1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پروفیسر میلر کیتھولک وہ کہ جس نے قرآن کو چیلنج کیا

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏21 اگست 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    وہ کہ جس نے قرآن کو چیلنج کیا !!
    1977 میں جناب گیری میلر (Gary Miller) جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ماھر علمِ ریاضی اور منطق کے لیکچرار ھیں اور کینڈا کے ایک سرگرم مبلغ ھیں , انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عیسائیت کی عظیم خدمت کرنے کے لئے قرآن ِمجید کی سائنسی اور تاریخی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے جو اس کےمبلغ پیرو کاروں کی مدد کرے تاکہ مسلمانوں کو عیسایئت کی طرف لایا جا سکے..تاہم نتیجہ اس کے بالکل برعکس تھا.. میلر کی دستاویز جائز تھیں اور تشریح اور ملاحظات مثبت تھے.. مسلمانوں سے بھی اچھے جو وہ قرآنِ مجید کے متعلق دے سکتے تھے.. اس نے قرآنِ مجید کو بالکل ایسا ھی لیا جیسا ھونا چاھیئے تھا اور ان کا نتیجہ یہ تھاکہ"یہ قرآنِ مجید کسی انسان کا کلام نہیں..!!"
    پروفیسر گیری میلر کے لئے بڑا مسئلہ قرآنِ مجید کی بہت سی آیات کی بناوٹ تھی جو اسے چیلنج کر رھی تھیں ' للکار رھی تھیں.. مثلا"
    أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا..
    "بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے..؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ھوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے.." (سورۃ النسآء.. آیت 82)

    وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ..
    "اور اگر تم کو اس (کتاب) میں جو ھم نے اپنے بندے (محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ھے , کچھ شک ھو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ھوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ھو.." (سورۃ البقرۃ.. آیت 23)
    اگرچہ پروفیسر میلر شروع شروع میں للکار رھا تھا اور چیلنج کر رھا تھا مگر بعد میں اس کا یہ رویہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ھو گیا اور پھر اس نے بیان کیا کہ اس کو قرآن سے کیا ملا.. مندرجہ ذیل کچھ نکات ھیں جو پروفیسر میلر کے لیکچر "حیرت انگیز قرآن" میں بیان کئے ھیں..
    "یہاں کوئی مصنف (لکھنے والا) ایسا نہیں ملے گا جو ایک کتاب لکھے اور پھر سب کو للکارے اور چیلنج کرے کہ یہ کتاب غلطیوں (اغلاط) سے پاک ھے.. قرآن کا معاملہ کچھ دوسرا ھے.. یہ پڑھنے والے کو کہتا ھے کہ اس میں غلطیاں نہیں ھیں اور پھر تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ھے کہ اگر تم کہتے ھو کہ اس میں غلطیاں ھیں اور تم اپنی اس بات پر سچے ھ تو ان غلطیاں تلاش کرکے دکھا دو.. یا تم سمجھتے ھو کہ یہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا کلام ھے تو اس جیسی ایک سورت ھی بنا کر دکھا دو..
    قرآن مقدس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ (ذاتی زندگی) کے سخت لمحات کا ذکر نہیں کرتا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رفیق حیات اور محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی موت.. جب کوئی اپنی ذاتی زندگی (سوانح حیات/آپ بیتی) لکھتا ھے تو اپنی کامیابیوں (فتوحات) کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ھے اور اپنی ناکامیوں اور شکست کے متعلق دلائل دینے کی کوشش کرتا ھے جبکہ قرآن مجید نے اس کے برعکس کیا جو یکساں اور منطقی ھے.. یہ ایک خاص اور مقررہ وقت کی تاریخ نہیں ھے بلکہ ایک تحریر ھے جو اللہ (معبود) اور اللہ کے ماننے والوں , عبادت کرنے والوں کے درمیان عام قسم کے قوانین اور تعلق کو پیدا کرتی ھے , وضع کرتی ھے..
    قرآن مجید میں ایک سورۃ حضرت مریم علیہ السلام کے نام پر بھی ھے.. اس سورۃ میں جس طرح ان کی تعریف اور مدح کی گئی ھے اس طرح تو انجیل مقدس میں بھی نہیں کی گئی بلکہ کوئی بھی سورۃ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے موجود نہیں.. حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اسم کرامی قرآنِ مجید میں 25 مرتبہ جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک صرف 5 مرتبہ دھرایا گیا ھے..
    نہایت ھی عجیب طرح سے اور عجیب طور پر وہ آیات مبارکہ جو کچھ ناکامیوں پر بطور رائے (تبصرہ) نازل کی گئیں , وہ بھی کامیابی کا اعلان کرتی ھیں اور وہ آیات جو کامیابی , فتح اور کامرانی کے وقت نازل ھوئیں ان میں بھی غرور و تکبر کے خلاف تنبیہ کی گئی ھیں..
    کچھ تنقید کرنے والے یہ بھی کہتے ھیں (نعوذ باللہ) کہ جو کچھ قرآن میں لکھا ھے وہ سب آسیب , بھوت اور شیطان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھاتے تھے , ھدایات دیا کرتے تھے لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ کیسے ھو سکتا ھے جبکہ قرآن مجید میں کچھ آیات ایسی بھی ھیں جیسے..
    "اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ھوئے.." (سورۃ الشعرآء.. آیت 210)

    "اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو.." (سورۃ النحل.. آیت 89)
    اگر آپ ان حالات کا سامنا کرتے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غارِ ثور کے اندر مشرکوں کے درمیان گھرے ھوئے تھے اور وہ انہیں دیکھ سکتے تھے اگر وہ نیچے دیکھتے.. انسانی ردِ عمل یہ ھو گا کہ پیچے سے خروج کا راستہ تلاش کیا جائے یا باھر جانے کا کوئی دوسرا متبادل راستہ یا خاموش رھا جائے تاکہ کوئی ان کی آواز نہ سن سکے تاھم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سےفرمایا.. "غمزدہ نہ ھو , فکر مت کرو ' اللہ ھمارے ساتھ ھے.."
    "اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ اُن کا مددگار ھے.. (وہ وقت تم کو یاد ھوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا.. (اس وقت) دو (ھی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکر تھے) اور دوسرے (خود رسول الله).. جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے.. اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو , اللہ ھمارے ساتھ ہے.. تو اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا اور بات تو اللہ ھی کی بلند ھے اور اللہ زبردست (اور) حکمت والا ھے.. (سورۃ التوبہ.. آیت 40)
    یہ کسی دھوکہ باز یا دغا باز کی ذھنیت نہیں , ایک نبی کی سوچ ھے جن کو پتہ ھے , وہ جانتے ھیں کہ اللہ سبحان و تعالٰی ان کی حفاظت فرمائیں گے..
    سورۃ المسد (سورۃ تبت) ابو لہب کی موت سے دس سال پہلے نازل کی گئی.. ابو لہب نبی کریم کا چچا تھا.. ابو لہب نے دس سال اس بیان میں گذارے کہ قرآن مجید غلط ھے.. وہ ایمان نہیں لایا اور نہ ھی ایسا کرنے پر تیار تھا.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے اتنے زیادہ پر اعتماد ھو سکتے تھے جب تک ان کو یقین نہ ھوتا کہ قرآن مجید اللہ سبحان و تعالٰی کی طرف ھی سے ھے.. قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کو ملاحظہ کیجئے..
    "یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ھیں جو ھم تمہاری طرف بھیجتے ھیں اور اس سے پہلے نہ تم ھی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ھی ان سے واقف تھی).. تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ھی کا (بھلا) ھے.. (سورۃ ھود.. آیت 49)

    میلر لکھتا ہے کہ کسی بھی مقدس کتاب نے اس قسم کا انداز نہیں اپنایا کہ جس میں پڑھنے والے کو ایک خبر دی جار رھی ھو اور پھر یہ بھی کہا جاتا ھے کہ یہ نئی خبر (اطلاع) ھے.. یہ ایک بےنظیر (بےمثال ) چیلنج (للکار) ھے.. مکہ کے لوگ مکر و فریب سے یہ کہہ دیتے کہ وہ تو یہ سب کچھ پہلے سے ھی جانتے تھے یا کوئی اسکالر (عالم) یہ دریافت کرتا کہ یہ اطلاع (خبر) پہلے ھی سے جانی پہچانی تھی (افشا تھی) تاھم ایسا کچھ نہیں ھوا..
    پروفیسر میلر کیتھولک انسائیکلو پیڈیا کے موجودہ عہد (زمانہ)کا ذکر کرتا ھے جو قرآن کے متعلق ھے.. یہ واضح کرتا ھے کہ باوجود اتنے زیادہ مطالعہ , نظریات اور قرآنی نزول کی صداقت پر حملوں کی کوشش اور بہت سے بہانے اور حجتیں جن کو منطقی طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ گرجا گھر (چرچ) کو اپنے آپ میں یہ ھمت نہیں ھوئی کہ ان نظریات کو اپنا سکے اور ابھی تک اس نے مسلمانوں کے نظریہ کی سچائی اور حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ قرآن مجید میں کوئی شک نہیں اور یہ آخری آسمانی کتاب ھے..
    فالسی فیکشن ٹیسٹ (Falsification Test) کے سلسلے میں گیری ملر نے دو بڑی دلچسپ باتیں لکھی ھیں. لکھتا ھے..
    "حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک چچا تھا.. اس کا نام ابو لہب تھا.. ابولہب کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت تھی.. اس کی زندگی کا واحد مقصد قرآن , اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانا تھا.. وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیچھا کیا کرتا تھا.. جہاں بھی آپ جاتے تھے وہ پیچھے پیچھے جاتا.. آپ کی ھر بات کو جھٹلاتا.. اگر آپ کہتے کہ یہ چیز سفید ھے تو وہ جھٹ بول اٹھتا کہ نہیں یہ چیز کالی ھے.. اگر آپ کہتے کہ دن ھے تو وہ کہتا 'نہیں رات ھے.. قرآن میں ابو لہب کا ذکر بھی آیا ھے کہ وہ دوزخ کی آگ میں جلے گا.. دوزخ کی آگ میں جلنا اس کا مقدر ھے.. مطلب یہ کہ وہ کبھی اسلام قبول نہیں کرے گا , کافر ھی رھے گا..
    گیری ملر لکھتا ھے کہ اس آیت کے نازل ھونے کے بعد ابو لہب دس سال زندہ رھا.. اس کے لیے قرآن کو جھٹلانا بہت آسان تھا.. وہ مسلمانوں سے کہتا.. "دوستو ! میں مسلمان ھونا چاھتا ھوں مجھے مسلمان بنا لو.." جب وہ مسلمان بنا لیتے تو کہتا.. "لو بھئی تمہارا قرآن جھوٹا ثابت ھوگیا.. اب بولو.." لیکن ابو لہب نے ایسا نہیں کیا حالانکہ اس کی زندگی کا مقصد ھی یہ تھا کہ وہ قرآن کو جھوٹا ثابت کرے , حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلائے.."
    گیری ملر ایسی ھی ایک اور مثال دیتا ھے.. لکھتا ھے..
    "قوموں کی حیثیت سے انسانی رشتوں کا ذکر کرتے ھوئے قرآن کہتا ھے کہ بحیثیت قوم یہودیوں کی نسبت عیسائی مسلمانوں سے بہتر سلوک روا رکھیں گے..
    یہودیوں کے لیے قرآن کو جھٹلانا بڑا آسان کام تھا.. یہودی مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے , ان سے ھمدردی کا اظہار کرتے , انھیں اپناتے , پھر کہتے.. "مسلمانو ! تمہارا قرآن غلط ھے.. چونکہ ھم مسلمانوں سے عیسائیوں کی نسبت بہتر تعلقات کے حامل ھیں.." لیکن یہودیوں نے ایسا نہیں کیا اور لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسا نہیں کریں گے.."
    1977 میں پروفیسر میلر نے مسلمان اسکالر جناب احمد دیدات سے ایک بہت مشہور مکالمہ (بحث و مباحثہ) کیا.. اس کی منطق صاف تھی اور اس کا عذر (تائید) ایسے دکھائی دیتی تھی کہ جیسے وہ سچائی تک بغیر کسی تعصب کے پہنچنا چاھتا تھا.. بہت سے لوگوں کی خواھش تھی کہ وہ اسلام قبول کرکے مسلمان ھو جائے..
    1978 میں پروفیسر میلر نے اسلام قبول کرھی لیا اور اپنے آپ کو عبدالاحد کے نام سے پکارا.. اس نے کچھ عرصہ سعودی عرب تیل اور معدنیات کی یورنیورسٹی میں کام کی اور اپنی زندگی کو دعویٰ بذریعہ ٹیلی ویژین اور لیکچرز کے لئے وقف کردیا..
    حقیقت میں پروفیسر میلر اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے اور صحیح راستہ چننے میں کافی حد تک صاف کو اور ایماندار تھا.. اللہ اسے اور اس جیسے ان تمام لوگوں کو (جنہوں نے حق کو تلاش کیا اور اپنے تعصب کو اجازت نہیں دی کہ انہیں حق تک پہنچنے سے دور رکھے) مزید ھدایت نصیب فرمائے اور حق کی روشن شاھراہ پر چل کر اپنی عاقبت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے.. آمین..
     

اس صفحے کو مشتہر کریں