1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان کے تاریخی مقامات

'متفرق تصاویر' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏2 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    "موئن جو دڑو"
    "موئن جو دڑو" یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور، وادی سندھ کے ایک اور اہم مرکز" ہڑپہ" سے 400 میل دور ہے یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا ۔موئن جو دڑو کو 1922ء میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ " سر جان مارشل" نے دریافت کیا اور ان کی گاڑی آج بھی موئن جو دڑو کے عجائب خانے کی زینت ہے ۔(لیکن ایک مکتبہ فکر ایسا بھی ہے جو اس تاثر کو غلط سمجھتا ہے) موئن جو دڑو سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب " مردوں کا ٹیلہ" ہے ۔ یہ شہر بڑی ترتیب سے بسا ہوا تھا۔ اس شہر کی گلیاں کھلی اور سیدھی تھیں اور پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام تھا۔ اندازاً اس میں 35000 کے قریب لوگ رہائش پذیر تھے ۔ یہ شہر اقوام متحدہ کے ادارہ ثقافت یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ میں شامل ہے ۔

    [​IMG]
     
    Last edited: ‏2 مارچ 2018
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    "ٹیکسلا "
    "ٹیکسلا "ایک قدیم شہر راولپنڈی سے 22 میل دور ، 326 ق م میں سکندر اعظم نے اس شہر پر قبضہ کیا ۔ باختر کے حکمران " دیمریس "نے 190 ق م گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا ۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی ۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چینی سیاح " ہیون سانگ "یہاں آیا تھا۔ یہاں عجائب گھر ہے ، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے دس ہزار سکے ( بعض یونانی دور کے ) زیورات ، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں۔اس شہر کو 1980ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا ۔


    [​IMG]
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    " تخت بھائی"
    عالمی ورثہ میں " تخت بھائی" بھی شامل ہے (تخت اس کو اس لئے کہا گیا کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بہائی یابھائی اس لئے کہ اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا)پشاور سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام ہے جوکہ اندازاً ایک صدی قبلِ مسیح سے تعلق رکھتا ہے ۔اس مقام کو 1980 ء میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔تخت بھائی کی تاریخی حیثیت کی طرف سب سے پہلے توجہ فرانسیسی جنرل کورٹ نے1836ء میں دلائی ،اس کی کھدائی کا آغاز1852ء میں ہوا ۔لْنڈ کھوڑ، شیر گڑھ، چارسدہ، سیری بہلول، تخت بھائی کے اطراف و مضافات میں واقع ہیں۔ سیھری بہلول یا سیری بہلول یہ تخت بھائی کی حدود میں آتا ہے ۔ یہاں بھی بدھا تہذیب کی باقیات ملی ہیں تاہم تحقیق و کھدائی کا کام ہنوز مکمل نہیں کیا جاسکا۔

    [​IMG]
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    "ٹھٹہ "
    اسی طرح "ٹھٹہ "کے بیش تر تاریخی مقامات و نوادرات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ادارے نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے ۔ ٹھٹہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں کینجھر جھیل کے نزدیک واقع ایک تاریخی مقام ہے ۔یہ قصبہ کراچی کے مشرق میں تقریباً 98 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ کراچی کے قرب میں ہونے کی وجہ سے ، اس تاریخی و خوبصورت جگہ پر سیاحت کے دلدادہ لوگوں کی بڑی تعداد آسانی کے ساتھ پہنچ جاتی ہے۔ اس کے اطراف میں بنجر اور چٹانی کوہستانی علاقہ اور دلدلی زمین بھی ہے ۔ اس کے اطراف و اکناف کی کھدائی میں قدیم تاریخی نوادرات ملے ہیں جوکہ زمانہ قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں۔ چودھویں صدی عیسوی میں یہ شہر نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ سندھ کا داراالخلافہ تھا، جوکہ 95 سال تک رہا۔دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم قبرستان " مکلی" بھی ٹھٹہ کے قریب واقع ہے ۔ یہ قبرستان جس میں لاکھوں قبورہیں تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے ۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علماء، فلسفی اور جرنیل ابدی نیند سورہے ہیں۔

    [​IMG]
     
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    قلعہ روہتاس
    " قلعہ روہتاس " شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا ۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے ۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے ۔ قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کے بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے ۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بیک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے ۔قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، ۔قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شاہ اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے ۔ اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 6881 کگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں قلعہ روہتاس کی تباہی کا آغاز اس دن ہوا جب ہمایوں جو شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران چلا گیا تھا۔ دوبارہ شہنشاہ ہندوستان بن کر اس قلعے میں داخل ہوا۔ وہ اس عظیم قلعے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ تو اس کے دشمن شیر شاہ نے بنوایا ہے تو اس نے غصے کی حالت میں اسے مسمار کا حکم دیا۔ بادشاہ کے معتمد خاص بیرم خاں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اب یہ اسلامی ورثہ ہے اوراس پر قوم کا کافی پیسہ خرچ ہوا ہے اس لیے اسے مسمار نہ کیا جائے ہاں اپنے حکم کی شان برقرار رکھنے کی خاطر اس کا کچھ حصہ گرادیں۔ چنانچہ سوہل دروازے کے پنچ کنگرے گرادیے جائیں۔ جو بعد میں دوبارہ تعمیر کرائے گئے ۔ قلعے کی اصل تباہی سکھوں کے ہاتھوں ہوئی جو شاہی محلات کے اندر سے قیمتی پتھر اکھاڑ کر ساتھ لے گئے ۔ یہ قلعہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات میں سے ایک ہے ۔


    [​IMG]
     
  7. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔۔ نوازش ۔۔۔۔ جزاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں