1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈاکٹر اسرار کے بیان کی مذمت ۔

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نوید, ‏20 جون 2008۔

  1. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نہیں بیٹا، یہ بری بات ہے، ایسا نہیں کہتے۔

    جو غلطی ایم بی بی ایس ڈاکٹر اسرار احمد نے کی ہے اس سے ہٹ کر کوئی اور بات ان کی طرف منسوب کرنا الزام تراشی کے زمرے میں آئے گا جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔[/quote:2ssd8hr2]

    جزاک اللہِ خیرآ وَ کثیرآ​
     
  2. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اگر آپ کے کمپیوٹر میں فلیش کا پلگ ان انسٹال ہے تو یہ مختصر سا ویڈیو کلپ دیکھیں، صاف پتہ چل جائے گا کہ وہ کون لوگ ہیں۔

    [youtube:3m8v99p4]http://www.youtube.com/watch?v=CwPpkGKmj_o[/youtube:3m8v99p4]​
    [/quote:3m8v99p4]

    محترمہ
    آپ بار بار ایک ہی چیز کی رٹ لگائے ہوئی ہیں۔ "وہ لوگ کون تھے" سے مراد میرا وہ سوال ہے جو میں‌نے نعیم بھائی سے اوپر اپنی پوسٹ میں کیا تھا۔ لیکن آپ ہیں‌کہ "وہی مرغے کی ایک ٹانگ"۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔
    فرخ صاحب۔ آپ اپنے ممدوح ڈاکٹر اسرار احمد کی شخصیت پرستی کے سحر میں اس قدر مبتلا ہوگئے ہیں کہ آپ پچھلے کئی ہفتوں سے یہاں انکا دفاع کیے جارہے ہیں
    یہ جانے بغیر کہ آپ کے محبوب اسلامی انقلاب کے راہنما نے کہا کیا ہے ؟ یہ سنئے

    [youtube:378g6wwa]http://www.youtube.com/watch?v=9lSIkWRjkLQ[/youtube:378g6wwa]​


    مسئلہ فی نفسہ یہ تھا کہ حضرت علی :rda: نے شراب نہیں‌پی تھی اور نہ ہی امامت کروائی تھی۔ اور یہ روایت امام ترمذی کے بیان کے مطابق "غریب" اور اسکے راوی عطاء بن سائب جملہ آئمہ حدیث کے نزدیک آخری عمر میں کمزور یادداشت اور واہمہ کا شکار ہوگئے تھے، واقعات و اشخاص کو گڈ مڈ کر جاتے تھے۔ اس لیے انکی روایات قابل قبول نہ رہی تھی۔

    امام حاکم :ra: نے فرمایا کہ عطاء بن سائب کی آخری عمر میں ضعفِ حافظہ کے بعد والی روایت خارجی (دشمنانِ علی و اہلبیت پاک :rda: ) امیر المومنین حضرت علی :rda: کی شان میں اہانت کے لیے بیان کرتے ہیں۔ جبکہ صحیح الاسناد احادیث میں حضرت علی :rda: کے شراب پینے یا امامت کروانے کا اور غلط قرآن پڑھنے کا ذکر تک نہیں۔ امام حاکم مزید فرماتے ہیں کہ حالانکہ اللہ تعالی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایسی لغویات سے براءت بیان کرچکا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خود اس واقعے کے راوی ہیں (امام حاکم المستدرک، جلد 2،
    صفحہ 336، الرقم 3199)


    پھر امام طبری کی تفسیر طبری : جلد 5، صفحہ 95 میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شراب پینے اور امامت کروانے کا کہیں ذکر تک نہیں۔

    علامہ شوکانی جو کہ اہلحدیث مکتبہ فکر کے نہایت قابل اعتماد اور پسندیدہ امام ہیں اور جن کی کتاب "نیل الاوطار" اہلحدیث مکاتب و مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ اسی کتاب نیل الاوطار، جلد 9، صفحہ 57 پہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شراب پی کر امامت کروانے والی روایت متصل الروایت ہی نہیں اور عطاء بن سائب کی روایت قابلِ احتجاج ہی نہیں۔ پھر امام حاکم اور امام منذری کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر یہ سکر کی حالت میں (شراب پی کر) امامت کروانے کی تہمت خارجیوں‌ نے لگائی ہے۔

    برصغیر میں اہلحدیث مکتبہ فکر کے معروف عالم ، علامہ شمس الحق عظیم آبادی، کتاب عون المعبود، جلد 3، صفحہ 365 پر لکھتے ہیں کہ صحیح روایت وہی ہے جو امام حاکم نے المستدرک میں بیان کی ہے کہ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شراب پینے یا امامت کروانے کا ذکر نہیں۔ اور وہ بھی کہتے ہیں کہ خارجیوں نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ پر یہ تہمت لگائی تھی۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ڈاکٹر اسرار احمد صاحب یا تو تسلیم کر لیں کہ وہ خارجیوں‌کے اس فتنے سے بےخبر اور بےعلم ہیں اور انہوں نے یہ کتابیں پڑھی ہی نہیں۔
    اگر ایسا نہیں اور وہ اپنے اس گستاخانہ تقریر کی تائید میں کئی کتب کے حوالہ جات بھی دے چکے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپر دیے گئے آئمہ حدیث اور علمائے اہلسنت، و علمائے اہلحدیث کے موقف کے مطابق خارجیوں سے متاثر اور بغضِ علی (رض´) جیسی بیماری میں‌مبتلا ہیں۔
    اور ایک عالمی ٹی وی چینل کے ذریعے پوری امت مسلمہ کو ( معاذاللہ ) اسی بیماری میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔

    اور فرخ صاحب اور عرفان صاحب جیسے اندھے عقیدت مند ، شخصیت پرستی کے فتنے میں‌مبتلا ہوکر ڈاکٹر اسرار صاحب کی تقلید میں قرآن و حدیث کا کوئی بھی سچا فرمان سننے کو تیار نہیں۔

    ہم آپ سے صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ خدارا ، ہٹ دھرمی چھوڑ دیں، ڈاکٹر اسرار صاحب کے الفاظ کو حرفِ آخر سمجھنے کی بجائے ذرا خود بھی اللہ تعالی کے قرآن حکیم اور اسکے حبیب النبی المکرم :saw: کے فرمودات (احادیث نبویہ) کو پڑھ سن کر اپنے ایمان کا تعین کریں۔

    اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
     
  4. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0

    ویسے تو جب میں‌نے آپ کے الفاظ کے جواب میں آپ سے کوئی بھی قرآن وسنت کی دلیل مانگی، تو آپ ہمشہ بات دوسری طرف لے گئے۔
    اور اگر اس واقعے کا ذکر واقعی تفسیر ابن کثیر اور دوسری بڑی تفاسیر میں‌موجود ہے، تو پھر یقینآ کوئی بات ہے، ورنہ اگر یہ حدیث نہ ہوتی یا ضعیف ہوتی تو پھر اسے کوئی بھی تفاسیر میں استعمال نہ کرتا۔

    البتہ کیچڑ اچھالنے والے شروع دن سے ہی موقع ڈھونڈتے رہتے ہیںاور پھر ایک بات کو طوطے کی طرح رٹا لگا لگا کے بولتے رہتے ہیں۔ جیسے کہ آپ نے ڈاکٹر اسرار کے خلاف اپنے جزبات کا بڑھا چڑھا کر اظہار کیا اور حد سے آگے نکل گئے

    میں نے جو آپ سے سوال پوچھا ہے، یہ اسکا قطعی جواب نہیں ہے۔
    یا تو آپ اس سوال کا جواب دے نہیں‌سکتے اور اب وہی طوطے کی طرح رٹا لگائے جا رہے ہیں

    ًتیسری مرتبہ میرا سوال پھر وہی ہے:
    نعیم بھائی، آپ صرف اتنا کام کریں۔ ذرا حرمتِ شراب والے واقعہ کی صحیح تحقیق کے ساتھ پس منظر اور واقعات فراہم کردیں۔
    دیکھنا چاہتا ہوں کہ حرمتِ شراب کے پیچھے اگر صحابہ کرام کے شراب پینے کی وجوہات نہیں تھیں تو پھر کیا تھیں؟ آخر وہ کون مومن لوگ تھے کہ جن کی نماز جب شراب کے نشے سے تھوڑی سی بھی غلط ہوئی تو ربِ ذوالجلال نے شراب کو ہی منع فرما دیا کہ اللہ کو قبول نہ تھا کہ اسکا مومن بندہ جب اسکی بارگاہ میں حاضر ہو، تو ذرا سی بھی غفلت کرے۔
    اگر وہ صحابہ اکرام نہیں تھے، توپھر کون تھے؟
    اور آپکے خیال میں "گھٹی میں شراب پڑے ہونے" کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
    مجھے آپکے جواب کا شدت سے انتظار رہیگا


    میں آپکے خیالات جاننا چاہتا ہوں اس بارے میں۔
    اس سوال کو غور سے پڑھیں اور پھر جواب دیجئے گا۔ ورنہ شائید آپ حسبِ عادت بات کا رخ موڑنے کے لیئے وہی طوطے کی طرح ڈاکٹر اسرار کے خلاف زہر اگلیں گے۔ اور بدگمانی، بہتان، غیبت وغیرہ کے سارے احکام پس پشت ڈال دیں گے، جیسا کہ آپ اب تک کرتے آئے ہیں۔
    ورنہ آپکی طرح دوسروں کی غلطیاں نکالنے والا کام میں آپ کے ان عالم صاحب کے خلاف بھی کر سکتا ہوں جنکی تقلید میں آپ اندھے ہو رہے ہیں اور جن کو علماء اہلسنت، اہلسنت گردانتے ہی نہیں بلکہ جو مختلف بدعات میں بھی ملوث رہ چکے ہیں۔
     
  5. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    میرا خیال ہے کہ جب تک "وہی عالم ہیں جن کی اندھی تقلید ہو رہی ہے " اس واقعہ کو تسلیم نہیں کریں گے تب تک اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

    وہ واقعہ مختلف احادیث کے ساتھ ساتھ تفسیر ابن کثیرجیسی مستند تفسیر میں بھی موجود ہے اور جو اس سے انکاری ہیں ان کو چاہیے کہ وہ یہ واقعہ ان کتب سے نکلوانے کی سعی کریں کیونکہ جب تک ان میں موجود ہے کوئی نہ کوئی اس کا حوالہ دے کر معتوب ہوتا رہے گا۔

    فرخ بھائی آپ نے بہت پتے کی بات کی ہے کہ حرمتِ شراب کا حکم آخر نازل کن کے لیے ہوا تھا۔ صحابہ کرام میں سے کچھ شراب پیتے تھے تبھی تو اس کی حرمت نازل ہوئی ورنہ کیا وجوہات تھیں اس حکم کی؟
     
  6. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جی سیف بھائی
    اور میں دراصل نعیم بھائی سے اس متعلق جاننا چاہتا ہوں۔ کیونکہ انکے مطابق شائید ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
    جزاک اللہ خیرا و کثیرا
     
  7. عاطف چوہدری
    آف لائن

    عاطف چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2008
    پیغامات:
    305
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    گل مکی
    جب اس بندے نے اسکیوز کر لیا تو اب بھث کیوں ہو رہی ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔
    اور اگر اب بھی بھث کتم نہ ہوہی تو۔۔۔۔۔۔تو مین کہوں گا کہ
    جو ڈاکر صاھب کے مکالف ہین وہ دراصل صھباہ کرام کی توہین کر رہے ہن وہ گستاک ہین
    بار بار انسان کو ایک چیز کے بارے مین کہنا تم نے غلط کیا تم نے غلط کیا ھالانکہ اس نے نہ کیا ہو ۔۔۔پھر بھی کہنا کہ تم غلط کیا
    ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے ۔۔۔
    اور وہ کام کر جاتا ہے
    لہذا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر صھابہ سے پیار ہے تو اب پلیز کسی کو مت کہں کہ آپ نے گستاکی کی ۔۔۔
    سوری بندا تھوڑا سا ان پڑھ ہے۔۔۔لکھنے کے فن سے واقف نہیں

    :baby:
     
  8. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:

    معاف کیجیئے گا فرخ بھائی مجھے رہ رہ کر آپکی سوچ پر افسوس ہورا ہے پتا نہیں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ آپ یہ سوال بار بار دہرا کر اور آپکے اس سوال پر نعیم بھائی کے واضح جواب نہ دینااور اس پر آپ اور آپ کے حواریوں کا بغلیں بجا بجا کر یوں خوش ہونا کہ جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کرلیا ہو انتھائی افسوسناک رویہ ہے ۔ ۔ ۔ معاف کیجیے آپ تو بڑے مصلح بن کر آئے تھے اور آتے ساتھ ہی غیبت اور بہتان پر ایک بھر پور لیکچر دینے کے بعد اتحاد امت کا درس دیتے ہوئے بے جا بحث کے مضر ہونے کا بھی ببانگ دہل اعلان آپ نے فرمایا تھا مگر کیا ہوا کہ میں دیکھتا ہوں کہ ہماری اردو پر آپ کا سارے کا سارا فوکس صرف اسرار احمد کے دفاع پر ہی ہے دیگر لڑیوں میں آپ کا آنا جانا بہت کم ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے باوجود اس کے کہ ہم آپ کو دعوت دے چکے کہ اب یہ بحث ختم کریں اور امت کی بھلائی کے لیے متفقہ موضوعات پر نت نئی لڑیاں وجود میں لائیں مگر آپ ہنوز وہیں کہ وہیں رکے ہوئے ہیں این چہ بوالعجبی است؟
    اور اب آپ کو کیا ہوگیا کہ آپ دفاع اسرار پر اس قدر مصر ہوگئے کہ بولتے ہی چلے گئے بولتے ہی چلے گئے اور پھر دروغ گو حافظہ ناباشد کی مصداق خود اپنا ہی سابقہ کلام بھول گئے کہ جس میں آپ کو ڈاکٹر صاحب کے الفاظ کی سنگینی کا خود اعتراف تھا مگر اب یہ عالم ہے کہ آپ اسرار احمد کے دفاع پر یوں کمر بستہ ہیں کہ پچھلی وہ تمام باتیں یاد ہی نہیں بس کسی بھی طریقے سے ڈاکٹر اسرار کو اس الزام سے پاک پوتر ثابت کرنا مقصود ہے ۔ ۔ ۔ ۔یہ کیا ماجرا ہوگیا آپکے ساتھ ؟
    اب آتا ہوں آپ کے سوال کی طرف ۔ ۔ کیا آپ نے ہمارے سابقہ تمام رپلائیز اس موضوع پر نہیں پڑھ رکھے تھے جو بار بار یہ سوال نعیم بھائی سے کررہے ہیں جبکہ ہم نے بہت پہلے سے اس بات کی وضاحت کردی ہوئی تھی ان الفاظ میں کہ ۔ ۔ ۔ درج زیل میں دو مقامات میں سے ہمارے سابقہ رپلائیز کو ہم کوٹ کی شکل میں پیش کررہے ہیں ۔ ۔۔


    کیا اوپر کوٹ کیئے گئے ہمارے دونوں سابقہ رپلائیز میں آپکے سوال کا جواب موجود نہیں؟
    کہ اس کے علاوہ آپکو اور کیا سننا مقصود و مطلوب ہے
    ؟
    کیا آپ اس سوال کے زریعے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے متنازعہ الفاظ کو سند جواز بخشنا چاہتے ہیں ؟
    یا آپ یہ چاہتے ہیں کتب احادیث و تفاسیر میں مزکور ایسے تمام واقعات پر ہم بھی ڈاکٹر اسرار صاحب والا لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بغیر تحقیق کے کوئی بھی بیان داغ دیا کریں ؟ آخر کیا چاہتے کیا ہیں آپ؟
     
  9. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0

    کیا اوپر کوٹ کیئے گئے ہمارے دونوں سابقہ رپلائیز میں آپکے سوال کا جواب موجود نہیں؟
    کہ اس کے علاوہ آپکو اور کیا سننا مقصود و مطلوب ہے
    ؟
    کیا آپ اس سوال کے زریعے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے متنازعہ الفاظ کو سند جواز بخشنا چاہتے ہیں ؟
    یا آپ یہ چاہتے ہیں کتب احادیث و تفاسیر میں مزکور ایسے تمام واقعات پر ہم بھی ڈاکٹر اسرار صاحب والا لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بغیر تحقیق کے کوئی بھی بیان داغ دیا کریں ؟ آخر کیا چاہتے کیا ہیں آپ؟
    [/quote:2e1ni966]

    محترم عابد بھائی
    جاؤ بھائی معاف کیا :dilphool: کیا یاد کرو گے۔ :hasna:

    یہ بحث تو میں کب کی ختم کر رہا تھا اسوقت بھی جب آپ سے بات ہوئی تھی۔ اور آپ کی وہ ریپلائی بھی میں‌پڑھ چُکا تھا۔ لیکن یہ معاملہ وہ نہیں‌ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔یعنی میں ڈاکٹر صاحب کے دفاع میں نہیں‌بول رہا، بلکہ ان پر جو اصل بات سے بڑھا چڑھا کر یہ لوگ بات کو اچھال رہے ہیں اور بتنگڑ بنا رہے ہیں اس کے برخلاف بولا ہوں۔ ورنہ میں خود ڈاکٹر صاحب کے الفاظ کے انتخاب پر ان سے اتفاق نہیں‌کرتا اور یہ میں‌اپنی پچھلی پوسٹوں میں کہہ چُکا ہوں۔

    اگر آپ نے موصوف نعیم صاحب بنتِ حوا کی رٹیں پڑھ لی ہوتی تو مجھ پر افسوس کرنے کی بجائے اپنے اس دوست پر افسوس کرتے جس کی تائید میں‌آپ اسوقت بولے ہیں۔۔ کیونکہ وہ بات کو بڑھا چڑھا کر بار بار ایک ہی بات کو طنز کے انداز میں‌کہے چلے جا رہے ہیں اور اپنی اس ضد اور انا میں‌بہتان بازی کرنے میں الفاظ کا ذرا لحاظ نہیں‌کر رہے۔ اور ذرا تھوڑا پچھلی پوسٹ میں‌جا کر دیکھئے، موصوف نے ڈاکٹر صاحب پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ صحابہ اکرام :rda: کو شرابی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس سے پچھلی پوسٹ میں‌انہوں‌نے اسی طرح الزام تراشی کرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کیئے، انکا کم از کم ڈاکٹر صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہیں‌ہے۔ اب مسئلہ چونکہ شراب کی حرمت سے ہے جس کے ڈاکٹر صاحب کے بیان پر نعیم صاحب غیر ضروری طور پر غلط الفاظ استعمال کیئے چلے جا رہے ہیں۔لہٰذا میں نے ان سے یہ سوال کر دیا۔

    اب ذرا آپ بھی اپنے ایمان سے بتائیں کہ کیا میں‌نے کوئی غلط سوال کیا ہے؟ اور میں چاہتا ہوں کہ وہ نعیم صاحب جو ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ انہوں‌نے صحابہ اکرام کو شرابی کہا تو وہ خود ہی ذرا حرمتِ شراب والی آیات کا پس منظر پیش کریں اور ان سوالوں‌کے جواب دیں جو اوپر میں نے لکھے ہیں۔

    محترم عابد بھائی، یہ معاملہ ذرا میرے اور نعیم صاحب کے درمیان ہی رہنے دیں۔ اور اگر آپ نے بیچ میں‌ آنا ہے، تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ انکی پوسٹوں‌کو پہلے غور سے پڑھیں، پھر خود فیصلہ کیجئے گا کہ میں نے یہ سوال کیوں‌کیا ہے ان سے۔

    اور آپ خود ذرا سوال کو غور سے پڑھ لیں، آپکی پوسٹ میں جو جواب ہے، وہ دراصل ڈاکٹر اسرار احمد کے غلط الفاظ کے استعمال سے متعلق ہے اور جو تفصیل میں‌نے اپنے سوال کے جواب میں مانگی ہے، وہ موجود نہیں‌ہے۔

    تو محترم برادر نعیم، عابد بھائی اور بنت حوا کو آگے کرنے کی بجائے، آپ مدلل اور صحیح جواب عنائیت فرمایئے میرے سوال کا، جو کہ ایک بہت اہم سوال ہے۔ میں‌اس سلسلے میں‌آپکے خیالات جاننا چاہتا ہوں۔ اور آپ جو بھی جواب دیں، ڈاکٹر اسرار احمد اور حضرت علی :rda: والے معاملے سے قطع نظر ہو کر دیں۔ یعنی صرف تحقیقی طور پر۔ اور جب آپ یہ حقائق فراہم کریں‌گے، تو آپ سے مزید بات ہوگی۔


     
  10. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم [glow=red:l91u43w1]صاحب[/glow:l91u43w1]

    آپ کے جواب کا انتظار ہے۔
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم فرخ صاحب۔
    ایک بات واضح ہوگئی کہ آپ کو قرآن و حدیث پر مبنی گفتگو و دلائل کے ذریعے سچ کی تلاش نہیں بلکہ صرف میری یا کسی اور کی ذات سے بغض و عناد کی وجہ سے بحث برائے بحث مطلوب ہے۔
    اللہ تعالی مجھے معاف کرے کہ اگر میں کسی کو نیچا دکھانے کے لیے الٹی سیدھے پیغامات ارسال کرتا چلا جاؤں ۔
    یہاں وقت دینے کا نہ تو میرا یہ مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی میں کسی سے ذاتی بغض و عناد کی وجہ سے بحث مباحثہ بلکہ فضول تکرار کرنا پسند کرتا ہوں۔ بلکہ میں‌تو یہ بھی عرض کردوں کہ میں دنیا کا سب سے عاجز بندہ ہوں۔ آپ جیسے اہلِ علم، اہلِ فن، اہلِ مناظرہ، اہلِ مجادلہ، تگڑے انسانوں سے ذاتی جنگ مول لینا مجھ جیسے شریف آدمی کے بس کی بات نہیں۔

    آپ کا یہ کہنا
    عجیب سا لگا۔ کہ جب مسئلہ ہی یہی تھا اور ہے کہ حضرت علی :rda: جیسی شخصیت جو 5 یا 7 سال کی عمر میں حضور نبی اکرم :saw: پر ایمان لا کر آپکے زیر تربیت ہوگئے۔

    عَنْ أَبِيْ حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
    وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
    ’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

    الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735،
    و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151،
    والہيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.


    تو کیا معاذاللہ اس قدر بچپن کی عمر میں‌ ایمان لا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے بمفہوم ڈاکٹر اسرار احمد شراب پینا ہی سیکھا تھا ؟ (استغفراللہ العظیم)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جن کے متعلق حضور نبی اکرم :saw: نے فرمایا
    عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي.

    عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا : ’’بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے‘‘۔

    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712
    2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ : 77، 92، رقم : 65، 86
    3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484


    یعنی جس علی رض کو حضور اکرم :saw: اپنی ذات کا جزو قرار دیں تو اس علی :rda: پر "گھٹی میں شراب پڑی ہو" جیسا شرابی قرار دینا کیا براہ راست تربیتِ نبوی اور بصیرتِ نبوی :saw: پر اعتراض نہیں بن جاتا ؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَہَ النَّسْمَاَ اِنَّہُ لَعَھْدُ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اِلَيَّ اَنْ لَا يُحِبَّنِيْ اِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ اِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاہُ مُسْلِمٌ.’’

    حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ (علی رض) سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ (علی رض) سے بغض رکھے گا۔
    اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

    مسلم في الصحيح، کتاب الايمان، باب الدليل علي ان حب الانصار و علي من الايمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78،
    و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924،
    والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153،
    وابن ابي شيبۃ في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064،


    اگر انسان مومن کے درجے پر فائز ہو کر واقعی حضرت علی :rda: سے اس درجہ کی محبت حاصل کرلے تو کیا پھر ایسی ہستی کے لیے " گھٹی میں شراب پڑی ہو" جیسے الفاظ استعمال کرے گا ؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    امام ترمذی (رح) کی روایت کردہ حدیث پاک جسے خود انہوں نے بھی " غریب " کہہ کر اپنی براءت کا اعلان کردیا۔ اور جس کے راوی عطاء بن صائب کے ضعفِ حافظہ و شدید واہمہ پر سارے آئمہ حدیث اجماعاً متفق ہیں۔ اور جس روایت کو غلط طور پر حضرت علی رض کے شراب پینے اور نماز پڑھانے کا پراپیگنڈہ کرنا گستاخانِ اہلبیت اطہار اور دشمنانِ علی کی سازش قرار دی گیا (گو حوالہ جات میری پچھلی پوسٹ میں موجود ہیں۔ تاہم پھر دہرائے دیتا ہوں)

    امام حاکم المستدرک، جلد 2،صفحہ 336، الرقم 3199
    امام طبری کی تفسیر طبری : جلد 5، صفحہ 95
    علامہ شوکانی (اہلحدیث مکتبہ فکر) نیل الاوطار، جلد 9، صفحہ 57
    علامہ شمس الحق عظیم آبادی، کتاب عون المعبود، جلد 3، صفحہ 365
    علامہ شبیر احمد عثمانی، فتح الملھم، جلد 1، صفحہ 239


    احادیث و تفاسیر کہ جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شراب نہ پینا اور امامت نہ کروانا ثابت ہوتا ہے۔​


    تفسیر طبری۔ جلد 2 ، صفحہ 362،
    الحاکم المستدرک، جلد 4، صفحہ 158، رقم، 7219
    الحاکم المستدرک، جلد4، صفحہ 159، رقم، 7221

    امام ابوداؤد اپنی سنن ابی داؤد ،کتاب الاشربہ، جلد 3، صفحہ 325، رقم 3670،
    اور
    امام حاکم المستدرک، جلد 4، صفحہ 159، حدیث نمبر 7224، پر بڑی ایمان افروز روایت لائے ہیں۔ فرماتے ہیں

    "حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شراب کی حرمت پر پہلی آیت کے اترنے پر دعا کی "اللھم بیّن لنا فی الخمر" اے اللہ ! ہم پر شراب کے بارے میں مزید واضح فرما دے۔ تو پھر آیت اتری " لاتقربو الصلوۃ وانتم سکری" کہ جب تم نشہ کی حالت میں ہوتو نماز کے قریب مت جاؤ۔ حضرت عمرفاروق نے پھر دعا کی یا اللہ اور واضح فرما تو پھر قطعی حکمِ حرمت نازل ہوگیا۔"

    سبحان اللہ۔ اگر کسی اہلِ ایمان کو قرآن مجید کی آیت کا شانِ نزول بیان کرنا ہی مقصود ہو تو یہ روایت بھی پڑھی جاسکتی ہے کہ جس سے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بارگاہِ الہی میں قرب و قدر و منزلت بھی واضح ہوجائے اور مولانا صاحب کا تفسیرِ قرآن کا شوق بھی پورا ہوجائے۔ لیکن لگتا ہے کہ انہیں تفسیر سے زیادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاذاللہ شرابی ثابت کرنے کی زیادہ فکر تھی جو اتنی ایمان افروز اور صحیح احادیث چھوڑ کر ایک ضعیف، ناقابل اعتبار اور خارجیوں کی طرف سے اچھالی گئی روایت کو بیان کرڈالا۔

    تفسیر ابنِ کثیر، جلد 1 ، صفحہ 501، حضرت سفیان ثوری ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جریر اور امام مجاہد (رض) کے حوالے سے بیان کیا کہ کسی اور شخص نے امامت کروائی ۔
    امام احمد بن حنبل المسند، جلد 2، صفحہ 351 حضرت ابو ہریرہ رض سے روایت کرتے ہیں جس میں حضرت علی رض کا نام تک نہیں ہے۔
    امام بزار، المسند، جلد 2، صفحہ 211، رقم 598،
    الہیثمی ، مجمع الزوائد، جلد 5، صفحہ 51
    ابنِ حجر عسقلانی، الاصابۃ فی التمیز الصحابۃ، جلد 5، صفحہ 224
    امام طبری، کتاب، تخریج الاحادیث والآثار، جلد 1، صفحہ 131،
    تفسیر ابن ابی حاتم الرازی، جلد2، صفحہ 388
    تفسیر ابن ابی حاتم الرازی، جلد3 صفحہ 958۔
    انہوں نے حضرت شعبہ اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنھما سے روایت نقل کی جس میں حضرت علی رض کا ذکر بھی نہیں۔
    امام ابوالحسن الواحدی النیشاپوری، اسباب النزول، صفحہ 112، 113 ۔ حضرت علی رض کا ذکر بھی نہیں۔
    امام بغوی، تفسیر بغوی، جلد1، صفحہ 431 فرماتے ہیں کہ "اکثر آئمہ کا اتفاق و اجماع " کہہ کر اپنا مذہب مختار اور اعتماد بیان کرتے ہوئے فرماتے وہ وہ روایت لاتے ہیں جس میں حضرت علی رض کے علاوہ کسی کے شراب پینے اور امامت کروانے کا ذکر ہے۔
    امام قرطبی، تفسیر قرطبی ، جلد 5، صفحہ 200،
    پہلا شانِ نزول فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں‌کے شراب پینے پر آیت اتری۔
    دوسرا شانِ نزول سیدنا عمر فاروق رض کی دعا والا بیان کیا۔
    تیسرا شانِ نزول میں بھی " کسی شخص " کی امامت کا ذکر کیا
    امام فخرالدین الرازی : تفسیر الرازی، تفسیرالکبیر،جلد 10، صفحہ 107پہلے شانِ نزول میں حضرت علی رض کے علاوہ کسی شخص کی امامت کی روایت کی
    دوسرے شانِ نزول میں حضرت عمر فاروق رض کی دعا والی روایت نقل کی
    تیسرے شانِ نزول میں حضرت عبداللہ بن عباس رض سے روایت کی اور حضرت علی کا ذکر تک نہیں
    امام ابوحیان اندلسی، البحر المحیط، جلد3، صفحہ 254
    فرماتے ہیں کہ عندالجمور علما، محکم روایت حضرت عمر رض کی دعا والی ہے۔
    قاضی بیضاوی، تفسیر البیضاوی، جلد 1، صفحہ 347
    زمخشری، الکشاف، جلد 1، صفحہ 513،
    قاضی ثناءاللہ پانی پتی، تفسیر المظہری، جلد2، صفحہ 398


    مندرجہ بالا کتبِ احادیث و تفاسیر کو بنظرِ ایمان کھنگالنے سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اس آیت کے شانِ‌ نزول کے حوالے سے شراب پینے یا امامت کروانے والے واقعے میں حضرت علی رض قطعاً شامل نہ تھے بلکہ عطا بن سائب نامی ضعیف حافظے اور وہم کے شکار ایک راوی کے بیان کو پکڑ کر، دشمنانِ علی اور دشمنانِ اہلبیت خارجیوں نے اس میں سازش کے تحت حضرت علی رض کا نام شامل کردیا تھا۔ جسے ۔۔۔۔

    آج کم و بیش 14 سو سال بعد ڈاکٹر اسرار صاحب کو اس ضعیف روایت کو بنیاد بنا کر دامادِ رسول اور بابائے سید الشباب اہل الجنۃ سیدنا امام حسن و حسین رضوان اللہ عنھما کو "گھٹی میں شراب پڑے ہونے" والا جیسا (معاذاللہ) شرابی بیان کر کے آخر کس "خدمتِ اسلام" کا شوق چڑھ گیا ۔
    انا للہ وانا الیہ راجعون


    اب بھی وقت ہے ۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کر لی جائے تو وہ یقیناً بخشنے والا غفورالرحیم ہے۔ لیکن اگر اپنی غلطی یا بغضِ علی رض پر اصرار اور اسکی تائید میں دلائل دیتے جانا کوئی معذرت نامہ نہیں ہوسکتا۔ بقول آبی بھائی یہ معذرت ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی کے سر پر ہتھوڑا دے ماریں ، سر پھاڑ دیں ، بعد میں‌کہہ دیں "سوری آپ کو جو درد ہوا یا خون نکلا، اس پر معذرت۔ لیکن ہتھوڑا مار کر آپکا سر پھاڑنے کا میرا عمل بالکل درست تھا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آگے دلائل دینا شروع کردیں"

    اور محترم سیف صاحب۔ واقعی انسان کو دوسرے کی شخصیت میں آئینے کے مصداق اپنی شکل نظر آجاتی ہے۔ کتب و حوالہ جات کے بغیر "اندھی عقیدت و تقلید" کا جو صاحب اظہار کررہے ہیں انکے لیے تو آپ "خواجہ کے گواہ" کے مصداق ماشاءاللہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں کیونکہ وہ آپکے "غیرجانبدار مطالعہ بھرے ایمان" کے مطابق جتنا مرضی شانِ و فضیلتِ علی :rda: میں‌ نتقیص کرتے چلے جائیں وہ آپکے ایمان کو قبول ہے۔

    اور دوسری طرف جو ایک مسکین بات بات پر کتب حدیث کے باقاعدہ حوالہ جات کے ساتھ گفتگو کررہا ہو۔ اس پر "کسی مولانا" کی تقلید کا الزام لگا کر فرموداتِ‌رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی یکسر نظر انداز کردینا چہ معنی دارد؟

    کیا "تہمت و الزام" کا کوئی حکم آپ حضرات کے لیے بھی قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے ؟ یا سارے کے سارے احکامات اور سزائیں صرف قرآن و حدیث کے حوالہ جات سے عظمت و محبتِ رسول :saw: ، عقیدت و محبت و تعظیم اہلبیت اطہار اور علی المرتضی کرم اللہ وجہہ اور حب و تکریم صحابہ رضوان اللہ عنھم کی بات کرنے والے اہلسنت والجماعت کے فقیروں‌کے لیے ہی اترے ہیں ؟ :hasna:

    اور ہاں ۔ یہ اس موضوع پر مجھ عاجز کی آخری پوسٹ ہوگی بشرطیکہ خارجیت زدہ ذہنوں نے پھر کسی طرح کا فتنہ و فساد پھیلا کر ، سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان میں‌وسوسے ڈالنے کی کوشش نہ کی !
    البتہ قرآن و حدیث کے دلائل سے گفتگو ہو تو مجھ جیسے بےعلموں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ورنہ ذاتیات پر بحث مباحثے سے تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں دنیا کا سب سے عاجز بندہ ہوں۔ آپ جیسے اہلِ علم، اہلِ فن، اہلِ مناظرہ، اہلِ مجادلہ، تگڑے انسانوں سے ذاتی جنگ مول لینا مجھ جیسے شریف آدمی کے بس کی بات نہیں۔

    اللہ تعالی ہم سب کو وہ ہدایت عطا فرمائے جو اس نے اپنے انعام یافتہ بندوں کو عطا کی تھی ۔ اور ایسی بات سے بچائے جس سے غضب الہی بھڑک اٹھے۔ کیونکہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے ۔ یا اللہ اسکا دوست بن جو علی رض کا دوست ہے۔ اور اسکا دشمن بن جو علی رض کا دشمن ہو۔

    والسلام علیکم
     
  12. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام علیکم !
    میرے کہنے کا مطلب ہی نہیں۔ امام حاکم :ra: ، امام شوکانی، امام منذری ، اہلحدیث علمائے کرام میں سے علامہ شمس الحق عظیم آبادی سمیت خود حضرت علی :rda: یہی فرماتے ہیں۔[/quote:2n52lv5i]

    توبات ختم ہوگئی کہ وہ کوئی اور صحابی تھے۔
     
  13. جیریز
    آف لائن

    جیریز ممبر

    شمولیت:
    ‏23 جولائی 2008
    پیغامات:
    8
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم بھائ بہت خو شی ھو ئ آپکی پو سٹ پڑ ھ کر جو مو لا نا ڈاکٹر پاکستان بننے کے خلاف تھا آپ اس سے کسی بات کی بھی توقع کر سکتے ھیں
     
  14. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی کیا واقعی آپ دل سے ایسا سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر اسرار نے جان بوجھ کر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی اور انہیں (معاذ اللہ) شرابی ثابت کرنے کی خاطر اور ان کی اسی اعتبار سے تشہیر کر کے انہیں لوگوں کی نظروں سے گرانے کی نیت سے یہ بیان دیا ہے؟

    اگر ایسا ہے اور آپ اس کا یقین رکھتے ہیں تو پھر غیرت ایمانی کا کیا تقاضا ہونا چاہیے؟
     
  15. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جیریز بھائی
    یہ نئی بات معلوم ہوئی ذرا اس کی وضاحت فرما دیں کہ کون سے مولانا ڈاکٹر پاکستان بننے کے خلاف تھے؟
     
  16. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم سیف بھائی !
    آپ نے جو نقطہ اُٹھایا ہے اس پرکچھ کلام کرنا چاہوں گا اگر اجازت ہو تو ۔ ۔ ۔
    جب سے یہ معاملہ سامنے آیا ہے ڈاکٹر اسرار احمد کے حواریین ہر ممکن کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ڈاکٹر صاحب کو اس معاملے میں بے قصور یا معصوم ثابت کردیا جائے اس ضمن میں انھوں نے جتنے بھی دلائل دیئے ان سب دلائل لب لباب ترتیب وار حسب زیل ہے ۔

    [highlight=#FFBFFF:3vucco5i]نمبر 1:- سب سے پہلے اس بات پر شور مچایا گیا اور ابھی تک مچایا جارہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جو روایت بیان کی ہے وہ معتبر کتب احادیث اور تفاسیر میں آئی یے[/highlight:3vucco5i] ۔
    [highlight=#FFBFFF:3vucco5i]نمبر2:-ڈاکٹر اسرار احمد نے معافی مانگ لی ہے[/highlight:3vucco5i]
    [highlight=#FFBFFF:3vucco5i]نمبر 3- یہ کہ انکی نیت توہین کی نہ تھی[/highlight:3vucco5i]۔ ۔ ۔
    اب ہم ترتیب وار ان کے جوابات جو پہلے بھی عرض کردیئے گئے پھر نقل کردیتے ہیں ۔
    پہلا اعتراض یہ کیا جاتا رہا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے الفاظ میں کوئی توہین ہی نہیں تھی بلکہ انھوں نے جو کچھ فرمایا وہ کتب رویات اور تفاسیر میں آیا ہے ؟ جس پر ہم نے عرض کی کہ ایک روایت کا کتب حدیث میں آنا ایک الگ امر ہے جبکہ اس روایت سے سے کوئی خاص مفھوم لیکر اس روایت کو لائق استدلال بتلانا اور پھر اس پر جم جانا ایک الگ امر ہے
    ہماری یہ تمام گفتگو اصول حدیث اور اصول تفاسیر کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کیجیئے گا ۔ ۔ ۔
    دیکھیئے اول تو یہ اعتراض نہایت ہی بچگانہ ہے اور اہل علم کے ہاں اس کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ یہ بات مبتدی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ ماخذ کتب روایات میں محض کسی روایت کا پایا جانا ہی حجت نہیں ہوتا جب تک کہ اس روایت کو ہر ہر پہلو یعنی روایتا اور درایتا اہل علم جانچ کر اس کا حکم واضح نہ فرمادیں ۔ آپ سب پر یہ امر روشن ہوگا کہ خود صحاح ستہ جو کہ تمام مکاتب فکر کہ نزدیک
    (یہاں مکاتب فکر سے ہماری مراد سنی مکاتب فکر بریلوی ،دیو بندی اوراہل حدیث ہیں) صحیح روایات کا ماخذ ہیں ان میں بھی بہت سی احادیث ضعیف بلکہ بعض موضوع بھی ہیں ۔ اب کوئی شخص کسی موضوع روایت سے ثابت شدہ کسی حکم کو بیان کرکے یہ کہنا شروع کردے کہ دیکھو یہ روایت فلاں فلاں کتاب میں آئی ہے تو آپ سب جانتے ہیں کہ اس کہ فھم کو اہل علم کہ ہاں کیا کہہ کر پکارا جائے گا بالکل اسی طرح کوئی شخص کسی شدید ترین ضعیف روایت سے کوئی ایسا حکم بیان کرئے کہ جس سے اہل اسلام کی متداول شخصیات کے شخصی اوصاف میں تزلیل ، توہین یا تنقیص کا پہلو کسی بھی اعتبار سے نکلتا ہو تو تمام اہل علم اس شخص کی گرفت ہی کریں گے اور ایسی صورت میں تو گرفت اور بھی شدید ہوگئی جب موصوف کو اس روایت کی حجت پر اعتماد کے ساتھ ساتھ اصرار بھی ہو اور وہ بار بار اسی ایک روایت پر اصرار کرتا چلا جائے ۔ ۔ ۔ ۔
    رہ گئی یہ بات کہ کتب تفاسیر میں اس قسم کی رایات کیوں آئی ہیں تو اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھیئے تمام مفسرین کا اپنا اپنا اسلوب ہوتا ہے کئی مفسرین کسی ایک آیت کے شان نزول میں تمام روایات کو جمع کردیتے ہیں قطع نظر ان رویات کی صحت کے اور بعض تو ان روایات میں رائج اور مرجوع کا حکم بھی واضح نہیں کرتے بلکہ اس حکم کو علماء ماہرین کی استعداد پر چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح بعض مفسرین کسی بھی آیت کے شان نزول میں تمام روایات تو نقل کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ رائج اور مرجوع روایت کی نشان دہی بھی کردیتے ہیں اور اسی طرح بعض مفسرین صرف وہ روایات نقل کرتے ہیں کہ جو انکے نزدیک معتبر ہوتی ہیں یہ مفسرین کا اپنا اپنا اسلوب ہوتا ہے اب جو شخص بھی درس قرآن دیتا ہے وہ ان سب چیزوں سے واقفیت رکھتا ہے وہ کوئی بچہ نہیں ہوتا لہزا اسے چاہیے کہ جس روایت کو بھی لے ساتھ میں اس کا حکم بھی واضح کرتا چلا جائے تاکہ سننے والوں کے فھموں میں بات اترتی چلی جائے نہ کے سننے والوں کے فھم گڑبڑا جائیں۔اور ڈاکٹر صاحب کا اس ضمن صرف ایک ہی روایت پر اکتفاء کرنا اور پھر اس روایت کے شدید ترین ضعف کے باوجود اس پر اصرار کئے جانا ایک خاص فکر اور رویہ کی نشانی ہے جو کہ بحرحال ان کی شخصیت کو اس معاملہ میں متنازعہ ثابت کررہی ہے ۔ ۔ ۔
    اب آتا ہوں اعتراض نمبر 2 کی طرف کہ جو کہ یہ کہہ کر بار بار کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے معافی مانگ لی ۔ ۔ ۔ اول تو دیکھیے یہ معاملہ اتنا نازک نہیں ہے کہ اسے یوں لیا جائے اور محض چند الفاظ کہ مجموعہ کو معافی نام تسلیم کردیا جائے باوجود اس کہ قائل اسی روایت پر مصر بھی ہو ۔ ۔ ۔ ۔سب سے پہلی بات تو یہ تھی ڈاکٹر صاحب موصوف ایک اتنے بڑے عہدے پر فائز ہیں کہ امت کی اصلاح کو بیـڑہ انھوں نے اٹھا رکھا ہے اور خود کو داعی قرآن کہلواتے ہیں جو کہ ایک بہت ہی بڑا منصب ہے اب جو شخص خود کو داعی قرآن کہلوائے اس کے لیے کم ازکم اصول تفسیر تو واقفیت رکھنا ضروری ہے کہ نہیں ؟ اور ساتھ ساتھ یہ کہ اسے بات کرنے سے پہلے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کس میں (یعنی قرآن میں) کہہ رہا ہوں اور کس کی (یعنی صحابہ کرام کی) بابت کہہ رہا ہوں اور کن سے (یعنی عامۃ الناس کہ جن میں ہر قسم کے فھم کے لوگ شامل ہیں )سے کہہ رہا ہوں ۔ پھر اسی لحاظ سے اُسے درس قرآن دیتے ہوئے ان تمام باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اُس میں سے (رائج اور مرجوع روایات کا فرق قائم کرتے ہوئے ) کسی بھی حکم کو بیان کرنا چاہیے اور پھر وہ کتنا ہی بڑا خطیب کیوں نہ ہو اُسےجوش خطابت میں الفاظ کا چناؤ مناسب رکھنا چاہیے تاکہ سننے والوں میں سے کسی کا بھی فھم کسی بھی طریقے سے گڑبڑا نہ سکے ۔ ۔ ۔ ۔اور بات لوگوں کہ ذہنوں میں اترتی چلی جائے بالکل عین منشاء قرآن اور منشاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ۔اور معافی کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے رجوع کیا جائے یعنی احادیث سے استدلال پر بھی اور الفاظ کے استعمال پر بھی اور آئندہ کے لیے یہ اعلان کیا جائے کہ جو بھی ہمارے اس درس کو دوبارہ سنے اس میں سے ان مخصوص الفاظ کو یا تو حذف کردے یا پھر ہمارا رجوع نامہ مد نظر رکھ کر سنے
    [highlight=#FFBF40:3vucco5i]یہ تھا معافی کا اصل طریقہ نہ کہ وہ جو کہ ڈاکٹر صاحب نے اختیار کیا کہ معافی بھی مانگ لی اور پھر عذر گناہ بھی پیش کردیا بد تر از گناہ کی مصداق بلکہ نہ صرف پیش کیا بلکہ اس عذر گناہ پر موصوف کو اصرار بھی ہے[/highlight:3vucco5i]۔
    اب آتا ہوں آپ کے تیسرے اعتراض کی طرف​
    ۔ ۔ ۔
    کہ ڈاکٹر صاحب کی نیت توہین کی ہرگز نہ تھی ہم بھی کہتے ہیں کہ ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ان کی نیت توہین کی نہیں ہوسکتی ایک اتنا بڑا عالم دین ہے اور وہ داعی قرآن ہے وہ بھلا قرآن کے منشاء کے خلاف کس طرح جاسکتا ہے اسی لیے ہم نے ڈاکٹر صاحب کی نیت کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا اور انکے وہ الفاظ جو کہ ظاہر میں تھے ان پر بڑی شدید تنقید کی ۔ ۔ اب درج زیل میں کچھ گفتگو ہوجائے توہین اور نیت توہین پر ۔ ۔ ۔ اس ضمن میں سب سے پہلے قرآن کی صرف ایک ہی آیت کو بطور حوالہ پیش کروں گا اور وہ ہے سورہ بقرہ کی مشھور آیت نمبر 104
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (104)

    ترجمہ :- اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo
    اس آیت کی تفسیر میں ہم نے کسی زمانہ میں تفسیر اسرار التنزیل (مصنفہ مولوی محمد اکرم اعوان دیوبندی)میں جو کچھ پڑھا تھا اس کا خلاصہ درج زیل ہے
    کہ مولانا محمد اکرم اعوان اس آیت کی تفسیر میں مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندی کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ کوئی بھی شخص اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی کلام کرئے اور اس کلام سے سننے والے کو کسی طرح سے نبی کریم کی شان میں تنقیص محسوس پوتو کلام کرنے والا کافر ہوجائے گا خواہ اس کی نیت یا کلام کیسا ہی کیوں نہ ہو ۔ ۔ ۔
    [highlight=#FF80FF:3vucco5i]وضاحت :- گو کہ یہ حکم اس آیت کے حوالے سے صرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے مگر اس سے جو ایک عمومی ضابطہ ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی ہم مقتدر ہستیوں کے حوالہ سے اپنی زبان کو کھولیں تو حد درجے کی احیتاط برتیں کیونکہ زبان سے اگر ایسے کلمات نکل گئے کہ جو مقتدر ہستیوں کی توہین پر صریحا دال ہوں تو ایسے میں نیت کا معاملہ پس پشت چلا جاتا ہے اور وسیے بھی شریعت میں معاملہ ظاہر پر کیا جاتا ہے[/highlight:3vucco5i]۔ ۔
    یہ تو تھی مختصر طور پر اسیے معاملات میں نیت کی وضاحت لیکن اس سب کے باوجود ہمیں تسلیم ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی نیت توہین کی نہیں ہوسکتی اور ہم ان کی نیت کے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ رہ گیا پھر یہ سوال کہ جب ان کی توہین کی نیت ہی نہ تھی اور وہ اتنے بڑے عالم ہیں تو پھر کیوں انکی زبان سے ایسے الفاظ نکلے ؟ آئیے کچھ اس معامہ کی وضاحت ہوجائے ۔ ۔۔
    دیکھیے ایک چیز واضح کردوں اور یہ حقیقت ثابتہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب جس فکر کے ترجمان ہیں اس فکر نے ہمیشہ سے بعض اسیے لوگ عالم اسلام کو دیئے ہین کہ جو انبیاء اور صحابہ اور صلحاء کی بارگاہ میں بے دھڑک رہے ہیں اور بڑے ہی دیدہ دلیر واقع ہوئے ہیں ۔ کبھی نبی کریم کے علم کو جانوروں کے علم کے ساتھ تشبیہ دے کر کبھی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کو معاذاللہ گدے اور بیل کے خیال سے بدتر گردان کر (معاذ اللہ ثمہ معاذ اللہ نقل کفر کفر نا باشد)کبھی صحابہ میں حضرت علی اور امام حسین پر خلافت معاویہ و یزد جیسے اور رشید ابن رشید جیسی کتابیں لکھ کر وغیرہ وغیرہ
    اب یہ حقیقت ثابت ہوجانے کے بعد کہ ڈاکٹر صاحب کی بھی اسی فکر کے لوگوں کے ساتھ زیادہ ذہنی اور اعتقادی مطابقت ہے اس حقیقت کو تسلیم کر لینے میں کوئی امر مانع نہیں رہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے بلا نیت جو الفاظ نکلے وہ اسی فکر سے متاثر ہونے کا نتیجہ تھے ۔ ۔ ۔
    اب اسی بات کو ایک عام سی مثال سے یوں سمجھیے کہ ایک بدو جسے پنجابی میں پینڈو کہتے ہیں آپ اس سے جاکر اگر کسی بھی ولی اللہ کے بارے میں یہ کہہ دیں کہ وہ شراب پیا کرتے تھے تو پینڈو آپ کا سر پھاڑ دے گا کیونکہ اس کی اللہ کے ولیوں کے ساتھ جو محبت و عقیدت ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے اپنے محبوبوں میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مصداق عیب نظر ہی نہیں آتا لیکن
    مگر یہاں تو بات اولیاء سے بڑھ کر صحابہ اور پھر امام الاولیاء حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تھی یہ تو تھی ایک عام پینڈو کے ایمان کی حلاوت کی بات اب اگر یہی بات کسی پڑھے لکھے خاص طور پر کالج اور یونی ورسٹی کے ایسے طالب علم کے سامنے کہ جس کا ذہن مادیت زدہ یا پھر مادیت سے متاثر ہوچکا ہے وہ بلا شبہ یہی تبصرہ کرئے گا بھئی مجھے تو کوئی عیب نظر نہیں آتا اس بات میں اور پھر وہ دلائل دینا شروع کردے گا کہ دیکھیئے ہم سب انسان ہیں اور صحابہ کرام بھی انسان تھے (بے شک کے صحابہ کرام معصوم عن الخطاء نہیں تھے) اور ان سے بھی غلطیاں ہوتی تھیں اور جب یہ معاملہ ہے ہی شراب کی حرمت سے پہلے کا تو اس میں اتنا شور کیوں وغیرہ وغیرہ لیکن وہ اس تمام بات میں حقیقت کے اس پہلو کو جو کہ روحانی طور پر محبت اور عقیدت کا متقاضی ہے اس کو نظر انداز کردے گا اور جو تقاضہ محبت اس کو یکسر پیچھے پھینک کر اپنے مؤقف پر مادیت کی بنیاد پر اڑ جائے گا ۔ ۔ ۔
    ڈاکٹر اسرار احمد صاحب والے معاملے میں دوسرے پہلو سے پہلا پہلؤ ہمارے نزدیک زیادہ کار فرما ہے کہ اور وہ پہلو وہی ہے کہ وہ جس فکر سے متاثر ہیں اس فکر کی روش ہی یہی ہے کہ وہ انبیاء اور صلحاء کے معاملے میں زرا آزاد منش ہے اور کبھی کبھی دیدہ دلیر بھی واقع ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    ہم یہ تو نہیں کہتے کہ حضرت علی سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو محبت نہیں تھی مگر یہ ضرور ہے کہ وہ محبت اپنے کمال کو نہیں پہنچی ایسا کمال کہ جس میں انسان کی نظر محبوب کے عیوب کی بجائے اس کے حُسن اداء پر آکر ٹھر سی جائے اور اگر وہ محبوب ہو بھی ایسا ( یعنی صدیق اکبر ، عمر فاروق، عثمان غنی ، اور علی المرتضٰی جیسا) کہ جس میں کوئی عیب سرے سے ہو ہی نہ تو پھر تو عیب نظر آنے کا بالکل ہی سوال پیدا نہیں ہوتا بس یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کلام کرتے ہوئے ان کی نظر حضرت علی کے بارے میں اپنے سابقہ شاندار خیالات کے باوجود محبوب کے حُسن اداء کو نظر انداز کرتے ہوئے محبوب کے عیوب پر جا رکی
    [highlight=#FF80BF:3vucco5i]اور پھر ایسی رکی بلکہ میں کہوں گا کہ ایسی جمی کہ خود محبوب (یعنی حضرت علی) کے بارے میں اپنے سابقہ شاندار کلمات تحسین کو بھی بھلا دیا اور اس کے مقابلے اپنی علمیت کا اس قدر بھاؤ کہ روایات کے شدید ضعف کے باوجود اس پر اسرار احمد صاحب کا پر زور اصرار جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔[/highlight:3vucco5i]
     
  17. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:

    اسلام علیکم فرخ بھائی مجھے نہایت افسوس ہے کہ آپ اپنے بحث برائے بحث سےا جتناب کے دلنشیں نعرے کے باوجود بال کی کھال اتارنے پر کمر بستہ ہیں اور بار بار اس موضوع کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں تک بات ہے میرے(یعنی آبی ٹوکول کے ) نعیم بھائی اور محترمہ بنت حوا کے سابقہ تمام رپلائیز کو پڑھنے کی تو الحمدللہ میں نے وہ تمام رپلائیز پڑھے ہیں اور ان میں سے یہ بات بالکل بجا ہے کہ نعیم بھائی کے رپلائیز میں تھوڑی شدت ہے مگر وہ جو بات کررہے ہیں وہ بھی غلط نہیں
    [highlight=#FFFF00:1oiyqt23]اور سارے معاملے کو بیان کرنے سے پہلے میں آپکی خدمت میں یہ بھی بتلاتا چلوں کہ جب یہ معاملہ سب سے پہلے یہاں زیر بحث لایا گیا تو وہ سب سے پہلے آدمی کہ جنھوں نے ڈاکٹر اسرار احمد کی حمایت کی تھی وہ نعیم بھائی ہی تھے اور نعیم بھائی نے اس مسئلہ کو ڈاکٹر صاحب کے توضیحی بیان آجانے کے بعد تک نیز دیگر اہل علم کی آراء آجانے کے بعد تک تمام لوگوں کو اس پر گفتگو کرنے سے روکا تھا نیز انھوں نے یہ فرمایا تھا کہ جو حدیث ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے جب تک اس کی فنی حیثیت واضح نہیں ہوجاتی تب تک ہمیں اس معاملہ میں گفتگو نہیں کرنی چاہیے جس پر میں نے یعنی آبی ٹوکول نے ان سے عرض کی تھی کہ اصل معاملہ حدیث کا نہیں بلکہ ان رکیک الفاظ کا ہے جو کہ ڈاکٹر صاحب نے بطور ذاتی تبصرہ کے صادر فرمائے ہیں ۔ اور پھر جب حدیث کی فنی حیثت واضح ہوگئی اور ڈاکٹر صاحب موصوف کا اپنا توضیحی بیان بھی آگیا تو نعیم بھائی نے اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور پھر اس پر شدت سے ڈٹ بھی گئے اور یہی نشانی مخلص اہل علم اور اہل ایمان کی کہ جب حق ان پر واضح ہوجاتا ہے تو پھر وہ کسی بھی طرح اس سے پیچھے نہیں ہٹتے چاہے ماضی میں خود انکی رائے اس کے برعکس کیوں نہ ہو میرے خیال میں تو آپ سب کو نعیم بھائی کہ اس رویے کی داد دینی چاہیے تھی کہ انھوں نے کس طرح حق بات کا ساتھ دیا اور کس طرح اب بھی حق کے ساتھ قائم ہیں لیکن آپ لوگ الٹا انھی کو ہی کوسنے لگے[/highlight:1oiyqt23] ۔ ۔ ۔ ۔
    [highlight=#FF80FF:1oiyqt23]رہ گئی محترمہ بنت حوا صاحبہ کی بات تو ایک بات میں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر عرض کردوں کہ یہاں جتنے بھی لکھنے والے ہیں میرے نزدیک ان سب میں سے محترمہ بنت حوا کی تمام گفتگو اکثر اوقات ہم سب میں سے نہایت ہی میچور اور پختہ فکر اور دقیق فھم پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ فھموں کے اختلاف کی وجہ سے ہم اس دقیق گفتگو سے فائدہ نہ اٹھا سکیں[/highlight:1oiyqt23]۔ ۔ ۔ ۔
    باقی میرے نزدیک آپ بھی قابل قدر صحافت کا کردار ادا کرنے والے ہیں لہزا اس قصہ کو اب چھوڑ دیجیئے اور کسی نئے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں جس میں سب کا یکساں مفاد ہو وگرنہ اگر بال کی کھال اتارنا ہی مقصود ہے تو یقین جانیئے کہ میں محض اسی فورم پر آپ کے مختلف رپلائیز میں سے آپ کے وہ تمام ( شدید) جملے(کہ اگر وہی جملے آپ دیگر اشخاص سے جب سنتے ہیں تو ان جملوں کو کبھی غیبت کبھی بہتان اور کبھی الزام تراشی پر محمول کرتے ہیں) بڑی تعداد میں کوٹ کرکے آپ کو مہیا کرسکتا ہوں کہ جو آپ کے قول و فعل کے تضاد پر دال ہیں ۔ ۔ مگر برائے مہربانی حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ مجھ سے اس قسم کا کوئی بھی اسرار نہ کیجیئے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
     
  18. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آبی ٹو کول بھائی

    جزاک اللہ

    آپ نے بہت عمدگی سے اپنا موقف بیان کیا ہے اور دل نشین انداز میں علمی اور مفید گفتگو کی ہے۔ اللہ آپ کو اس کی جزا دے۔

    ڈاکٹر اسرار کا عمل اور ان کی نیت ان کے ساتھ ہے۔ میرا بھی ان سے کوئی قلبی یا جذباتی تعلق نہیں ہے لیکن ان کی حمایت میں لکھنے کا سب سے بڑا مقصد یہ حسن ظن ہے کہ بقول آپ کے بھی "وہ داعی قرآن ہے" تو کیا نیت کر کے وہ اتنی جرات کر سکتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کریں۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ جو اس سے بڑی بڑی گستاخیان علی الاعلان صحابہ کرام اور امہات المومنین کے خلاف کر رہے ہیں ان پر کسی نے اتنی تنقید نہیں کی جتنی ڈاکٹر اسرار پر کی۔

    یہ "کھلا تضاد" نہیں ہے کیا؟

    کیا یہ ساری باتیں "حب علی (رضی اللہ عنہ)" کی بجائے کسی اور بغض کا مظہر نہیں ہیں کیا؟

    باقی آپ نے بہت خوبصورت انداز میں بات کی ہے اور علمی بحث اسی پیرائے میں ہونی چاہیئے نہ کہ کوسنوں اور طعنوں کا انداز اختیار کیا جائے جیسا کہ اکثر قارئین کر رہے ہیں۔
     
  19. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    وعلیکم السلام نعیم صاحب

    غالبآ آپ جس سچ کی تلاش کی بات کر رہے ہیں، وہ کافی پہلے ہم لوگ طے کر چکے تھے اور آپ سے بغض و عناد تو کیا، میں کسی سے بھی رکھنے سے بچتا ہوں۔ اور جی ہاں میرے بھائی میں بھی اپنے اور آپ کے لیے اللہ جل شانہ سے مغفرت کا طلب گار ہوں۔ آمین۔

    میں‌نہیں‌جانتا کہ آپ نے یہ باتیں کسی کو نیچا دکھانے کے لیئے کہیں، یا کوئی اور مقصد تھا، مگر آپ ذرا ٹھنڈے دل سے اپنے الفاظ کی شدت کا اندازہ کیجئے
    آپ کے طنز کے طریقے تو خیر کافی عام ہو چکے۔ اور پتا نہیں‌کہاں‌سے ہم آپکواہلِ علم، اہلِ فن، اہلِ مناظرہ، اہلِ مجادلہ، تگڑے انسان لگنے لگے۔جبکہ کم از کم میں نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ، نہ کر سکتا ہوں کیونکہ ان میں‌سے کوئی خاصیت مجھے میں‌نہیں۔ میں صرف اور صرف ایک طالب علم ہوں اور محتاج ہوں‌اپنے اللہ کا۔
    اللہ تعالٰی ہماری اور آپکی مغفرت فرمائے آمین

    ھاں‌آپ کے دنیا کے سب سے عاجز بندے ہونے پر مجھے کافی اعتراض ہے۔ :takar: عاجز بندے کبھی وہ بدگمانیاں نہیں پیدا ‌کرتے جو آپ نے اپنی اوپر کوٹ کی گئی تحریر میں کیں ہیں۔اسی طرح اپنی باقی پوسٹوں کو دوبارہ پڑھیئے غور سے اور دیکھیئے کہ غیبت اور بہتان کی تعریف کیا ہے اور آپ نے کس قسم کی عاجزی فرمائی ہے اپنی باتوں میں۔ اگر اس کو عاجزی کہتے ہیں تو پھر تو پتا نہیں اصل میں عاجزی کی جو تعریف بیان ہوئی وہ کن لوگوں کے لیئے تھی؟۔۔۔۔۔۔

    عجیب سا لگا۔ کہ جب مسئلہ ہی یہی تھا اور ہے کہ حضرت علی :rda: جیسی شخصیت جو 5 یا 7 سال کی عمر میں حضور نبی اکرم :saw: پر ایمان لا کر آپکے زیر تربیت ہوگئے۔[/quote:bvnopq91]
    میرے بھائی، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شخصیت والی باتیں تو ہم شروع میں‌طے کر چکے اور ڈاکٹر اسرار کے غلط الفاظ کے انتخاب پر بھی بات ہو چکی اور میں‌اس معاملے میں سب سے متفق بھی ہوں کہ الفاظ کا انتخاب غلط تھا۔ لہٰذا یہ معاملہ میں بھی مزید ‌نہیں‌چھیڑنا چاہ رہا تھا۔
    اور جیسا کہ عابد بھائی نے مصلح کا کردار اد کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کرنے کی بات کی، تو میری اس معاملے پر کوئی بحث نہیں ہے۔

    مجھے تو آپ کے طنز اور غیبت و بہتان سے بھری ہوئی تحاریر اور بات کر بڑھا چڑھا کر بیان کرنے پر سخت اعتراض ہے۔

    آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شانِ مبارک بھی جو بھی باتیں کیں ان سے کوئی انکار نہیں‌کر سکتا۔

    لیکن آپ نے دنیا کے سب سے بڑےعاجز بندے کا مظاہرہ کرتے ہوئے، وہی ضد اور انا کا مظاہرہ بھی کیا اور گھوم پھر کر واپس وہیں آگئے۔اور حرمتِ شراب پر آپ نے حقیقت سے ہٹ کر بات کرنی شروع کردی اور جو میں نے ڈاکٹر صاحب کی وڈیو میں‌کہیں نہیں دیکھی اور آپ کی باتوں‌سے صاف محسوس ہوا کہ آپ اپنی ذھنی اختراعات کو یہاں بڑھا چڑھا کے ‌پیش کررہے ہیں‌۔

    یہ غالبآ دنیا کے سب سے بڑے عاجز بندے کے الفاظ ہیں:
    اور اسی کے جواب میں آپ سے صحابہ اکرام کے متعلق وہ سوال پوچھا تھا، جسے آپ نے اصل جواب سے احتراز کرتے رہے۔ اور پھر آپ نے صرف یہ حدیث نقل کی:
    ویسے یہ میرے سوال کے جواب کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ اور جہاں‌تک میرے ناقص علم کا تعلق ہے تو " نشے میں نماز کے قریب نہ جانے" کے حکم کے بعد بھی کچھ لوگ اسوقت شراب نوشی کرتے تھے جب نماز کا وقت نہیں‌ہوتا تھا۔ لیکن اس ام الخباعث کی برائی کے اثر سے جو اور مسائل کھڑے ہوتے تھے ان کی وجہ سے پھر قطعی حکم نازل ہوا۔

    اسکا ایک صاف مطلب ہے جس سے آپ انکار نہیں‌کرسکتے نا۔ کہ شراب کی حرمت پر پہلی آیت اترنے سے پہلے صحابہ اکرام میں شراب نوشی کا وجود تھا۔ (ابھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ والا معاملہ بیچ میں‌لانے والی سیاست سے پرییز کیجئے گا(۔ لیکن آپ نے اپنےالفاظ میں بتنگڑ کچھ یوں‌بنانے کی کوشش کی ہے جیسے شائید ایسا نہیں تھا اور ڈاکٹر صاحب نے کوئی جھوٹا الزام لگا دیا ہو۔

    اور جیسا کے عابد بھائی کی بھی ایک پوسٹ میں یہ بات موجود ہے کہ حرمت کے احکام سے پہلے شراب کی حیثیت نہ برائی میں‌آتی تھی اور نہ ہی اچھائی میں اسلیئے پی بھی جاتی تھی۔

    اب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ملوث نہ ہونے کی بات ہے، تو میں اس بات سو متفق ہوں کہ اور بہت سے واقعات ہونگے جن میں‌حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نہیں تھے۔ تو کیا ان واقعات میں کوئی بھی صحابی :rda: نہیں‌تھے؟ کہنے کا مقصد آپ کے بات سے اختلاف ہے کہ صحابہ کرام میں‌سے کوئی تو تھے۔

    اب آجائیں‌اس واقعے کی طرف جس پر ضیعف ہونے اور خارجیوں کی طرف سے گھڑے جانے اور اسکے راوی کے بیمار ہونے کی دلالت ہے۔
    میں اس ضمن میں‌بتاتا چلوں کہ میرے دماغ میں‌یہ بات مچلتی رہی کہ یہ حدیث اگر ضعیف تھی تو اس کو کافی مستند کتابوں‌میں‌کیوں ڈالا جاتا رہا؟ کیا ان علماء کرام نے اس حدیث کی صحت پر تحقیق نہیں کی تھی؟ اور پھر کچھ دن پہلے یہ بیان نظر سے گزرا:
    [​IMG]

    اورپھر یہاں ‌ابنِ آدم نےاسکو پوسٹ بھی کیا:
    viewtopic.php?f=15&t=4247

    اور اس میں کافی تحقیق سے وہ حوالہ جات دیئے گئے جن میں‌یہ واقعہ موجود ہے۔ اور اس میں جن تفاسیر اور کتب اور علماء اکرام کا ذکر ہے وہ اہلسنت میں بہت اہمیت سے‌ جانی پہچانی جاتی ہیں

    اب کسی ایک نتیجے کو اخذ کرنے سے پہلے تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے، کہ اب یہ حدیث والا معاملہ تھوڑا متنازعہ ہو چکا ہے، جیسے ایک طرف کے پاس اسکے ضعیف ہونے کی دلیل ہے اور 20 یا زیادہ روایات میں حضرت علی رضی اللہ کا ذکر نہیں‌ملتا تو دوسری طرف تقریبا 28 تفاسیر میں بڑے بڑے علماء نے اسی واقعے کو لکھا ہے۔

    یہ تحقیقی مقالہ تو اب سامنے آیا لیکن میں شروع ہی سے مسلسل بضد ہوں‌کہ ڈاکٹر اسرار جیسا عالم اگر کوئی ایسی بات کر بھی گیا جو صحیح معلوم نہ ہوتی ہو،تو انہوں‌نے کسی حوالے سے تو لی ہوگی نا

    لیکن دوسری طرف اتنے سارے علماء کا اس واقعے کو تفاسیر میں‌استمال کرنے کی بھی حجت ہوگی اور جہاں تک میں ڈاکٹر اسرار کے درس سنتا رہا ہوں ان میں‌تفاسیر اور حدیث کی کتب میں‌سے ہی حوالہ جات لیئے جاتے ہیں۔

    اب اس متنازعہ واقعے کی فائنل شکل تو بہرحال علماء کی تحقیق کی صورت میں ہی سامنے آسکتی ہے اور میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالٰی علماء کرام تو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

    اور آپ نعیم بھائی اسی متنازعہ مسئلے کو لے کر کچھ ایسے سخت الفاظ بول گئے اور کچھ بات کو بڑھا کر بھڑاس کی شکل دے چکے ہیں کہ میں بار بار مجبور ہوا کہ آپ سے بحث کروں۔

    اور میری بات سیدھی سی ہے، میرا آپ سے کوئی ذاتی عناد نہیں جیسا کہ آپ نے اوپر لکھا۔ میں‌تو آپ کو زیادہ سے زیادہ یہاں‌کی تحریروں سے جانتا ہوں‌اور بس اور آپ کی دوسری بہت اچھا تحاریر بھی پڑھیں، اور آپ کی شاعری کے انتخاب بھی پڑھے۔ :dilphool:

    میں آپ کے حب صحابہ رضی اللہ عنہ کے جذبے پر ہرگز شک نہیں کرتا، لیکن محبت میں اتنا آگے جانا کہ بات کو یکطرفہ حوالے سے حاصل کر کےاور اصل حالت سے بگاڑ کر کہیں اور لے جانا اور کچھ سے کچھ بنا دینا، ایک نہیں بہت سی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ جن بمیں‌بد گمانیاں‌بھی شامل ہیں

    اللہ تعالٰی مجھے اور آپکو خصوصآ اور باقی تمام مسلمانوں کو ایسی جذباتی برائیوں‌سے محروم کرے اور ہمیں‌بہترین مغفرت عطا فرمائے۔ آمین



    السلام علیکم فرخ صاحب۔

    یہاں وقت دینے کا نہ تو میرا یہ مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی میں کسی سے ذاتی بغض و عناد کی وجہ سے بحث مباحثہ بلکہ فضول تکرار کرنا پسند کرتا ہوں۔ بلکہ میں‌تو یہ بھی عرض کردوں کہ میں دنیا کا سب سے عاجز بندہ ہوں۔ آپ جیسے اہلِ علم، اہلِ فن، اہلِ مناظرہ، اہلِ مجادلہ، تگڑے انسانوں سے ذاتی جنگ مول لینا مجھ جیسے شریف آدمی کے بس کی بات نہیں۔

    آپ کا یہ کہنا
    عجیب سا لگا۔ کہ جب مسئلہ ہی یہی تھا اور ہے کہ حضرت علی :rda: جیسی شخصیت جو 5 یا 7 سال کی عمر میں حضور نبی اکرم :saw: پر ایمان لا کر آپکے زیر تربیت ہوگئے۔

    عَنْ أَبِيْ حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
    وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
    ’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

    الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735،
    و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151،
    والہيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.


    تو کیا معاذاللہ اس قدر بچپن کی عمر میں‌ ایمان لا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے بمفہوم ڈاکٹر اسرار احمد شراب پینا ہی سیکھا تھا ؟ (استغفراللہ العظیم)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جن کے متعلق حضور نبی اکرم :saw: نے فرمایا
    عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي.

    عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا : ’’بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے‘‘۔

    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712
    2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ : 77، 92، رقم : 65، 86
    3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484


    یعنی جس علی رض کو حضور اکرم :saw: اپنی ذات کا جزو قرار دیں تو اس علی :rda: پر "گھٹی میں شراب پڑی ہو" جیسا شرابی قرار دینا کیا براہ راست تربیتِ نبوی اور بصیرتِ نبوی :saw: پر اعتراض نہیں بن جاتا ؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَہَ النَّسْمَاَ اِنَّہُ لَعَھْدُ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اِلَيَّ اَنْ لَا يُحِبَّنِيْ اِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ اِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاہُ مُسْلِمٌ.’’

    حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ (علی رض) سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ (علی رض) سے بغض رکھے گا۔
    اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

    مسلم في الصحيح، کتاب الايمان، باب الدليل علي ان حب الانصار و علي من الايمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78،
    و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924،
    والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153،
    وابن ابي شيبۃ في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064،


    اگر انسان مومن کے درجے پر فائز ہو کر واقعی حضرت علی :rda: سے اس درجہ کی محبت حاصل کرلے تو کیا پھر ایسی ہستی کے لیے " گھٹی میں شراب پڑی ہو" جیسے الفاظ استعمال کرے گا ؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    امام ترمذی (رح) کی روایت کردہ حدیث پاک جسے خود انہوں نے بھی " غریب " کہہ کر اپنی براءت کا اعلان کردیا۔ اور جس کے راوی عطاء بن صائب کے ضعفِ حافظہ و شدید واہمہ پر سارے آئمہ حدیث اجماعاً متفق ہیں۔ اور جس روایت کو غلط طور پر حضرت علی رض کے شراب پینے اور نماز پڑھانے کا پراپیگنڈہ کرنا گستاخانِ اہلبیت اطہار اور دشمنانِ علی کی سازش قرار دی گیا (گو حوالہ جات میری پچھلی پوسٹ میں موجود ہیں۔ تاہم پھر دہرائے دیتا ہوں)

    امام حاکم المستدرک، جلد 2،صفحہ 336، الرقم 3199
    امام طبری کی تفسیر طبری : جلد 5، صفحہ 95
    علامہ شوکانی (اہلحدیث مکتبہ فکر) نیل الاوطار، جلد 9، صفحہ 57
    علامہ شمس الحق عظیم آبادی، کتاب عون المعبود، جلد 3، صفحہ 365
    علامہ شبیر احمد عثمانی، فتح الملھم، جلد 1، صفحہ 239


    احادیث و تفاسیر کہ جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شراب نہ پینا اور امامت نہ کروانا ثابت ہوتا ہے۔​


    تفسیر طبری۔ جلد 2 ، صفحہ 362،
    الحاکم المستدرک، جلد 4، صفحہ 158، رقم، 7219
    الحاکم المستدرک، جلد4، صفحہ 159، رقم، 7221

    امام ابوداؤد اپنی سنن ابی داؤد ،کتاب الاشربہ، جلد 3، صفحہ 325، رقم 3670،
    اور
    امام حاکم المستدرک، جلد 4، صفحہ 159، حدیث نمبر 7224، پر بڑی ایمان افروز روایت لائے ہیں۔ فرماتے ہیں

    "حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شراب کی حرمت پر پہلی آیت کے اترنے پر دعا کی "اللھم بیّن لنا فی الخمر" اے اللہ ! ہم پر شراب کے بارے میں مزید واضح فرما دے۔ تو پھر آیت اتری " لاتقربو الصلوۃ وانتم سکری" کہ جب تم نشہ کی حالت میں ہوتو نماز کے قریب مت جاؤ۔ حضرت عمرفاروق نے پھر دعا کی یا اللہ اور واضح فرما تو پھر قطعی حکمِ حرمت نازل ہوگیا۔"

    سبحان اللہ۔ اگر کسی اہلِ ایمان کو قرآن مجید کی آیت کا شانِ نزول بیان کرنا ہی مقصود ہو تو یہ روایت بھی پڑھی جاسکتی ہے کہ جس سے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بارگاہِ الہی میں قرب و قدر و منزلت بھی واضح ہوجائے اور مولانا صاحب کا تفسیرِ قرآن کا شوق بھی پورا ہوجائے۔ لیکن لگتا ہے کہ انہیں تفسیر سے زیادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاذاللہ شرابی ثابت کرنے کی زیادہ فکر تھی جو اتنی ایمان افروز اور صحیح احادیث چھوڑ کر ایک ضعیف، ناقابل اعتبار اور خارجیوں کی طرف سے اچھالی گئی روایت کو بیان کرڈالا۔

    تفسیر ابنِ کثیر، جلد 1 ، صفحہ 501، حضرت سفیان ثوری ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جریر اور امام مجاہد (رض) کے حوالے سے بیان کیا کہ کسی اور شخص نے امامت کروائی ۔
    امام احمد بن حنبل المسند، جلد 2، صفحہ 351 حضرت ابو ہریرہ رض سے روایت کرتے ہیں جس میں حضرت علی رض کا نام تک نہیں ہے۔
    امام بزار، المسند، جلد 2، صفحہ 211، رقم 598،
    الہیثمی ، مجمع الزوائد، جلد 5، صفحہ 51
    ابنِ حجر عسقلانی، الاصابۃ فی التمیز الصحابۃ، جلد 5، صفحہ 224
    امام طبری، کتاب، تخریج الاحادیث والآثار، جلد 1، صفحہ 131،
    تفسیر ابن ابی حاتم الرازی، جلد2، صفحہ 388
    تفسیر ابن ابی حاتم الرازی، جلد3 صفحہ 958۔
    انہوں نے حضرت شعبہ اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنھما سے روایت نقل کی جس میں حضرت علی رض کا ذکر بھی نہیں۔
    امام ابوالحسن الواحدی النیشاپوری، اسباب النزول، صفحہ 112، 113 ۔ حضرت علی رض کا ذکر بھی نہیں۔
    امام بغوی، تفسیر بغوی، جلد1، صفحہ 431 فرماتے ہیں کہ "اکثر آئمہ کا اتفاق و اجماع " کہہ کر اپنا مذہب مختار اور اعتماد بیان کرتے ہوئے فرماتے وہ وہ روایت لاتے ہیں جس میں حضرت علی رض کے علاوہ کسی کے شراب پینے اور امامت کروانے کا ذکر ہے۔
    امام قرطبی، تفسیر قرطبی ، جلد 5، صفحہ 200،
    پہلا شانِ نزول فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں‌کے شراب پینے پر آیت اتری۔
    دوسرا شانِ نزول سیدنا عمر فاروق رض کی دعا والا بیان کیا۔
    تیسرا شانِ نزول میں بھی " کسی شخص " کی امامت کا ذکر کیا
    امام فخرالدین الرازی : تفسیر الرازی، تفسیرالکبیر،جلد 10، صفحہ 107پہلے شانِ نزول میں حضرت علی رض کے علاوہ کسی شخص کی امامت کی روایت کی
    دوسرے شانِ نزول میں حضرت عمر فاروق رض کی دعا والی روایت نقل کی
    تیسرے شانِ نزول میں حضرت عبداللہ بن عباس رض سے روایت کی اور حضرت علی کا ذکر تک نہیں
    امام ابوحیان اندلسی، البحر المحیط، جلد3، صفحہ 254
    فرماتے ہیں کہ عندالجمور علما، محکم روایت حضرت عمر رض کی دعا والی ہے۔
    قاضی بیضاوی، تفسیر البیضاوی، جلد 1، صفحہ 347
    زمخشری، الکشاف، جلد 1، صفحہ 513،
    قاضی ثناءاللہ پانی پتی، تفسیر المظہری، جلد2، صفحہ 398


    مندرجہ بالا کتبِ احادیث و تفاسیر کو بنظرِ ایمان کھنگالنے سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اس آیت کے شانِ‌ نزول کے حوالے سے شراب پینے یا امامت کروانے والے واقعے میں حضرت علی رض قطعاً شامل نہ تھے بلکہ عطا بن سائب نامی ضعیف حافظے اور وہم کے شکار ایک راوی کے بیان کو پکڑ کر، دشمنانِ علی اور دشمنانِ اہلبیت خارجیوں نے اس میں سازش کے تحت حضرت علی رض کا نام شامل کردیا تھا۔ جسے ۔۔۔۔

    آج کم و بیش 14 سو سال بعد ڈاکٹر اسرار صاحب کو اس ضعیف روایت کو بنیاد بنا کر دامادِ رسول اور بابائے سید الشباب اہل الجنۃ سیدنا امام حسن و حسین رضوان اللہ عنھما کو "گھٹی میں شراب پڑے ہونے" والا جیسا (معاذاللہ) شرابی بیان کر کے آخر کس "خدمتِ اسلام" کا شوق چڑھ گیا ۔
    انا للہ وانا الیہ راجعون


    اب بھی وقت ہے ۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کر لی جائے تو وہ یقیناً بخشنے والا غفورالرحیم ہے۔ لیکن اگر اپنی غلطی یا بغضِ علی رض پر اصرار اور اسکی تائید میں دلائل دیتے جانا کوئی معذرت نامہ نہیں ہوسکتا۔ بقول آبی بھائی یہ معذرت ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی کے سر پر ہتھوڑا دے ماریں ، سر پھاڑ دیں ، بعد میں‌کہہ دیں "سوری آپ کو جو درد ہوا یا خون نکلا، اس پر معذرت۔ لیکن ہتھوڑا مار کر آپکا سر پھاڑنے کا میرا عمل بالکل درست تھا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آگے دلائل دینا شروع کردیں"

    اور محترم سیف صاحب۔ واقعی انسان کو دوسرے کی شخصیت میں آئینے کے مصداق اپنی شکل نظر آجاتی ہے۔ کتب و حوالہ جات کے بغیر "اندھی عقیدت و تقلید" کا جو صاحب اظہار کررہے ہیں انکے لیے تو آپ "خواجہ کے گواہ" کے مصداق ماشاءاللہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں کیونکہ وہ آپکے "غیرجانبدار مطالعہ بھرے ایمان" کے مطابق جتنا مرضی شانِ و فضیلتِ علی :rda: میں‌ نتقیص کرتے چلے جائیں وہ آپکے ایمان کو قبول ہے۔

    اور دوسری طرف جو ایک مسکین بات بات پر کتب حدیث کے باقاعدہ حوالہ جات کے ساتھ گفتگو کررہا ہو۔ اس پر "کسی مولانا" کی تقلید کا الزام لگا کر فرموداتِ‌رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی یکسر نظر انداز کردینا چہ معنی دارد؟

    کیا "تہمت و الزام" کا کوئی حکم آپ حضرات کے لیے بھی قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے ؟ یا سارے کے سارے احکامات اور سزائیں صرف قرآن و حدیث کے حوالہ جات سے عظمت و محبتِ رسول :saw: ، عقیدت و محبت و تعظیم اہلبیت اطہار اور علی المرتضی کرم اللہ وجہہ اور حب و تکریم صحابہ رضوان اللہ عنھم کی بات کرنے والے اہلسنت والجماعت کے فقیروں‌کے لیے ہی اترے ہیں ؟ :hasna:

    اور ہاں ۔ یہ اس موضوع پر مجھ عاجز کی آخری پوسٹ ہوگی بشرطیکہ خارجیت زدہ ذہنوں نے پھر کسی طرح کا فتنہ و فساد پھیلا کر ، سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان میں‌وسوسے ڈالنے کی کوشش نہ کی !
    البتہ قرآن و حدیث کے دلائل سے گفتگو ہو تو مجھ جیسے بےعلموں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ورنہ ذاتیات پر بحث مباحثے سے تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں دنیا کا سب سے عاجز بندہ ہوں۔ آپ جیسے اہلِ علم، اہلِ فن، اہلِ مناظرہ، اہلِ مجادلہ، تگڑے انسانوں سے ذاتی جنگ مول لینا مجھ جیسے شریف آدمی کے بس کی بات نہیں۔

    اللہ تعالی ہم سب کو وہ ہدایت عطا فرمائے جو اس نے اپنے انعام یافتہ بندوں کو عطا کی تھی ۔ اور ایسی بات سے بچائے جس سے غضب الہی بھڑک اٹھے۔ کیونکہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے ۔ یا اللہ اسکا دوست بن جو علی رض کا دوست ہے۔ اور اسکا دشمن بن جو علی رض کا دشمن ہو۔

    والسلام علیکم[/quote:bvnopq91]
     
  20. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    فرخ بھائی
    ماشا اللہ آپ نے ڈاکٹر اسرار پر عائد الزام کو جس طریقے سے باطل ثابت کیا ہے اب کسی کو اس پر معترض ہونے کی جرات نہیں ہونی چاہیئے لیکن اگر کوئی پھر اپنی کسی اندرونی سازش کے تحت ایسا کرتا ہے تو پھر اسے پہلے ان محققین کو بھی ان ہی الزامات سے نوازنا پڑے گا۔

    اصل بات کچھ اور ہوتی ہے اور اسے کسی نہ کسی بہانے سے سامنے لایا جاتا ہے جس کا ثبوت ڈاکٹر اسرار کے خلاف بنایا گیا یہ محاذ ہے۔

    جو لوگ 30 صحیح روایات کا مسلسل حوالہ دے رہے تھے کیا ان کے علم میں یہ سارے حوالے نہیں تھے اور اگر نہیں تھے تو جزوی علم کی بنا پر وہ کس طرح کسی کو ملزم ٹھہرا سکتے ہیں کیا اس کی پشت پر منظم سازش کی بو نہیں آتی۔

    امید ہے کہ معترضین اپنے موقف پر غور فرمائیں گے اور سبائی سازشیوں کا آلہ کار بننے کی بجائے ان سازشوں کا قلع قمع کرنے کی طرف دھیان دیں گے۔
     
  21. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام وعلیکم عابد بھائی
    جناب آپ کے تصبروں پر داد دیئے بغیر نہیں‌رہوں گا۔ قبول فرمایئے :dilphool:

    نعیم بھائی والی بات کا تو میں‌نے جواب دے دیا اور کوشش کی کہ بات کو واضح کردوں‌کہ میرا ان سے کوئی ذاتی بغض وعناد نہیں جیسا کہ انہوں‌ نے حسب عادت اپنی پوسٹ میں‌طنز کے ساتھ لکھا اور اس سلسلے میں حال ہی میں‌"انجمن خدام القران لاھور" کی طرف سے آنے والا تحقیقی مقالہ بھی پوسٹ کر دیا۔

    آپ کی کچھ باتیں‌ پڑھ کر ذھن میں‌مزید کچھ باتیں پیدا ہوتی ہیں:
    یہ تو ٹھیک ہے کہ یہ دونوں الگ الگ حقائق ہیں، مگر تفاسیر میں اس واقعے کے آنے کے بیان کا جو مقصد ہے، وہ یہ نہیں جو آپ فرما رہے ہیں، بلکہ یہ سوچنا ہے، کہ اگریہ حدیث اسقدر ضعیف تھی، تو ان تفاسیر کے لکھنے والے علماء نے اسے تفاسیر میں‌شامل کیسے کر لیا۔ اور انجمن خدام القران لاھور" کی طرف سے آنے والا تحقیقی مقالہ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تقریبآ 28 تفاسیر میں موجود ہے۔ کیا قرآن کی تفسیر میں اجازت ہوتی ہے کہ کسی بھی ضعیف واقعے کو بیان کردیاجائے؟ ہرگز نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اگر اتنے علماء کرام اس واقعے کو استعمال کر سکتے ہیں تو اس کے پیچھے کیا تحقیق تھی؟ اور اگر ڈاکٹر اسرار نے بھی اسی واقعے کو بیان کر دیا تو ان پر اتنا شدید ردِ عمل جبکہ پہلے کیا کسی کو یہ نظر نہیں‌آیا؟
    اور اب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے، کہ ان میں‌ سے بہت سی تفاسیر کافی عرصہ پہلے لکھی گئیں اور اہلسنت علماء کی بہت بڑی تعداد ان سے استفادہ بھی کرتی رہی، اور اتنے عرصے تک، کسی نے اس واقعے کے ضعیف ہونے نشاندہی تک نہ کی؟ کیا یہ سوچنے کی بات نہیں؟
    تو ڈاکٹر اسرار کا اصرار بھی غالبآ انہی نکات پر مشتمل ہوسکتا ہے۔
    اب اگر ڈاکٹر اسرار یہ کہیں کہ جناب یہ حدیث تو ضیعف تھی، تو ان پر وہ سوال یا اس سے ملتے جلتے سوال بھی اٹھ سکتے ہیں جو اوپر میں نے لکھے۔ اسلیئے ڈاکٹر اسرار اس معاملے کے بیچ میں‌رہ جاتے۔لیکن بات پھر وہیں پھنستی ہے، کہ اس سے پہلے کسی عالم نے ایسا شور نہیں مچایا۔

    لہٰذا جب تک علماء کرام مل کر کسی نتیجے پر متفق نہیں‌ہو جاتے تو یہ ایک متنازعہ مسئلہ رہیگا اور آپ لوگوں‌کا اس واقعے ضعف پر بار بار اصرار بھی پھر اتنی حیثیت نہیں‌رکھتا جتنی شدت سے اصرار کیا جا رہا ہے کیونکہ فی الوقت یہ یکطرفہ فیصلہ ہوگا۔ اور میرے خیال سےاب اس معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، تاکہ اس خلا کو پر کیا جاسکے کہ مختلف ادوار کے اہلسنت علماء اس واقعے کو تفاسیر میں‌بیان کرتے رہے اور اسکو ضعیف نہ سمجھا، تو کیا وجوہات تھیں اسکے پیچھے؟

    آپکی اس بات:
    سے میں‌قطعآ اتفاق نہیں کرتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی مفسر کسی بھی روایات کو بغیر تحقیق کے تفسیر میں چھوڑ دیں گے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک حرکت ہوگی اور امۃ الناس میں غلط روایات کے فروغ کا سبب بن سکتی ہے۔ اور نہ ہی ایسا کسی بھی مستند اور جید عالم یا مفسر کو زیب دیتا ہے۔
    یاد رکھئے گا، تفاسیر صرف دوسرے علماء ہی نہیں‌پڑھتے بلکہ وہ مسلمان جو پڑھ لکھ سکتے ہیں، بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں اور غالبآ تفسیر لکھنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ عام مسلمان بھی قرآن پاک کے علم سے بہرہ مند ہو سکے اور اسکے ساتھ ساتھ آیات کا پس منظر، اور تشریحات سے بھی آگاہ ہو سکے ۔ علماء کرام کے محافل میں‌جاکر علم حاصل کرنے کی بہرحال ایک اپنی اہمیت ہے، لیکن جہاں‌ محافل یا علماء تک رسائی ممکن نہ ہو، وہاں‌ تفاسیر اور علماء‌کی کتب ایک متبادل ذریعہ ہوتا ہے علم حاصل کرنے کا۔ اسی لیے میں‌ آپ سے اختلاف رکھتا ہوں کہ مفسرین حضرات کا اسلوب اس قسم کا ہو کہ بغیر تحقیق کے متنازعہ اور ضعیف روایات بھی شامل کر دیں کیونکہ بہرحال یہ ایک خطرناک معاملہ ہے اور مسلمانوں‌میں‌اس سے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔

    جہاں تک ڈاکٹر صاحب کی معافی کا معاملہ ہے، تو انہوں نے اس بات پر معذرت ضرور کی ہے کہ انکی باتوں سے اگر کسی کا دل دکھا ہو تو وہ معذرت خواہ ہیں، البتہ واقعے کی معاملہ چونکہ یکطرفہ نہیں، اس لیئے میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اسکے ضعف اور وارد ہونے کا تنازعہ حل نہیں ہوتا،اس پر معافی وغیرہ کی بات کا ابھی وقت نہیں۔ البتہ ایک بات صاف طور پر عرض کرتا چلوں کہ اگر علماء کرام اس بات پر متفق ہوجاتے ہیں‌یہ واقعہ، واقعی ضعیف ہے، تو پھر ڈاکٹر اسرار کو معافی کے بارے میں‌سوچنا پڑے گا۔۔ واللہ عالم

    آپ نے پینڈو کی مثال خوب دی اور میں‌ پینڈو والی محبت کی مثال سے اشارہ کچھ ممبران کی طرف سمجھا :201:

    لیکن بھائی، ہم لوگوں کی صحابہ اکرام سے محبت پینڈوؤں والی نہیں، نہ ہی مادیئت پرستی والی ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں‌ تو علماء کرام کا معاملہ ملوث ہے اور جب بات علمی سطح کی ہو رہی ہو تو پینڈو والی محبت کو زیرِ غور لانے کی بجائے علمی حقائیق کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ علمی حقائیق کسی بھی صحابی :rda: کی تحقیر نہیں کر رہے، بلکہ اس معاملے میں‌تو وہ واقعات بیان ہو رہے ہیں جن میں‌صحابہ اکرام کی زندگی میں‌اسلامی احکام کیسے کیسے داخل ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت و تبلیغ کیسے انکی زندگی کو بدلتی چلی گئی اور ان کے درجات کن کن مراحل سے گزر کر بلندیوں کی چوٹیاں بھی کراس کر گئے۔

    البتہ ایک بات تو آپ بھی جانتے ہیں کہ محبت جیسی بھی ہو، اتنی اندھی نہیں ہونی چاہیے کہ علمی حقائیق کو نظر انداز کر دیا جائے۔اور یہاں حبِ صاحبہ :rda: اور حب رسول :saw: میں‌انکی سنت کی اتباع کا معاملہ داخل ہو جاتا ہے۔ اور جس میں‌راواداری، برداشت، صبر اور صحیح علم کی تلاش شامل ہے (اب پوری سیرت تو بہت سی کتابوں پر مشتمل ہے جو میں‌یہاں لانے سے قاصر ہوں :soch:
    اسلیئے آپ کا یہ الزام :
    بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ آپ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ انکی نیت پر شک نہیں اور ضعف والا معاملہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ ابھی متنازعہ ہے۔ البتہ الفاظ کے چناؤ کے معاملے پر بات ہے کہ وہ کچھ ٹھیک نہیں‌تھے، لیکن ڈاکٹر صاحب کی وڈیو بار بار دیکھنے سے تصویر کا اصل رخ یہی نظر آتا ہے کہ یہ الفاظ دراصل اسوقت کے عرب معاشرے کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور ان کے بیان میں‌یہ کہیں‌بھی براہ راست حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر نہیں کہے گئے۔ لیکن اپنا اپنا مطلب نکالنے والے شائید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اب آپ خود بتائیں کہ اگر کوئی ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھے کہ جناب حرمتِ شراب کی آیات کے پیچھے کیا حالات و واقعات تھے اور اگر آپکے محبت والے نظریے کے مطابق وہ صحابہ اکرام کے بارے میں شراب پینے والی باتیں چھپائیں، تو پھر میں‌نہیں سمجھتا کہ علمی حقائیق چھپانے سے اصل حقیقت اور نزولِ‌آیات کی وجہ بیان ہو سکے گی۔

    اسی لیئے آپ سے التماس ہے کہ جو کچھ انہوں نے کہاں اسکو بگاڑ کر کچھ اور مت بنائیں کہ بات جھوٹ، بہتان یا غیبت تک چلی جائے اور خوامخواہ بدگمانیاں پیدا ہوتی جارہی ہوں۔

    مجھے حیرت ہوئی کہ آپ کو بات کا بتنگڑ بنتے دیکھ کر تھوڑی شدت لگی اور غلط نہیں‌لگی۔ عابد بھائی آپ پر بہت افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ کسی عالم کی غلطی کا مذاق بنتے بنتے اگر بتنگڑ بنایا جارہا ہوں تو وہ آپکو غلط نہیں‌لگتا۔ اور نہ ہی اس بتنگڑ میں استعمال کیئے جانے والے وہ الفاظ جو شائید اس عالم نے سوچے بھی نہ ہوں، آپ کو نہ شدید لگے اور نہ غلط۔
    مجھے بہت افسوس ہوا آپکی علمی قابلیت کے بعد، اپکے اسطرح سوچنے پر۔۔۔


    آپ نے نعیم بھائی کا جو تجزیہ شروع سے لے کر اب تک کیا، میں‌ اس سے بالکل متفق ہوں اور انکے شروع کے ریپلائز پڑھ کرہی ان کا احترام کرنے لگا۔ لیکن پھر وہی کہوں‌گا، کہ اسکے بعد جب ان کی تحاریر میں جس قسم کے طنزیہ جملے اور بات کا بتنگڑ بنایا گیا، تکلیف اس کی ہوئی ہے۔ اور اسی طرح بنتِ حوا اور نعیم بھائی کا ایک ہی پوائینٹ کے گرد گھومتے گھومتے رہنے سے ہی کوفت ہوتی ہے۔

    مجھے بنتِ‌حوا کی جن پوسٹوں سے اب تک واسطہ پڑا ان سے بہرحال مجھے اختلاف تھا اور اسکا اظہار میں‌نے انکو ریپلائی دے کر کردیا۔ لیکن جو بات آپ انکی پوسٹوں‌کے متعلق کہہ رہے ہیں تو شائید وہ دوسرے مسائل پر ہوں اور اب آپکے کہنے سے مجھے بھی اشتیاق ہوا کہ اگر وہ اتنی مفید ہیں‌تو ان سے میں‌بھی فائدہ اٹھاؤں‌گا۔ انشااللہ۔
     
  22. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    فرخ بھائی
    آپ نے بالکل منطقی اور مدلل بات کی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو جزا دے۔
    آبی بھائی بے حد معقولیت سے بات کرتے ہیں اور ان کا دل بھی حب صحابہ رضی اللہ عنہم سے سرشار ہے۔ ان کی تنقید بھی اسی حوالے سے ہے تاہم کسی ایک بات پر شدت سے قائم ہو جانا بھی مناسب نہیں ہوتا اور امید ہے کہ وہ اپنے اس رویے پر غور کریں گے۔

    نعیم بھائی تو ہیں ہی جذباتی اور جلالی لیکن گفتگو میں علم اور قابلیت جھلکتی ہے تاہم اکثر وہ دوسروں کی پوسٹ سےایسی باتیں نکال لیتے ہیں جو پوسٹ کرنے والے کے ذہن میں بھی نہیں ہوتیں۔

    اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔
     
  23. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جزاک اللہِ خیرآ و کثیرآ

    جی سیف بھائی ٹھیک فرمایا آپ نے۔
    یہ میں‌ بہت عرصے سے محسوس کرتا آ رہا ہوں کہ مسلمانوں‌میں جن اختلافات کی بنا پر خلا بن رہے ہیں وہ اتنے بڑے بھی نہیں‌ہوتے کہ گروہ درگروہ بن کر رہ جائیں۔ اگر مل بیٹھ کر معاملات کے حل کی طرف پیش قدمی کریں‌ اور جمود سے بچیں تو بہت راستے نکل آتے ہیں

    والسلام
     
  24. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام خالی داد ہی مت دیجیئے بلکہ ہمارے کیئے گئے تبصرے کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھیئے اور ہمارے ساتھ اتفاق کی بھی کوشش کیجئے گو یہ آپ کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا ۔
    گو کہ اس سوال کا جواب میں دوسری جگہ دے چکا مگر آپ کی سہولت کے پھر عرض کردیتا پوں
    سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کتب تفاسیر میں اصل معاملہ قرآن فہمی ہوتی ہے نہ کہ اصول حدیث لہزا مفسرین کسی آیت کو سمجھانے کے لیے بہت سی ایسی احادیث نقل کردیتے ہیں کہ جن کا تحقق صحیح اور ضعیف کے باب میں واضح نہیں ہوتا اور یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے آپ دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھی ہوئی کوئی بھی تفسیر اٹھالیں اس میں آپ کو کوئی نہ کوئی ضعیف روایت ضرور مل جائے گی ۔ (علاوہ اس کے بہت سی تفاسیر میں خود اسرائیلیات اور موضوع روایات بھی در ائی ہیں )۔ جس روایت کا اصل مسئلہ بنا ہوا ہے اکثر مفسرین نے اسے اپنی تفسیر میں جگہ ہی نہیں دی اور جنھوں نے جگہ دی ہے انھوں نے ساتھ میں دوسری روایات بھی نقل کردی ہیں کیونکہ یہ تمام کی تمام روایات حرمت شراب کے اس مخصوص واقعہ کا شان نزول تھیں اب بعض مفسرین نے تو ان میں سے ترمزی والی روایت کا مرجوع ہونا یا ضعیف ہونا بیان فرمادیا ہے اور بعض نے نہیں بیان فرمایا یہ ہر مفسر کا اپنا اپنا اسلوب ہوتا ہے جب آپ مختلف تفاسیر اور انکے اسالیب کا مطالعہ کریں گے تو آپ پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی ۔ ۔ رہ گیا یہ معاملہ کہ جب یہ روایت اتنی ساری کتب میں پہلے سے موجود تھی تو اتنا شور پہلے کیوں نہ ہوا تو اس کی دو تین موٹی موٹی وجوہات ہیں جن پر آپ لوگ غور نہیں فرمارہے ۔ ۔ ۔ ۔
    اول :-[/size] [highlight=#FFFF80:1i4ab639]تو جتنی بھی تفاسیر میں وہ روایات آئی ہے اس میں کسی ایک تفسیر میں بھی وہ تبصرہ نہیں ہےجو کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے انتہائی رکیک اور نا مناسب الفاظ میں فرمایا ہے[/highlight:1i4ab639] ۔
    دوم:- [highlight=#FFFFBF:1i4ab639]ایک تو تفاسیر ہر خاص و عام کی پہنچ میں نہیں ہوتی اور جن کی پہنچ میں ہوں بھی ان میں سے اکثریت مطالعہ کی شوقین نہیں ہوتی میں اپنے گھر ہی کی مثال دوں گا ہم ماشاء اللہ آٹھ بہن بھائی ہیں اور جب سے ہوش سنبھالا گھر میں اسلامی لائبریری قبلہ ابا جان رحمۃ للہ علیہ کے توسط سے موجود تھی اور اس میں بیسیوں تفاسیر ہیں جو کہ مختلف مکاتب فکر کی ہیں لیکن مجال ہے کہ میرے علاوہ کسی نے آج تک ان کو چھوا بھی ہو اور میں نے بھی ان میں سے صرف چند کا مختلف جگہوں سے مطالعہ کیا ہے اور ویسے بھی تفاسیر کی ماخذ کتب عربی میں ہیں اور اردو تفاسیر میں اتنی تفصیل نہیں ملتی اور اردو تفاسیر میں بھی صرف چند ایک میں وہ واقعہ بطور شان نزول ذکر ہوا ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی تفسیر پڑھے بھی تو وہ اتنی بات ضرور جانتا ہے کہ خالی تفسیر پڑھ لینے سے ہی قطعی علم نہیں آجاتا جب تک کہ کسی صاحب علم سے اس تفسیر کی تعبیر نہ معلوم کرلی جائے ۔ ۔ ۔ اب ہر کوئی اردو تفسیر پڑھ کر عالم تھوڑی میں بن جاتا ہے یا داعی قرآن تھوڑی میں ہوسکتا ہے[/highlight:1i4ab639]۔ ۔
    میرے بھائی اس روایت کا علماء نقد و جرح کے ہاں شدید ضعیف ہونا متفقہ طور پرثابت ہے لہزا اس میں کوئی شک و شبہ کی بات اب ہر گز نہیں ہے



    در حقیقت آپ نے پینڈو والی مثال کی حقیقت کو نہیں سمجھا اصل میں میری اس مثال کا پس منظر ایک حدیث پر مبنی تھا کہ جس کا سر دست مجھے حوالہ اور صحیح ٹیکسٹ یاد نہیں کہ (اللہ کمی بیشی معاف فرمائے) کہ ایک بار ایک بدو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور چند سوالات کیے آپ نے جوابات دیئے توا س کے بعد وہ قسم اٹھا کر یہ کہہ کر چلا گیا کہ اب ان تمام امور پر میں مرنے تک عمل کروں گا بغیر کسی کمی یا بیشی کے اور جب وہ چلا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے جنتی دیکھنا ہو اس شخص کو دیکھ لے اس حدیث کی شرح میں بعض محدثین یہ لکھتے ہیں کہ چونکہ بدو یعنی پینڈو لوگ اپنے اعتقادات میں بڑے راسخ ہوتے ہیں اور جس چیز کو ایک مرتبہ ٹھیک سمجھ لیں پھر اس پر جم جاتے ہیں علم ان کے پاس ہوتا نہیں اس لیے لیت و لعل سے کام نہیں لیتے نت نئے سوالات کرکے ابہامات نہیں پیدا کرتے بس جس کام کا کہا جائے وہ کر ڈالتے ہیں سو یہاں بھی یہ مثال اس زہنی سوچ کے پس منظر کے بطور نقل کی گئی تھی کہ جو لوگ دیہات کے رہنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے نظریات چاہے وہ فکری ہوں یا عملی ان پر بڑت پختہ ہوتے ہیں ان کو وہاں سے ہٹانا بڑا مشکل کام ہوتا ہے جب کہ ان کے مقابلے میں عام پڑھا لکھا طبقہ سو طرح کے عقلی نقلی دلائل مانگتا ہے اور سوالات کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔رہ گیا محبت کا معاملہ تو میرے بھائی محبت میں اصل یہی ہے کہ محبوب کے عیب ہرگز محب کی زبان پر نہیں آتے ([highlight=#FFFFFF:1i4ab639]اور ہماری اس بات کی اصل بھی ایک حدیث ہی ہے کہ جس میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ محب کو محبوب کی محبت اس کے عیوب سے اندھا کردیتی ہے ۔ ۔ اسے قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب الشفاء میں رقم کیا ہے [/highlight:1i4ab639])بلکہ اس کے مقابلے میں محب کی ہر وقت کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کی زات کے بارے میں چن چن کر ایسے واقعات زبان ہر لاتا ہے کہ جن واقعات کی وجہ سے اس کے محبوب کی شخصیت کو اوج اور بلندی نصیب ہوتی ہو اور اگر حقیقت میں کوئی ایسا واقعہ ہو بھی کہ جو اس کے محبوب میں کی شان میں کسی طرح بھی تنقیص کا باعث ہو تو اول تو محب کی پوری کوشش ہوگی کہ اس واقعہ کو نظر انداز کردے مگر جب قرائن یا نقلی شواہد اس واقعہ کی تصدیق کردیں تو تب بھی محب کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس مخصوص واقعہ کی کوئی ایسی تاویل ، توجیہ یا تطبیق ہوجائے کہ جس سےا س کے دل کا قرار نہ لٹنے پائے ۔ ۔ ۔ ۔۔ اگر آپ کو ایسی محبت کا معلوم نہیں تو پھر کسی جگہ میں نے [highlight=#BFFFFF:1i4ab639]آپکے بارے میں صحیح کہا تھا کہ ارے ظالم تونے پی ہی نہیں [/highlight:1i4ab639]۔ ۔ ۔
     
  25. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    گو کہ اس سوال کا جواب میں دوسری جگہ دے چکا مگر آپ کی سہولت کے پھر عرض کردیتا پوں
    سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کتب تفاسیر میں اصل معاملہ قرآن فہمی ہوتی ہے نہ کہ اصول حدیث لہزا مفسرین کسی آیت کو سمجھانے کے لیے بہت سی ایسی احادیث نقل کردیتے ہیں کہ جن کا تحقق صحیح اور ضعیف کے باب میں واضح نہیں ہوتا اور یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے آپ دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھی ہوئی کوئی بھی تفسیر اٹھالیں اس میں آپ کو کوئی نہ کوئی ضعیف روایت ضرور مل جائے گی ۔ (علاوہ اس کے بہت سی تفاسیر میں خود اسرائیلیات اور موضوع روایات بھی در ائی ہیں )۔ جس روایت کا اصل مسئلہ بنا ہوا ہے اکثر مفسرین نے اسے اپنی تفسیر میں جگہ ہی نہیں دی اور جنھوں نے جگہ دی ہے انھوں نے ساتھ میں دوسری روایات بھی نقل کردی ہیں کیونکہ یہ تمام کی تمام روایات حرمت شراب کے اس مخصوص واقعہ کا شان نزول تھیں اب بعض مفسرین نے تو ان میں سے ترمزی والی روایت کا مرجوع ہونا یا ضعیف ہونا بیان فرمادیا ہے اور بعض نے نہیں بیان فرمایا یہ ہر مفسر کا اپنا اپنا اسلوب ہوتا ہے جب آپ مختلف تفاسیر اور انکے اسالیب کا مطالعہ کریں گے تو آپ پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی ۔ ۔ رہ گیا یہ معاملہ کہ جب یہ روایت اتنی ساری کتب میں پہلے سے موجود تھی تو اتنا شور پہلے کیوں نہ ہوا تو اس کی دو تین موٹی موٹی وجوہات ہیں جن پر آپ لوگ غور نہیں فرمارہے ۔ ۔ ۔ ۔
    اول :-[/size] [highlight=#FFFF80:10e1gc4l]تو جتنی بھی تفاسیر میں وہ روایات آئی ہے اس میں کسی ایک تفسیر میں بھی وہ تبصرہ نہیں ہےجو کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے انتہائی رکیک اور نا مناسب الفاظ میں فرمایا ہے[/highlight:10e1gc4l] ۔
    دوم:- [highlight=#FFFFBF:10e1gc4l]ایک تو تفاسیر ہر خاص و عام کی پہنچ میں نہیں ہوتی اور جن کی پہنچ میں ہوں بھی ان میں سے اکثریت مطالعہ کی شوقین نہیں ہوتی میں اپنے گھر ہی کی مثال دوں گا ہم ماشاء اللہ آٹھ بہن بھائی ہیں اور جب سے ہوش سنبھالا گھر میں اسلامی لائبریری قبلہ ابا جان رحمۃ للہ علیہ کے توسط سے موجود تھی اور اس میں بیسیوں تفاسیر ہیں جو کہ مختلف مکاتب فکر کی ہیں لیکن مجال ہے کہ میرے علاوہ کسی نے آج تک ان کو چھوا بھی ہو اور میں نے بھی ان میں سے صرف چند کا مختلف جگہوں سے مطالعہ کیا ہے اور ویسے بھی تفاسیر کی ماخذ کتب عربی میں ہیں اور اردو تفاسیر میں اتنی تفصیل نہیں ملتی اور اردو تفاسیر میں بھی صرف چند ایک میں وہ واقعہ بطور شان نزول ذکر ہوا ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی تفسیر پڑھے بھی تو وہ اتنی بات ضرور جانتا ہے کہ خالی تفسیر پڑھ لینے سے ہی قطعی علم نہیں آجاتا جب تک کہ کسی صاحب علم سے اس تفسیر کی تعبیر نہ معلوم کرلی جائے ۔ ۔ ۔ اب ہر کوئی اردو تفسیر پڑھ کر عالم تھوڑی میں بن جاتا ہے یا داعی قرآن تھوڑی میں ہوسکتا ہے[/highlight:10e1gc4l]۔ ۔
    میرے بھائی اس روایت کا علماء نقد و جرح کے ہاں شدید ضعیف ہونا متفقہ طور پرثابت ہے لہزا اس میں کوئی شک و شبہ کی بات اب ہر گز نہیں ہے



    در حقیقت آپ نے پینڈو والی مثال کی حقیقت کو نہیں سمجھا اصل میں میری اس مثال کا پس منظر ایک حدیث پر مبنی تھا کہ جس کا سر دست مجھے حوالہ اور صحیح ٹیکسٹ یاد نہیں کہ (اللہ کمی بیشی معاف فرمائے) کہ ایک بار ایک بدو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور چند سوالات کیے آپ نے جوابات دیئے توا س کے بعد وہ قسم اٹھا کر یہ کہہ کر چلا گیا کہ اب ان تمام امور پر میں مرنے تک عمل کروں گا بغیر کسی کمی یا بیشی کے اور جب وہ چلا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے جنتی دیکھنا ہو اس شخص کو دیکھ لے اس حدیث کی شرح میں بعض محدثین یہ لکھتے ہیں کہ چونکہ بدو یعنی پینڈو لوگ اپنے اعتقادات میں بڑے راسخ ہوتے ہیں اور جس چیز کو ایک مرتبہ ٹھیک سمجھ لیں پھر اس پر جم جاتے ہیں علم ان کے پاس ہوتا نہیں اس لیے لیت و لعل سے کام نہیں لیتے نت نئے سوالات کرکے ابہامات نہیں پیدا کرتے بس جس کام کا کہا جائے وہ کر ڈالتے ہیں سو یہاں بھی یہ مثال اس زہنی سوچ کے پس منظر کے بطور نقل کی گئی تھی کہ جو لوگ دیہات کے رہنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے نظریات چاہے وہ فکری ہوں یا عملی ان پر بڑت پختہ ہوتے ہیں ان کو وہاں سے ہٹانا بڑا مشکل کام ہوتا ہے جب کہ ان کے مقابلے میں عام پڑھا لکھا طبقہ سو طرح کے عقلی نقلی دلائل مانگتا ہے اور سوالات کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔رہ گیا محبت کا معاملہ تو میرے بھائی محبت میں اصل یہی ہے کہ محبوب کے عیب ہرگز محب کی زبان پر نہیں آتے ([highlight=#FFFFFF:10e1gc4l]اور ہماری اس بات کی اصل بھی ایک حدیث ہی ہے کہ جس میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ محب کو محبوب کی محبت اس کے عیوب سے اندھا کردیتی ہے ۔ ۔ اسے قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب الشفاء میں رقم کیا ہے [/highlight:10e1gc4l])بلکہ اس کے مقابلے میں محب کی ہر وقت کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کی زات کے بارے میں چن چن کر ایسے واقعات زبان ہر لاتا ہے کہ جن واقعات کی وجہ سے اس کے محبوب کی شخصیت کو اوج اور بلندی نصیب ہوتی ہو اور اگر حقیقت میں کوئی ایسا واقعہ ہو بھی کہ جو اس کے محبوب میں کی شان میں کسی طرح بھی تنقیص کا باعث ہو تو اول تو محب کی پوری کوشش ہوگی کہ اس واقعہ کو نظر انداز کردے مگر جب قرائن یا نقلی شواہد اس واقعہ کی تصدیق کردیں تو تب بھی محب کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس مخصوص واقعہ کی کوئی ایسی تاویل ، توجیہ یا تطبیق ہوجائے کہ جس سےا س کے دل کا قرار نہ لٹنے پائے ۔ ۔ ۔ ۔۔ اگر آپ کو ایسی محبت کا معلوم نہیں تو پھر کسی جگہ میں نے [highlight=#BFFFFF:10e1gc4l]آپکے بارے میں صحیح کہا تھا کہ ارے ظالم تونے پی ہی نہیں [/highlight:10e1gc4l]۔ ۔ ۔[/quote:10e1gc4l]




    آپ نے جو وجوہات تفاسیر کی پہنچ اور مطالعہ سے متعلق بتائیں وہ تو بہت محدود سا پہلو ہے۔ میں‌تو بات کر رہا ہوں ان لوگوں‌کی جو تفاسیر کو پڑھتے ہیں جن میں‌بہت سے علماء اکرام بھی شامل ہیں، عام پڑھنے لکھنے والے مسلمان بھی اور شائید بہت سے تعلیمی مدارس بھی۔
    اور اگر یہاں‌یہ بات مان لی جائے کہ تفاسیر میں مفسر ضعیف روایات بھی شامل کرتے ہیں تو بھائی یہ بات مجھے ہضم نہیں‌ ہو رہی، کیونکہ بات پھر وہیں‌ذھن میں‌آتی ہے، کہ اسطرح تو قرآن کا فہم دیتے ہوئے مفسرین ضعیف روایات کا علم بھی دے رہے ہیں اور جو ظاہر ہے کسی بھی تضاد، یا جھگڑے یا تفرقہ کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے، اور پھر وہی بات کہوں گا کہ ایک مفسر جیسے اہم عہدے پر فائز ہونا بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے۔
    ہاں‌یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ کوئی روایت کسی مسلک کے علماء‌کے نزدیک ضعیف ہو اور دوسرے مسلک کے نزدیک تندرست، لیکن جب تفسیر لکھنے کی باری آتی ہے، قرآنِ پاک کی تفہیم دینے کے لیئے متنازعہ اور ضعیف روایات کا شامل کرنا اور لوگوں تک بہم پہنچانا ایک خطرناک بات ہے جس کے نتائیج امت میں تفرقہ، اور اضطرابی کیفیات جیسی صورتوں‌میں نکل سکتے ہیں۔
    اس لیئے میں‌ آپ کی مفسریں کی ضعیف احادیث شامل کرنے سے متعلق باتوں کو ہضم نہیں‌کر پا رہا۔ معذرت کے ساتھ، یہ تھیوری قابلِ‌قبول نہیں‌لگ رہی۔
    اور اس لیئے بھی یہ بات ہضم نہیں‌ہو پارہی کہ اگر اس روایت کا ضعف شدید ہے تو پھر اتنی بڑی تعداد کے مفسرین نے یہ بات محسوس تک نہ کی؟‌ جیسا میں اس حرکت سے پیدا ہونے والے خطرات کی بات اوپر کرچکا ہوں، تو کیا اتنے بڑے مفسرین اور ان سے استفادہ کرنے والے علماء بھی یہ بات محسوس نہ کر سکے؟ جبکہ اسکے مقابلے میں‌دوسری روایات موجود ہیں؟
    معذرت کے ساتھ جو دو تین موٹی موٹی وجوہات آپ نے بتائیں، ان سے تو خیر مجھے کہیں‌سے اتفاق نہیں‌ ہے۔ یہ مفسرین والی بات میرے نزدیک بہت اہم ہے۔

    اب جہاں‌تک بات ہے اسکی :
    تو جو نوٹس انجمن خدام القرآن نے دیا ہے اسمیں‌جن علماء نے اور جن جگہوں‌پر اس روایات کو صحیح قرار دیا ہے انکا کیا کریں؟۔ اگر آپ وہ نوٹس بغور پڑھ لیں تو یہ بات بھی نظر سے گزرے گی۔ لہٰذا اس روایت کا ضعف متفقہ طور پر منظور شدہ نہیں لگ رہا۔ اور نہ ہی اکیلے ڈاکٹر اسرار اس پر مضر ہیں۔ اسی لیے میں‌اس روایت کے معاملے کو متنازعہ سمجھ رہا ہوں۔

    اور اس نوٹس کے مطابق یہ روایات ترمذی شریف کے علاوہ سنن ابی داؤد یا صحیح ابو داؤد (کیا یہ دونوں‌ایک ہی کتاب کے دو ملتے جلتے نام ہیں؟ ( میں‌بھی موجود ہے۔

    محبت والی حدیث کے اور مطالب بھی بن سکتے ہیں، لیکن ڈاکٹر اسرار والے معاملے میں قرآنی آیات کا پس منظر بیان کرنے کے لیئے واقعات و روایات بتائی گئیں تاکہ حرمت شراب کے حقائیق پتا چل سکیں تو اس میں‌محبت والا معاملہ کچھ فٹ نہیں‌بیٹھ رہا۔ کیونکہ بات صاف ہے، حرمتِ شراب سے پہلے کی باتیں دراصل عیوب میں‌شمار نہیں کی جاسکتیں اور اس سے متعلق ایک بات تو آپ خود بھی کہہ چکے ہیں‌کہ اسوقت شراب نہ گناہ میں‌شمار ہوتی تھی نہ کسی اچھائی کے طور پر۔ البتہ حرمتِ شراب کے احکام کے بعد اگر کوئی ان احکام کی خلاف ورزی کرے تو پھر تو ظاہر ہے مجرم ہی کہلائے گا۔

    اور اسی طرح اگر یہ محبت والا معاملہ بیچ میں‌لے آئیں تو پھر تو اس سوال کا جواب ٹھیک نہیں‌دیا جاسکتا کہ کیا صحابہ اکرام اسلام و ایمان لانے سے پہلے کافر تھے؟۔ پھر تو حبِ صحابہ جذبے میں‌آکر تو سوال کرنے والے کی ٹھکائی لگائی جائے گی، کہ یہ توہین آمیز سوال کیوں کیا تُو نے وغیرہ وغیرہ
    اور اسی طرح یہ اندھی محبت بہت سے حقائیق کو جاننے میں‌رکاوٹ بن جائے گی۔

    جیسا کہ قرآنِ عظیم الشان میں‌ارشادِ باری تعالٰی ہے:
    کہ وہ غیراللہ سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیئے۔

    تو ایسی اندھی محبت تو صرف اللہ ہی کے لیئے ہے یا اللہ کے محبوب بندے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیئے، جن کو تمام انبیا کی نسبت یہ عظیم معجزہ عطا ہوا کہ انکا نام، تاقیامت اللہ کے نام کے ساتھ لیا جائیگا۔ یعنی کلمہ ء طیبہ اور کلمہء شھادت۔۔۔

    لیکن میں کسی کی پینڈو جیسی محبت کے پیچھے جو خلوص ہے اس پر اعتراض نہیں کرتا۔ اس سے اللہ ہی واقف ہوتا ہے اور وہی اسکی جزاء اور سزا بھی تجویز کریگا۔
     
  26. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیم فرخ بھائی میری آپ کے توسط سے سب صارفین سے گذارش ہے کہ اب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے موضوع کو خیر آباد کہہ دیا جائے کیونکہ بہت کھل کر گفتگو ہوچکی طرفین کا مؤقف سامنے آگیا دلائل کا بھی انبار لگا دیا گیا اب مزید اس موضوع کو زیر بحث رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں بچتا [highlight=#FFFFFF:2hprcl5h]لہذا میری محترمہ بنت حوا ، نعیم بھائی ۔ عرفان بھائی ،سیف بھائی اور فرخ بھائی آپ سے بھی یہ گزارش ہے کہ اب اس موضوع کو ختم کردیا جائے [/highlight:2hprcl5h]۔ ۔ رہ گئی تفسایر کے اسالیب کی بات تو آپ اس پر ایک نیا تھریڈ لگائیں جس میں تفسایر اور ان کے اسالیب کو آپ اپنے مطالعہ کی بنا پر بیان کریں میں انشاء اللہ وہاں آپ سے اس موضوع پر گفتگو کروں گا والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت
    :dilphool:
     
  27. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ٹھیک ہے اس بحث کو بند کرنے میں کوئی حرج نہیں
     
  28. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اسلام علیم فرخ بھائی میری آپ کے توسط سے سب صارفین سے گذارش ہے کہ اب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے موضوع کو خیر آباد کہہ دیا جائے کیونکہ بہت کھل کر گفتگو ہوچکی طرفین کا مؤقف سامنے آگیا دلائل کا بھی انبار لگا دیا گیا اب مزید اس موضوع کو زیر بحث رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں بچتا [highlight=#FFFFFF:1fgqi8x0]لہذا میری محترمہ بنت حوا ، نعیم بھائی ۔ عرفان بھائی ،سیف بھائی اور فرخ بھائی آپ سے بھی یہ گزارش ہے کہ اب اس موضوع کو ختم کردیا جائے [/highlight:1fgqi8x0]۔ ۔ رہ گئی تفسایر کے اسالیب کی بات تو آپ اس پر ایک نیا تھریڈ لگائیں جس میں تفسایر اور ان کے اسالیب کو آپ اپنے مطالعہ کی بنا پر بیان کریں میں انشاء اللہ وہاں آپ سے اس موضوع پر گفتگو کروں گا والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت
    :dilphool:[/quote:1fgqi8x0]

    جی عابد بھائی
    میں‌آپ سے بالکل متفق ہوں۔ اب جبکہ دونوں اطراف سے مناسب دلائل اور حوالہ جات فراہم ہو چکے ہیں تو یہ متنازعہ مسئلہ اب علماء اکرام کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیئے۔
    جزاک اللہِ خیراً و کثیراً
    :dilphool: [/color
    ]
     
  29. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    میں بھی آبی بھائی کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں اور اس یقین کے ساتھ کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے جو کچھ بھی کہا اس میں نیتا" کسی کی تحقیر یا گستاخی کا شائبہ بھی نہیں تھا التبہ ممکن ہے جوش خطابت میں الفاظ کا استعمال اس انداز میں ہوگیا ہو کہ دوسرے بھائیوں کی دل آزاری ہوئی ہو۔ بہر حال سارے پہلوئوں پر سیر حاصل گفتگو ہو چکی ہے اور اس موضوع کو ختم کرنا ہی مناسب رہے گا۔
     
  30. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0

اس صفحے کو مشتہر کریں