1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کبوتر ،چٹھی اورڈاکیا... ۔۔ ایم آر ملک

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کبوتر ،چٹھی اورڈاکیا... ۔۔ ایم آر ملک
    ایک زمانے میں بے روزگار افرادکے گھر والوں کو ڈاکیے کی آمد کا انتظار رہتا تھا
    ڈاک،ڈاکیا،چٹھی یاخط، ان الفاظ کے ساتھ ماضی کی کتنی ہی خوش رنگ اور خوشگوار یادیںجڑی ہوئی ہیں جن کے بارے میں سوچتے ہوئے نوسٹیلجیا ہونے لگتا ہے ۔’’چٹھی ،ڈھول ،کبوتر‘‘ شاعری کے استعارے ہی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہے ۔ اس دور میں چٹھی پہنچانے کیلئے کبوتر پیغام رسانی کا کام کیا کرتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ مغل حکمران جلال الدین اکبر کے ساتھ ٹکر لینے والے دُلا بھٹی کیلئے بھی پیغام رسانی کا کام کبوتر ہی کرتے تھے ماضی کا یہ پنجابی گیت بھی شاید اسی تناظر کی عکاسی کرتا ہے فلم دلا بھٹی میں نوراں کا کردار لافانی تھا ۔یہ گانا اسی کردار پر فلمایا گیا، بول تھے ،

    خط کی روایت تاریخ کے اوراق میں چھپتی جارہی ہے
    خطوط کوایک تار میں پرو کر کسی کونے میں دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا ،مائیں خطوط کو آنکھوں سے لگا کر اپنے بیٹوں کو دعائیں دیا کرتی تھیں

    واسطہ ای رب دا توں جانویں وے کبوترا
    چٹھی میرے ڈھول نوں پُچاویں وے کبوترا
    پیچھے مڑ کے دیکھیں تو مشرق و مغرب کی کتنی ہی باتیں یاد آتی چلی جاتی ہیں۔روزی روٹی کے چکر نے بہت سے پیاروں کو انجانے دیس کی سرزمین کا باسی بنا دیا وہ جس کی بات سننے کیلئے والدین ہمہ تن گوش رہتے ، وہ پردیس کا ہوکر رہ گیا۔ پنڈ کی ٹاہلیوں ،کیکر ،بوہڑ کی چھائوں کو مسکن بنا کر جن دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی جاتی تھی ان کو جدائی کی صلیب پر ٹانک کر انسان شہر کو چلا جاتاہے۔
    1980ء کی دہائی تک کورے کاغذ پر لفظ بکھیر کر جب کوئی پردیسی اپنے احباب کو خط لکھتا تو لفظوں کو پڑھنے کے متمنی احباب کو لفظ لفظ سے دیار غیر کو اپنا مسکن بنانے والے کی خوشبو آتی ۔ وصال کی طلب نہ کرنے والوں کیلئے یہ لفظ مداوا بن جاتے ۔ دوستوں کو یاد ہوگا کہ جب وہ سکول سے لوٹتے تھے تو کوئی نہ کوئی گائوں کا ایسا فرد بے تابی سے محو انتظار ہوتا جس کے کسی پیارے کا خط اس کے ہاتھ میں ہوتا۔ گائوں میں اڑوس پڑوس کے گھرانے اور بزرگ اپنے پردیسی پیاروں کو خطوط لکھتے، تو یہ خدمت عموماًسکول سے لوٹنے والے سرانجام دیتے ۔وہ وقت بھی یقینا بہت سے قارئین کو یاد ہوگا جب کسی اسکول میں کو ئی ماسٹر ڈیوٹی پر ہوتا تو کوئی نہ کوئی ان سے خط لکھواتا لیکن ایک مدت سے یہ منظر اب سراب اور نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے ۔ شاید فی زمانہ اس کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
    برسوں پہلے جب چواء نامی گائوں میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا تو خط پڑھوانے کیلئے لوگ ملک خان محمد کی ڈیوڑھی کا رُخ کرتے اور وہ خط کو پڑھ کر ایسے سناتا کہ سننے والے کو محسوس ہوتا کہ خط لکھنے والا سامنے بیٹھا باتیں کر رہا ہے ۔ یہ خطوط روشنی کا استعارہ اور قیمتی اثاثہ ہوا کرتے تھے جنہیں ایک تار میں پرو کر کسی کونے میں دیوار کے ساتھ لٹکا دیا جاتا تھا جبکہ مائیں اپنے بیٹوں کے خطوط پڑھتے ہوئے انہیں آنکھوں سے لگا کر دعائیں دیا کرتی تھیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ ایک کورے کاغذ پر بکھرنے والے الفاظ احساس کی صورت میں ہمیشہ کیلئے امر ہو جایا کرتے تھے تاہم کسی محبوب کیلئے یہ الفاظ حذر جاں بن جایا کرتے تھے اور وہ خط سننے کے بعد باطن کے قلعے میں محصور تاحد نظر تنہائی کے ایسے احساس میں نظر آتا جس میں کوئی بہت ہی پیاری چیز گم ہوجاتی ہو۔
    ڈھوکڑی کے ناصر علی ملک کہتے ہیں کہ ملک فتح خان کے بعد حاجی احمد شیر ککا عہد گم گشتہ کا یہ اساطیری کردار خطوط، منی آرڈرز، امتحانی نتائج، عید کارڈز، شادی کارڈز، محبت نامے اور قیامت نامے تقسیم کرتا اور7 سمندر پار احباب کے حالات سے آگاہی کا سبب بنتا۔ اس کی طلسمی زنبیل میں چٹھیوں کی شکل میں گاؤں والوں کے لئے مسکراہٹیں اور آہ و زاریاں ہوا کرتی تھیں۔ گزرتا وقت بہت سی چیزوں کو بدل دیتا ہے۔ کئی چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں اور ان سے منسلک افسانوی پہلو وقت کی دھول میں کھو جاتا ہے۔
    سو ہمارے گاؤں کا یہ پوسٹ مین بھی سمے کی دھول میں گم ہو گیا۔ خط کی لذت وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے خطوط لکھے اور وصول کیے ہوں۔ یہ ان روشن زمانوں کا ذکر ہے جب کوئی پردیسی باقاعدگی کے ساتھ گاؤں میں اپنے پیاروں کو خطوط لکھتا۔ عید کارڈ بھیجتا ۔ پردیسیوں کے خطوط کے انتظار میںان کے پیارے ہر روز گاؤں کے داخلی راستے پر کھڑے ہو کر اس بوڑھے ڈاکیے کا انتظار کرتے جو کئی کلومیٹر دور ڈاک خانہ سے ڈاک لے کر گائوں آتا۔حاجی احمد شیر ہمارے خوبصورت گاؤں کا ایک بیبا کردار تھا۔ جس کی مرنجان مرنج شخصیت کو ہمارے گاؤں میں افسانوی اہمیت حاصل تھی۔ جب وہ خطوط سے بھرا اپنا تھیلا سنبھالے، بوسیدہ سائیکل پر سوار گاؤں کی کچی سڑکوں اور پگڈنڈیوں سے گزرتا تو ہر کسی کی نظروں کا مرکز ہوتا۔ گویا کہ لوگ اس کے منتظر ہوں۔ بلکہ ہم جیسے تو بہت سے ’’چچا ڈاکیا ‘‘کی آواز دے کر متوجہ کرتے تا کہ اگر کوئی خط یا منی آرڈر وغیرہ اس کے پاس ہے تو وہ انہیں دے جائے۔ ایسے میں وہ بوڑھا ڈاکیا مسکرا کر اور اشارے سے خط نہ ہونے کے بارے میں بتاتا ہوا گزر جاتا تھا اور اگر خط یا منی آرڈر موجود ہوتا تو فوراً رک کر ان کے حوالے کرتا تھا۔
    یہ حقیقت ہے کہ خط کسی دور میں ہماری شناخت کا حوالہ تھا ایک زمانہ تھا جب انسان ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنے کے لئے کبوتروں کا استعمال کرتے تھے اور ان کے ذریعے خط بھیج کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب ترقی ہوتی گئی تو ایک دوسرے کے ساتھ روابط کے طریقے بھی بدل گئے کسی پنڈ یا گائوں میں چین کور کے بغیر خستہ کاٹھی والی سائیکل پر خاکی وردی میں ملبوس ڈاکیا بابو کچے گھروں کی دہلیز پر کھڑا دستک دیکر خط دیا کرتا تھا آج وہ ڈاکیا نئی نسل کیلئے کسی عجوبے سے کم نہیں پارٹ ٹائم ڈاکیا اسکول ماسٹر (استاد صاحب، استاد جی)ہوا کرتا تھا جو پرانی نسل کے ذہن میں آج بھی محفوظ ہے۔ جب مارننگ اسمبلی ہوا کرتی تھی تو ماسٹر صاحب اپنے شاگردوں میں ان کے پردیسی پیاروں کے خطوط تقسیم کرتے تھے چھٹی کے وقت اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر سے طلبہ اپنے پردیسی رشتہ داروں کے بھیجے ہوئے نامے وصول کرتے اور ہاں! امن کی علامت وہ کبوتر جو پریمیوں کے خطوط اور رومان بھرے پیغامات نہایت انہماک اور ذمہ داری محفوظ ہے سے لاتا لے جاتا۔

    اب تو ڈاک، ڈاک خانہ، ڈاک بنگلہ، ڈاک چوکی، ڈاکیا بابو اور منی آرڈر جیسی اصطلاحات سے موجودہ دور کا انسان نا آشنا ہوتا جارہا ہے۔ڈاک بنگلہ یا ڈاک چوکی ایک مخصوص فاصلے پر ہوتی تھی جہاں پچھلی چوکی یا ڈاک بنگلہ سے گھوڑے پر رواںیا محو سفر سوار ڈاکیا اپنی ڈاک اگلے بنگلہ تک پہنچاتا جہاں ایک تازہ دم گھوڑے کے ساتھ ایک ڈاکیا منتظر ہوتا اور وہ ڈاک کا تھیلہ لیتے ہی اگلے بنگلہ کیلئے تیار ہوجاتا کہا جاتا ہے کہ گھوڑے کے پائوں میں مخصوص قسم کے گھنگرو ہوتے تھے جن کی آواز سن کر بنگلے والا ڈاکیا الرٹ ہوجاتا خاکی وردی میں ملبوس یہ ڈاکیا بابو جب کھیتوں، کھلیانوں اور آبادیوں کے پیچ پگڈنڈیوں پر تیز چلتا ہوا نمودار ہوتا تو لوگ اُسے دل سے خوش آمدید کہتے ’’اور بابو صاحب! بیٹھیے بیٹھیے، چائے لسی وغیرہ پیجیئے ‘‘ کہتے۔ لیکن ڈاکیا بابو کے پاس اتنا وقت کہا ں ہوتا وہ تو لوگوں کو ان کے پردیسی پیاروں کے خطوط پہنچاتا۔ وقت کا انقلاب اور اس کا تقاضا دیکھیے۔

    جہاں جدید دور کے ان روابط نے دور بیٹھے انسان کو ایک دوسرے کے قریب کیا تو دوسری جانب ساتھ رہنے والے لوگوں کو دور بھی کر دیا، جدت نے انسان سے ایک دوسرے کی محبتیں بھی چھین لی ہیں۔برقی کے اس جدید دور میں پرانی روایات میں تبدیلیاں آنے سے جہاں بہت کچھ بدل چکا ہے، وہیں ڈاکیاکے ذریعے آنے والے خط اور ڈاک ڈبہ جیسی اصطلاحات بھی ایک تصور بن کر رہ گئی ہیں ۔شہروں،قصبوں اور گائوں دیہات میں نصب ڈاک ڈبے برسوں سے تالا بند پڑے ہیں کیونکہ نہ کہیں ڈاک آتی ہے نہ خط اور نہ ہی صبح کے وقت کوئی ڈاکیابابو سائیکل پر خاکی وردی میں ملبوس ہو کر ڈاک لے کر گھر گھر پہنچتا ہے بلکہ اس نے بھی وردی اُتار کر دیگر لوگوں کی طرح اس جدید دور میں اپنا کام انجام دینا شروع کر دیا ہے۔ یہ تاثر بھی غلط ثابت ہو گیا ہے کہ انٹر نیٹ کے جدید دور میں ڈاک خانہ کا کام متاثر ہو گیا ہے،بلکہ آن لائن شاپنگ سے لیکر سپیڈ پوسٹ اور رجسٹرڈ لیٹرنگ کے کام میں اضافہ ہوا ہے۔
    شہروں اور قصبوں میں ہزاروں ایسے ڈاک ڈبے ہیں جو زنگ آلودہ ہو چکے ہیں، تاہم محکمہ ڈاک کو یہ اُمید ہے کہ ان ڈبوں میں کوئی نہ کوئی ڈاک یا پھر خط وغیرہ ڈالنے ضرور آئے گا۔معلوم رہے کہ ڈاک نظام ایک تاریخی عالمی نظام ہے۔بھارت میں پوسٹ آفس یعنی ڈاکخانہ کی بنیاد 1854 میں لارڈ ڈلہوزی نے برِ صغیر کے ڈاک نظام کو بہتر کرنے کیلئے رکھی جس سے درست پتہ پر خطوط ، منی آرڈر کے نام سے رقم پہنچانا، رقم جمع کرنا، لائف انشورنس کی سہولت مہیا کرنا اور مختلف طرح کے فارم فروخت کرنا وغیرہ۔ حکومت عوام کو قومی دیہی روزگارضمانتی قانون کی پنشن ڈاک ہی سے تقسیم کرتی ۔ لیکن جدید دور میں انٹر نیٹ اور دیگر مواصلات نے جہاں کئی ایک پرانی روایات میں تبدیلیاں لائیں، وہیں ڈاکیا، ماسٹر بابو، ڈاک ڈبہ جیسی اصطلاحات میں بھی کمی ہوئی ۔ خاکی وردی میں ملبوس سائیکل پر سوار ڈاکیے نے بھی وردی اُتار کر دیگرسول کپڑوں میں اپنا کام انجام دینا شروع کر دیا تاکہ وہ بھی اس جدید دور میں دوسرے لوگوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔
    ایک عمر رسیدہ شہری چا چا لطیف کہتے ہیں، انٹر نیٹ نے رابطہ کو اس قدر آسان اور نزدیک بنا دیا کہ پرانی روایات ہم سے چھن گئیں،اب بچے سے لیکر بوڑھے تک سب موبائل اور انٹر نیٹ پر بھی کام نمٹا لیتے ہیں اور برسوں پہلے جس خبر کو ہم تک پہنچنے میں مہینے لگتے تھے،اب منٹوں اور سکنڈوں میں ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ خط لکھنے اور پھر پوسٹ کرنے کا رجحان بھی ختم ہوگیا ۔وہ کہتے ہیں کہ نئی نسل کو ڈاک خانہ اور ڈاکیاکے بارے میں سمجھانا بھی کافی مشکل بن گیا ہے کیونکہ انہیں اس کا علم ہی نہیں کہ ڈاک کیا تھی اور ڈاکیا اور ڈاک خانہ کیا ہے؟۔
    مہاڑ کے ناصر علی اعوان کہتے ہیں ایک وہ دور تھا جب نوکریوں کی تلاش کرنے والے امیدواروں اور نوکری کرنے والوں کے گھر والوں کو صبح کے وقت ڈاکیے کی آمد کا انتظار رہتا تھا۔ایک قدیم روایت یہ تھی کہ خوشی کی خبر لیکر آنے والے ڈاکیے کو انعام ملتا تھا اور جب کبھی ڈاکیاکوئی غم کا کوئی ٹیلی گرام لاتا تو بنا کلام کئے ، دے جاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ڈاکخانوں کے باہر بڑی تعداد میں لوگ کرسیاں لگا کر بیٹھ جاتے تھے جو لوگوں کے خط لکھتے تھے اور پارسل کو محفوظ طریقے سے بند کرتے تھے،یا پھر منی آڑد کے فارم وغیرہ بھرتے تھے،لیکن اب کچھ ہی جگہوں پر اِکا دُکا لوگ ہی اس سے منسلک ہیں اور باقی لوگوں نے یہ کام چھوڑ کر دوسرا کام دھندہ شروع کر دیا ہے۔منور خان چانڈیہ کے بقول انٹرنیٹ، ای میل اورموبائل فون آنے سے ان روایات پر گہرا اثر پڑاہے۔ ایک وہ دور تھا کہ فرصت نہیں ملتی تھی ڈبے کھولنے کی اور ڈاک پہنچانے کی لیکن اب خطوں کا کام کم ہوا ہے، البتہ سپیڈ پوسٹ اور رجسٹرڈ لیٹرنگ کا کام زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    اب آن لائن شاپنگ اسی کے ذریعے آتی ہے۔ صرف چٹھیوں کا کام متاثر ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت محکمہ ڈاک بھی نئے دور کے ساتھ چل رہا ہے،جہاں ان میں انٹر نیٹ کی سہولت ہے، وہیں آن لائن سسٹم بھی یہاں معتارف کرایا گیا ہے بہت سی سکیمیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو معلومات ہونی چاہئے۔ اس وقت تمام پوسٹ آفس آن لائن ہوئے ہیں او ر ان میں اے ٹی ایم سہولیات بھی دستیاب ہیں۔جبکہ دیہی اور دورا فتادہ علاقوں میں قائم پوسٹ آفسوں کو آن لائن نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے سپیڈ پوسٹ کا کام سست ہے۔
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ڈاک کا نظام ایک تاریخی اور عالمی نظام ہے اس نظام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا تاریخی حوالہ آج سے سات ہزار سال پہلے فرعون مصر کے ابتدائی دور سے ملتا ہے۔عہد بابل میں تازہ دم اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے سرکاری اور نجی ڈاک ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے کا کام انجام دیا جاتاتھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے بھی ڈاک کامربوط نظام دنیا کو دیا۔برصغیر پاک و ہند میں علائوالدین خلجی اور شیر شاہ سوری نے ڈاک کی بہتری کے لیے کام کیا اورکئی اصلاحات و اقدامات کیے، مغل بادشاہ بھی ڈاک کی اہمیت سے بے خبر نہ تھے۔ڈاک ٹکٹ کا رواج جنگ آزادی سے چند سال پہلے شروع ہوا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے سر بارٹل فریری1851 میں سندھ کے چیف کمشنر تعینات ہوئے۔ انہوں نے برطانیہ میں رولینڈہل کے مروجہ نظام ڈاک کو سندھ میں نافذ کیا۔برصغیر پاک و ہند میں پہلا ڈاک خانہ 1837 میں قیام پذیر ہوچکا تھا لیکن ایک طویل عرصے تک برطانوی ڈاک ٹکٹوں سے کام چلا یا جا تا رہا ہے اور بالآ خر1852 میںScinde Dawk نامی پہلا ڈاک ٹکٹ سر بارٹلے فریئر نے جاری کیا۔ یہ ڈاک ٹکٹ در اصل’’سندھ ڈاک‘‘ نامی لفظ کا برطانوی تلفظ تھا، انگریزوں نے جب سندھ فتح کیا تواس وقت کا ڈاک کا قدیم نظام ان کی فوجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھا جس کے سبب انہوں نے ڈاک کا جدید نظام وضع کیا۔تقسیم ِ ہند کے بعد15 اگست 1947 سے پاکستان پوسٹ نے لاہور سے اپنا کام شروع کیا، اسی سال پاکستان یونیورسل پوسٹل یونین میں شامل ہوا۔ 1948 میں پاکستان پوسٹ نے ملک کے پہلے جشن ِ آزادی کے موقع پر اپنے پہلے یادگاری ٹکٹ شائع کیے۔
    ملک بھر میں زیادہ تر سرکاری محکمے پرائیویٹ کورئیرر سروسز کے ذریعے ڈاک کی ترسیل کرتی ہیں جس کی وجہ سے محکمہ ڈاک کو مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس سے قبل حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ اسکیم کا پورا پروجیکٹ پاکستان پوسٹ کے حوالے کیا ہوا ہے۔ملک کے طول و عرض میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈاک اور کتب کی ترسیل کا سارا کام بھی پاکستان پوسٹ کے ذمے ہی ہے۔
    اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین کے زیر اہتمام ہر سال 9 اکتوبر کے روزدنیا بھر میں ڈاک کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کے منائے جانے کا مقصد ملکوں کے درمیان ڈاک کے ترسیلی نظام کے بارے میں قانون سازی کرنا، اور دور جدید کی تبدیلیوں کے باوجود ڈاک کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنا اورنظام ڈاک کی ترقی کے لئے کاوشیں کرنا شامل ہے۔اور ہر وہ ملک جو اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین (UPU) کے ممبران میں شامل ہے اس موقع پر خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجرا ء کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس خصوصی ادارے کا قیام 9 اکتوبر 1874میں سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت برن میں ہوا،اس دن کو منانے کا اعلان پہلی مرتبہ 1969 میں جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں منعقدہ یونیورسل پوسٹل یونین کی کانگریس کے موقع پر کیا گیا۔
    یونیورسل پوسٹل یونین کی سرگرمیوں میں پاکستان کا انتہائی مثبت کردار رہا ہے۔یو این او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 13 ہزار ڈاک خانے اب بھی کام کررہے ہیں۔اب ہمارے ڈاک کے نظام صرف خط و رجسٹری تک محدود نہیں بلکہ ایک ہمہ جہتی آرگنائزیشن ہے۔مثلاً عام خطوط، ارجنٹ میل، رجسٹرڈ و بیمہ شدہ ڈاک، پارسل سروس، عام منی آرڈر، ارجنٹ اور فیکس منی آرڈر، سیونگ بینک وانشورنس سروسز حتیٰ کہ ڈاک خانے کے کاوئنٹر سے عوام کو موٹر وے گائیڈ اور زرعی پاس بک بھی مہیاکی جاتی ہیں۔ نئی حکومت نے ملک بھر کے تمام سرکاری محکموں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ آئندہ اپنے محکمہ کی سرکاری ڈاک کی ترسیل پاکستان پوسٹ کے ذریعے کریں۔
    یہ تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ بے چہرہ و بے ہنگم ترقی کی تیز رفتاری کے باعث خط کی تہذیبی و ثقافتی روایت تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ لیٹر بکس عہد رفتہ کی بھول بھلیوں میں گم، ڈاک خانے ویران، جدیدیت کی ماری اور سوشل میڈیا کو پیاری نئی نسل خطوط نویسی سے وابستہ سرشاریوں، بے قراریوں اور وارفتگیوں سے ناآشنا اور دو سو سالہ بوڑھے محکمہ ڈاک نے نومولود انٹرنیٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ ڈاک کی قیمتوں میں ہوش ربا’’تبدیلی‘‘ کرتے ہوئے مکتوب نگاری کے بچے کھچے رومان میں بھی کھنڈت ڈال دی ہے۔اس پیامبر کی اہمیت صرف پیغامات کی ترسیل تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ ہمارے ادب اور ثقافت کا اہم کردار تھا۔ کہتے ہیں ایک دور میں خط لکھنا خواندگی کا معیار تصوّر ہوتا تھا خواندگی کی شرح انتہائی کم تھی پوری پوری آبادی میں کوئی ایک خط لکھنے والا ہوتا تھا، ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک خاتون کسی کے پاس خط لکھوانے گئیں، تو اس نے کہا میری ٹانگ میں درد ہے میں نہیں لکھ سکتا،خاتون نے کہا خط تو ہاتھ سے لکھنا ہے پائوں سے کیا تعلق؟تو اس نے کہا کہ جس کو خط لکھوارہی ہیں اس کا جواب لکھنے کے لیے بھی مجھے جانا پڑے گا‘‘۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سن70 اور80 کی دہائیوں میں ایک ارود سروس کے لندن آفس کو سالانہ ساٹھ سے پینسٹھ ہزار خطوط موصول ہوتے تھے جن کو چھانٹنے اور مرتب کرنے کے لیے پانچ افراد کا کُل وقتی عملہ تعینات تھا اور بُش ہائو س سے کچھ فاصلے پر ایک الگ دفتر اسی کام کے لیے مخصوص تھا۔
    ترقی کے ساتھ ساتھ فاصلے سمٹتے گئے، تبدیلی آتی چلی گئی،خط کی جگہ پہلے تار نے لی اور پھر ٹیلی گرام،فیکس کا دور آیا اور موبائل نے آکر تو بہت کچھ بدل دیا ڈاکیا کا کردار محدود ہوگیااور اب سوشل میڈیا اورانٹرینٹ نے خط یا چھٹی کے نظام کو کمزور اور ختم نہیں کردیا ہے بلکہ اس نے تو رشتوں کو کمزور اور متاثر کیا ہے۔اب شاذو نادر ہی کوئی کسی کو خط لکھتا ہوگا کیونکہ اب دنوں میں پہنچنے والا پیغام سیکنڈوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک اور شہر پہنچ جاتا ہے لیکن شاید پیغام جاتا ہے۔ لیکن اب جدید پیغام رسانی کے نظام میں وہ جذبہ،درد اور خلوص نہیں پہنچ پاتا ہے،جو خط لکھنے کے عمل سے اس کو ڈاک خانہ تک پہنچانے میں پیدا ہوتا تھا ۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں