1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

چراغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکر تونسوی

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏9 فروری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:


    چراغ

    فکر تونسوی
    ہمارے شہر کے کباڑی بازار کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہاں قدیم سے قدیم اشیا بھی بالکل نئی حالت میں مل جاتی ہیں اور پھر یہاں کے کباڑیوں کے پاس دنیا کی ہر نایاب اور نادر چیز موجود رہتی ہے۔ مثلاً ایک دوست نے مجھ پر یہ عجیب و غریب انکشاف کیا تھا کہ جاپان سے انہوں نے ایک تخت خریدا جس پر سکندراعظم بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن ویسا تخت کباڑی بازار میں بھی اسے دکھایا گیا، جس پر سکندر بیٹھ کر حکومت کرتا تھا۔ غرض یہ کباڑی بازار نوادرات دنیا سے بھرا پڑا تھا۔ اس کباڑی بازارکا ایک لطیفہ بہت مشہور تھا کہ ایک بار ایک بوڑھا آدمی ایک کباڑیے کی دکان پر پہنچا اور بولا ’’کیا آپ کے پاس رنجیت سنگھ کی کھوپڑی ہے۔‘‘ کباڑیے نے بڑے کاروباری تفخر کے ساتھ کہا۔ ’’کیوں نہیں، ابھی حاضر کرتا ہوں۔‘‘ چنانچہ اندر جا کر وہ ایک کھوپڑی اٹھا لایا۔ بوڑھے نے کھوپڑی کو غور سے دیکھ کر کہا ’’معاف کیجیے، میں نے خود رنجیت سنگھ کو دیکھا تھا اس کا سر تو بہت بڑا تھا مگر یہ تو چھوٹا سا سر ہے۔‘‘ کباڑیے نے جھٹ جواب دیا۔ ’’جناب یہ ان کے بچپن کی کھوپڑی ہے۔‘ چنانچہ ایسے عالم گیر قسم کے کباڑی بازار میں کوئی وجہ نہیں تھی کہ مجھے پچیس سال پہلے کی سدھ گھمنڈی جنتری دست یاب نہ ہوتی۔… مگر جنتری نہ ملنا تھی نہ ملی۔ کباڑی بازار کی آخری دکان سے جب میں مایوس ہو کر لوٹ رہا تھا تو کباڑیے نے میرا کندھا پکڑ کر کہا ’’جناب اگر جنتری نہیں ملی تو نہ سہی کچھ اور لے جائیے۔ مگر میری دکان سے خالی ہاتھ مت لوٹیے۔ میری ہاں جنتری سے زیادہ نادر چیزیں موجود ہیں۔‘‘ ’’مثلاً…؟‘‘ میں نے جل بھن کر کہا۔ ’’مثلاً…۔‘‘ کباڑیے نے ایک ٹوٹے پھوٹے گراموفون پر رکھا ہوا ایک میلا کچیلا پیتل کا چراغ دکھاتے ہوئے کہا۔ یہ چراغ لے جائیے۔ یہ ایک تاریخی چراغ ہے۔ شہنشاہ اکبر اس کی روشنی میں بیٹھ کر مطالعہ کیا کرتے تھے۔ کچھ ہنستے ہوئے اور کچھ روتے ہوئے میں نے عرض کیا۔ ’’مگر جناب معاف کیجیے، شہنشاہ اکبر تو ان پڑھ تھے۔‘‘ ’’تو پھر یہ شاہ جہاں ہوگا۔‘‘ کباڑیے نے کاروباری وقار کی خاطر اپنی غلطی کی فوراً تصحیح کر ڈالی۔ اگرچہ جنتری کی بجائے چراغ لے جانے میں کوئی تُک نہیں تھا لیکن نہ جانے کیوں چراغ مجھے پسند آ گیا۔ جیسے انسان کو کچھ چیزیں خواہ مخواہ پسند آ جاتی ہیں۔ جیسے شادی سے پہلے ایک لڑکی مجھے خواہ مخواہ پسند آ گئی تھی، جو بعد میں میری بیوی بن گئی اور عمر بھر کے پچھتاوے کا باعث بنی۔ میں نے اس کباڑیے سے اس چراغ کی قیمت پوچھی اور اس نے شاید یہ سمجھ کر کہ میں کوئی ریسرچ اسکالر ہوں، ’’مغل سیاست میں چراغوں کا رول‘‘ پر ایک تھیسس لکھ رہا ہوں، خاصی زیادہ بتائی۔ میری بیوی نے چراغ کا استقبال بڑی سردمہری سے کیا۔ بالکل ایسے جیسے وہ ہر شامل میرا استقبال کیا کرتی تھی۔ چراغ دیکھ کر اس نے طعنہ دیا کہ تمہارا انتخاب ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔ تم زندگی میں کبھی کوئی صحیح چیز گھر نہیں لائے۔ میں نے کہا ’’میں تمہیں گھر لایا ہوں، کروڑوں عورتوں میں سے منتخب کر کے، کیا میرا یہ انتخاب غلط تھا؟‘‘ بیوی کے لیے اس کی تردید مشکل تھی۔ (اگرچہ ناممکن نہ تھی۔) پھر اس نے اس چراغ میں ایک عجیب خوبی ڈھونڈ نکالی کہ جب کبھی بجلی فیل ہو جائے گی تو اس بحران میں یہ چراغ بڑا سود مند رہے گا۔ اس خوبی کو دریافت کرنے کی دیر تھی کہ بیوی کو ایک دم جیسے چراغ سے محبت ہو گئی۔ اس نے اعلان کیا کہ میں اسے ابھی مانجھ کر شیشے کی طرح چمکا دیتی ہوں۔ میری بیوی کو سگھڑاپے کا مرض لاحق ہے۔ بلکہ اس کے میکے والے دنیا بھر میں پروپیگنڈہ کرتے پھرتے تھے کہ ہم نے ایک سگھڑ بیٹی ایک نالائق آدمی سے بیاہ دی ورنہ اس نالائق خاوند کا گھر آج تک نیلام ہو چکا تھا۔ (اور یہ بات پروپیگنڈہ کے باوجود صحیح تھی) مگر جوں ہی بیوی نے آنگن میں جا کر اُپلوں کی راکھ سے شہنشاہ اکبر کے اس چراغ کو رگڑنا شروع کیا، اچانک ایک دہشت ناک سا دھماکہ ہوا، اور آنگن کی زمین پھٹی۔ زمین سے دھوئیں کا ایک طوفان اٹھا، اور اس دھویں میں سے تقریباً پندرہ فٹ لمبا ساڑھے سات فٹ چھوڑا ایک خوف ناک مگر مہیب صورت دیو نمودار ہوا۔ اور گرج کر بولا۔ ’’اے الہٰ دین! میں تیرا غلام ہوں! میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ میں اس وقت برآمدہ میں ایک آئینہ کے سامنے کھڑا اپنی داڑھی کے چند تازہ تازہ سفید بال گن رہا تھا۔ دھماکے اور دھویں سے گھبرا کر میں اپنی اکلوتی بیوی کی طرف دوڑا، جو اس وقت تک دو تین گز دور جا پڑی تھی۔ اور کراہ رہی تھی۔ سچ مانیے تو اتنے بڑے گھناؤنے دیو کو دیکھ کر میرے اپنے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ دیو ہاتھ جوڑے ہوئے گرج کر بولا۔ ’’میں الہٰ دین چراغ کا دیو ہوں اور یہ عورت الہٰ دین ہے اور میں اس کا غلام ہوں۔‘‘ ’’معاف کیجیے، یہ تو شیلا ہے۔ الہٰ دین نہیں ہے۔ الہٰ دین کمہار کا گھر اگلے چوک پر ہے۔ آپ غلطی سے الہٰ دین کے بجائے شیلا کے گھر آ گئے ہیں۔‘‘ دیو نے میری تشریح کو کلیتاً رد کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں نہیں جانتا۔ جس انسان کے پاس یہ چراغ ہو گا وہ الہٰ دین ہوگا۔ اس لیے یہ عورت بھی الہٰ دین ہے۔ اس نے مجھے بلا لیا ہے۔ اور یہ مجھے جو حکم دے گی میں اس کی تعمیل کروں گا۔‘‘ حکم دینے والی الہٰ دین کی گھگھی بندھ چکی تھی، اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ مجھے فوری خطرہ یہ لاحق ہو رہا تھا کہ کہیں میرے بچوں کی اس واحد ماں کا ہارٹ فیل نہ ہو جائے۔ کیونکہ وہ گزشتہ پانچ برس سے ضعف قلب کا شکار تھی اور ڈاکٹر کا آخری بل ادا کیے ہوئے ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے۔ بیوی کے ہارٹ فیل ہونے کے احساس سے میرا اپنا ہارٹ دھڑکنے لگا کہ میری بیوی کے بیوہ ہونے میں صرف ایک آدھ منٹ کی کسر باقی ہے۔ مگر نہ جانے میری بیوی کے کون سے اچھے کرموں کا پھل تھا کہ میں نے اپنے آپ کو فوراً سنبھال لیا اور کہا۔ ’’جاؤ تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کو بلا لاؤ‘‘ مگر دیو ٹس سے مس نہ ہوا۔ جما کھڑا رہا۔ ’’جاؤ۔ جاتے کیوں نہیں اے غلامِ نمک حرام!‘‘ دیو نے دھمکی دی۔ ’’جس کے پاس چراغ ہے میں صرف اسی کا حکم مانوں گا۔ تم کون ہوتے ہو حکم دینے والے؟‘‘

     

اس صفحے کو مشتہر کریں