1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کالج کی یادیں (پارٹ3)

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از رفاقت حیات, ‏26 جولائی 2015۔

  1. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    گزشتہ سے پیوستہ

    ٹیسٹ لکھوانے کی سپیڈ یوں سمجھئے ’’وِلاسٹی آف لائٹ ‘‘کی سپیڈ تھی۔ٹیسٹ کے لیے جب سوال لکھے جاتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ کوئی الیکٹریشن کی دکان کھلی ہوئی ہے جس میں بہت سی تاریں الجھی پڑی ہوں۔۔پریکٹیکل اور’’ ایم سی کیوز‘‘ پیپر سے دو ماہ قبل شروع ہوجاتے اور ہماری’’ مَت‘‘مار دیتے تھے۔

    ایک دفعہ نیازی صاحب ٹریننگ کے سلسلے میں ایک ماہ کے لیے لاہور گئے ہوئے تھے،اور ان کے بعد کیمسٹری کے پرفیسر صاحب نے فزکس کا پیریڈ لینا شروع کیا۔انہوں نے صرف دو صفحوں کا کام دیا اور ایک نومیریکل،ہم ایک دفعہ تو حیران رہ گئے کہ ’’یہ تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘ (کیمسٹری کے پروفیسر صاحب یہ فقرہ اس وقت کہتے تھے جب


    کام تھوڑا ہوتا تھاسو ہم نے بھی وہی کہہ دیا )۔سب نے دل میں شکر ادا کیا کہ چلو ایک ماہ کے لیے تو خوب حلوہ کھاؤ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔کیمسٹری کے پروفیسر بھی حیران کہ جو نکمے طالب علم تھے ان کا ٹیسٹ بھی ٹھیک ہوتا تھا اور نیازی صاحب جب ہوتے تھے تو وہ ہر وقت یہی کہتے تھے کہ ہم لوگ فزکس کا کام نہیں کرتے۔انہوں نے

    ہم سے پوچھا کہ یہ کیا چکر ہے؟ہم نے جواب گول مول سا دے دیا کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں اصل بات پتہ چل جائے اور کام پھر سے وہی سر پر آجائے۔مہینہ گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور نیازی صاحب وارد ہوگئے۔جس دن انہوں نے آنا تھا سب لڑکے یہی کہتے تھے کہ آج نیازی صاحب آرہے ہیں۔ہر ایک کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔لیکن خیر آنے


    والوں کو کون روک سکتا ہے۔نیازی صاحب آگئے۔انہوں نے ہم سے پوچھا کہ میرے جانے کے بعد کوئی پڑھا بھی ہے کہ نہیں؟ہم نے کہا کہ ہم نے خوب اچھی طرح پڑھا ہے اور ٹیسٹ سو فیصد ٹھیک دیے ہیں۔نیازی صاحب کہنے لگے کہ میں نے اس ڈر سے کیمسٹری کے پروفیسر سے نہیں پوچھا کہ کہیں ناک نہ کٹ جائے۔دوسرے دن

    جب وہ کلاس میں آئے تو کہنے لگے کہ میں بھی کہوں کہ سب کا ٹیسٹ سو فیصد کس طرح رہا۔انہوں نے انگلی سے اشارہ کر کے بتایاکہ تم لوگ اتنا سا تو کام لیتے تھے توٹیسٹ ٹھیک ہی ہونا تھاناں۔! جس پر سب لڑکے ہنس پڑے۔نیازی صاحب کا رویہ فرسٹ ائیر میں بہت ہی ’’جارحانہ‘‘ تھا۔وہ روز جب کلاس میں آتے تھے تو ان کا پہلا لیکچر یہی


    ہوتا تھا کہ تم لوگ ایف ایس سی نہیں کر سکتے،جس د ن اکثریت کا ٹیسٹ غلط ہوتا تھا اس دن تو اور زیادہ چِڑ جاتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ تم لوگ پڑوسیوں کے کہنے پر ایف ایس سی کر رہے ہو ،تم لوگوں کے بس کا کام نہیں ہے،ایف اے کر لو،کل کو اگر فیل ہوگئے تو منہ چھپاتے پھرو گے ،اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایف اے کر لو یاکوئی اور کام کر

    لو،لیکن نہیں تم لوگوں نے یہی کرنی ہے، ایف ایس سی ایف ایس سی،ایسا کیا کرو کہ صبح شام ایف ایس سی ایف ایس سی کی تسبیح پڑھ لیا کرو،پھر ہو جائے گی،والدین کہتے ہیں کہ میرا بیٹا پڑھ لکھ کر انجینئر بنے گا،والدین کو یہ نہیں پتہ کہ ان کا بیٹا کتنے پانی میں ہے،‘‘غرض اس طرح کی باتیں وہ نئے آنے والوں کوسناتے تھے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ


    بہت سارے لڑکے دلبر داشتہ ہو کر چلے گئے۔داخلے کے وقت تعداد تیس پینتیس تھی جو گھٹتے گھٹتے سترہ اٹھارہ تک جا پہنچی اور یہی تعداد سیکنڈ ائیر میں ایک درجن تک محدود ہوگئی۔سیکنڈ ائیر کے ساتھ ان کا رویہ کچھ بہتر رہتا ۔لیکن فرسٹ ائیر والوں کی تو کم بختی بدستور قائم و دائم رہتی تھی۔ان کی سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وہ لائقوں اور

    نالائقوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے تھے۔یعنی اگر کسی نالائق طالب علم کا ٹیسٹ غلط ہوتا تو اس کو خوب کڑوی کسیلی سناتے اور دو چار ڈنڈوں سے نوازتے، نہیں تو تھپڑ ضرور مارتے،اس کے بر عکس اگر کسی لائق طالب علم کا ایک دن بدقسمتی سے ٹیسٹ غلط ہوتا تو اس کی بھی وہی ’’حجامت‘‘‘کرتے جو ایک نالائق کی کیاکرتے تھے۔


    وہ کہتے تھے کہ کوئی چیز یا شخص آئیڈیل ہو سکتا ہے لیکن وہ اس وقت تک آئیڈیل رہتا ہے جب تک وہ سامنے نہ ہو جب وہ مل جائے تو وہ آئیڈیل نہیں رہتا۔
    بس ان کی اپنی ایک فلاسفی ہے۔ویسے وہ ایک اچھے ٹیچر تھے۔اخلاقیات کے حوالے سے بھی لیکچر دے ڈالتے۔وہ یہ بات اکثرکہتے تھے کہ طالب علموں کو وہی ٹیچر پسند

    ہوتا ہے جو ان کے ساتھ باتیں کرے اور ان سے ہنسی مذاق کرے،اور وہ بالکل نہیں اچھا لگتا جو پڑھائی کی بات کرے۔شاید اس لیے انہوں نے کبھی ٹیسٹ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔اور طالب علموں کو ہمیشہ ٹیسٹ کی سولی پر لٹکائے رکھا ۔کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ جب انہوں نے یہ کہا ہو کہ آج ٹیسٹ نہیں لیتے۔ایک دن ایک لڑکے


    ">نے غلطی سے کہہ دیا تھا کہ سر آج ٹیسٹ صحیح یاد نہیں ہے اس لیے کل دیں گے۔یہ بات ان کو اتنی ناگوار گزری کے انہوں نے تین دن تک ٹیسٹ نہیں لیا۔خیر اس کے بعد کسی نے ایسی غلطی نہیں کی۔وہ یہ بات بھی کہتے تھے کہ طالب علم اصل جج ہوتے ہیں۔وہ ہر استاد کے بارے میں تجزیہ کرتے ہیں اور جو تجزیہ کرتے ہیں وہی حقیقت ہوتا

    ہے۔لیکن وہ ٹیچر کے سامنے بیان نہیں کرتے۔ (شاید انہیں انجام کا پتہ ہوتا ہے)۔

    جاری ہے۔۔۔۔۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ۔
    مجھے بھی اپنی ایف ایس سی کی کلاسیں یاد آگئیں۔
    ٹیچروں کا کیا حلیہ ہوتاتھا اور ان کے نک نیم بھی لڑکوں نے رکھے ہوئے تھے
    ہر ایک کا اپنا ہی نرالا انداز ہوا کرتا تھا۔۔۔۔

    خوش رہیے۔
     
    رفاقت حیات نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں