1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از نوید, ‏11 اپریل 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم میرے محترم بھائی ۔
    میں نے اپنی گفتگو کے شروع میں بھی عرض کیا تھا کہ ہم جھگڑا فساد نہیں محض تبادلہء خیال کے لیے بات کر رہے ہیں تاکہ مجھ جیسے کم عقل لوگوں کو کچھ سیکھنے کا موقع مل سکے اور ہمارے دلوں سے دوریاں مٹنے کی کوئی سبیل ہو تاکہ اتحادِ امت کا عظیم خواب شرمندہء تعبیر ہوسکے کہ یہی آج دینِ اسلام کی ضرورت ہے۔

    ہمارے ایمان کی بنیاد چونکہ قرآن و حدیث ہے اس لیے ہمیں چاہیئے کہ قرآن و حدیث کے دلائل سے (اگر ہمارے پاس ہیں) ایک علمی ماحول میں تہذیب و اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر اپنا موقف بیان کریں تاکہ پڑھنے سننے والوں کو پتہ چلے کہ ہم لوگ کسی ادارے، تربیت گاہ، استاد یا پیرو مرشد سے تربیت یافتہ ہیں اور اپنی گفتگو سے ہم انکی نیک نامی کا سبب بنیں۔

    پوسٹ مارٹم وغیرہ کے لفظ سے “مردہ خانہ کے انپڑھ قصائی“ کا نقشہ تو ذہن میں آسکتا ہے لیکن کسی دینی ادارے یا تربیت گاہ کے طالبعلم کا سراپا ہرگز ذہن میں نہیں ابھرتا۔

    ذرا خیال رکھیے گا۔
     
  2. م س پاکستانی
    آف لائن

    م س پاکستانی ممبر

    شمولیت:
    ‏11 جولائی 2006
    پیغامات:
    23
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سنی کون۔۔۔۔؟

    محترم مدنی بھا ئی

    آپ نے یہ بحث شروع کر کے یقینا سنیوں کو مزید “سن“ کر دیا ہے کیونکہ طاہرالقادری کو سنیت سے خارج کرنے والے حقییقت میں خود اپنی کرسی کی فکر کر رہے۔ 90 فیصد سے زائد نمائندگی اور سنی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ ان “سن“ سنیوں‌ کے پاس اب سوائے اس دعوے کے سوا بچا ہی کیا ہے اس لیے انہوں نے طاہرالقادری کو سنیت سے خارج کر کے خود اپنے ہی پاوں‌ پر کلہاڑی ماری ہے۔ نام نہاد سنیت کا دعویٰ کرنے والے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ آج اہلسنت کی قیادت کس کے پاس ہے؟

    یہاں یہ مثال دل چسپی کے ساتھ اس بات کو مزید ثابت بھی کرے گی کہ موجودہ سنی علماء کا کردار صرف کٹھ پتلی بن گیا ہے۔

    واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ماہ 24 اپریل کو سنی علماء نے مینار پاکستان (وہ جگہ جہاں ہر سال منہاج القرآن کی سالانہ عالہی میلاد کانفرنس منعقد ہوتی ہے) پر میلاد کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا لیکن حکومت نے اس کی اجازت نہ دی۔ اس پر معروف سنی علماء نے 24 اپریل کو پریس کلب لاہور سے پنجاب اسمبلی ہال تک ایک اجتجاجی مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے آقا علیہ السلام کے میلاد کی اجازت کے لیے حکمران وقت کے خلاف وہ بے ہودہ نعرہ بازی اور گالیوں پر مشمل کلمات کہے جو عموما شدت پیسند مزہبی جماعتوں کے کارکنان امریکہ اور امریکی صدر بش کے خلاف بھی نہیں کہتے۔ اس اجتجاجی مظاہرہ کی کوریج 25 اپریل کے تمام اخبارات نے دی۔ تاہم وہاں ‌میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطالبہ کی اڑ میں جو گالیاں حکمرانوں کو دی گییں وہ ایجنسیوں‌ اور خفیہ والوں نے براہ راست ٹیپ کر کے اپنے ذمہ داران کو پہنچائیں۔ یہ ہے آج سنیوں‌ کا کردار۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟

    دوسرا اگر ان میں‌ میلاد کانفرنس کرنے کی ہمت ہوتی تو پھر 24 اپریل کو مینار پاکستان کے سائے میں آقا علیہ السلام کا میلاد مناتے نہ کہ پریس کلب کے سامنے اپنے سنی عماء کو جمع کر کے حکمرانوں‌ کو گالیاں‌ دیتے۔

    ایسے میں اگر یہ سنی طاہرالقادری کو اپنے جیسا “سنی“ نہیں سمجھتے تو اس میں‌ وہ حق بجانب ہیں کیونکہ طاہرالقادری تو السے سنی نیہں بلکہ وہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ کے پیروکار ہیں۔
     
  3. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    امید ہے کہ اس مباحثے میں حصہ لینے والے تمام مسلمان بخیر و عافیت ہونگے

    بریلوی اور مدنی بھائیوں کے لیے بالخصوص اور باقیوں کے لیے بھی
    نوید بی سی این نے ایک بلاگ تشکیل دیا ہے

    http://minhajulquran.wordpress.com/

    وہاں تشریف لائیں‌‌ٹائم نکال کر، ممکن ہے آپ کے سوالات کا جواب مل جائے


    خوش رہیں
     
  4. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    روزنامہ بوریت پر اس موضوع کی مناسبت سے پچھلے دنوں ایک تحریر نظر سے گزری تھی، جو مجھے نہایت پسند آئی۔ سوچا آپ کی دلچسپی کے لئے ادھر بھی شائع کر دوں۔


    قران مجید گواہ ہے کہ مخالفین کے اعتراضات سے تو انبیاء (علیھم السلام) بھی محفوظ نہیں رہے۔ خود ہمارے پیارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر بھی اعتراضات کئے گئے۔ اور پھر اج کے دور میں ہمیں بحثیت قوم سوائے اعتراض کے اور اتا ہی کیا ہے۔ تنگ نظری، تنگ ذہنی، عدم برداشت ہمارا قومی وطیرہ ہے۔

    اور ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر بات کا منفی پہلو دیکھنے بلکہ ہر بات میں منفی پہلو تلاش کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم نے پورا اسلام محض اپنے خودساختہ یا اپنے بڑوں کے عطاکردہ نظریات و تصورات کے دائروں میں مقید کر دیا ہے ۔ اور جو کچھ اس دائرے سے باہر نظر ائے فورا اسے خارج از اسلام قرار دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے ۔ اور نہ ہی دوسرے کی بات کو سننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    حالانکہ ہمیں چاہیئے کہ ہم ہر کسی کی بات کو سنیں۔ بلاشبہ تنقیدی نکتہ نظر سے ہی سہی لیکن اسکی بات کو سن کر پھر اس پر غور و خوض کریں کہ اس نے کہاں تک قران و حدیث سے بات کی ہے۔ اور کہاں ڈنڈی ماری ہے۔

    ایک بات جو مجھے ہمیشہ کھٹکتی ہے کہ اگر طاہر القادری واقعی میں قادیانیوں کی طرح کا فتنہ ہے، گمراہ ہے، خارج از اسلام ہے تو سارے علماء و مشائخ عدالت میں جاکر اسے کافر و گمراہ قرار کیوں نہیں دلواتے۔ کیا انکی غیرت ایمانی کا اولین تقاضہ یہی نہیں کہ ساری تبلیغ چھوڑ کر سب سے پہلے امت مسلمہ کو ایک فتنہ سے بچایا جائے جیسا کہ ختم نبوت کے معاملے پر سارے علماء و مشائخ مرزا قادیانی کے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔

    کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری اگر فتنہ ہے تو ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسکے ممبران کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ مینارپاکستان کی سالانہ محفل میلاد اسکا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اگر کسی نے تصدیق کرنی ہوتو ائندہ رمضان میں ٹاون شپ لاہور جاکر وہاں ہونے والے اعتکاف میں عوام کا جم غفیر دیکھ اور پھر لیلۃ القدر کی شب اسکے سالانہ اجتماع میں لاکھوں افراد دیکھ سکتا ہے۔ یورپ میں رہنے والے لوگ اس حقیقت کو قطعی طور پر نہیں جھٹلا سکتے کہ منہاج القران کے مراکز دن بدن ترقی کر رہے ہیں۔ طاہر القادری جیسے فتنے کے شاگرد پوری دنیا میں طاہر القادری کی گمراہ کن فکر کو عام کر رہے ہیں۔

    تو میرے سب بھائیو اور دوستو !! ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم طاہر القادری کو غور سے سنیں ۔ اسکے گمراہ کن خطابات کا تنقیدی جائزہ لے کر اسکے خلاف قران و سنت بیانات اپنے بڑے علماء و مشائخ تک پہنچا کر ان کو مجبور کریں کہ

    1۔۔خدارا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر عدالت میں طاہرالقادری کو فتنہ ثابت کریں۔ اور قادیانیوں کی طرح اسکے خلاف قانون پاس کروا کے اسے غیر مسلم ثابت کریں۔

    یا

    2۔۔۔ ٹیلی ویژن پر ہمارے علماء و بزرگان دین اکر عوام کو اس فتنے اور اسکی تباہ کاریوں سے اگاہ کریں۔ کیونکہ یہ فتنہ تو اب ٹیلی ویژن کے ذریعے بھی اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔

    یا

    3۔۔۔ پاکستان بھر میں جلسے جلوس منعقد کرکے لوگوں کو اس فتنے سے اسی زور شور سے اگاہ کریں جیسا کہ ہم مرزا قادیانی کے بارے میں لوگوں کو اگاہ کرچکے ہیں اور کرتے رہتےہیں۔

    اگر ہم سب اور ہمارے بڑے علماء و مشائخ دین اسلام کے ساتھ واقعی مخلص ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری کو واقعی فتنہ سمجھتے ہیں تو ہمیں مندرجہ بالا اقدامات اٹھانے ہوں گے اور انکے علاوہ بھی ہو ممکن طریقے سے امت کو اس فتنے سے بچانا ہوگا۔ یہی تقاضائے ایمان ہے ۔

    اور اگر ہم اور ہمارے بڑے بزرگ یہ سب نہیں کرتے اور صرف دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہتے ہیں تو پھر ہم منافق ہیں ۔ ہمیں ماننا پڑے گا یا تو ہم منافق ہیں اور ہمارے اخلاص فی الدین میں کمی ہے۔

    اور اگر یہ سچ ہے

    تو پھر ڈاکٹر طاہر القادری سچا ہے۔ اسکے پچھلے 25 سال میں دین اسلام کی اتنے بڑے پیمانے پر خدمت اور اسکی تنظیم کی ترقی کے پیچھے اللہ تعالی کی مدد و نصرت شامل ہے۔ ورنہ محض فتنے اتنی تیزی سے امت مسلمہ کے اندر ترقی نہیں کرتے۔

    ٓمیری اپ دوستوں کو پھر سے دعوت ہے کہ ائیے ڈاکٹر طاہر القادری کو سن کر ہم خود فیصلہ کریں کہ وہ کیا ہے۔

    http://tv.minhaj.org

    یہاں سے ڈاکٹر طاہر قادری کے خطاب مفت اور باسانی مل جاتے ہیں

    ائیے ڈاکٹر قادری کو سن کر اپنے ضمیر سے فیصلہ کریں کیونکہ انسان کا ضمیر اگر زندہ ہو تو وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
     
  5. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    واہ نوید بھائی آپ نے تو کمال کر دیا، تقریباً ہر سوال کا جواب ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں موجود ہے۔
     
  6. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    قران مجید گواہ ہے کہ مخالفین کے اعتراضات سے تو انبیاء (علیھم السلام) بھی محفوظ نہیں رہے۔ خود ہمارے پیارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر بھی اعتراضات کئے گئے۔ اور پھر اج کے دور میں ہمیں بحثیت قوم سوائے اعتراض کے اور اتا ہی کیا ہے۔ تنگ نظری، تنگ ذہنی، عدم برداشت ہمارا قومی وطیرہ ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں