1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏11 اگست 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک​


    تاحد نگاہ سفیدی ہی سفیدی ہے۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ کسی محنتی رنگساز نے پورے ماحول پر چونا پھیر دیا ہو۔یہ چمکتا سفید رنگ یہاں پڑی برف کا ہے۔ جون کے مہینے میں اتنی برف اور ٹھنڈ اور برفیلی ہوائیں۔ یہ قدرت کا ڈیپ فریزر ہے اور یہاں پورا سال ایسی ہی برف موجود رہتی ہے۔ فلک بوس پہاڑیاں اور دل دھلا دینے والی کھائیاں۔ موسم اتنا شدید کہ یہاں سے قریب ترین انسانی بستی ۶ گھنٹے پیدل مسافت پر ہے۔برف، گلیشیر، برفانی دراڑیں، برفانی تودے یہاں کی سوغات ہیں۔اتنے سخت موسم اور حالات میں بھی دنیا کے نایاب جانور یہاں موجود ہیں۔ مارخور، برفانی چیتا اور برفانی لومڑی برفیلے پہاڑوں اور کھائیوں میں بسیرا جمائے ہوئے ہیں۔
    اور پھر برف میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ جو نشیب پہلے گلیشیر نظر آتے تھے اب نالوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہی نالے دریاوں کا طفلی وجود ہے۔ برف پوش پہاڑوں کی سنگلاخ چٹانیں نظر آتی ہیں اور پانی رواں دکھائی دیتا ہے۔درخت، پودے نظر نہیں آتے مگر گھاس اور سبزہ شدید موسم کا مقابلہ کر رہا ہے اور جہاں برف ہٹی گھاس نے اپنا فرض نبھانا شروع کردیا۔
    اور پھر پہاڑ درختوں سے مزین ہونے لگے مگر یوں کہ جیسے فراک پہنے ہوں۔ایک متوازی لکیر جس سے اوپر کسی درخت کا نشان بھی نہیں اور اس سے نیچے درخت موجود ہیں۔اس کو خطِ اشجار(tree line) کہتے ہیں۔
    اب درختوں کے بیچ پتھر کے بنے گھر نظر آتے ہیں۔ پھلدار درخت شدید سردی برداشت کر چکنے کے بعد اب دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ہری ہری باریک کونپلیں عندیہ دے رہی ہیں کہ سردی کا زور ٹوٹ چکا ہے اور بہار کی آمد آمد ہے۔گھروں میں بسنے والے محنت کش کدالیں لیےاور ہل جوتے زمین کا سینہ چیر رہے ہیں۔
    برف پوش چوٹیاں اب پس منظر میں نظر آ رہی ہیں اور ہر طرف پھول کھلے ہیں۔ یہ کسی باغ یا پارک میں لگے پھول نہیں بلکہ تا حد نگاہ پہاڑوں، وادیوں اور چٹانوں پر اگ آنے والے پھول ہیں۔نیلے نیلے، اودے اودے ، پیلے پیلے پھول گویا بہار کا استقبال ہیں۔یہاں درختوں کی کونپلیں پتوں میں بدل چکی ہیں۔پھلدار درخت پھولوں سے لد گئے ہیں اور گندم کے کھیتوں میں بیج ڈالے جا رہے ہیں۔
    صاف شفاف پانی کی جھیلیں آئینے کی طرح جگمگا رہی ہیں۔ مچھلیوں کے شکاری اپنے جال اور کانٹے ڈالے منظر کا حصہ ہیں۔جھیل سے خارج ہونے والا پانی ایک نالے کی شکل میں آگے بڑھ رہا ہے اور نشیب و فراز طے کر کے دریا میں جا گرتا ہے۔دریا کاپانی بھی شفاف ہے اور ایک بل کھاتی سفید لکیر کی طرح نظر آ رہا ہے۔ کہیں یہ بپھرے ہوئے وحشی کی طرح جلال میں نظر آتا ہے تو کہیں آہوِ خوش خرام دکھائی دیتا ہے اور کہیں محسوس ہو تا ہے کہ یہ محو خواب ہے۔

    ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    بہت خوب واصف بھائی
    مزید انتظار ہے ایک نیا رخ دیکھنے کیلئے
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    زبردست جناب۔۔۔۔۔
    جاری رکھیں
     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    (2)
    دریا پہاڑوں کے بیچوں بیچ بہہ رہا ہے۔اور پہاڑ کے ساتھ لپٹی سڑک ایک سیاہ لکیر جیسی نظرا ٓ رہی ہے۔اس پر گاہے گاہے کوئی جیپ یا ٹرک نظر آتا ہے۔گاڑی میں سے بھی نظارہ قابل دید ہے۔کہیں پہاڑ سےآتا پانی آبشار کی صورت میں سڑک کے پاس گرتا ہےاور اس کی پھوہار گاڑی پرپڑتی ہے اور کھلے شیشے سے ڈرائیورپر بھی۔نظر اٹھا کر اوپر دیکھیں تو پانی گویا پہاڑ کی چوٹی سے آتا محسوس ہوتا ہے۔اور پھر سڑک کے ساتھ ساتھ چند مکانات، ایک ادھ دوکان اور پھلدار درختوں کے جھنڈ جن پر سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے شگوفے پھل بننے کا عمل شروع کر چکے ہیں۔اور پھر دریا کو پار کرنے کا مقامی بندوبست۔دریا نیچے کہیں گہرائی میں منہ زور گھوڑے کی طرح رواں ہے اور اس کے اوپر ایک مضبوط رسی اور اس رسی پر چرخی سے ڈولتا لکڑی کا تختہ۔مقامی لوگ ایک دوسرے گاؤں آنے کے لیے یہی ڈونگے استعمال کرتے ہیں۔
    اور پھر لکڑی کے تختوں اور آہنی رسیوں سے بنایا گیا پل جوکہ گاڑی کے وزن سے جھول رہا ہے۔گاڑی دریا کے اوپر کئی سو فٹ کی بلندی پر معلق ہے اور بپھرے ہوئے دریا کا شور دل دہلا رہا ہے۔گاڑی کی حرکت کے ساتھ پل بھی حرکت کرتا ہے۔آگے سڑک پر مٹی اور پتھر کا ڈھیر ہے اور ایک بلڈوزر اس کو ہٹانے میں مصروف ہے۔یہ تودا پہاڑ کی بلندی سے نیچے آیا ہے۔ یہ پہاڑوں کا اپنی برتری دکھانے کا ایک طریقہ ہے اور انسان اور مشین مل کر اس کو پھر سے ہٹا کر پہاڑوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تم بڑے سہی مگر اشرف المخلوقات کے سامنے تمھاری کوئی وقعت نہیں۔بلڈوزر اور اس کو چلانے والا ماہر کاریگر مٹی اور پتھر کے ڈھیر کو ہٹا کر راستہ بنارہا ہے ۔
    سڑک پہاڑوں سے ہو کر پھر وادی میں اتر رہی ہے۔پہاڑوں کے بیچوں بیچ یہ نسبتاً ہموار مقام۔دریا بھی گویا پہاڑوں میں غرانے کے بعد وادی میں آرام کر رہا ہے تاکہ اگلے سفر کے لیے تازہ دم ہو جائے ۔ سڑک کے دونوں طرف پھلوں کے درخت اور کھیت ہیں۔ کھیتوں میں گندم اگ آئی ہے اور چھوٹے چھوٹے پودے کھیتوں کی خاکی رنگت کو سبزی مائل کر رہے ہیں۔درختوں کی شاخیں گہرے سبزپتوں اور چھوٹے چھوٹے سبز پھلوں سے لدی ہیں۔ ہر طرف ہریالی کا سماں ہے ۔


    ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    واہ واصف بھائی کیا سماں بیان کیا ہے بہت خوب
     
  6. فیاض انصاری
    آف لائن

    فیاض انصاری ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جولائی 2011
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    بہت عمدہ شکریہ ۔۔۔۔
     
  7. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    بہت خوب واصف بھائی
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    (3)​

    پیچ در پیچ سڑک کا سلسلہ پھر شروع ہوتا ہے گویا دم لینے کے بعد ایک بار پھر ہمت انسان کا امتحان شروع ہوا ہے۔ دریا جو وادی کی سیرابی کے لیے چند لمحوں کے لیے پرسکون تھا اگلی وادی کی تلاش میں جھاگ اڑاتا نظر آتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے پانی کے دھارے دریا میں مل کراپنی ہستی کو مٹا کر ابدیت حاصل کر رہے ہیں۔عشق بھی عجب شئے ہے کہ میں کو ختم کر کے خواہش وصال میں اپنے وجود سے بھی غافل ہو جاتا ہے اور جب خواہش وصل پوری ہوتی ہے تو عاشق کی اپنی ہستی فنا ہو جاتی ہے مگر وہ دوام پا جاتا ہے۔
    آگے ایک دریا اور نظر آ رہا ہے جو یہی سفر کسی دوسرے راستے سے طے کر کے آیا ہے۔دونوں دریا متوازی سفر کر رہے ہیں گویا کہ ایک دوسرے کی قوت کو جانچ رہے ہیں یا یہ فیصلہ کر رہے ہوں کہ کس نے کس میں شامل ہونا ہے۔کس کی ہستی کس میں مدغم ہونی ہے۔دونوں اپنے ظرف کے مطابق کبھی غراتے ہیں اور کہیں سکون کا اظہار کرتے ہیں۔اور آخرکار باہم یکجا ہوتے ہیں اور ایک وجود بن کر اگلی منزل کی طرف رواں ہو جاتے ہیں۔ دریاؤں کی طرح یہاں شاہرائیں بھی ا ٓپس میں ملتی ہیں۔جس شاہراہ پر ہماری پرپیچ سڑک آ کر ملی ہے وہ ایک طرف تو بلندی کی طرف جا کر آخر چین میں داخل ہوتی ہے اور دوسری طرف نیچے کی طرف رخت سفر جاری رکھتی ہے۔
    وادی میں گندم کے کھیتوں میں ہریالی ہے۔ ہر طرف سبزہ اور پھول ہیں۔ درخت پھلوں سے لدے ہیں اور دھوپ کی تمازت لے کر پکنے کا عمل شروع کر چکے ہیں۔ اکا دکا پھل زرد رنگت لے چکے ہیں اور جلد ہی اپنی ترشی کو مٹھاس سے بدلنے کے خواہشمند ہیں۔پس منظر میں دیو ہیکل پہاڑ اپنے سروں پر برف کی سفید ٹوپیاں پہنے اپنی عظمت دکھا رہے ہیں۔یہ ایک بڑی وادی ہے اور یہاں خوبصورت سڑکیں اور بازار نظرا ٓ رہے ہیں۔ خوبصورت لباسوں میں ملبوس مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کا بھی ہجوم ہے۔
    سیاح اپنی بساط کے مطابق اپنے پیاروں کے لیے وادی کے یادگار تحفے خرید رہے ہیں۔یہ قیمتی پتھروں کی دکان ہے۔ہیبت ناک اور پرشکوہ پہاڑوں سے نکلنے والے خوبصورت اور بیش قیمت پتھر شیشے کے طاقوں میں رکھے ہیں۔ سرخ، سبز، نیلے، ارغوانی، زرد غرض ہر رنگ کے شفاف نگینے قرینے سے رکھے گئے ہیں۔ساتھ ہی خشک میوہ جات کی دکان ہے۔یہاں کی سخت زندگی( کہ جہاں تازہ میوجات چند ماہ ہی میسر ہوتے ہیں) نے مقامی لوگوں کو میوہ جات خشک کرنے میں مہارت عطا کی ہے۔ دکان میں بادام اور اخروٹ جوکہ ہیں ہی خشک میوے کے علاوہ خوبانی، انجیر اور سیب بھی دستیاب ہیں جو یہاں کے مقامی لوگ سردیوں میں استعمال کے لیے خشک کرتے ہیں۔ساتھ ہی ایک دکان میں مقامی ہاتھوں کا بُنا ہوا کپڑا اور اس سے بنائی گئی خوبصورت پوشاکیں ان ہنرمندوں کی محنت اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    واہ واصف بھائی آپ نے تو ایک سحر طاری کردیا ہے
     
  10. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    بہت خوب ۔۔۔:n_TYTYTY:
     
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    بہت اعلی جناب ۔۔۔جاری رکھیں
     
  12. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    کیا خوب منظر نگاری کی ہے۔ آپ کی تحریر سے آپ کی شخصیت میں موجود فطرت پسندی جھلکتی ہے۔
     
  13. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    (4)
    دریا کے ساتھ ساتھ پیچ و خم کھاتی سڑک رواں ہے۔پہاڑوں پر لپٹی سڑک کسی مہیب اژدھے کی طرح بل کھاتی نشیب و فراز سے گزر رہی ہے۔سنگلاخ پہاڑوں کے سینے پر مونگ دلتی یہ سڑک پرعزم معماروں کی محنت کا ثمر ہے۔ ہر موڑ پر کتبہ نما یادگاریں بنی ہیں جن پر ان شہیدوں کے نام کندہ ہیں جو اس عظیم تعمیر کی تکمیل کے لیے جان کا نذانہ دے گئے۔سلام ہے ان کی ہمت اور حوصلے کو جن کے سامنے پرشکوہ پہاڑ بھی ہار مان گئے ۔
    سڑک انہی نشیب و فراز سے ہوتی پہاڑوں کا سینہ چیرتی آگے بڑھتی جا رہی ہے۔پہاڑ کی بلندی سے اب سڑک اترائی کی طرف جا رہی ہے۔ دور نشیب میں درخت، مکان اور کھیت کسی بچے کے کھلونوں کی طرح دکھائی دے رہے ہیں۔اس وادی میں سڑک کے دونوں طرف دکانیں ہیں۔ مسافروں کے لیے چائے اور کھانا دستیاب ہے۔ ایک ادھ سرائے نما ہوٹل بھی ہے جہاں رات بسر کرنے کا انتظام موجود ہے۔اس کے علاوہ دیگر دکانیں بھی ہیں۔ ایک طرف گاڑیوں کا مکینک اپنی چھوٹی سی دکان سجائے بیٹھا ہے۔
    کھیتوں میں گندم کی فصل لہلا رہی ہے۔ گندم کے پودوں پر بالیاں نکل آئی ہیں۔ درختوں پر پھل پکے ہوئے ہیں اور جا بجا خوبانی، سیب، آڑو اور آلوچے کے درخت پھلوں سے لدے پڑے ہیں۔اوپر چٹانوں پر خوبانی اور سیب کاٹ کرخشک ہونے کے لیے رکھے ہیں۔
    سیاح اپنے کیمرے سنبھالے ان مناظر کو اپنی یادوں میں محفوظ کر رہے ہیں۔ مقامی لوگ ان سیاحوں کو اپنے درختوں کے پھل پیش کر رہے ہیں۔ایک سیاح اور مقامی کسان میں بحث ہو رہی ہے۔سیاح پیش کیے گئے پھل کی قیمت ادا کرنا چاہتا ہے جبکہ کسان بضد ہے کہ جو یہاں کھا لیا اس کی کوئ قیمت نہیں ہاں اگر زیادہ مقدار میں ساتھ لے جانا ہے تو قیمت پر بات ہو سکتی ہے۔
    دریا قریب ہی سے گزر رہا ہے اور اس کی لہروں کا شور ماحول میں نغمگی بکھیر رہا ہے۔ درختوں پر خوبصورت پرندے ادھر ادھر پھدکتے پھر رہے ہیں۔

    ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک

    سبحان اللہ !

