1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پڑوسیوں کے حقوق ۔۔۔۔۔۔ مفتی محمد وقاص رفیع

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    پڑوسیوں کے حقوق ۔۔۔۔۔۔ مفتی محمد وقاص رفیع

    اسلام ایک سچے دین اور ایک مکمل ضابطۂ حیات کا نام ہے ۔ اُس نے انسان کی معاشرتی زندگی کے لئے ایسی روشن تعلیمات اور ایسے سنہری اُصول مقرر فرما رکھے ہیں کہ دُنیا کا کوئی بھی انصاف پسند اور ذی عقل شخص یا مذہب فطرتی طور پر نہ اُن کو جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی اُن سے اختلاف کرسکتا ہے
    اس لئے کہ اسلام نے صرف مسلمانوں کے حقوق کی رعایت و پاسداری کا سبق نہیں دیا بلکہ اُس نے مذہب اور مسلک کی آڑ سے الگ ہٹ کر انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے دُنیا بھر کے تمام دیگر مذاہب ، اُن کے پیرو کاروں اور اُن کے ماننے والوں کے حقوق کی پاسداری اور ان کی رعایت کرنے کا بھی ہمیں درس دیا ہے۔ چنانچہ اسلام کی ان روشن تعلیمات اور اُس کے ان سنہری اُصول و ضوابط پر اگر مکمل طور پر عمل در آمد کیا جائے تو یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ تمام دُنیا عافیت و سلامتی کا گہوارہ اور امن و امان کا شہ پارہ بن جائے۔مثال کے طور پر آپ انسانی معاشرتی زندگی کا صرف یہ ایک پہلو ’’ ہمسایہ اور پڑوس‘‘ ہی کولے لیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے حقوق کی رعایت و پاسداری کا مطالعہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اس نے اپنی روشن تعلیمات اور اپنے سنہرے اُصول و قواعد کی روشنی میں اس کے حقوق کو کس طرح اجاگر کیا ہے؟ حضورِ اقدس ؐ کا پاک ارشاد ہے کہ ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُس کو چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور زبان سے کوئی بات نکالے تو بھلائی کی نکالے ورنہ چپ رہے ۔‘‘ ( بخاری و مسلم)گویا پڑوسی کے حق کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ بتلایا کہ اس کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائے اور یہ اُس کا بہت ہی ادنیٰ درجے کا حق ہے ، ورنہ دوسری روایات میں پڑوسی اور ہمسایہ کے حق کے متعلق بہت زیادہ تاکیدیں وارد ہوئی ہیں۔

    ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا ’’جانتے ہو کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ ( اور پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ ) اگر وہ تجھ سے مدد چاہے تو اُس کی مدد کر ، اگر قرض مانگے تو اُس کو قرض دے ، اگر محتاج ہو تو اُس کی اعانت کر ، اگر بیمار ہو تو اُس کی عیادت کر ، اگر مرجائے تو اُس کے جنازے میں شریک ہو ، اگر اُس کو خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دے ، اگر اُس کو مصیبت پہنچے تو تعزیت کر ، بغیر اُس کی اجازت کے اُس کے مکان کے پاس اپنا مکان اُونچا نہ کر کہ جس سے اُس کی ہوا رُک جائے ، اگر تو کوئی پھل خریدے تو اس کو بھی ہدیہ دے ، اور اگر یہ نہ ہو سکے تو اُس پھل کو اس طرح پوشیدہ گھر میں لا کہ وہ نہ دیکھ سکے اور اُس کو تیری اولاد باہر لے کر نہ نکلے تا کہ پڑوسی کے بچے اس کو دیکھ کر رنجیدہ نہ ہوں ، اور اپنے گھر کے دُھویں سے اُس کو تکلیف نہ پہنچا مگر اُس صورت میں کہ جو پکاوے اُس میں سے اُس کا بھی حصہ نکالے ۔ ( پھر فرمایا)تم جانتے ہو کہ پڑوسی کا کتنا حق ہے ؟ قسم ہے اُس پاک ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اُس کے حق کو اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا جس پر اللہ رحم کرے ۔‘‘( الاربعین ، فتح الباری)

    ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضورِ اقدس ﷺنے 3 مرتبہ فرمایا : ’’ اللہ کی قسم مومن نہیں ہے ، اللہ کی قسم مومن نہیں ہے ، اللہ کی قسم مومن نہیں ہے ۔‘‘ کسی نے عرض کیا، یا رسولؐ اللہ! کون؟۔‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’ وہ شخص کہ جس کا پڑوسی اُس کی مصیبتوں سے مامون نہ ہو۔‘‘( بخاری ، مسلم ، مشکوٰۃ)ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ’’جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اُس کی مصیبتوں سے مامون نہ ہو ۔ ‘‘حضرت ابن عمر ؓاور حضرت عائشہؓدونوں حضورِ اقدس ؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’ حضرت جبریل ؑ مجھے پڑوسی ( کے حقوق کا خیال رکھنے )کے بارے میں اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو وارث بنا کر چھوڑیں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ)اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ترجمہ: تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو ،اور اپنے والدین اور رشتہ داروں اور یتیموں اور غریبوں اور قریب والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی اور اپنے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا معاملہ کرو۔‘‘ (نساء ۔6)

    پاس والے پڑوسی سے مراد یہ ہے کہ اُس کا مکان قریب ہو اور دُور والے پڑوسی سے مراد یہ ہے کہ اُس کا مکان دُور ہو ۔ چنانچہ حضرت حسن بصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ : ’’ پڑوس کہاں تک ہے ؟۔‘‘آپؒ نے بیان کیاکہ : ’’ 40 مکان آگے کی جانب اور 40 پیچھے کی جانب ، 40 دائیں جانب اور 40 بائیں جانب۔‘‘ حضرت ابن عباسؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ پاس کا پڑوسی وہ ہے جس سے قرابت ہو اور دُور کا پڑوسی وہ ہے جس سے قرابت نہ ہو۔‘‘ نوف شامیؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ قریب کے پڑوسی سے مراد مسلمان پڑوسی ہے اور دُور کے پڑوسی سے مراد یہود و نصاریٰ اور غیر مسلم پڑوسی ہیں۔‘‘ ( درمنثور )

    ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضورِ اقدس ؐ نے ارشاد فرمایا ’’ پڑوسی 3 طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ پڑوسی کہ جس کے3 حق ہوں : (1) پڑوس کا حق ۔ (2) رشتہ داری کا حق ۔ (3) اور اسلام کا حق ۔ دوسرا وہ پڑوسی کہ جس کے2 حق ہوں : (1) پڑوس کا حق (2) اور اسلام کا حق ۔ تیسرا وہ پڑوسی کہ جس کا ایک حق ہو : (1) وہ غیر مسلم پڑوسی ہے ۔‘‘ امام غزالیؒ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد بیان کرتے ہیں کہ ’’ دیکھو! اس حدیث میں محض پڑوسی ہونے کی وجہ سے کافر کا حق بھی مسلمان پر قائم فرمایا ہے۔‘‘ (فضائل صدقات )

    حضرت ابن عباسؓ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ وہ شخص مسلمان نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اُس کا پڑوسی بھوکا رہے۔‘‘ حضرت ابوذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے محبوبِ خدا حضورِ اقدس ﷺ نے 3 باتوں کی نصیت فرمائی ( جن میں سے ایک یہ تھی کہ ) جب میں شوربہ (والا سالن) پکاؤں اور اُس میں پانی زیادہ ہوجائے تو اپنے اڑوس پڑوس کے گھروں کو دیکھ لوں اور اُن کو بھی دیدوں‘‘ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ رسولؐ اللہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں بہتر ہو۔‘‘حضرت نافع بن عبد الحارث ؓ نبی پاکؐ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا ’’نیک پڑوسی کا مل جانا مسلمان بندے کی خوش قسمتی ہے۔‘‘ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک کہ لوگ اپنے پڑوسی کو قتل نہ کرنا شروع کر دیں گے۔ ‘‘ (الادب المفرد)
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں