صرف عبادت گزار اور چور ہی رات کے بدن میں دھڑک رہے ہوتے ہیں - عبادت گزار کے سامنے اس کا مصلیٰ ہوتا ہے اور چور کے سامنے اس کا مسئلہ - عبادت گزار اندر کے سفر پر روانہ ہوتا ہے اور چور باہر کے سفر پر نکل پڑتا ہے - وہ اپنے جوتے اتار کر بڑا با ادب ہو کر مختلف گھروں میں یوں داخل ہوتا ہے جیسے کسی مقدس مقام کی زیارت کو آیا ہو - اگر اس کی آہٹ سے خلق خدا کی نیند میں خلل پڑتا تو وہ شرم کے مارے منہ چھپا کر بھاگ اٹھتا ہے - کیونکہ ہر چور جانتا ہے کہ اگر وہ سامنے آگیا تو چور کے رتبے سے گر کر ڈاکو اور لٹیرا بن جائیگا - اسی لیے تو جس گاؤں میں چور کا چکر لگ جائے وہاں کے سیانے اس کے پاؤں کے نشان سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں - چور اتنا وضعدار اور رکھ رکھاؤ والا ہوتا ہے کہ کچھ مل جائے تو ٹھیک ورنہ چپ چاپ الٹے پاؤں لوٹ جائے گا - ظاہر ہے وہ رشتےدار تو ہے نہیں کہ کہے اگر تمہارے پاس کچھ دینے کو نہیں تو کسی سے قرض لے دو - (از ڈاکٹر یونس بٹ " شیطانیاں " )