1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

چھ سو برس قدیم ’’ کھڑکی مسجد‘‘ ۔۔۔ محمد ندیم بھٹی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    چھ سو برس قدیم ’’ کھڑکی مسجد‘‘ ۔۔۔ محمد ندیم بھٹی

    انڈیا میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کوبدترین سلوک کا سامنا ہے، 600سال قدیم ''کھڑکی مسجد ‘‘ بھی ان میں شامل ہے۔فیروز شاہ تغلق کے دور میں بننے والی اس مسجد نے کئی ادوار دیکھے، مسلمانوں کے عروج کی بھی گواہ ہے اور1947میں مسلم کش فسادات بھی دیکھے ،یہی وہ مسجد ہے جس کے قلعے میں مسلمانوں نے ہندوئوں کو کئی ہفتے تک پناہ دی ۔لیکن اب وہی ہندو اس مسجد کو شہید کرنے کے درپے ہیں۔ تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہوئے وہ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ اس مسجد کی بنیاد مسلمانوں نے نہیں رکھی تھی بلکہ یہ بھی کوئی قدیم ترین قلعہ ہی تھا۔ یہ مسجد بھی بابری مسجد جیسے دور سے گزر رہی ہے ۔ یہ تاریخی مسجد ایک زمانے میں مسلمانوں کی عبادت اور ہندوئوں کی حفاظت کا مرکز ہوا کرتی تھی، لیکن اب جہاں دوسری مساجد اور تاریخی مقامات کے محافظ مسلمان ایک اذیت ناک دور سے گزر رہے ہیں، وہیں اس مسجد کو بھی اپنے وجود کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔
    ان دنوں منگولوں کے حملے معمول تھے،اسی لئے ہر عمارت میں منگولوں سے دفاع کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا جاتا تھا۔اگر آپ دیکھیں تو اس دور کی سبھی مساجد اور عمارات میں فوجی طرز کی چوکیوں یا حفاظتی نظام کے لئے الگ ہی تعمیرات کی جاتی تھیں، ورنہ منگول تہس نہس کر سکتے تھے۔ مسجد کی تعمیر کے دور میں حکمران آئے روز کی جنگوں اور حملوں سے پریشان تھے ۔اسی لئے اکثر مساجد میں حفاظتی چوکی بھی دیکھنے کو ملتی ہے، بابری مسجد کا بھی یہی سٹائل تھا وہ بھی محفوظ طریقے سے بنائی گئی تھی،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس مسجد کے رقبوں پر قبضہ کیا جانے لگا ۔
    فیروز شاہ تغلق کے وزیر اعظم خان جیہاں جونن خان مغل بادشاہوں کی طرح فن تعمیر کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے،فیروز شاہ خود بھی فن تعمیر کے دلداہ تھے۔فیروز شاہ تغلق دانشور بھی تھے اور مصنف بھی، وہ اپنی خود نوشت '' فتوحات فیروزشاہی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ''اللہ تعالیٰ کی مجھ پر بے شمار مہربیانیاں ہیں ،انہی میں سے ایک مہربانی اس کی سرزمین پر عالی شان مساجد تعمیر کرنا بھی ہے اسی لئے میں نے لاتعداد مساجد ، تعلیمی اداروں اور درگاہوں کی بنیاد رکھی۔فیروز شاہ دفاعی حکمت عملی بنانے میں مہارت رکھتے تھے، ان کا حکم تھا کہ ہر عمارت کوبناتے وقت اس میں قلعے نما مقام کا بندوبست لازمی کیا جائے۔
    شائد ان کے ہی حکم پر ان کے سابق وزیر اعظم نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا، یہ مسجد دوسری مساجد سے کئی حوالوں سے کافی منفرد اور مختلف ہے، سب سے اہم پہلو اس کے گرد و نواح میں واقع قلعہ نما عمارت ہے ۔ جب وزیر اعظم خان جیہاں نے ''کھڑکی ‘‘ نامی قصبے میں ایک عالی شان مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تو انہوں نے اس کے تحفظ کے تمام لوازمات پورے کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ ان کے سابق وزیر اعظم جونن خان نے سات مساجد کی بنیاد رکھیں۔لیکن یہ مسجدان سب میں الگ ہی ذوق جمال رکھتی ہے۔ اس کے وسیع و عریض دالان کے چاروں اطراف میں حفاظتی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں، جبکہ دالان کھلے میدان کی مانند ہے، بعض دوسری مساجد کی طر ح چھت تعمیر نہیں کی گئی۔مقامی رنگ دینے کے لئے اس میں جالی سٹائل کی کھڑکیاں بھی بنائی گئی تھیں کیونکہ ''کھڑکی قصبے‘‘ میں اسی طرز کی عمارات تعمیر کی گئی تھیں۔
    پہلے اس کے اطراف میں خالی مقام پر لوگ قابض ہوئے، وقت کے ساتھ مکانات کی تعمیرات بڑھتی چلی گئیں جبکہ حکومت کوکو ئی پرواہ نہ تھی۔ مسجد کے امام اور علمائے کرام شکایت کرتے رہے، ایک دفتر تحریر جمع ہونے کے باوجود جب کوئی کارروائی نہ ہوئی تو ہندوئوں نے مزید دکانیں بنا لیں ، جن میں بلیئرڈ ہائوس بھی شامل تھے،کچھ نیٹ کیفے بھی بن گئے۔
    حالانکہ یہ مسجد مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کیلئے بھی جائے پناہ تھی۔ 1947کے بدترین مسلم کش فسادات کے دور میں بھی یہ جائے پناہ بنی۔ ہر جانب مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا لیکن اس مسجد کے دالان اور قلعہ میں مسلمانوں نے ہندوئوں کو پناہ دی ۔
    قصبے ''کھڑکی‘‘ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، ہندوئوں کو خطرہ تھا۔ کہیں مسلمان ان پر حملہ نہ کریں ، اگرچہ خطرہ بے بنیاد تھا، کھڑکی قصبے کے 84 سالہ مکین نتھو سنگھ کوشک کے بقول ''انہوں نے مسجد کے قلعے میں جائے پناہ تلاش کی۔اور اس مسجد میں مسلمانوں نے کئی روز تک پہرہ دیا تاکہ اس کے قلعے کے اندر ہندو محفوظ رہیں۔ اگرچہ کوئی ایک مسلمان بھی ہندوئوں کو قتل کرنے نہ آیا لیکن اس مسجد کے قلعے میں ہندوئوں کی جانیں محفوظ رہیں ۔وقت بدلا۔کل کو جنہیں جان بچانے کا شوق تھا آج وہ جانیں لینے کے درپے ہیں۔
    ہجرت کے بعد 'کھڑکی مسجد‘ نے حالات کو پلٹا کھاتے دیکھا۔یہاں مسلمانوں کی آبادی 25فیصد کے قریب ہوگی، لیکن اکثریت کے خوف سے آزادی کے بعد وہ بھی یہاں سے ہجرت کر گئے۔کہاں گئے ،کچھ معلوم نہیں، مارے گئے یا زندہ ہیں اس کا بھی پتہ نہیں۔جاتے وقت وہ اپنی املاک اور مکانات ہندوئوں کی حفاظت میں دے کر گئے ۔لیکن ہندوئوں نے اب مسجد اورمسلمانوں کے مکانات پر قبضہ کرلیا ہے، اور تجاوزات کی تعمیر شروع کر دی ہے۔ ان کاخیال ہے کہ ہندوستان میں جو زمین بھی ہے یہ سب کی سب ہندوئوں کی ملکیت میں ہے ،اس مسجد کو بھی انہوں نے اپنی ملکیت سمجھ لیا۔مسلمانوں نے جن ہندوئوں کو اپنی املاک حفاظت کے لئے دی تھیں وہی قابض بن بیٹھے ۔
    77 سالہ اجیت چوہان نے بتایا کہ ''مسجد کے خارجی حصے میں ،جہاں پابندی نہ تھی ، ہندو بچوں کو بھی آنے کی اجازت تھی۔قلعے کی اس جگہ پر بچوں کو کھیلنے کی اجازت تھی، یہ مسجد کا حصہ نہ تھی بلکہ قلعے میں شامل تھی۔ اس مسجد نے جہاں دلی کی بنتی بگڑتی سیاست کو دیکھا، وہیں
    یہ معاملہ سابق وزیر اعظم نہرو کے علم میں بھی لایا گیا تھا، جنہوں نے مہاجرین کی آبادکا ری کے انتظامات کر دیئے، لیکن مسجد کو خالی رکھنے کا حکم دیا۔اور اذان پر پابندی لگا دی جو اب تک جاری ہے۔1958میں اسے تاریخی عمارت قرار دے کر محکمہ آثارقدیمہ کے سپرد کر دیا گیا،لیکن اس کے کچھ حصوں پر سوسائٹی بنانے کی منظوری دے دی گئی ۔مکانات بن گئے ،بجلی لگ گئی اور سیوریج سسٹم بنا دیا گیا،جس سے مسجد کا حسن گہنا گیا ااور یہ مکانات میں چھپ گئی۔اس کا نام بدل کر ''کھڑکی قلعہ ‘‘رکھ دیا گیا ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں