1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کاش ! امت مسلمہ بیدار ہو

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از ثناءاللہ, ‏6 اگست 2006۔

  1. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اسرائیل نے جس طرح جنگل کے قانون کو نافذالعمل قرار دیتے ہوئے لبنان پر درندگی، وحشت، اور ظلم و ستم کی انتہا کی ہے۔ جیسے ایک بار پھر چنگیزیت کی یاد تازہ کر دی۔ اور ستم بلائے ستم کے ایک اسرائیلی سفارتکار کی زبان سے یہ بیان کہ “ہم عربوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم وحشی ہیں‌ اگر ہمیں چھیڑا گیا تو ہم انہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیں‌گے“۔ آج کی مہذب دنیا میں‌یہ الفاظ کسی مہذب انسان کے منہ سے نکلنا بڑا عجیب دکھائی دیتا ہے۔ کسی انسان نما درندے کے منہ سے ایسے الفاظ نکلنا البتہ اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ اسرائیلی حکومت کے ذمہ داروں نے خود ہی اس بات کا اعتراف کر لیا ہے لیکن ساری دنیا ان کے عزائم سے پہلے ہی بخوبی آگاہ تھی اور ان کی اس درندگی کا بخوبی ادراک رکھتی ہے۔
    درج بالا باتوں پر حیرت کرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں حیرت تو اس بات پر کرنی چاہیے کہ اس صیہونی درندگی کو ختم کرنے کے بجائے مہذب اقوام اس کی پشت پناہی کررہی ہیں محض اس لئے کے یہ بھیڑوں کا ریوڑ مسلمانوں کا ہے جس میں شیر بھی بکری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور انھیں اس بات کا ادرک ہی نہیں کہ خودی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

    خودی میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
    میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن

    انسانیت کی اس قتل و غارت گری کو امریکہ، برطانیہ اور دیگر تمام مغربی و یورپی ممالک کی بھرپور تائید حاصل ہے، بلکہ یہ تمام ممالک اس جنگ کو جاری و ساری رکھنے کے لیے اسرائیل کو خفیہ و اعلانیہ طور پر مہلک اسلحہ فراہم کرتے ہیں، اور امت مسلمہ کو دھوکے میں رکھنے کے لیے بس مزاحمتی بیان بازی سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر رہے۔ ستم بلائے ستم یہ کہ ان کے کچھ چوٹی کے لیڈر اس کو اسرائیل کا حق قرار دے رہے ہیں۔ اگر مسلم ممالک میں کوئی بھی اپنے دفع کا حق رکھتے ہوئے ایسی حرکت کرے تو یہی ممالک اس کے خم ٹھونک کر میدان عمل میں کود پڑتے ہیں اور کسی قسم کی تاخیر کے بغیر جارحیت اور اقتصادی پابندیوں کے نفاذ میں غیر معمولی عجلت دکھاتے ہیں۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
    اسرائیل کے پہلے سولین وزیر اعظم ایریل شیرون جیسے جنگلی بھیڑے کی شطینت، دجل و منافقت، غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے چار ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے انسانی سروں کے مینار بنانے میں مصروف ہیں تاکہ وہ اپنے عوام پر ثابت کر سکیں کے وہ موجودہ سابقہ فوجی حکمرانوں کے مقابلے میں ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
    اقوام متحدہ (امریکہ کی زر خرید لونڈی) نے جس شرمناک انداز میں کندھا پیش کیا ہے اس نے اس ادارے کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ اقوام متحدہ کا کام اقوام عالم کی نمائندگی تھا لیکن گیارہ ستمبر کے بعد اس کی حثیت امریکہ کے مہرے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان و عراق میں ظلم و ستم اور درندگی پر امن عالم اور بین الاقوامی سلامی کے ذمہ داروں کی خاموشی یہ واضح کرنے کے لیے کافی نہیں کہ اس وقت دنیا کے کسی کونے کے مسلمانوں کو امن و تحفظ فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری کا حرکت میں آنا بعید از قیاس ہے۔ اس لیے امت مسلمہ کے ارباب حل و عقد کو امریکہ و مغربی ممالک پر تکیہ کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔

    اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ سلامتی کونسل اس حوالے سے مناسب ایکشن لینے میں‌ ناکام ہو گئی ہے اور اس ادارے کی ساکھ کمزور اور خطرے میں پڑ گئی ہے۔

    لبنان کے نمائندے نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کمزور اور مظلوم کی دادرسی کی جگہ ہے نہ طاقتور، غاصب اور مکار طاقتوں کا سٹیج ہے۔
    کوفی عنان، لبنانی اور اسرائیلی نمائندوں کی تقاریر کے بعد سلامتی کونسل کا اجلاس بغیر کوئی قدم اٹھائے ملتوی ہوگیا ہے اور بند کمرے میں صلاح و مشورے شروع ہو گئے اور اسرائیل کو کوئی لگام ڈالنے کی بات نہ کرسکا۔ اور امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزارائس نے جو قانا پر اسرائیل کی بمباری کے جنگ بندی سے انکار کردیا اور آج تک اپنا موقف نہیں بدلا اور آج بھی وہ لبنان میں حزب اللہ کو ختم کرنے ایران اور شام کو سنق سکھانے کے لیے کمربستہ ہیں، حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ اپنی آنکھوں سے معصوم بچوں کا قتل عام دیکھنے کے باوجود ساری دنیا آخر کیوں خاموش ہے۔ انھیں اور کس بات کا انتظار ہے۔ کیا عالمی ضمیر تب بیدار ہوگا جب پورا لبنان قبرستان بن جائے گا۔
    کہاں گئیں دنیابھر کی وہ ہیومن رائٹس تنظیمیں جو پرندوں اور مچھلیوں کو مرتے دیکھیں تو اپنی جان پر کھیلنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔

    کیا انھیں معصوم بچوں کے لاشے دکھائی نہیں‌دیتے۔


    ظاہر ہے یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے لیکن وہ خاموش اس لئے ہیں کہ جن کے ساتھ یہ وحشت اور درندگی کا کھیل کھیلا جارہا ہے ان اپنے والی وارث چپ ہیں۔ کس کے پاس جواب ہے اس سوال کا کہ ہمارے مسلم ممالک کے حکران کیا کر رہے ہیں؟
    اور او آئی سی کیا کردار ادا کررہی ہے۔ چوبیس دن تک معصوم اور بےگناہ مسلمان بچوں عورتوں اور بوڑھوں کے قتل عام کے بعد اب ہمیں احساس ہوا ہے کہ او آئی سی کا اجلاس بلانا چاہیے لیکن اس اجلاس کے متعلق بھی کسی کو کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہاں کیا ہوگا؟ سوائے زبانی کلامی جمع تفریق کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سب سے پہلے ہمیں‌ تاریخ کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ آج تک جن قوموں نے دنیا پر حکمرانی کی ہے کس اصول اور ضابطے کے تحت وہ یہاں تک پہنچی ہیں۔ اور اسلامی دنیا لبنان اور فلسطین کی صورتحال پر کیوں خاموش ہے؟ یہ سوال آج دنیا کے ہر شخص کی زبان پرہے! اس سوال کے پیچھے زوال کی طویل تاریخ ہے۔

    انسان کی دس ہزار سالہ تاریخ میں‌ جس قوم نے بھی ترقی کی منازل طے کرکے دوسری اقوام پر اپنا رعب و دبدبہ قائم کیا اس میں تین خوبیاں تھی۔

    1۔ علم میں‌ دوسری قوموں سے برتر تھی۔
    2۔ اسکی معشیت مضبوط تھی۔
    3۔ اس کی فوج دوسری افواج سے طاقت ور تھی۔

    اور ترقی کا یہ کلیہ آج بھی جوں کا توں موجود ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس آج بھی اسلامی ممالک ان تینوں شعبوں میں‌ دنیا کے سب پچھلے ممالک کی صف میں کھڑے ہیں۔ اس وقت دنیا میں‌ تقریبا ایک ارب اڑتالیس کروڑ(1،48،00،00،000) مسلمان ہیں دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔ دنیا میں‌ایک ہندو اور ایک بدھ کے مقابلے میں‌ دو مسلمان اور ایک یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان ہیں۔ دنیا میں‌ 61 (اکسٹھ) اسلامی ممالک ہیں۔ ان میں سے 57 او آئی سی کے رکن ہیں لیکن یہ دنیا کی تیسری بڑی قوت ہونے کے باجود انتہائی کمزور حقیر اور بے بس ہیں‌۔ کیوں؟ اس کو جواب ہمیں ترقی کے درج بالا تین بڑے اصولوں میں‌ملتا ہے

    1۔ دنیا میں‌ترقی کا پہلا اصول علم ہے۔
    اس وقت پوری اسلامی دنیا میں صرف 500 یونیورسٹیاں ہیں۔ ان یونیوسٹیوں کو اگر ہم مسلمانوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کریں تو ایک یونیورسٹی 30 لاکھ مسلمان نوجوانوں کے حصے میں‌ آتی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں صرف امریکہ کی پانچ ہزار سات سو اٹھاون(5،758 )یونیورسٹیاں ہیں۔ اور ٹوکیوں شہر میں 1000 یونیورسٹیاں ہیں۔ عیسائی دنیا کے 40 فیصد نوجوان یونیورسٹیوں داخل ہوتے ہیں۔ جبکہ اسلامی دنیا میں صرف 2فیصد نوجوان یونیورسٹی تک پہنچ پاتے ہیں۔
    امت مسلمہ میں‌ اکیس لاکھ(21،00،000 )لوگوں میں سے صرف 230 لوگوں کو سائنس کا علم ہوتا ہے۔ جبکہ امریکہ کے دس لاکھ(10،00،000) شہریوں میں‌ سے چار ہزار(4،000) اور جاپان کے پانچ ہزار(5،000) شہری سائنس دان ہوتے ہیں۔
    پوری عرب دنیا میں‌ صرف 35 ہزار فل ٹائم ریسرچ سکالر ہیں جبکہ صرف امریکہ میں ان کی تعداد 22 لاکھ ہے۔
    پوری امت مسلمہ اپنے GDP کا صرف اشاریہ دو فیصد(0.2 ٪) ریسرچ پر خرچ کرتی ہے جبکہ عیسائی دنیا اپنی آمدنی کا پانچ فیصد حصہ تحقیق (ریسرچ) پر لگاتی ہے۔
    اس وقت دنیا میں 200 بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔ ان 200 یونیورسٹیوں میں سے 54 امریکہ، 24 برطانیہ، 17 آسٹریلیا، 10 چین، 10 جاپان، 10 ہالینڈ، 9 فرانس، 9 جرمنی، 9 کینڈا، 7 سوئزرلینڈ میں ہیں۔ ان 200 یونیورسٹیوں میں اسلامی دنیا کی صرف ایک یونیورسٹی ہے جبکہ اس فہرست میں بھارت کی تین یونیورسٹیاں آتی ہیں۔ اگر ہم اس فہرست کا ذرا سا کڑا جائزہ لیں تو دنیا کی پہلی 20 یونیورسٹیوں میں 18 یونیورسٹیاں امریکہ میں‌ ہیں۔کمپیوٹر کے پہلے دن سے بڑے ادارے امریکہ میں ہیں اور دنیا کے 30 فیصد غیر ملکی طلبہ امریکہ میں زیر تعلیم ہیں جہاں ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں امریکہ اعلٰی تعلیم پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا پے۔ امریکہ اپنے GDP کا 2.6 فیصد ہائر ایجوکیشن پر صرف کرتا ہے جبکہ اس مقابلے میں یورپ 1.2 فیصد اور جاپان 1.1فیصد ہائر ایجوکیشن پر صرف کرتا ہے۔
    امریکہ ٹیکنالوجی اور ایجادات میں دنیا میں‌پہلے نمبر پر آتا ہے۔ اس کی کمپنیاں تحقیق پر دنیا میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔ امریکہ تحقیقی اداروں کے معیار میں سب سے آگے ہے اور اس وقت دنیامیں سب زیادہ نوبل انعام یافتہ سائنسدان امریکہ میں‌ ہیں۔ چین اور بھارت علم اور ٹیکنالوجی میں نئی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں۔ امریکی ماہرین کا خیال ہے چین 2045ء میں‌امریکہ کی جگہ لے لے گا۔ اس کی وجہ یونیورسٹیاں اور ٹیکنالوجی ہے۔ چین میں‌ اس وقت 9000 اور بھارت میں 9407 یونیورسٹیاں ہیں۔ یہ دونوں ملک ہر سال 9 لاکھ 50 ہزار انجینئر پیدا کرتے ہیں۔
    [align=left:23yra5n5](جاری ہے)[/align:23yra5n5]
     
  2. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    محترم ثناءاللہ صاحب آپ کی تحریر نوجوانوں کی آنکھیں کھول سکتی ہے۔ آپ اسے جلدی جلدی مکمل کریں اور صرف ہماری اردو تک محدود رکھنے کی بجائے دیگر آن لائن اور روایتی اخبارات کی طرف بھی ارسال کریں۔ بلاشک ایسی پختہ فکر تحریریں لکھنے کی صلاحیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ اللہ آپ کو اور توفیق دے۔

    امتِ مسلمہ کو غیروں کی طرف بھیک کی نظر اٹھانے کی بجائے خود سر اٹھا کر چلنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔ اور اس مقصد کے لئے اعلی تعلیم، مضبوط معیشت، سائنسی ترقی اور عسکری صلاحیت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، مگر 61 ممالک میں بکھری امتِ مسلمہ کے کم و بیش تمام حکمران شاہی اللوں تللوں میں مصروف ہیں۔ قومی خزانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے سے انہوں فرصت ملے تو قوم کی تعلیم اور معیشت کی طرف توجہ کریں۔

    ایک حد تک افرادِ ملت بھی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں کہ ایسے گھٹیا ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کو وہی تو الیکشنوں میں منتخب کرتے ہیں۔ فقط حکمرانوں کو موردِ الزام ٹھہرا دینے سے بھی عوام کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جائے گی۔ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ غیرحکومتی سطح پر بھی اسی قدر محنت کی ضرورت ہے جس قدر حکومتی سطح پر۔

    میری بات طویل ہو رہی ہے، اس لئے ختم کرتا ہوں۔ ابھی ہمیں محترم ثناءاللہ صاحب کے مضمون کی دوسری قسط بھی پڑھنی ہے۔
     
  3. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    محترم ثناء اللہ صاحب کی تحریر بہت خوبصورت ہے، کاش ہم نوجوان نسل اس پر غور کر لیں۔
     
  4. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    ہمیں ان سب مسائل کے حل کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا ۔۔
    اور اس کے بعد
    ہمیں ان سب مسائل کے حل کے لیے اپنی صفوں‌میں کسی ایسے رہبر کی تلاش کرنی ہو گی جو واقع قائد کہلانے کا اہل ہو ۔۔۔۔ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں