بڑا بھائی اپنے کالج کے تعلیمی دورہ پر جنوبی پاکستان گیا۔ وہاں سے ایک چادر لایا۔ وہ لایا اپنے لیے تھا لیکن ہم کو پسند آگیا۔اور اس نے ہم کو دے دیا۔ ہم اس کو اپنے علاقے میں پرنا بولتے ہیں ۔ یہ پرنا اصل میں چار فٹ ضرب آٹھ فٹ کا کپڑا تھا۔ سندھی اجرک کی طرح تھا کیونکہ اس میں بھی دھنک کے سبھی رنگ موجود تھے۔ کپڑا بھی مضبوط تھا۔ ویسے بھی ہم اپنی چیز کو بہت سنبھال کر رکھتے ہیں ۔ اس کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ پرنا ہر وقت ساتھ رکھتے۔ بلکہ یہ پرنا ہماری پہچان بن گیا تھا۔ چاندنی رات کو ہم سب ایک قسم کا آنکھ مچولی کی طرح کا کھیل کھیلا کرتے تھے۔ یہ چار یا پانچ یا چھ کی ٹیم میں کھیلا جاتا۔ اس میں چھپنے والوں نے ڈھونڈنے والوں میں سے کسی ایک کو ھاتھ لگانا ہوتا ہے۔ اور ڈھونڈنے والوں نے چھپنے والوں کو دیکھتے ہی ان کے نام پکارنے ہوتے ہیں۔ ڈھونڈنے والے سب ٹیم کو دیکھتے ہی ان کے ٹھیک ٹھیک نام بتا دے تو وہ جیت جاتی۔ اگر ان میں سے ایک بھی کسی کا غلط نام پکارے تو وہ ھار جاتے ۔ اس لیے ٹیم بناتے وقت ٹیم کیپٹن خیال رکھتے کہ ا سکی ٹیم میں کوئی جلد باز کھلاڑی نہ ہو۔ دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کے کپڑے۔ ان کی چال ڈھال، ان کے قدوقامت کو نوٹ کیا جاتا۔ ہم اکثر اپنا اس پرنے کی وجہ سےدور سے ہی پہچانے جاتے تھے ۔ ہم تپتی دوپہر میں سکول سے پڑھائی کر کے لوٹا کرتے تو اس پرنا کو سر پر ڈال کر خود کو دھوپ سے بچاتے ۔ بارش ہوتو اس پرنا کوسر پر پھیلا لیتے اور سر پہ لگے سرسوں کے تیل کو بہہ کر آنکھوں میں پڑنے سے روکتے۔ اور اپنی کتاب کاپی ساتھ ہوتو ان کے اوپر دے کر ان کو بھیگنے سے بچانے کی کوشش کرتے۔ ندی میں نہانے جاتے تو اسی پرنے کو کمر پر لپیٹ کر نہاتے۔ اس ندی کا بدولت ہم بہت اچھے تیراک تھے، ہم اپنے ہاسٹل والے کالج کے سوئمنگ کے مقابلہ میں بہت ٹرافیاں اور انعام جیتے۔ ہمیں سانس روک کر ندی کی تہہ میں جانے کا بہت تجربہ تھا۔ سب لوگ مقابلہ کرتے تھے۔ ہم ندی کی تہہ جو کہ بارا یا چودہ فٹ گہری تھی میں سے کنکر اور گاچی مٹی لایا کرتے تھے۔ نہاکر تاش کھیلا جاتا تو اسی پرنے کو گھاس پر بچھا کر اس پر تاش کھیلا جاتا۔ کھیلتے کھیلتے سب تھک جاتے تو اسی پرنے کو ہم کبھی سرھانا بناکر انہی درختوں کے نیچے سو لیتے۔ اور مکھیاں مچھر تنگ کرتے تو اس کو اوڑھ لیا جاتا۔ نماز کا وقت آتا تو اسی پرنے کو سر ڈھانپنے کا کام میں لاتا۔ اور اگر گھاس زیادہ ہو تو سجدے کے دوران گھاس کاکوئی تنکا آنکھ میں چبھنے کا ڈر ہوتا تو وہ پرنا مصلہ بن جاتا۔ کھانا کھانے سےپہلے ھاتھ دھو کر اسی پرنے سے ھاتھ خشک کیے جاتے اور کھانا کھا کر ھاتھ پونچھے جاتے۔ فصلوں کی کٹائی میں فصل ڈھونے کی دوران اسی پرنے سے کبھی رسی کی جگہ استعمال کرتا اور کبھی مونڈھا چھلنے کا ڈر میں اس کو کندھے پر رکھ لیتا۔ سوئی گیس یا گیس کا سلینڈر کا رواج نہ تھا۔ لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ اس پرنے کو کمر سے پٹکے کی طرح باندھ کر درخت پر چڑھ کے کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹتا۔ سرکش بکری گھر واپس آنے کا نام نہ لیتی تو اس پرنے سے رسی کا کام لیتا۔ بلکہ اگر وہ بکری زیادہ سرکشی کا مظاہرہ کرتی تو اسی پرنے سے اس کی پھانسی کا پھندہ بنانے کے منصوبے بنانے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ جنگلی بیر بھی اسی پرنے میں اکٹھے کیے جاتے۔دکان سے سودا سلف کو اسی پرنے میں باندھ کر سائیکل کے کیرئر پر لادا جاتا۔ کبڈی کھیلتے ہوۓ اسی پرنے کو کلانچ بنالیتا۔ فٹبال کھیلتے تو دیہاتوں میں کونسا گول پوسٹ ہوتے ہیں اسی پرنے اور اسی طرح کے ایک اور پرنے کوگول پوسٹ کی جگہ استعمال کرتے۔ بہن کی شادی ہوئی تو علاقے کی رواج کے مطابق بہن کی ڈولی کوگھر سے اس کا بھائی، یا بھائی کم ہوں یا نہ ہوں تو قریبی کزن یعنی چچا یا ماموں یا مسیر بھائی کندھا دے کر نکالتے۔ ہم نے اسی پرنے کو اپنے کندھے پر رکھ کر بہن کی ڈولی کواٹھایا۔ اس کے الوداع ہونے کا خیال دل کو بھاری لگاتو پرنے کا ایک پلو منہ میں دبا کے منہ میں آئی سسکی کو روکااور آنکھیں بھیگ سی گئیں تو دوسرے گوشے میں اپنے آنسو جذب کردیئے۔
جواب: پَرنا عمر خیام جی ! پرنا واقعی ایک ملٹی پرپز چیز ہے۔ اور مین تو ابھی بھی استعمال کرتاہوں۔ جو جو استعمال آپ نے بتایے ان میں سے بہت سے مواقع پر استعمال کر چکا ہوں اور اکثر کرتا ہوں۔ بہت اعلیٰ۔ بہت خوب لکھا۔ آخر فقرات پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہو گئی۔ لکھتے رہا کریں۔ ہم منتظر رہیں گے۔
جواب: پَرنا پرنا ہماری ثقافت کا حصہ ہے ۔حقیقی ثقافت وہی ہوتی ہے جو مقامی حالات اور ماحول سے مطابقت رکھتی ہو۔سوچیں تو ہم سب اپنی اپنی ذات میں پرنے ہیں جو خود کو حالات میں ڈھال لیتے ہیں ۔
جواب: پَرنا ہادیہ صاحبہ: ہر معاشرہ اپنی تہذیب و تمدن سے پہچانا جاتا ہے۔ اور ہر معاشرے میں رسم و رواج مختلف ہوتے ہیں۔ مگر پہلے وقتوں کی ثقافت میں جہاں فن کاری، جاذب نظری، اور خوبصورتی کا پہلو تھا وہیں آرام و سکون کا بھی بہت خیال رکھا جاتا تھا کہ معاشرہ انسانی زندگی کی اعلی اخلاقی اقدار پہ قائم تھا۔ محترم بھائی نے جس پرنے کا ذکر کیا؛ یہ مرد کی شان ہوتی تھی۔ اور یہ ملٹی پرپز ہوتا تھا۔ جس طرح آج کل کے موبائیلز ملٹی پرپز (بات چیت کرنا، پیغام رسانی، تصاویر، جی پی اس سسٹم، اور نجانے کس کس کام کیلئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح پرنہ مردوں کی شخصیت کا اہم حصہ ہوا کرتا تھا۔ ملاحظہ ہو چند تصاویر۔ نوٹ: عمر صاحب اچھوتے مضمون کو قلم بند کیا بہت اچھا لگا۔ میں نے شروع میں ہی آپ کا شکریہ ادا کیا اور پیغام اس لئے نہیں لکھا کہ آپ نے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔
جواب: پَرنا جبار گجر جی ، ملک بلال جی ، غوری جی، شام رنگی کڑی جی، ہادیہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سب کی پسندیدگی اور پذیرائی کا شکریہ ۔