1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کالج کی یادیں پارٹ (7)اختتام

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از رفاقت حیات, ‏7 اگست 2016۔

  1. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    تو قارئین یہ تھے ہمارے سر چودھری صاحب۔اب آخر میں سکول کے پرنسپل صاحب کا بھی ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا اور یہ کہ ان کے تذکرے کے بغیر یہ تحریر ادھوری رہے گی۔تو اپنی تحریر کو مکمل کرتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ،ہمارے پرنسپل صاحب ہر فن مولا تھے ۔یعنی انہوں نے آرٹس بھی پڑھ رکھی تھی اور سائنس بھی۔وہ بورڈ کے ممبر بھی تھے،اور اپنے زمانے کے بہترین مقرر بھی۔اس کے علاوہ ان کے انڈر اٹھارہ سکولوں کی چیکنگ کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔وہ یہ لفظ بات بات پر ضرور کہتے کہ میں بیسیکلی(basically) سائنس کا شروع کر دیتے۔مثال کے طور پر اگر ہمارا میتھ کا پیریڈ ہے تو انہوں نے میتھ پڑھانی شروع کر دی۔وہ ہماری کلاس میں کئی دفعہ آچکے تھے۔ایک دفعہ میتھ کا پیریڈ تھا۔انہوں نے سب سے پہلے میتھ کی ایک عمدہ مثال دی ۔جو کہ ”کھیت سے کھلیان تک“ والی تھی۔جس طرح آپ کھیت میں بیج بوتے ہیں تو جو آپ بیج پھینک رہے ہیں یہ دراصل تقسیم کا عمل ہے۔یعنی کہ دانے کھیت میں بکھر کر تقسیم ہو چکے ہیں ۔اس کے بعد جب وہ اُگ آتے ہیں اور فصل تیار ہوجاتی ہے تو ان دانوں کی تعداد کئی گنا ہو جاتی ہے،جو کہ ضرب کا عمل ہے۔کیونکہ ضرب میں تعداد بڑھ جاتی ہے۔اس کے بعد آپ فصل کاٹ کر کھلیان
    تک لانے کے لیے اسے کاٹتے ہیں اور اکٹھی کر کے کھلیان تک پہنچاتے ہیں۔یہ جمع کا عمل ہے۔کیونکہ آپ نے سب بکھری ہوی فصل اکھٹی ایک جگہ پر رکھ دی ہے۔ اس کے بعد آپ تھریشر لگاتے ہیں تا کہ دوبارہ بیج حاصل کیا جا سکے۔تو دوران ِتھریشر بھوسہ الگ ہوجاتا ہے ،دانے الگ ہوجاتے ہیں اور گرد وغیرہ اڑ جاتی ہے۔یعنی کہ ٹوٹل میں سے بہت سی چیزیں نکل جاتی ہیں جو کہ تفریق کا عمل ہے۔ان کی یہ مثال آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔یہ مثال دینے کے بعد وہ یہ ضرور کہتے کہ میتھ میرا سبجیکٹ ہے۔اور میں آپ کو پڑھا اس لیے نہیں سکتا کیونکہ یہ پرنسپل کی سیٹ میرے گلے پڑی ہوئی ہے۔اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ میں پہلے اس کے فرائض پورے کروں۔ خیر یہ تو ان کی اپنی ذمہ داریاں تھیں۔ایک دن وہ انگلش کا پیریڈ لگانے کے لیے ہماری کلاس میں آگئے۔چونکہ انگلش والے سر نہیں آئے تھے اس لیے انہوں نے خود آکر ہمارا پیریڈ لگایا۔انہوں نے سب سے پہلے ٹینس سے سٹارٹ لی ۔اور یہ کہتے ہوئے کہ بیٹا جس چیز کا مجھے پتہ ہو اس سے تو میں ضرور پنگا لیتا ہوں ۔چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے پریزنٹ ٹینس شروع کیا۔اور اس کی پہچان اور فقرہ بنانے کا طریقہ وغیرہ سب دہرایا۔اس کے بعد انہوں نے چند مثالیں دیں ۔
    پہلی مثال یہ دی کہ he goes to schoolدوسری مثالshe goes to schoolتیسری مثالit goes to school،آخری مثال دیتے ہوئے جن لڑکوں کو سمجھ آئی تھی ان کے منہ پر ہنسی کا سیلاب امڈ آیا تھا۔لیکن پرنسپل کے ڈر سے ان کی یہ ہنسی دم توڑ گئی۔کیونکہ انہوں نے فقرہ غلط پڑھ دیا تھا۔itبے جان چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ پرنسپل صاحب نے اسے (itکو)بھی سکول بھیج دیا۔ہم نے سمجھا کہ پرنسپل صاحب سے روانی میں غلطی ہوگئی ہو گی۔لیکن انہوں نے یہی فقرہ تین بار دہرایا تو ہم سمجھ گئے کہ وہ واقعی اپنی مرضی ہی سے کہہ رہے ہیں۔چنانچہ اب جب بھی پرنسپل صاحب کا
    ذکر ہوتا تو لڑکے یوں کہتے کہ میں basicallyسائنس کا بندہ ہوں اور پھر کہتے کہ it goes to school۔اور خود ہی ہنس پڑتے۔
    اب میں آخر میں ایک مکالمہ پیش کرنا چاہوں گا کہ جس میں وہ سب باتیں شامل ہونگی جو ہر وقت ہم اپنے اساتذہ سے سنتے تھے اور اپنی محفل میں ان کا استعمال کرتے ہیں۔
    السلام علیکم!” جناب رفاقت حیات صاحب“کیا حال ہیں۔ (اسلامیات کے ٹیچر کا انداز)
    جی وعلیکم السلام ‘”آپ “اپنا حال سنائیں گے ”جی“۔جلدی کریں گے ”جی“ (حافظ صاحب کا انداز)
    جی ہم بھی ٹھیک ہیں‘جناب میںذرا جلدی میں اس لیے معذرت پھر ملیں گے؛
    نہیں نہیں،”تمہارا کیا کیا خیال ہے میں تمہیں اس طرح جانے دوں گا؟ایسا قطعاً نہیں ہو گا“ (کیمسٹری کے پروفیسر صاحب کا انداز)
    ”یقینی بات ہے“تم نے پہلے اس طرح کبھی جانے دیا ہے کیا؟ ( انگلش کے سر کا انداز)
    ہاں ”انڈرسٹوڈ سی بات ہے“،کچھ کھلائے پلائے بغیر تو آپ جانیں نہیں دیں گے۔ (کیمسٹری)
    ”یہ ہمارا حال ہے“ کہ جب کسی سے ملتے ہیں تو کھانے کے علاوہ تو بات ہی نہیں کرتے۔ (اسلامیات)
    دراصل بات یہ ہے کہ basicallyمیری زبان ہر وقت چرنے کے لیے تیا ر رہتی ہے تو اس لیے کھانے کا ذکر دیا جناب۔ (پرنسپل صاحب کا)
    ”بس بھائی “،اب کھانے کا مزیدذکر نہ کیا جائے،اب چلیں گے جی۔ (حافظ صا حب کا انداز)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں