1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

چلو جھوٹوں کی شہر میں سچائی بیچنے?????

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از ایم اے رضا, ‏2 مارچ 2013۔

  1. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    پاکستان کی ذات تو پہلے صرف دو لخت ہوئی تھی مگر حالات کی نزاکت کو ہمارے سیاستدانوں ،بیوروکریٹس،جاگیر دار اور سرمایہ دار وڈیروں نے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ ایک اچھا بھلا شخص گھر لوٹنے کے ساتھ سچ اور سچائی کے کئی اوزان اور معیار بھی گھر لاتا ہے اگرچہ وہ اپنے خاندان والوں کے لئے بھر پور کھانا لا سکے یا نہیں لیکن اخبارات ٹی وی چینلز موبائل ٹیکسٹ میسیجز اسے دن بھر کوئی نہ کوئی نیا سچ بہم پہنچاتے رہتے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن کے اپنے سچ اور سچے ہیں پاکستان مسلم لیگ ق کے اپنے سچ اور سچے ہیں اسی طریقے سے اور اسی روش پر پاکستان پیپلز پارٹی کے اپنے سچ اور سچے ہیں اور ان سب کا سب سے عظیم ،حقیقی، برتر ،اعلٰی و ارفعہ کامل ترین اور حسین ترین سچ یہ ہے کہ ان تینوں پارٹیز کے نام سے پہلے پاکستان لگا ہوا ہے اور اسی پاکستان کے سچائی کے معیار میں یہ تینوں پارٹیاں اپنے اپنے مطالب ،منصوبوں اور کاموں کے لئے اپنی اپنی مرضی کے سچ بولتے رہتے ہیں اور عوام کو یہ بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ سچ بول رہی ہے اور ق لیگ جھوٹ اور پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ نہیں ہم سچ بول رہے ہیں اور یہ دونوں جھوٹ ،،۔۔یہ سچ کی جیون کتھا پاکستان اآ کر تبدیل ہوتی ہے آپ اگر دیگر ممالک میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو اآپ کو نہیں ملے گی وہاں کوئی بھی پارٹی ہو اقتدار میں یا اقتدار سے باہر آپ کو ایک ہی معیار ملے گا لیکن اآپ کو پاکستان میں مسلم لیگ کے سچ کے لئے الگ چینل ٹیون کرنا ہو گا اور ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے لئے الگ الگ اور کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے کہ الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد کسی معائدہ کی صورت میں حریف جھوٹے مل کر ایک سچا حلیف بناتے ہیں اور ایک دوسرے کہ سچ کے گیت اور گن گانے لگتے ہیں اور جب پارٹی ورکرز کو اس کا پتا چلتا ہے تو وہ ایک دوسرے کے خلاف ڈنڈے سوٹے واپس رکھ کر خیر سگالی اور امن کے سچ کو پامال کرنے پر تل جاتے ہیں اور ہماری قوم اس قدر جھڈو اور بیوقوف ہے کہ ہر بار ان کے جھوٹ کو سچ مان کر ان کو ووٹ دیتی ہے اور پھر حکومت کو کوستی رہتی ہے ارے جناب جب پاوں پے کلہاڑیاں خود ہی مارنی ہوں تو پھر درد سے بلبلاتے نہیں صبر اور ہمت سے کام لیتے ہیں یا پھر سفارش سے اور ایک اور سب سے بڑا سچ بھی یہ لوگ بولتے اور کرتے ہیں جب کوئی حقیقی ثانی ٕ قائد اعظم اور اس سے بھی اوپریعنی صدیق کی صداقت بن کر عمر کی عدالت بن کر عثمان کی جامعیت بن کر اور علی کی شجاعت بن کر اسمبلی میں آتا ہے تو یہ سب اپنے اپنے معیار اکھٹے کر کے اپنی سچ نما جھوٹی سلطنت کو بچانے کے لئے اسے اتنا مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنا ایمان بچانے کے لئے یا تو استعفی دے کر ایوان سے باہر ہو جائے یا انکے مطالبات مان کر ایمان سے باہر ہو جائے اور ہماری قوم پھر اسی جوش کے ساتھ ان کے سچ سن سن کر اس سچے کو بھی ان جیسا سمجھنے لگتی ہے یہ نہیں پرکھتی وہی حقیقی سچا تھا لیکن قوم نیچاری کیسے پرکھے اسے بھی تو اتنے سچ کے معیار رکھنے جھیلنے اور کرنے کی عادت پڑ چکی ہے تو پھر چلو جھوٹوں کے شہر میں سچائی بیچنے ؟؟؟؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں