہ مان کوبھی وہ اپنی ماں کی طرح عزیزتھیں۔

    اب اکثر ایسا ہونے لگا جب کبھی شان کو کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑتا تووہ مان کو اپنی امی کے پاس چھوڑ جاتا۔آس پاس کے لوگوں نے یہ دیکھا تو ایک روز شان کی غیر موجودگی میں مان سے کہنے لگے’’ہمیں تو لگتا تھا تم دونوں بہت گہرے اور اچھے دوست ہو،اور ایک دوسرے کی بہت عزت بھی کرتے ہو‘‘۔

    مان بولا’’اس میں کوئی شک نہیں ہم ایک دوسرے پر بے حد اعتبار بھی کرتے ہیں اور دلوں میں ایک دوسرے کے لیے احترام بھی ہے‘‘۔پڑوس کا ایک آدمی بولا’’یہ کیسا احترام ہے کہ ایک دوست دوسرے کی خاطر نوکر ہی بن جائے‘‘۔مان کو یہ بات بے حد بُری لگی اور وہ ناگواری سے بولا’’بھلا اس بات کا کیا مطلب ہوا‘‘۔جس پر پڑوسی بولا’’بھئی!سب یہی کہتے ہیں کہ ایک دوست کے پاس پیسہ آ گیا ہے تو وہ دوسرے سے نوکروں کی طرح کام لینے لگا ہے۔اب تم خود ہی دیکھ لو شان جو کام دن میں اپنی ملازمہ سے کرواتا ہے وہی رات کو تم کرتے ہو۔اگر اسے اپنی والدہ کا اتنا ہی خیال ہے تو بھلا شادی کیوں نہیں کر لیتا ۔یہ تو تمہاری اعلیٰ ظرفی ہے کہ تم دوستی نبھا رہے ہو اور اپنی ہتک محسوس نہیں کرتے،لیکن یقین مانو تمہاری جگہ اگر ہم ہوتے تو کبھی ایسا کام نہ کرتے‘‘۔پڑوسی تو اپنی باتیں سنا کر چلے گئے لیکن مان کے ذہن میں وہی الفاظ رات بھر گونجتے رہے۔وہ سوچ رہا تھا کہ میں کس قدر بُدھو ہوں جو اپنے ہی دوست کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا ہوں۔

    شان کسی کام سے دوسرے شہر گیا ہوا تھا اور اس کے آنے میں دو رو ز باقی تھے،لیکن مان اس طرح لوگوں کی باتوں میں آیا کہ وہ شان کے واپس آنے کا انتظار کیے بغیر اپنے گھر واپس لوٹ آیا۔شان کی ماں نے اس سے واپس جانے کا سبب پوچھا تو وہ سختی سے بولا’’جو کام دن بھر آپ کی ملازمہ کرتی ہے وہی کام باقی وقت کرنے کے لیے آپ کو بغیر تنخواہ کے نوکر مل گیا ہے ‘‘۔شان کی ماں حیرت سے مان کا منہ تکتی رہ گئی اور وہ گھر واپس لوٹ آیا۔شان کام سے واپس لوٹا تو اس کی امی نے ساری بات اس کے سامنے بیان کی اور سمجھاتے ہوئے بولیں’’بیٹا!میں جتنا تمہیں جانتی ہوں اتنا ہی مان کو بھی سمجھتی ہوں۔وہ کام نہ ملنے کے سبب پریشان ہے اور یقینا لوگوں کی باتوں میں آ گیا ہے ۔تم اس سے ملو اور جا کر ساری بات یوں سمجھانا کہ تمہاری دوستی میں کوئی دراڑ نہ آئے‘‘۔ شان سمجھدار لڑکا تھا وہ مان سے جا کر ملا تو اس کے تیور کچھ اچھے نہیں تھے۔مان دل ہی دل میں اپنی ہتک محسوس کر رہا تھا کہ کیسے وہ بیو قوف بن گیا۔تب شان نے بولنا شروع کیا ’’میرے دوست!ہر چیز کے دو پہلو اور مختلف رُخ ہوتے ہیں۔یہ دیکھنے والے کی نظر اور سوچ پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے سوچتا ہے۔تمہیں لگا کہ میں دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمہیں استعمال کر رہا ہوں ، جبکہ میرے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ جہاں اعتماد کی بات ہو گی تو میرا دوست سب سے زیادہ قابلِ اعتبار ہے، ورنہ آج کل کون کسی کے سپر د اپنا گھر کرتا ہے۔مجھے امید تھی کہ تم بھی مجھ پہ اور ہماری دوستی پر اسی قدر اعتبار کرتے ہو گے لیکن شاید پھر بھی تمہیں تکلیف پہنچی‘‘۔مان کے سر سے غصہ اُترچکا تھا اور وہ پچھتا رہا تھا کہ آخر کیو ں اس نے اپنی دوستی کا دوسرا رخ نہ پہچانا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں