1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیغام شہادت امام حسین رضٰی اللہ عنہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏19 دسمبر 2009۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

    تحریر : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ​

    شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ یزیدیت جو بدبختی ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ بن گئی اور حسینیت جو عدل، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ٹھہری، قیامت تک حسین بھی زندہ رہے گا اور حسینیت کے پرچم بھی قیامت تک لہراتے رہیں گے، یزید قیامت تک کے لئے مردہ ہے اور یزیدیت بھی قیامت تک کے لئے مردہ ہے، حسین رضی اللہ عنہ کی روح ریگ کربلا سے پھر پکار رہی ہے۔ آج سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی روح اجڑے ہوئے خیموں سے ہمیں صدا دے رہی ہے۔ آج علی ا کبر اور علی اصغر کے خون کا ایک ایک قطرہ دریائے فرات کا شہدائے کربلا کے خون سے رنگین ہونے والا کنارہ ہمیں آواز دے رہا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والو! حسینیت کے کردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کرو۔ یزیدیت کو پہچانو، یزیدیت تمہیں توڑنے اور تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے، حسینیت تمہیں جوڑنے کے لئے ہے۔ حسینیت اخوت، محبت اور وفا کی علمبردار ہے، یزیدیت اسلام کی قدریں مٹانے کا نام ہے۔ حسینیت اسلام کی دیواروں کو پھر سے اٹھانے کا نام ہے، یزیدیت قوم کا خزانہ لوٹنے کا نام ہے، حسینیت قوم کی امانت کو بچانے کا نام ہے۔ یزیدیت جہالت کا اور حسینیت علم کا نام ہے۔ یزید ظلم کا اور حسین امن کا نام ہے۔ یزید اندھیرے کی علامت ہے اور حسین روشنی کا استعارہ ہے۔ یزیدیت پستی اور ذلت کا نام ہے جبکہ حسینیت انسانیت کی نفع بخشی کا نام ہے۔

    اس دنیائے فانی میں اپنے مکرو فریب اور جبروتشدد سے حاصل کی ہوئی قوت کے بل بوتے پر کسی کا بظاہر کامیاب نظر آنا اور اقتدار حاصل کرلینا، اصل کامیابی نہیں۔ بلکہ حقیقی اوردائمی کامیابی یہ ہے کہ انسان کو تخت ملے یا تختہ وہ دنیاوی جاہ وحشمت کے لئے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کا دامن نہ چھوڑے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ
    مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُO (آل عمران، 3 : 197)
    ’’(ان کے) یہ (دنیاوی) فائدے تھوڑے ہی دنوں کے لئے پھر (آخر کار) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے،،۔
    بتایا جارہا ہے کہ ظالم و فاسق لوگوں کا کچھ وقت کے لئے اقتدار کے نشے میں بدمست ہونا تمہیں ان کی کامیابی کا مغالطہ نہ دے کیونکہ ان کے یہ دنیاوی فوائد تو چند روزہ ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ گرفت فرمائیں گے تو یہ سب مال و متاع اور جاہ و حشمت دھری کی دھری رہ جائے گی اور یہ لوگ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ مزید برآں آخرت کے ساتھ ان کی دنیا بھی جہنم زار بنادی جائے گی۔ بے شمار لوگ ایسے ہوئے کہ جو کرسی اقتدار پر بیٹھ کر تکبر کرتے رہے اور اپنے زعم باطل میں خدا بن بیٹھے مگر ان کا انجام یہ ہوا کہ وہ نہ صرف اس جھوٹی خدائی کے تخت سے ہٹا دیئے گئے بلکہ انہیں اسی دنیا میں نشان عبرت بنا کر نیست و نابود کردیا گیا۔ کسی شاعر نے ایسے ہی نشہ اقتدار میں بدمست حکمران کے لئے کیا خوب کہا ہے۔

    تم سے پہلے بھی کوئی شخص یہاں تخت نشیں تھا
    اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا

    جو شخص اللہ کے دین سے بغاوت کرتا ہے، قوت ربانی کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے چند دنوں کے لئے اسے ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ وہ ظلم میں اپنی انتہاء اور بدبختی میں اپنی آخری حد کو پہنچ جائے۔ جب اس کا ظلم اپنے انجام کو پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ کا عذاب اور گرفت آتی ہے، اسے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے اور آنے والی نسلوں میں اس کا نام تک لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یزید کہ جس نے دنیا کی چند روزہ حکومت اور اقتدار کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرتے ہوئے خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم کی انتہاء کردی اور کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں بھوک اور پیاس سے نڈھال اہل بیت نبوت اور ان کے انصار میں سے ستر افراد کو شہید کیا تھا اسی یزید پر وہ وقت بھی آیا کہ لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ستر افراد کے بدلے میں تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار یزیدیوں کو قتل کیا گیا۔ یزید کہ جس نے مدینہ طیبہ میں گھوڑوں اور اونٹوں کا لشکر بھیجا تھا، تین دن تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لشکر کے گھوڑوں کو باندھا گیا اور تین دن تک مسجد میں نمازیں اور جماعتیں معطل رہیں اس پر وہ وقت بھی آیا کہ اس کی قبر پر اونٹ اور گھوڑے باندھے گئے جہاں وہ گندگی پھیلاتے تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کا خانوادہ خود تو شہید ہوگئے مگر اسلام کو زندگی عطا کرگئے، خود تو دنیا سے رخصت ہوگئے مگر امت کو جینا سکھاگئے۔

    بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ

    مضمون جاری ہے ۔۔
     
  2. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغام شہادت امام حسین رضٰی اللہ عنہ

    برادر بھائی اس شیئرنگ کا شکریہ
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: پیغام شہادت امام حسین رضٰی اللہ عنہ

    شکریہ ا س شئیرنگ کا برادر جی
     
  4. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جواب: پیغام شہادت امام حسین رضٰی اللہ عنہ

    گذشتہ سے پیوستہ ۔۔

    پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ
    شہادت حسین رضی اللہ عنہ ہمیں دو طرح کا پیغام دیتی ہے۔ ​

    نمبر 1 ۔ عملی جدوجہد کا پیغام

    شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ، تعلق حسین رضی اللہ عنہ اور نسبت حسین رضی اللہ عنہ کو رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے عمل، حال اور حقیقت میں بدل دیا جائے، اسے حقیقی زندگی کے طور پر اپنایا جائے یہی نسبت اور تعلق ہمارا اوڑھنا بچھونا ہو۔ اس نسبت اور تعلق کو حقیقی زندگی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہچان لیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے؟ یزید نے اسلام کا کھلا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی۔ مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ اسلام کا نام لیتا تھا، بیعت بھی اسلام پر لیتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز پڑھتا ہوں، اسلام کا کھلا انکار تو ابولہبی ہے، یزیدیت یہ ہے کہ اسلام کا نام بھی لیا جائے اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے، اسلام کا نام لیا جائے اور امانت میں خیانت بھی کی جائے، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت مسلط کی جائے، اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے اور اسلام کے مقدس نام کو پامال کیا جائے۔ یزیدیت، اسلام سے منافقت اور دجل و فریب کا نام ہے۔ اسلامی نظام کے ساتھ دھوکہ کرنے، امانتوں میں خیانت کرنے، بیت المال میں خیانت کرنے اور قومی ذرائع اور دولت کو اپنے تعیشات پر خرچ کرنے کا نام یزیدیت ہے۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج ہم سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ میری محبت کا دم بھرنے والو! میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہی ہے یا میری محبت میں آج تم پھر کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں آج تم پھر وقت کے یزیدوں کو للکارتے ہو یا نہیں۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے، آج پھر ایک نیا معرکہ کربلا برپا ہوتا دیکھنا چاہتی ہے اور تمہارے صبرو استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ روح حسین رضی اللہ عنہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کون اسلام کا جھنڈا سر بلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے۔ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سبق یہ ہے کہ دیکھو! کیا تمہارے دور کے حکمران اسلام کا نام لینے میں مخلص ہیں؟ کیا وہ اسلامی نظام کو نافذ کرنے اور بپا کرنے میں مخلص ہیں؟ کہیں وہ اسلام کی امانت میں خیانت تو نہیں کررہے یا اسلامی نظام کے نفاذ میں دھوکہ تو نہیں کررہے؟ اگر وہ اسلام کا نام بھی لیتے ہیں اور منافقت اور دجل و فریب بھی کرتے ہیں توجان لو کہ ان کا کردار یزیدیت کا کردار ہے۔ حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے، حسینی لشکر کے غلام بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کے لئے خواہ تمہیں اپنا مال، اپنی جان اور اپنی اولادیں ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑیں۔

    نمبر 2۔ امن کا پیغام

    اہل ایمان کے لئے شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا دوسرا پیغام، امن کا پیغام ہے۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کی قربانی اور اپنے اہل وعیال کی قربانی دے کر اس وقت امت مسلمہ کو خانہ جنگی کے فتنے سے بچا لیا۔ ان سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور امام حسن رضی اللہ عنھما نے بھی سلطنت اسلامیہ کی یکجہتی کے لیے اور امن کے قیام کے لیے قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی ۔

    لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کا مہینہ آتا ہے تو پورے پاکستان اور امت مسلمہ کے لئے فسادات کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ گولیاں چلنے لگتی ہیں، کرفیو نافذ ہونے لگتا ہے، قتل و غارت گری ہوتی ہے، ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے ہیں، جنگ اور فتنہ و فساد کا ایک عجیب ماحول بن جاتا ہے، ایک طبقہ دوسرے طبقے کی عبادت گاہوں میں خود کش اور دیگر مسلم کش حملے کرتا نظر آتا ہے یہی عمل دوسرے طبقے کی طرف سے بھی رد عمل میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور یوں غیر مسلموں کے لئے مسلم قوم وجہ استہزاء بن جاتی ہے۔

    غیروں کے نزدیک مسلمان نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر متفق ہیں، نہ صحابہ اور اہل بیت پر، ان کا قرآن پر اتفاق ہے نہ اسلام پر، بلکہ یہ تو ایسی امت ہے جو امن پر بھی متفق نہیں ہے آخر کس منہ سے ہم عالم کفر کے سامنے اسلام کی بات کریں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں۔

    بشکریہ ۔ منہاج ڈاٹ آرگ

    نوٹ ۔ مضمون جاری ہے۔
     
  5. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جواب: پیغام شہادت امام حسین رضٰی اللہ عنہ

    گذشتہ سے پیوستہ ۔۔

    پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ
    شہادت حسین رضی اللہ عنہ ۔ نسخہء اتحاد امت ۔ ​

    نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔ ایمان کا مرکز ومحور

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت وتعلق ایمان کا مرکز و محور ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔

    مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا۔(الفتح، 48 : 29)

    ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں،،۔

    اس آیۃ کریمہ میں صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کا تعارف کروایا جارہا ہے لیکن تعارف اور شناخت کروانے کے لئے ان کی صفات کو سرفہرست بیان نہ کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان مقدس ہستیوں کی شناخت والذین معہ کہہ کر کروائی ہے کہ ان تمام کی شناخت اور پہچان یہ ہے کہ یہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنگت اور صحبت والے ہیں۔ دوسرے لوگوں سے ان کی انفرادیت اور امتیاز یہ ہے کہ انہیں آپ کی رفاقت نصیب ہوئی ہے۔

    اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت کا تعلق


    سورہ الفتح کی مذکورہ آیت مبارکہ میں والذین معہ کے الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اہل بیت پاک اور صحابہ کرام دونوں سے برابری کا تعلق رکھنا ضروری ہے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنگت اور نسبت والوں میں سے کسی ایک سے منہ پھیرلیا، خواہ وہ صحابہ کرام ہوں یا اہل بیت پاک، اس نے اپنا آدھا تعلق تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کاٹ لیا اور اپنے آدھے ایمان کو مفلوج کرلیا لہذا اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کامل تعلق قائم اور ایمان سلامت رہے تو پھر اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام دونوں کا ادب و احترام اور محبت و تعظیم اپنے اوپر لازم کرلے۔

    امت مسلمہ کی طبقاتی تقسیم

    بدقسمتی سے تاریخی حالات کچھ اس طرح کے ہوئے ہیں کہ امت مسلمہ مختلف طبقات میں تقسیم ہوتی چلی گئی ہے اگرچہ ایک جماعت ہر دور میں موجود رہی ہے جس نے اعتدال کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ تاہم ذیل میں ہم ان دو گروہوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں سے ایک گروہ حُبِّ اہل بیت میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ نوبت بغضِ صحابہ تک جا پہنچی جبکہ دوسرا گروہ حُبِّ صحابہ میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ نوبت بغضِ اہل بیت تک جاپہنچی۔ بعض لوگوں نے اہل بیت اطہار کی طرف جھکاؤ کیا اور اس نسبت میں وہ اتنا آگے بڑھ گئے کہ صحابہ کرام کے طبقے کی اہمیت اور تعلق ان کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ یک طرفہ تعلق میں وہ اتنا آگے بڑھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کٹ گئے، جب تعلق کٹ گیا تو صحابہ کرام کی نسبت اعتقاد، سوچ اور فکر میں وہ ادب و احترام اور محبت نہ رہی جو کہ ضروری تھی گویا انہوں نے ایمان کے ایک حصے کو قبول کیا اور دوسرے کو ترک کردیا۔ یہ کیفیت سیدنا حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے آخری دور میں اس وقت کے معروضی حالاتِ سیاست، بنو امیہ کے اس وقت کے حکمرانوں اور بطور خاص یزیدیوں کے معرکہ کربلا میں اہل بیت اطہار کے ساتھ ظالمانہ، فاسقانہ سلوک اور بربریت و درندگی نے پیدا کی۔

    جب اس گروہ کی توجہ صرف اہل بیت اطہار پر اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی دوسری جہت یعنی صحابہ کرام کو اس گروہ نے نظر انداز کردیا تو رفتہ رفتہ نہ صرف صحابہ کرام سے تعلق ٹوٹا بلکہ ذہن بھی بالعموم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے خلاف ہوگئے۔ ان کا مقام و مرتبہ ذہنوں سے اتر گیا اور ان کے فضائل و کمالات اور ایمان میں درجات ذہنوں سے محو ہوگئے۔ اس کے رد عمل میں کچھ لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذکر کو اسی طرح اجاگر کیا جس طرح ایک گروہ نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کے طبقے کو اجاگر کیا تھا۔ انہوں نے اپنی توجہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذکر پر مرکوز رکھی اور رد عمل کے طور پر اپنا قلبی، جذباتی اور ذہنی تعلق اہل بیت اطہار سے کاٹ لیا اور صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ذکر کرتے کرتے اور اہل بیت کا ذکر چھوڑتے چھوڑتے نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جس طرح پہلا گروہ صرف اہل بیت رضی اللہ عنھم کو ایمان کا حصہ تصور کرتا ہے اور خود کو نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کاٹ چکا ہے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مقام و مرتبہ کو بھی داخل ایمان نہیں سمجھتا اسی طرح دوسرا گروہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے تعلق ہی کو ایمان گردانتا ہے اور اہل بیت پاک سے اپنا قلبی اور جذباتی تعلق ختم کرچکا ہے۔ اس بد نصیب امت کی حالت اب یہ ہے کہ اس میں دو گروہ اب واضح طور پر ایک دوسرے کی ضد بن چکے ہیں۔ ایک طبقے کو یہ تاثر دیا جارہا ہے اور کئی نسلوں سے ذہن یہ بنائے جارہے ہیں کہ سنی وہ ہے جو فقط صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بات کرے۔ اگر کوئی حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ یا دیگر آئمہ اہل بیت کی بات کرتا ہے، واقعہ کربلا بیان کرتا ہے یا اہل بیت اطہار سے محبت اور ان کے فضائل کا ذکر کرتا ہے تو فوراً یہ ’’الزام،، دے دیا جاتا ہے کہ یہ تو شیعہ ہے، شیعہ نواز ہے یا شیعت کی طرف جھکاؤ ہے۔ اسی طرح دوسرے طبقے کا یہ ذہن بنادیا گیا ہے کہ اگر اہل بیت پاک کی بات ہو تو مومن اور مسلمان ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بات ہو تو مسلمان ہی نہیں۔ اس طرح ایک طبقے نے صرف اہل بیت پاک کو اپنالیا اور ایک طبقے نے فقط صحابہ کرام کو۔ یوں اس امت کو ظالمانہ انداز سے دو دھڑوں میں تقسیم کردیا گیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت، غلامی اور تعلق کو اپنے گروہ کے ساتھ مختص قرار دے کر ایمان کے دو ٹکڑے کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم سے تعلق ایمان کا ایک حصہ تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے تعلق ایمان کا دوسرا حصہ تھا۔ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک نے ایمان کے ایک حصے کو اپنالیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا۔ دین اسلام پر اس سے بڑا اور کوئی ظلم نہیں ہوگا کہ اہل بیت اطہار کی محبت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بے ادبی کی جائے۔ اسلام کے اندر اس چیز کی کوئی گنجائش نہیں، بے شک اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کی محبت عین ایمان ہے۔ جس شخص کے دل میں اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت نہیں وہ مسلمان نہیں۔ وہ اسلام سے خارج اور جہنم کا ایندھن ہے۔ دل کے اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت سے خالی ہونے کا مطلب دل کا اسلام، ایمان، قرآن اور نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ہونا ہے۔ جس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایمان میں یہ درجہ ہے اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایمان میں یہی درجہ ہے لہذا جو شخص صحابہ کرام بشمول خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کی طرف سے کسی کی طرف کسی قسم کی ناپاکی منسوب کرتا ہے خواہ وہ اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت کے نام پر کرے یا کسی اور حوالے سے وہ شخص کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ وہ صحابہ کرام، خلفائے راشدین یا ازواج مطہرات کا ہی منکر نہیں وہ منکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

    اہل بیت کون ہیں؟

    بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے۔

    بیت نسب
    بیت مسکن یا بیت سکنٰی
    بیت ولادت۔

    اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں۔

    اہل بیت نسب
    اہل بیت سکنٰی
    اہل بیت ولادت

    ٭ اہل بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتہ دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتہ دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً چچا، تایا، پھوپھی وغیرہ نسب کے رشتے ہیں۔

    ٭ اہل بیت مسکن سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی۔

    ٭اہل بیت ولادت سے مراد وہ نسل ہے جو گھر میں پید اہوئی ہے۔ اس میں بیٹے، بیٹیاں اور آگے ان کی اولاد شامل ہے۔ جب مطلق اہل بیت کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد مذکورہ تینوں طبقات ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ اہل ایمان ہوں۔ ان میں سے کسی ایک طبقے کو خارج کردینے سے اہل بیت کا مفہوم پورا نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

    إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO (الاحزاب، 33 : 33)

    ’’اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دےo،،

    یعنی اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے دامن، سیرت، کردار اور اعمال کے ظاہر وباطن کو ہر نجس اور ناپاکی سے اس طرح پاک فرما دے کہ تم طہارت اور پاکیزگی کا قابل تقلید نمونہ بن جاؤ اور قیامت تک طہارت اور پاکیزگی تم سے جنم لیتی رہے۔

    جب انسان متعصب ہوجاتا ہے تو پھر اسے اپنے مطلب کی چیز کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جب دین تعصب کی نظر ہوجاتا ہے تو ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالنے لگتا ہے۔ وہ دو طبقے جو حب صحابہ اور حب اہل بیت رضی اللہ عنھم کے نام پر افراط و تفریط کا شکار ہوئے ان میں سے ایک طبقے نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس میں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کو نکال دیا۔ گویا انہوں نے اہل بیت میں سے اہل بیت مسکن کو نکال دیا۔ جب اہل بیت میں سے بیویاں ہی نکل جائیں تو پھر اولاد کا گھر سے کیا تعلق رہا؟ بہر حال انہوں نے ازواج مطہرات کو نکال کر کہا کہ اہل بیت سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔

    بے شک مذکورہ چاروں ہستیاں اہل بیت میں شامل ہیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چادر تطہیر میں چھپایا اور ان کے اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا انکار فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار ہے مگر سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ایک طبقے نے کچھ اہل بیت مراد لئے اور باقی چھوڑ دیئے۔ اس کے رد عمل کے طور پر دوسرے طبقے نے کہا کہ اہل بیت سے مراد صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ، سیدہ دوعالم حضرت فاطمۃ الزہراء اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھما اہل بیت میں شامل ہی نہیں۔ دونوں طبقوں نے قرآن پاک کو گویا سکول کا رجسٹر داخل خارج سمجھ لیا ہے کہ جسے چاہا داخل کردیا اور جسے چاہا خارج کردیا۔ من مانی تاویلیں کرکے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور نہ صرف امت بلکہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی متنازعہ بنا دیا۔

    ارے نادانو! جو گھر والا ہے وہ تو ہر گھر والے کو پیارا ہے اور وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے پھر جو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق والا ہے، آپ کے گھر میں ہے یا آپ کی نسل پاک میں سے ہے اور اہل ایمان ہے۔ اسے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہل بیت اور ہر ایک کو پیارا ہونا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق ہونا، آپ کے گھر میں ہونا یا آپ کی اولاد پاک میں سے ہونا تو ایک طرف حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر صرف خدمت کرتے تھے اور سودا سلف لاکر دیتے تھے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا ہے حالانکہ نہ تو ان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق تھا نہ وہ اہل بیت مسکن میں سے تھے اور نہ ہی وہ آپ کی اولاد پاک میں سے تھے، بیت کی تینوں نسبتیں مفقود تھیں لہذا محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے ہاتھ بڑھاتے ہوئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اہل بیت میں شامل فرمالیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے۔ (مستدرک امام حاکم 3 : 691 رقم 6539) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک طبقے کو خارج نہیں کیا تو ہم کسی ایک طبقے کو خارج کرکے کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انصاف کررہے ہیں؟ یقیناً یہ انصاف نہیں بلکہ محض جہالت اور تعصب ہے۔

    قابل غور نکتہ

    یہ بات قابل غور ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی کام رد عمل کے طور پر شروع ہوگا اس میں اعتدال وتوازن نہیں ہوگا۔ اس میں افراط و تفریط اور انتہا پسندی ہوگی۔ وہ کام اعتدال اور میانہ روی کے اس تصور سے ہٹ کر ہوگا جس کا اسلام نے درس دیا ہے۔ اسلام کی اصل تعلیم اعتدال اور میانہ روی ہے۔ امت مسلمہ کو امت وسط بھی دراصل اسی لئے کہا جاتا ہے کہ باری تعالیٰ نے امت مصطفوی کو وہ وقار اور کردار عطا کیا ہے جو توسط و اعتدال پر مبنی ہے۔

    حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنی ذات سے متعلق ارشادگرامی


    راہ اعتدال کو چھوڑ کر افراط و تفریط کا راستہ اپنانے والوں کے لئے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا درج ذیل فرمان ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ایک مشابہت ہے۔ ان سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ ماجدہ پر زنا کی تہمت لگائی اور نصاریٰ ان کی محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے معتقد ہوگئے۔ ہوشیار! میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔ ’’ایک زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا اور حد سے تجاوز کرے گا۔ دوسرا بغض رکھنے والا جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے گا،، (مسند احمد بن حنبل 2 : 167، رقم 1376) خود شیعہ مذہب کے نزدیک معتبر کتاب ’’نہج البلاغہ،، میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’میرے معاملہ میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا، حد سے بڑھانے والا۔ وہ محبت اس کو غیر حق کی طرف لے جائے گی۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا، وہ بغض اس کو خلاف حق کی طرف لے جائے گا اور سب سے بہتر حال میرے معاملہ میں میانہ رو جماعت کا ہے پس اس میانہ رو جماعت کو اپنے لئے ضروری سمجھو اور (بڑی جماعت) سواد اعظم کے ساتھ وابستہ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے اور خبردار! اس جماعت سے الگ نہ ہونا کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوگا وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوگا جس طرح ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیئے کا شکار ہوتی ہے،،۔ (ترجمہ و شرح نہج البلاغہ جلد اول، 383)

    بغض اہل بیت رضی اللہ عنھم اور بغض صحابہ رضی اللہ عنہم کا منطقی نتیجہ

    آج کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو حب علی رضی اللہ عنہ میں افراط کی وجہ سے راہ اعتدال کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور کچھ لوگ بغض علی رضی اللہ عنہ کی بناء پر راہ اعتدال پر نہیں رہے۔ پہلا گروہ ایسا ہے جو سارا سال اپنے مذہبی اجتماع فقط سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنھم کے حوالے سے کرتا ہے۔ اس گروہ نے نہ تو کبھی سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے کوئی اجتماع کیا ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذکر کے حوالے سے، اہل بیت کے علاوہ انہوں نے ہر ایک سے اپنا تعلق قطع کرلیا ہے اور دوسرا گروہ ایسا ہے جو سارا سال مدح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نام پر اجلاس اور اجتماع کرتا ہے۔ اس گروہ کی کیفیت یہ ہے کہ محرم الحرام کے مہینے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن بھی کبھی اہل بیت اور شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر اجتماع نہیں کرتا۔ جس طرح پہلے گروہ نے اہل بیت پاک اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ اسلام کے باقی تمام موضوعات چھوڑ دیئے ہیں اسی طرح دوسرے گروہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے موضوع کے علاوہ باقی تمام موضوعات سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ دونوں طرف ردعمل (Reaction) ہو رہا ہے اور اعتدال کی راہ چھوٹی جارہی ہے۔


    بشکریہ ۔ منہاج ڈاٹ آرگ

    نوٹ ۔ مضمون جاری ہے۔
     
  6. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغام شہادت امام حسین رضٰی اللہ عنہ

    برادر بھائی شکریہ شیئرنگ کا جزاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں