1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

چار شہدا کی ماںحضرت خنساء رضی اللہ عنہا

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    عربوں کو اللہ نے زبان دانی کا ایسا جوہر عطا فرمایا ہے جس کی مثال کسی دوسری زبان میں کم ہی مل سکتی ہے ۔ عرب شعرا کے کلام میں بلا کی تاثیر اور اظہار جذبات کا بے مثال نمونہ ملتا ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض اشعار میں بڑی حکمت و دانائی ہوتی ہے ۔ آپ اچھے شعر کو سن کر خوش بھی ہوتے اور اس کی تعریف بھی فرماتے تھے ۔ آپ کے صحابہ میں سے بھی کئی لوگ بڑے اچھے شعرا تھے ۔ ان لوگوں نے اپنے اشعار سے کفار کا خوب مقابلہ کیا ۔ زبان و قلم کے جہاد کی بڑی فضیلت ہے ۔
    اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے ” ہم نے اپنے نبی کو شعر نہیں سکھایا ہے نہ ہی شعر اس کے شایان شان ہے ۔“ ( سورہ یسین آیت 94 ) آپ کو بذریعہ وحی جو کچھ عطا فرمایا گیا تھا وہ کلام الہی ہے، پوری انسانیت کے لیے ذکر اور نصیحت ہے ۔ آنحضور جب کبھی کوئی شعر پڑھتے تو اس کے الفاظ اور مصرعے آگے پیچھے ہو جاتے تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اشعار کی تصحیح کرتے تو آپ فرماتے ” بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور مفہوم تو بہر حال یہی ہے ۔“ آپ کے صحابہ میں کئی مایہ ناز شعرا کے نام ملتے ہیں جیسے حضرت حسان بن ثابت ۔ حضرت کعب بن مالک ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم اور خواتین میں حضرت خنسا ء رضی اللہ عنہا۔ آپ نے حضرت خنساء کے وہ اشعار سنے جو انہوں نے اپنے بھائی کے مرثیے کے طور پر کہے تھے تو فرمایا ” خنساء"ارثی العرب" ہے ۔“ (خنساء عربی زبان کی سب سے بڑی مرثیہ گو ہے ۔)
    حضرت خنساءرضی اللہ عنہا بڑی عظیم خاتون تھیں ۔ ان کی زندگی کا جاہلی دور اور اسلامی دور ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ۔ وہ حقیقی انقلاب کی بہترین مثال ہیں ۔ حقیقی انقلاب وہ ہوتاہے جو دل کی دنیا کو بدل دے ۔ انہوں نے اپنے بھائی معاویہ بن عمرو کے قتل پر بھی مرثیے لکھے تھے ۔ لیکن دوسرے بھائی صخر بن عمرو کے قتل پر تو ایسے دردناک اشعار مسلسل کئی سال تک کہے جن کو سن کر مخالف قبیلے کے لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے تھے ۔ انہوں نے اپنا گریبان چاک کر لیا تھا ۔ سر میں خاک ڈال لی تھی اور قسم کھا ئی تھی کہ جب تک بھائی کے خون کا انتقام نہ لے لیا جائے وہ اسی حال میں رہیں گی۔
    اپنے ایک مرثیے میں وہ کہتی ہیں ” سورج کا طلوع و غروب اپنے معمول کے مطابق جاری ہے مگر ہر طلوع آفتاب صخر کی جدائی کا پیغام لے کر آتاہے اور دل پر آرے چلاتاہے ۔ ہر غروب آفتاب غم کی اتھاہ گہرائیاں لے کر سیاہ رات مسلط کر دیتاہے اور مجھے صخر کی یاد تڑپاتی ہے ۔ میں مانند بسمل تڑپتی ہوں ۔ نہ موت کی آغوش نصیب ہوتی ہے نہ زندگی کی مسکراہٹ کا سرا ہاتھ آتا ہے ۔ صخر تیرے فراق میں میری آنکھیں بے نور ہوا چاہتی ہیں مگر تیری رفاقت و معیت نے سالہا سال مجھے خوشیوں اور مسرتوں کی بہار یں بھی تو دکھائیں۔ مقتولین پر آہ و زاری اچھی نہیں ہوتی لیکن تجھ پر رونا قابل تحسین و ستائش ہے کہ تو واقعی بے مثال شہسوار اور منبع جود و سخا تھا ۔“