    سب سے پیارا وطن پاکستان
     
  15. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    (5)
    سڑک کے دونوں جانب پہاڑ سبزہ اوڑھے ایستادہ ہیں اورتا حد نگاہ چیڑ کے طویل قامت درخت پھیلے ہوئے ہیں۔ سڑک کے پیچ اگرچہ موجود ہیں مگر نسبتاً کم ہیں۔اب سڑک کے دونوں جانب چائے کے باغات ہیں اور پوری فضا معطر ہے۔ مکان بھی اب پکی اینٹوں اور سیمنٹ کے بنے ہیں۔ سڑک پر ٹریفک بھی کافی زیادہ ہے۔ ان میں زیادہ تعداد سوزوکیوں کی ہے جو اونچے نیچے راستوں پر مسافروں سے لدی نظر آ رہی ہیں۔
    آگے ایک بڑا شہر نظر آ رہا ہے۔ پہاڑوں کی چھوٹی بستیوں کے مقابلے میں یہ بہت بڑا شہر ہے۔ ایک سفید کھلا میدان دکھائی دے رہا ہے جس میں خاکی وردیوں میں ملبوس نوجوان فوجی انداز میں پریڈ کر رہے ہیں۔ بازاورں میں گاڑیوں اور لوگوں کا ہجوم ہے۔ کئی منزلہ عمارتیں ہیں جن پر رنگ برنگے سائن بورڈ چمک رہے ہیں۔
    وہ دریا جو ہمارے ساتھ چلا تھا نجانے کب سڑک سے دور ہوتا ہوا کسی اور سمت نکل گیا ہے۔اب سڑک کے دونوں جانب کھیت ہیں جن میں گندم کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے۔ ہر طرف سنہری بالیاں اناج سے لدی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔کہیں کہیں لوکاٹ کے باغ بھی نظر آ رہے ہیں جن پر پھل پکنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
    اب کھیتوں میں کسان نظر آ رہے ہیں۔ گندم کی کٹائی زروں پر ہے اور کسان گروہوں کی صورت میں درانتیاں لیے سنہری فصل کو کاٹ کر اپنی محنت کا صلہ وصول کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ساتھ ہی لوکاٹ کا باغ ہے جس میں درخت پکے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے ہیں۔سڑک کے ساتھ ساتھ پھلوں کے ٹوکرے سجے ہوئے ہیں اور باغ کی تازہ لوکاٹ خریدنے کے لیے گاڑیاں رکی ہیں۔ لوگ تازہ پھل خرید رہے ہیں اور بچے حیرت اور خوشی سے درختوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لوگ تصاویر اتار رہے ہیں اور درختوں کو چھو کر دیکھ رہے ہیں۔
    گندم کی سنہری ڈالیاں ایک ترتیب سے کھیتوں میں پڑی ہیں۔ کسی کسی کھیت میں تھریشر اناج اور بھوسے کو الگ کر رہا ہے جس کی وجہ سے گرد اڑ رہی ہے۔اسی گرد میں میں اٹے کسان اپنے لیے اناج اور جانورں کے لیے بھوسہ اکٹھا کر رہے ہیں۔
    منظر میں ایک بڑی تبدیلی سڑک کے ساتھ چلتی ریل کی پٹڑی ہے۔اس مقام سے شمال کی طرف پہاڑوں کا راج ہے اور وہ اپنے علاقے میں ریل کو آنے نہیں دیتے۔ چھوٹے چھوٹے ریلوے جنکشن یہاں سے شروع ہوتے ہیں اور اب سمندر تک ہمارے شریک سفر رہیں گے۔
    سڑک سے کچھ دور کھیتوں کی اوٹ میں برساتی نالہ گزر رہا ہے جس میں شفاف پانی بہہ رہا ہے۔ یہ نالہ آگے چل کر ایک جھیل میں شامل ہو رہا ہے۔ اس جھیل کا پانی ایک ڈیم بنا کر روکا گیا ہے اور ڈیم سے زرعی استعمال کے لیے نہریں نکل رہی ہیں اور بجلی بنانے کا نظام لگایا گیا ہے۔ نہروں اور برقی تاروں کا یہ جال ملک کی زرعی اور برقی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
    ۔۔جاری ہے۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں