1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از عدنان بوبی, ‏14 اگست 2009۔

  1. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    ان ہم وطنوں کو آزادی کی سالگرہ مبارک جو اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے ہیں ۔ اللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے ملک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کرئی ملک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ ہم ان گنت ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ۔ بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ قائداعظم 1942 میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا کہ پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟ قائداعظم نے جواب میں فرمایا کہ پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا ۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہترہو آزادی....ہر انسان کا بنیادی حق....خدا کی سب سےبڑی نعمت....زندگی کا سب سےخوبصورت نشان....چرند پرند انسان و حیوان ہر جاندارر آزاد رہنا چاہتا ہی۔آزاد ی کی فضا میں جینا اور مرنا چاہتا ہے۔ہماری خوش قسمتی ہےکہ ہم ایک آزاد قوم ہیں۔جمعہ چودہ اگست کو پاکستان کی آزادی کی 62 سالگرہ ہو گی ۔خوشیوں کےتازیانےبجیں گی،گلی محلےاور عمارتیں رنگ برنگی جھنڈیوں سےسجائی جائیں گی،فضا میں ہلالی پرچم لہرایا جائےگا۔ہوائوں میں دل دل پاکستان کےنغمےگونجیں گی۔لوگ خوشی خوشی باغوں بہاروں میں نکلیں گےاور بابائےقوم اور تحریکِ پاکستان سےوابستہ ہر اس فرد کی قربانی کا ثمر کھائیں گےجس نےفقط ایک لمحہ بھی پاکستان حاصل کرنےکی جدوجہد میں صرف کیا تھا۔وہ دور اور وہ زمانہ اب سےپچاس ساٹھ برس پرانا....نہ وہ لوگ ....نہ وہ سوچ....نہ خلوص نہ محنت.... غیرت نہ بہادری....کچھ بھی تو اب ہم میں باقی نہیں رہا.... کسی انسان کی سالگرہ ہو تو وہ خوشی خوشی سالگرہ کا کیک کاٹتا ہے....خوبصورت مموم بتیاں جلاتا ہے....اپنےپیاروں سےتحفےوصول کرتا ہے....بزرگوں کی دعائیں اور نصیحتیں حاصل کرتا ہےاور پھر اپنی اگلی سالگرہ کا انتظار کرنےلگتا ہی....اِس بات سےبےخبر کہ سالگرہ کا یہ سلسلہ ا سےرفتہ رفتہ اس کےانجام کی طرف لےجا رہا ہی.... وہ ہر سال خوشی سےاپنی” ہونے“کی سالگرہ مناتا ہے....یونہی اپنےملک کی آزادی کی سالگرہ مناتےہیں ہم....بزرگ کہتےہیں سالگرہ کوئی خوشی کا دن نہیں بلکہ ایک فکر انگیز موقع ہوتا ہےجس پر انسان کو خوشیاں تو بےشک منانی ہی چاہئیں لیکن اپنےماضی کا ، گزرےہوےسال کا بھی احتساب کرنا چاہئے....انسان پیدا ہوتاہےایک معصوم بچےکےروپ میں اور جوان ہوتا ہےتو اسی معصوم بچےکےہزاروں روپ وجود میں آجاتےہیں....کہیں یہ مسیحا کہیں قاتل....کہیں راہزن کہیں رفیق....کہیں غازی کہیں شہید.... ایک پاکستانی ہونےکےناتےدل میں جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔اپنےہموطنوںکےسنگ دل چاہتا ہےکہ مسرتوں کا یہ لمحہ خوشیوں کےساتھ گزاریں لیکن ایک لمحہ کو ضمیر جاگ اٹھتا ہےتو اپنےماضی،اپنےملک کی حالت کا احتساب کرنےکو جی چاہتا ہی۔ اس وقت ہر شخص دورِ جدید کی رونقوں اور رنگینیوں میں بری طرح پھنسا ہوا ہےلیکن جب وہ تنہائی کا ایک لمحہ بھی حاصل کرتا ہےتو وہ لاشعوری طور پر اپنی شخصیت ، اپنی حالت اور اپنےوجود کا احتساب کرنےلگتا ہے۔ آزادی حاصل کرنےکےلئےہمارےبزرگوں نےہزاروں جتن کئے،لاکھوں قربانیاں دی، صرف اس لئےکہ ہندئوں اور انگریزوں کےقبضےسےجان چھڑائی جائےاور اپنےایک آزاد ملک میں آزادانہ معاشرےکی بنیاد رکھی جائے۔آزادی کایہ سلسلہ ُاس آزادی سےچلا تھا ،لیکن یہ سعادت حاصل کرنےوالوں کو معلوم نہ تھا کہ آزادی کا یہ سلسلہ کیسےکیسےطریقوں سےبھانت بھانت کےرنگ اختیار کرتا طول پکڑتا چلا جائےگا۔آزاد لفظ کےساتھ کیسےکیسےسابقےاور لاحقےاستعمال کئےجا سکتےہیں،آزاد خیال،آزاد فکر،آزاد منش،مادر پدر آزاد.... یہ تمام صفات منفی و مثبت اثرات کےساتھ اب ہمارےمعاشرےمیں سرایت کرتی چلی جا رہی ہیں۔ہماری ثقافت ہندوئوں کےہاتھوں بک چکی ہی۔ہمارا معاشرہ مغرب کی تقلید کر رہا ہی۔ہماری نئی نسل موبائل ،گاڑی اور انٹرنیٹ کےحصول میں بری طرح سےجکڑی جا رہی ہے۔ہم اپنےمحسنوں کو دنیا کےسامنےرلاتےہیں اور ان سےمعافیاں منگواتےہیں،ہم اپنےقائد کےاقوال ہر کاغذ کی پہلی سطر میں لکھتےہیں لیکن کبھی کسی درسگاہ میں عملی طور پر ان اقوال کو اپنانےکا درس نہیں دیا جاتا ، ہم یہ اقوال،سنہری باتیں بھول رہےہیں،اپنا قومی ترانہ بھول رہےہیں،دل دل پاکستان بھول رہےہیں جبکہ ہمارےگلی محلوں،دکانوں ،بسوں، سینمائوں غرض کہ ہر جگہ ہندی فلموں کےنغمےگونج رہےہیں۔ہم شوق سےفلموں میں وندےماترم سنتےہیں اور سر دھنتےہیں۔ہم بےوقوف اور بدنصیب عوام ،پچھلےپچاس سالوں سےسیاستدانوں اور پتلی تماشہ کرنےوالوں کےہاتھوں میں کھیل رہےہیں۔یہ بہروپئےجو دل ہی دل میں مسندِ حکومت کےبھوکےاور اقتدار کےپیاسےہوتےہیں ،اپنی خواہشوں کو روٹی کپڑا اور مکان، دال دلیا سامان،سب سےپہلےپاکستان جیسےنعروں کا لباس پہنا کر رقصِ سیاست کرتےہیں۔ہم وہ لوگ ہیں جو معاف کرنےمیں ورلڈ ریکارڈ رکھتےہیں۔شاید ہمارےحکمرانوں نےاس بزرگ کی حکایت پڑھ رکھی ہےجو دریا سےبچھو کو ڈوبنےسےبچانےکےلئےباہر نکالتا تھا اور بچھو اس کی ہتھیلی پر کاٹتا تھا، وہ پھر بچھو کو پانی سےباہر نکالتا تھا اور بچھو پھر اس کےہاتھ پر ڈنک مارتا تھا۔ایک راہ گزر کےپوچھنےپر آپ بار بار اسی بچھو کو باہر نکالتےہیں جو آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہی.... بزرگ فرمانےلگےکہ بھائی !یہ تو حیوان ہے۔اس کی صفت میں کاٹنا ہی لکھا ہی، ہم تو اشرف المخلوقات ہیں،مسلمان ہے،ہمارا دین ہمیں بھلائی کا درس دیتا ہے، کیا ہم بھی برائی کا جواب برائی سےدیں تو بھائیو! ہمارےدشمن وہ بچھو اور ہم وہ مسلمان ہیں جو باقاعدگی سےڈستےچلےجارہےہیں۔امریکہ و اسرائیل اور برطانیہ وہ زہریلےسانپ ہیں جو ہم مسلمانوں کی ہتھیلیوں اور سینوں کو ڈس رہےہیں۔اور ہم مزےسےان بچھوئوں کو پھر سےاپنےبدن پر چڑھا کر کھلا چھوڑ دیتےہیں کہ جہاں چاہیں ڈسیں.... افغانستان و عراق پر ظالمانِ عالم کی بربریت کےموقع پر ہم عیسائیوں کےاتحادی بنے....مان لیجئےکہ وقت کا تقاضا تھا.... لیکن سوچنا تو چاہئےکہ ہمارےایسےلچھن ہی کس لئےہیںکہ ہمیں مسلمانوں کےخلاف غیرمسلموں کا ساتھ دینا پڑی....کیا ہم اپنی ذاتی پہچان نہیں رکھتی....کیا ہم میں ایمان کی کمی ہی....کیا ہم میں سےغزنی و غور ی پیدا نہیں ہوئی....کیا ہم مسلمانوں نےطارق و بن قاسم جیسےشاہین پیدا نہیں کیے....ایک صاحب کہنےلگے....ہم ہی نےمیر قاسم و میرجعفر جیسےلوگ پیدا کئے....ہم ہی نےرشدی،تسنیمہ ،ٹائیگرنیازی،یحیٰ خان ، جیسےافراد کو جنم دیا.... ہم اپنےملک کی آزادی منانےچلےہیں....کہنےکو مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہی....جب کسی بھائی کےگھر پر کوئی حملہ کری،پیاروں کو چیر پھاڑ کر رکھ دی،سامان تہس نہس کر دی،تصویریں اور یادیں اکھاڑ پھینکی،تو دوسرےگھر میں بیٹھا مسلمان بھائی کس طرح سکون سےاپنےگھر کی سا لمیت کا جشن منا سکتا ہے....ممکن ہےہم اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ اپنےبھائی کی مدد کو پہنچ سکیں لیکن ایسی صورت میں ہمیں اپنی آزادی اور سا لمیت کا جشن منانےکا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہی....اگر تو ہم مانتےہیں کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہوتےہیں تو بخدا ہمیں یہ حق کسی بھی صورت حاصل نہیں ہےکہ ہم اپنےگھروں کو جھنڈیوں اور برقی قمقوں سےروشن کریں جبکہ ہمارےبھائیوں کےگھروں اور عمارتوں کو مسمار کیا جارہا ہو، ان کی گھروں کی دیواریں ان کےاپنےخون سےرنگی جارہی ہوں ....ان کی زمینوں کو ان کےبچوں اور مائوں کےلہو سےسینچا جا رہا ہو اور ہم اپنےگھر میں ٹی وی کےسامنےبیٹھےمزےسےآزادی آزادی کا جشن منارہےہوں....اگر ہم غیرت مند قوم ہیں....اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر یقین رکھتےہیں....اگربزرگوں کی طرح ہمارےدل میں احساس باقی ہےتو ہمیں یہ دن خاموشی سےاپنا احتساب کرتےہوئےگزارنا چاہئی....ہمیں شمعیں جلا کر ، اندھیری رات کےچاند کی روشنی میں ، اپنےبھائیوں کےکےنام پرایک ایک دیا جلانا چاہئے،ان کی بہادری، ان کی جد و جہد اور ان کی آزادی کےلئےان کی کامیابی کےلئے،ہمیں دل دل پاکستان کےساتھ ساتھ ”اِذا جا ءنصر اللہ والفتح “ کی تلاوت بھی کرنی چاہئےاور یہ آیات اپنےلبنانی و عراقی و افغان بھائیوں کےنام کرنی چاہئیں۔ہم اس وقت نام کےمسلمان ملک میں رہتےہیں جس کا دنیا کےکسی بھی خطےمیں دہشت گردی میں تو عمل دخل ہو سکتا ہےلیکن کسی مسلمان ملک میں آزادی کےحصول کی خاطر لڑی جانےوالی جنگ میں کوئی ذاتی اور براہِ راست کردار نہیں ہو سکتا ....کیونکہ ہم امن امن کا راگ الاپنےوالےدھوبیوں کےکپڑوں ،جانوروں اور دیگر سامان کےساتھ چمٹےہوئےدہشت گردی کی میل ختم کرنےکےلئےپورےجوش و خروش کےساتھ چھن چھن کرتےجا رہےہیں اوراس بات سےبےخبرہیں کہ ان دھوبیوں کےکتےاور گدھےاپنےہی بھائیوں کےباغوں میںگھس کر بھوک پیاس مٹانےکی کوشش میں مصروف ہیں اور ہمیںکچھ خبر نہیں کہ کب یہ جانور زور کی جھرجھری لےکر ہمیں اپنی پیٹھ سےگرا دیں اور تھوڑا سا آگےجا کر منہ پیچھےکی طرف موڑ لیں اور کسی بھینسےکی طرح سینگ نیچےکئےپوری رفتار سےہماری طرف دوڑ لگا دیں....تب ہم وہی کاٹیں گے جُو اَ ب بُو رہے ہیں....ہم خود اپنےہاتھوں میںسرخ کپڑا لئےکھڑےہیں....چاہیں تو اسےپیشانی پر باندھ کر مسلمانوں کی بقا کےلئےاپنی اپنی استطاعت کےمطابق مسلمان ہونےکا حق ادا کریں....یاچاہیں تو اسےہاتھوں میں ہلا ہلا کر آزادی آزادی کا رقص کریں اور ایک دن امریکہ و اسرئیل نامی بھینسوں کےنوکدار سینگوں کی زوردار ٹکر اپنی پشت پر کھا کر دہشت گردی کی جنگ میں ہاتھ بٹانےکا لطف اٹھائیں!!!آزادی آپ سب کو مبارک ہو!!!
     
  2. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    جنگ آزادی میں علمائے کرام کا حصہ

     جنگ آزادی میں علمائے کرام کا حصہ

    اور

    تاریخی نا انصافیاں
    آج سے کوئی ساٹھ برس قبل ہمارے اسلاف نے یہ سوچا تھا کہ اب ہندستان آزاد ہواتو ہماری اصل تاریخ سامنے آئے گی اور ہماری میراث آنے والی نسلوں تک پہنچ سکے گی ۔ اور مسخ شدہ ہندستانی تاریخ کو از سر نو ترتیب دی جائے گی مگر یہ امیدحسرت ہی بنی رہی ۔بقول شین اختر ’’چند ایک روشن خیال افراد کو چھوڑ کر ہماری تاریخ کا جائزہ لینے والوں نے نئی تاریخیں گھڑ لیں اور اپنے پُرکھوں کے جنازے سے کفن چوری کر لیا اور انھیں برہنہ چھوڑ کر اپنی فرقہ پرستی اور درندگی کا ثبوت فراہم کیا، اپنی ذات، برادری، ہم مذہب سیاسی رہنماؤں اور آزادیٴ وطن کی خاطر شہید ہونے والوں کی یادمیں مجسمے بنائے ، تصویریں بنائیں ، جنم دن منائے ، شہر وں ، گلیوں ، محلوں اور دانش گاہوں کے نئے نام رکھے۔اسکولوں اور کالجوں میں ان کے اسمائے گرامی لٹکائے ۔ اس طرح اپنی عصبیت اور تنگ نظری کی صلیبیں بنا کر ان کے سینوں پر چپکا دیں۔‘‘(باغی کی وراثت) سچائی یہی ہے کہ ہندستانی تاریخ اور سیاست نے اپنے جان نثاروں کو بھُلا دیا۔ بلکہ یہ کہیں کہ جن کو ہماری سیاست نے چاہا ملک کی تاریخ میں زندہ رکھا اور جس کو چاہا اس سرے سے تاریخ کے صفحات سے غائب کر دیا ۔جو کل کے ہیرو تھے انھیں کوئی جانتا بھی نہیں لیکن جو بُردہ فروش تھے ان کی تاریخیں گھڑی جارہی ، جنھوں نے ساز باز کر کے پوری امت اور علماء کو بدنام کر نے کی کوشش کی انہی کو جنگ آزادی کا سپہ سالار کہا جارہا ہے، ان پر لکھی جانے والی کتابیں مزین اوراق میں شائع ہورہی ہیں ۔جن کی انگریز نوازیوں نے ملک و قوم کے ساتھ غداری کی وہ آج کے ہیرو ہیں۔ متعصب اور تساہل پسند مؤرخوں کے حوالوں میں بھی وہی ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں ۔صرف ایک جماعت اور ایک فرقہ کا نام تاریخ میں درج کر کے سچے وطن پرست اور جانبازوں کو تاریخ سے مٹا دینے کی ایسی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملے گی۔لیکن صرف غیروں پہ ماتم کر کے اس کی تلافی نہیں کی جا سکتی ۔بات یہ ہےاس غیر اخلاقی رویے کے لیے جس قدر متعصب تاریخ نویس ذمہ دار ہیں۔ اس سےکہیں زیادہ ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ہم نے کبھی اپنی تاریخ کو نہ سمجھنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کی حفاظت کا کوئی اہتمام کیا۔جب ہمارا ہی یہ حال ہوگا تو دوسروں کی شکایت ہی بے جا ہے ۔ لیکن ایک بات ہے جس کی شکایت ہی نہیں احتجاج بھی کی جانی چاہیے۔آپ کو معلوم ہے کہ ہندستان میں جنگ آزدی سے متعلق جتنی بھی شخصیات ہیں ان کے نام سے سڑکیں ، اسکول ، کالج اور اور نہ جانے کیا کیا ہیں ۔ اور ہر سال ان کا جنم دن اور برسی بڑے دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔آپ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ سال ۲۰۰۷ ء کو ہندستان کی حکومت پہلی جنگ آزادی کا ڈیرھ سو سالہ جشن منا رہی ہے ۔ مگر اس بات پر کسی کو تعجب نہیں ہو ا کہ اس جنگ کے ہیرو اور قائد کی برسی ۷ نومبر۲۰۰۷ کو تھی۔ اس نام کے بغیر جنگ آزادی کی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔مگر معاف کیجئے گا ، نہ صرف ہم نے بھُلایا بلکہ ہماری حکومت نے بھی اس طرح بھلایا کہ پورے ملک کی بات تو چھوڑئیے ، جس لعل قلعے پر ہم فخر کرتے ہیں اس لعل قلعےکے شہر ، دہلی نے بھی بہادر شاہ ظفر (۷نومبر ۱۸۵۷)کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کو فراموش کر دیا۔ آپ خود غور کریں کہ ایک طرف ہم ملک میں پہلی جنگ آزادی کی ڈیڑھ سو سالہ تقریب منا رہے ہیں ،مگر اسی جنگ کے ہیرو کی برسی پر کوئی تقریب نہیں ہوتی۔ اب اِ سے آپ تعصب کہیں ، مسلم تاریخ کُشی کہیں یا جو چاہیں کہیں سب روا ہے۔ مگر کچھ کہہنے سے پہلے یہ بھی سوچ لیں کہ کیا ہم خود بھی بے حِسی کے شکار نہیں ہیں ؟
    آج کی صیہونی طاقتیں صرف انھیں اقوام کو اپنا نشانہ بنا رہی ہیں جن کی تاریخیں سب سے زیادہ روشن اور جن کے اقدار سب سے اعلیٰ رہے ہیں ۔آج کے گلوبل ورلڈ میں سب سے بڑی لڑائی یہی ہے۔ جب کسی قوم کی تاریخ تیزی آگے بڑھی ہے اس کو اسی تشدد سے ختم کرنے کی سازش بھی ہوئی ہے۔اس ملک میں سب سے پہلے انگریزوں نے مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنایا ۔انگریزوں کی دو کوششیں تھیں جس میں وہ کامیاب ہوئے اور آج تک وہ لعنت ختم نہیں ہوئی ۔
    ۱۔ ہندو مسلم نفاق

    ۲۔ مسلمانوں کے خلاف سازش
    انگریزوں کے ذریعے ہندستان میں فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کا جو بیج بویا گیا آج وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔فرقہ پرستی کی لعنت شباب پر ہے اور مسلمانوں کی خلاف عالمی سطح پر جو سازیشیں کی جارہی ہیں ،اس میں کہیں نہ کہیں ہندستان کی بھی شراکت ہے۔ایسے میں اگر ہم نے خود آگے بڑھ کر اپنی تاریخ اور اسلاف کے میراث کی حفاظت نہیں کی تو جو بھی بچی کھچی تاریخ ہے اسے بھی مِٹنے میں بہت وقت نہیں لگے گا۔
    کہا جاتا ہے کہ دنیا میں وہی قومیں اور نسلیں عزت ووقار کے ساتھ زندہ رہتی ہیں جو اپنی تاریخ کو اپنے لیے نہ صرف سرمایہٴ افتخار سمجھتی ہیں بلکہ اسے وقیع ترین میراث بھی سمجھتی ہیں۔جس قوم نے اپنی تاریخ کو اپنے سینے سے لگایا وہی قوم سرفراز اور سر بلند رہتی ہے۔ اگر کسی قوم کو اس دنیا سے ختم کرنا ہے تو اس کے لیے تلوار و تفنگ کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اس کی تاریخ کو مٹا دو وہ قوم ایک صدی بھی نہیں گذرے گی کہ خود بخود ختم ہو جائے گی۔آج عالمی سطح پر اسی طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ صارفیت کا تصور بھی تقریباً یہی ہے کہ ایک ایسا نظام متعارف کرایا جائے کہ جس کی چمک دمک کے آگے تمام اقوام اپنے اقدار کو بھی بھول جائیں ۔آج ہو یہی رہا ہے کہ صارفیت اور عالم کاری کے پس پردہ مغربی کلچر کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے ۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اس کلچر کو عام کرنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سائنسی دور میں مذہب کو ہمارے سماج سے کو ئی واسطہ نہیں ہے مگر اس مغربی تہذیب کو دیکھیں تو اس میں تمام تر رسومات کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے عیسائی مذہب سے ہے ۔ اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جو عام لوگوں کی نظر وں میں ہیں۔
    المیہ یہ ہے کہ جس طرح ہماری ہندستانی تہذیب پر حملے ہو رہے ہیں اسی طرح ہماری تاریخ پر بھی کاری ضرب لگائی جا رہی ہے۔لیکن کم اہل نظر ہیں جواس حوالے سے اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ہندستانی تاریخ کو جس طرح سے غیر ملکیوں نے تباہ کیا ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی ، جن انگریزوں نے اس ملک کو لوٹا وہی اس کی تاریخ بھی لکھ رہے تھے اور آج کے فیشن پرست معاشرے میں انھیں کی کتابوں کو سب سے معتبر سمجھا جاتا ہے۔اسی لیے اس ملک کی تہذیبی اور تمدنی تاریخ پڑھ کر ہمیشہ تشنگی کا احساس ہوا ۔ کیونکہ ہندستان میں انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے سب سے زیادہ خطرہ انھیں مسلمانوں سے ہی تھا ۔ چنانچہ انھوں نے ایک طرف سب سے زیادہ مظالم بھی مسلمانوں پر ہی ڈھایا اور شعوری طور پر ان کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی ۔پھر اس کے بعد عہد جدیدکے تاریخ نویس بھی علمی دیانت داری سے کام نہیں کر سکے کیونکہ اس عہد کی زبان اردو اور فارسی تھی ۔لہٰذا تما م بنیادی مواد اسی زبان میں موجود تھے اور یہ تاریخ نویس ان سے ناواقف بھی تھے اور واقف ہونا بھی نہیں چاہتے تھے۔اس لیے رفتہ رفتہ جدیدہندستان کی تاریخ سے مسلمانوں کا نام ونشان کم ہوتا گیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جب بھی حکومت جنگ آزادی کی بات کرتی ہے یا جب کوئی ایسی تقریب منائی جاتی جس میں بڑے تزک واحتشام کے ساتھ جنگ آزادی کے ہیروز کی تصویریں شائع کی جاتی ہیں تو ان میں مسلمان چہرے کم ہی ہوتے ہیں ۔چند نام جو ٹریڈ مارک کی حیثیت رکھتے ہیں ، انہی ناموں اور تصویروں کو ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں ۔ حالانکہ سچائی بالکل اس کے بر عکس ہے۱۷۵۷ ءسے ۱۸۵۷ءتک اور۱۸۵۷ءسے ۱۹۴۷ءتک کی تاریخی سچائیوں کو کھنگالنے کی کو شش کریں تو معلوم ہوگا کہ اس طویل اور تاریخی جنگ میں جس طرح علمائے کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اس طرح کسی اور مذہبی جماعت نے وہ کردار ادا نہیں کیا ۔ایک طویل فہرست ہے جس کے لیے کئی دفاتر کی ضرورت ہے ۔لیکن جس طرح دوسروں نے ہماری قربانیوں اور وطن پر جاں نثاریوں کو بھلا دیا اس سے زیادہ ہم نے بھی غفلت کا ثبوت دیا ہے۔ایک اور پہلو پر بھی غور کریں کہ تاریخ نویس اتمام حجت کے لیے اگر علما کا نام لیتے بھی ہیں تو وہ وہابی تحریک سے شروع کرتے ہیں اور وہیں ختم بھی کر دیتے ہیں ۔جو تاریخ کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔
    ۱۸۵۷ءکے واقعے نے ایک طرف ملک کا سارا نظام بدل ڈالا تو دوسری جانب خود ہندستانیوں پر عرصہٴ حیات تنگ کر دیا۔صدیوں سے بنی بنائی قدروں کو لمحوں میں مسمار کردیا۔مشرقی تہذیب پرمغربی یلغار نے دانشوروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔عیسائیت کو حکومت کی سرپرستی میں فروغ دینے کی منضبط کوششوں نے ایک نیا محاذ کھول دیا ،وہ جو دوسروں کی کفالت کرتے تھے اب خود ہی دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہوگئے اس معاشی پست حالی نے ہندستانیوں کی کمر توڑ دی۔چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے انھیں یہ خدشہ تھا کہ اگر یہ دوبارہ متحد ہوگئے تو ہم سے نہ صرف حکومت چھین لی جائے گی بلکہ ہمارا نام ونشان بھی مٹا دیا جائے گا۔اس لیے ان کا One Pointپروگرام تھا کہ انھیں نفسیاتی اعتبار سے اتنا کمزور کردو کہ یہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں ۔اسی منصوبے کے تحت انھوں نے مذہبی منافرت کا بھی سہارا لیا اور ہر محاذ پر خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی یا علمی انھیں محرومیوں کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔وہ محب وطن جو وطن کی خاطر اپنی جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کر رہے تھے ، ایسے جاں نثاروں کی، ان کے پاس ایک طویل فہرست تھی ، حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد انھیں ایسی عبرتناک سزائیں دیں کہ دیکھنے والا ان کی مخالفت کی سوچ بھی نہ سکے۔اس اندوہناک صورت حال میں سب سے بڑی ضرورت تھی کہ عوام کو محرومی کے احساس سے نکالا جائے اور نفیساتی اعتبار سے ٹوٹے بکھرے لوگوں کو ہمت و حوصلہ فراہم کیا جائے۔اُس وقت کسی بھی اقدام سے عوام الناس کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہونا تھا ، جتنا کہ اس اقدام سے ہواجسےعلمائے کرام، اردو کے دانشوروں ،ادیبوں ، شاعروں ،صحافیوں اور نے کیا۔، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان ناموں میں ایک طبقے کو سرے سے نظر انداز کر دیا جا تا ہے اور وہ ہے علمائے کرام کی تحریریں ۔ ۱۸۵۷ء کے حوالے سے اردو ادب کا ذخیرہ بہت ہی وقیع ہے مگر المیہ ہے کہ ہم تعصبات کے شکار ہیں ۔ ہم نے علما ءکی تحریروں کو یکسر نظر انداز کیا ہے اور اسے ادب کے دائرے سے ہی خارج کر دیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود اپنا سرمایہ ہم اپنے ہاتھوں سے ضائع کر رہے ہیں۔لیکن ابھی بھی جو کچھ موجود ہے اس میں بھی علما ءاور مذہبی شخصیات کی تحریریں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔۱۸۵۷ءکی ناکام جنگ کے بعد ادیبوں کی جانب سے طرح طرح کے ردعمل سامنے آئے ۔ ۱۸۶۰ءہی میں ”فغان دہلی“کے نام سے شاعری کا مجموعہ سامنے آیا جس میں بیشتر ایسے شاعروں کا کلام ہے جو خود اس جنگ میں عملی طورپر شریک رہےاور جن جن شاعروں کے نام ہیں ان میں بیشتر وہ علمائے کرام ہیں جن کو ہمارے تاریخ نویس شاعر تو کہتے ہیں مگر عالم کہنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ ”الہٰ آباد میں شورش کے موقعے پر جو اشتہار بنام شاہ اودھ اور دیگر مقامات قرب و جوار میں مشتہر کیے گئے تھے ان میں سے دو پنڈت کنہیا لال نے محاربہٴ عظیم(صفحہ ۳۰۰) میں نقل کیا ہے۔ یہ دونوں اشتہار اردو میں ہیں، ایک نثر میں ہے اور ایک نظم میں “۔ نظم کا اشتہار اس طرح ہے۔
    واسطے دین کے لڑنا نہ پئے طمع بلاد اہل اسلام اسے شرع میں کہتے ہیں جہاد

    ہے جو قرآن و احادیث میں خوبیٴ جہاد ہم بیاں کرتے ہیں تھوڑا سا اسے کر لو یاد

    فرض ہے تم پہ مسلمانوجہاد ِ کفار اس کا سامان کرو جلد اگر ہو دیندار

    جو نہ خود جاوے لڑائی میں نہ خرچے کچھ مال اس پہ ڈالے گا خدا پیشتر از مرگ وبال

    جو راہِ حق میں ہوئے ٹکڑے نہیں مرتے ہیں بلکہ وہ جیتے ہیں جنت میں خوشی کرتے ہیں

    حق تعالیٰ کو مجاہد وہ بہت بھاتے ہیں مثل دیوار جو صف باندھ کے جم جاتے ہیں

    اے مسلمانو سنی تم نے جو خوبیٴ جہاد چلو اب رن کی طرف مت کرو گھر بار کو یاد

    کب تلک گھر میں پڑے جوتیاں چٹخاؤگے اپنی سستی کا جزا افسوس نہ پھل پاؤگے
    مومن خان مومن دہلوی بھی اس یورش کے عینی شاہدین میں سے ہیں ۔ انگریزوں کی بڑھتی طاقت کے پیش نظر انھیں دہلی اور لعل قلعہ کی تباہی کا منظرصاف دیکھائی دے رہا تھا ، اسی لیے انھوں نے بھی وہی باتیں کہیں جو اس وقت تمام علما ء، مفتیان اور دانشوروں نے کہی تھی، ان کے مطابق انگریزوں سے لڑنا ایک طرح کا جہاد تھا۔اور لوگ جہادسمجھ کر ہی اس میں شریک ہورہے تھے۔ آج کا معاملہ یہ ہے کہ اس لفظ کو اس قدر بے حرمت کر دیا گیا ہے کہ جہاد کے نام سے لوگ مسلمانوں کو گویا دشنام دیتے ہیں (یہ بحث طلب موضوع ہے جس پر گفتگو ہونی چاہیے)۔ لیکن آپ یہ ملاحظہ فرمائیں کی اس وقت ملک کی حفاظت کے لیے اسی جذبہٴ جہاد نے لوگوں کو مجتمع کیا اور اپنے ملک کی حفاظت میں خون کا ایک ایک قطرہ بھی نچھاور کر دیا۔انگریزوں کے خلاف اسی جہاد کے متعلق علامہ فضل حق خیر آبادی نے جامع مسجد کے منبر سے جہاد کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی اور جہاد کا فتویٰ صادر کر کے علماء سے اس پر دستخط لیے ۔ دستخط کرنے والے تین سو علماء میں زیادہ تر اہلسنت کے علماء تھے۔پھر اس کے بعد ہر طرف انگریزو ں کے خلاف جہاد کے نعرے گونجنے لگے ۔جس کے حوالے اس عہد کے دستاویزات میں موجود ہیں ۔اس کا چرچہ اتنا عام ہوا کہ اردو کے شعرا نے بھی اسے اپنا موضوع سخن بنایا۔اسی جہادکی تلقین کرتے ہوئے مومن نے’’ مثنوی جہادیہ ‘‘لکھی جس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
    عجب وقت ہے یہ جو ہمت کرے حیات ابد ہے جو اس دم مرے

    سعادت ہے جو جانفشانی کرے یہاں اور وہاں کا مرانی کرے

    الہٰی مجھے بھی شہادت نصیب یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
    امام بخش صہبائی جو ایک بڑے عالم دین بھی تھے،نے اس جنگ میں عملی طور پر شرکت بھی کی اور انگریزوں سے معتوب بھی ہوئے،انھوں نے دلی کے لُٹ جانے کے بعد کے درد کو جس انداز میں اپنے اشعار میں پیش کیا ہے وہ انتہائی کرب انگیز ہے انھوں نے ذیل کے اشعار میں ان شہزادیوں اور رئیسوں کی بدحالی کا ذکر کیا ہے کہ جنھوں نے کبھی کوئی تکلیف نہیں دیکھی آج ان کا کیا حال ہے ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیں:
    زیور الماس کا تھا جن سے نہ پہنا جاتا بھاری جھومر بھی کبھی سرپہ نہ رکھا جاتا

    گاج کا جن سے دو پٹہ نہ سنبھالا جاتا لاکھ حکمت سے اوڑھتے تو نہ اوڑھا جاتا

    سر پہ وہ بوجھ لیے چار طرف پھرتے ہیں

    دو قدم چلتے ہیں مشکل سے تو پھر گرتے ہیں

    طبع جو گہنے سے پھولوں کے اذیت پاتی مہندی ہاتھوں میں لگا سوتے تو کیا گھبراتی

    شام سے صبح تلک نیند نہ ان کو آتی ایک سلوٹ بھی بچھونے میں اگر پڑ جاتی

    ان کو تکیہ کے بھی قابل نہ خدا نے رکھا

    سنگ پہلو سے اٹھایا تو سرہانے رکھا

    روز وحشت مجھے صحرا کی طرف لاتی ہے سر ہے اور جوش جنوں سنگ ہے اور چھاتی ہے

    ٹکڑے ہوتا ہے جگر جی ہی پہ بن جاتی ہے مصطفی خان کی ملاقات جو یاد آتی ہے

    کیونکہ آزردہ نکل جائے نہ سوادئی ہو

    قتل اس طرح سے بے جرم جو صہبائی ہو (فغان دہلی)

    منیر شکوہ آبادی بھی جنھیں صرف لوگ شاعر کے طور پر جانتے ہیں ، لیکن یہ ایک عالم دین تھے (مولانا یٰسین اختر مصباحی نے اپنی کتاب میں ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے) جنھوں نے اس ہنگامے کو نہ صرف دیکھا تھا بلکہ اس سے متاثر بھی ہوئے۔یہ نواب باندہ کے مصاحب تھے ، ان کی گرفتاری کے بعد مرزا ولایت حسین کے ساتھ فرخ آباد میں قید کر لیے گئے اور ان پر مقدمہ چلتا رہا۔ اس کی تفصیل خود ان کے اشعار میں ملاحظہ فرمائیں:



    فرخ آباد اور یاران شفیق چھٹ گئے سب گردش تقدیر سے

    آئے باندے میں مقید ہوکے سو طرح کی ذلت و تحقیر سے

    کوٹھری تاریک پائی مثل قبر تنگ تر تھی حلقہٴ زنجیر سے

    پھر ا لہٰ آباد لے جائے گئے ظلم سے تلبیس سے تزویر سے

    جو الہٰ آباد میں گذرے ستم ہیں فزوں تقریر سے تحریر سے

    پھر ہوئے کلکتے کو پیدل رواں گرتے پڑتے پاؤں کی زنجیر سے

    ہتھکڑی ہاتھوں میں بیڑی پاؤں میں ناتواں تر قیس کی تصویر سے

    سوئے مشرق لائے مغرب سے مجھے تھی غرض تقدیر کو تشہیر سے



    یہ اور اس طرح کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ظاہر ہے اس کا یہاں موقع نہیں اور نہ گنجائش ہے ۔لیکن نئے تاریخ نویسوں سے یہ امید ضرور کرتا ہوں کہ وہ تاریخ کو نئے سرے سے دیکھیں اور تاریخ نویسی میں مبالغہ اور دروغ سے احتراز کرتے ہوئے بنیادی مآخذ سے براہ راست استفادے کے بعد ہی تاریخ لکھیں تب ہی وطن پر قربان ہونے والوں کا قرض ادا سکتا ہے۔

    نکات:



    ● انگریزوں کی دو کوششیں تھیں جس میں وہ کامیاب ہوئے اور آج تک وہ لعنت ختم نہیں ہوئی

    ۱۔ ہندو مسلم نفاق ۲ ۔ مسلمانوں کے خلاف سازش

    ● جہاد کا لفظ جنگ آزادی کے لیے اس بات کی علامت ہے کہ پوری مسلم قوم اس میں شریک رہی۔

    ● مکمل تسلط کے بعد بھی علماء ، مسلمان اور اسلام انگریزوں کے نشانے پر رہے یہ بھی دلیل ہے مسلم قوم کی شمولیت کی ۔

    ● آج کی صیہونی طاقتیں صرف انھیں اقوام کو اپنا نشانہ بنا رہی ہیں جن کی تاریخیں سب سے زیادہ روشن اور جن کے اقدار سب سے اعلیٰ رہے ہیں ۔آج کے گلوبل ورلڈ میں سب سے بڑی لڑائی یہی ہے ۔

    ● انگریزوں نے اس ملک کو لوٹا وہی اس کی تاریخ بھی لکھ رہے تھے اور آج کے فیشن پرست معاشرے میں انھیں کی کتابوں کو سب سے معتبر سمجھا جاتا ہے۔

    ● کیونکہ ہندستان میں انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے سب سے زیادہ خطرہ انھیں مسلمانوں سے ہی تھا۔

    ● عہد جدیدکے تاریخ نویس بھی علمی دیانت داری سے کام نہیں کر سکے کیونکہ اس عہد کی زبان اردو اور فارسی تھی ۔لہٰذا تما م بنیادی مواد اسی زبان میں موجود تھے اور یہ تاریخ نویس ان سے ناواقف بھی تھے اور واقف ہونا بھی نہیں چاہتے تھے۔

    ● اس لیے رفتہ رفتہ جدیدہندستان کی تاریخ سے مسلمانوں کا نام ونشان کم ہوتا گیا اور اب نوبت یہ ہے کہ جب بھی حکومت جنگ آزادی کی بات کرتی ہے یا جب کوئی ایسی تقریب منائی جاتی جس میں بڑے تزک واحتشام

    کے ساتھ جنگ آزادی کے ہیروز کی تصویریں شائع کی جاتی ہیں تو ان میں کوئی چہرہ مسلمان کو نہیں ہوت
     

اس صفحے کو مشتہر کریں