    حضرت خنساء کی یہ کیفیت کئی سال رہی ۔ آخر اللہ نے ان کی قسمت بدلنے کا فیصلہ فرما لیا ۔ توحید کی روشنی فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہوئی ۔ پھر یثرب کو مینارہ نور بننے کا شرف ملا۔ خنساء کی جوانی ڈھل چکی تھی ۔ اب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہو چکی تھی ۔ انسانیت نے صدیوں تک تاریکیوں میں دھکے کھائے تھے اب انسانوں کے درمیان حق کا چراغ روشن تھا ۔ قبیلہ بنو سلیم میں جب یہ دعوت اور روشنی پہنچی تو خنساءکو یہ پیغام مانوس اور پسندیدہ محسوس ہوا ۔ خوش بخت تھیں ، لمبا سفر کر کے مدینے آئیں ۔ آنحضور کی خدمت میں حاضری دی اور اپنے قبیلے کے پورے وفد کے ساتھ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو گئیں۔ اس موقع پر آنحضور نے ان کا دل نشین کلام سنا اور ان کی تعریف کی ۔
    قبول اسلام کے چند دنوں بعد وہ اپنے علاقے میں واپس چلی گئیں مگر کچھ ہی عرصہ گزرا تھاکہ بے قرار ہو کر واپس مرکز اسلام میں آگئیں اور پھر یہیں مقیم ہو گئیں ۔ ایران و روم کے مقابلے پر جنگیں جاری تھیں ۔ یہ حضرت عمر بن خطاب کا دور خلافت تھا اور حضرت سعد بن ابی وقاص ایران کے مقابلے پر قلعے پہ قلعے فتح کرتے کسریٰ کی نام نہاد سپریمیسی کو خاک میں ملا رہے تھے ۔ ایرانیوں نے بالآخر ہاتھیوں کی فوج مقابلے میں لانے کا فیصلہ کیا ۔ حضرت سعد نے امیر المومنین کی خدمت میں خط لکھا کہ ان کی مدد کے لیے تازہ دم فوج روانہ کی جائے ۔ جب امیر المومین نے مدینہ میں اعلان کیا تو مجاہدین فوراً جہاد پر جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس تازہ دم لشکر اسلام کو مدینے سے رخصت کرنے کے لیے باہر تک پیدل چلتے ہوئے ساتھ ساتھ گئے ۔اس موقع پر وہ دعائیں بھی دیتے رہے اور نصیحتیں بھی کرتے رہے ۔ عین اس موقع پر آپ نے ایک اونٹ پر ایک بوڑھی عورت کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا ” آپ کہاں جا رہی ہیں ؟“ وہ فرمانے لگیں ” اپنے چار نوجوان فرزندوں کے ساتھ میدان جہاد میں جا رہی ہوں ۔“ یہ بوڑھی خاتون سیدہ خنساء بنت عمرو تھیں ۔ یہ مجاہدین جب میدان جنگ میں پہنچے تو حضرت خنساء نے اپنے بچوں کو رات کے وقت اپنے خیمے میں ایک یاد گار نصیحت فرمائی ۔
    ” میرے بچو تم نے اپنی رضا اور خوشی سے اسلام اور ایمان کی دولت کو سینے سے لگایا ۔ پھر اللہ کی راہ میں ہجرت کا شرف بھی حاصل کیا ۔ خدا کی قسم جس طرح تم ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہو اسی طرح ایک باپ کے صلب سے پیدا ہوئے ہو ۔ میں نے تمہارے باپ سے کبھی خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو کبھی رسوا کیا ۔ تمہارا حسب اور نسب ہر عیب اور داغ سے پاک ہے ۔ آخرت کی دائمی زندگی دنیاکی حیات فانی سے کہیں بہتر ہے ۔ اگر میدان جنگ میں لوگوں کے قدم اکھڑ یں تو تم آگے بڑھنا ۔ اللہ کا ذکر اور دعائیں کرتے ہوئے میدان میں ڈٹ جانا ۔ خبردار اگر تم میدان جنگ سے بھاگ کر آئے تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔ اللہ کے راستے میں جان قربان کر دینا سعادت اور جہاد سے منہ موڑنا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ “
    چشم فلک نے اس روز وہ ہولناک منظر دیکھا جو کم ہی دیکھنے میں آتاہے۔ جب ہاتھیوں کے لشکر نے ہلہ بولا تو آغاز میں غازیوں کے قدم اکھڑ گئے ۔ اللہ اکبر ! آج فاتحین پر بڑا کڑا وقت آ گیا تھا ۔ عین اس لمحے سیدہ خنساء کے چاروں بیٹوں نے ایک دوسرے کو نام بنام پکار کر کہا ” ماں کی نصیحت کو یاد کرو۔ “ چنانچہ وہ آگے بڑھے اور ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹنا شروع کر دیں ۔ ہاتھی کے پورے جسم میں کانوں سے لے کر دم اور سر سے لے کر پاؤں تک کوئی حصہ ایسا نہیں ہوتا جس پر تیر ، تلوار یا نیزہ کوئی اثر دکھا سکے ۔ صرف سونڈ وہ حصہ ہے جو نرم ہوتاہے اور تلوار سے کاٹا جا سکتاہے ۔ اب ایرانی ہاتھی بلبلا کر پیچھے کی جانب بھاگنا شروع ہو گئے ۔ اکھڑے ہوئے قدم جم گئے ۔ گھمسان کا رن پڑا ۔ دونوں جانب سے لاتعداد لوگ قتل اور شہید ہوئے اور ان سے زیادہ زخمی اور مجروح ہوئے ۔ شام کو لوگ اپنے اپنے خیموں میں واپس پلٹے تو معلوم ہوا کہ کون زندہ سلامت واپس آیا اور کون خلعت شہادت سے سرفراز ہوا ہے ۔شام کے جھٹپٹے میں ہی اس خیمے میں چراغ جل رہاتھا اور آج اس میں بوڑھی خنساءتنہا بیٹھی تھیں ۔ اس خیمے میں کوئی بھی واپس نہ آیا ۔ سعد بن ابی وقاص کو معلوم ہوا تو خود چل کر اس خیمے میں پہنچے ۔ بہادر اور جری سعد کے لیے زبان سے ایک لفظ نکالنا بھی مشکل ہورہاتھا ۔
    خنساء نے پوچھا ”سعد بتاؤ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ “۔ سعد نے بمشکل یہ اطلاع دی کہ خنساء کے چاروں بیٹے میدان جنگ میں شہید ہو گئے ہیں ۔ ماں نے پھر پوچھا ” جنگ کا نتیجہ کیا نکلا ؟“ سید سالار نے بتایا کہ ”اللہ نے فتح عطا فرمائی ہے ۔“ یہ سننا تھاکہ سیدہ خنساء سجدے میں گر گئیں ۔ ان کی زبان پر نہ کوئی نوحہ تھا نہ بین اور مرثیہ ۔ وہ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھیں اور زبان سے مسلسل کہہ رہی تھیں ”اے اللہ میں نے یہ قربانی تیرے راستے میں پیش کی ہے تو اسے قبول فرما لے ۔ اے اللہ بوڑھی ماں کو اپنے بچوں سے جنت میں ملا دینا ۔ “
    کہاں وہ جاہلی زندگی کے شب و روز اور کہاں آج اسلام و ایمان کی عزیمت و قربانی کی یہ مثال ! یہی تو حقیقی انقلاب ہے جو دل و دماغ اور سوچ فکر کو نئے سانچے میں ڈھال دیتاہے ۔ آج بھی شہدا کی مائیں انہی جذبات کا اظہار کرتی ہیں ۔جب ان کے لخت جگر میدان قتال میں داد شجاعت دیتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنے اسلاف کی تاریخ کو زندہ کر دیتے ہیں توماؤں کے دل حضرت خنساء والی کیفیت سے مالا مال ہو جاتے ہیں ۔ حضرت خنساء نے اپنے دور ایمانی میں کئی مرتبہ اپنے مقتول بھائیوں کی یاد میں ان جذبات کا اظہار بھی کیا کہ اگر وہ حالت ایمان میں اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جاتے تو دل کو قرار آ جاتا مگر ہائے حسرت کہ وہ جاہلی زندگی میں موت سے ہمکنار ہو گئے۔ اسلام ایک قوت ہے، ناقابل تسخیر ! ایمان اور شوق شہادت ایک دولت ہے ، بے بہا و بے بدل ۔ اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسلام کی صحیح قدر و قیمت جاننے کا وقت ہے پھر ہم پر اللہ کے فضل سے کوئی غالب نہیں آ سکتا
     
  2. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    اچھا ہے کافی
     
  3. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    جزاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں