1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان میں پائی جانے والی تازہ پانی کی مچھلیاں

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از سید شہزاد ناصر, ‏7 جون 2015۔

  1. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    تھیلا
    [​IMG]
    اس کو چڑا بھی کہا جاتا ہے یہ میٹھے پانی کے تالابوں دریاؤں اور نہروں میں رہنا پسند کرتی ہے
    پاکستان کے علاوہ یہ ایشائی ممالک میں بھی عام پائی جاتی ہے یہ ایک سبزی خور مچھلی ہے جو آبی کیڑے اور نباتات کو بطور خوراک استعمال کرتی ہے اس کا شکار بہت پر لطف ہے کانٹے میں پھنسنے کے بعد یہ بہت مزاحمت کرتی ہے اور گہرے پانی میں جانے کی کوشش کرتی ہے اس کا وزن 30 کلو تک ریکارڈ کیا جا چکا ہے اس کا گوشت اوسط درجے کا ہے کانٹے زیادہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں کم قیمت پر مل جاتی ہے

    گلفام

    [​IMG]
    یہ پاکستان میں اور دنیا کے کئی ممالک میں بہت عام ہے اس جسم لمبوترا مضبوط ہوتا ہے یہ بھی ایک سبزی خور مچھلی ہے جو کہ آبی کیڑے اور نباتات کھا کر گزارہ کرتی ہے یہ مچھلی شکاری کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے کیونکہ اپنے مضبوط جسم کی وجہ سے یہ کیچڑ کو کسی جیٹ انجن کی طرح چیرتی ہوئی نکل جاتی ہے اس کا زیادہ سے زیادہ وزن 40 کلو ریکارڈ کیا گیا ہے انٹرنیشنل گیم فشنگ ایسوسی ایشن کے مطابق بنسی سے شکار کی گئی گلفام کا ریکارڈ 33 کلو ہے

    رہو
    [​IMG]
    رہو تمام ایشائی ممالک میں عام پائی جاتی ہے ذائقے کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی ہے اس کی خوراک بھی آبی کیڑے اور نباتات ہے
    اس کا شکار بھی بہت پرلطف ہے یہ کانٹے میں پھنسنے کے بعد بہت مزاحمت کرتی ہے لمبی لمبی دوڑیں لگا کر شکاری کو پریشان کرتی ہے اس کی ایک عادت اس کو دوسری مچھلیوں سے ممتاز کرتی ہے یہ بعض اوقات پانی کی سطح پر اچھل کر دم ڈوری پر مار کر منہ سے کانٹا نکال دیتی ہے اس کا شکار بہت مہارت کا کام ہے اس کا زیادہ سے زیادہ وزن کا ریکارڈ 45 کلو اور انٹرنیشنل گیم فشنگ ایسوسی ایشن کے مطابق 27 کلو ہے
    جاری ہے
     
    Last edited: ‏7 جون 2015
    تانیہ، ملک بلال، پاکستانی55 اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ٹیگ نامہ
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    سانپ سری یا Snake Head
    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    اب میں اس مچھلی کا ذکر کرنے والا ہوں جو میری اور بہت سے شکاریوں کی پسندیدہ مچھلی ہے پاکستان میں اسے سول کہا جاتا ہے انڈیا میں اسے مرل کے نام سے پکارا جاتا ہے یہ مچھلی برصضیر کے علاوہ مشرق بعید کے اکثر ممالک برما تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہے جو کہ برصضیر میں پائی جانے والی سنیک ہیڈ سے تھوڑی مختلف ہوتی ہے جو کہ تصاویر سے ظاہر ہے
    ان ممالک میں اسے Huran یا Tomanکے نام سے پکارا جاتا ہے ذیل میں مشق بعید میں پائی جانے والی سنیک ھیڈ کی کچھ تصا ویر دیکھیں
    [​IMG]
    [​IMG]

    [​IMG]
    [​IMG]

    یہ زیادہ تر ٹھہرے ہوئے پانیوں میں رہنا پسند کرتی ہے جہاں آبی پودے کثرت سے ہوںاس کا شمار گوشت خور مچھلیوں میں ہوتا ہے اس کی خوراک میں چھوٹی مچھلیاں اور دیگر چھوٹے آبی جانور شامل ہیں مینڈک اس کا من بھاتا کھاجا ہےیہ پانی کی سطح حرکت کرتی ہوئی چیز پر راکٹ کی طرح حملہ آور ہوتی ہے اور اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے اس کے نچلے اور اوپری جبڑے میں بہت باریک نوکیلے دانت ہوتے ہیں جو شکار کو گرفت میں لینے اور چیرنے پھاڑنے میں مدددیتے ہیں اسی لئے اسے پریڈیٹر فش کہا جاتا ہے
    یہ بہت متنوع خصوصیات کی حامل ہے دوسری مچھلیوں کے برعکس یہ اپنے بچوں کی حفاظت اور پرورش کرتی ہے پاکستان میں اس کی ایک اور قسم بھی پائی جاتی ہے جسے ڈولا یا ڈولی کہتے ہیں شکل اور شباہت میں بالکل سول کی طرح ہوتی ہے لیکن اس کا وزن 700 یا 800 گرام سے زیادہ نہیں ہوتا کھانے میں یہ بہت ہی لذیز اور قوت بخش ہے اس میں کانٹے بھی برائے نام ہوتے ہیں اس کا وزن 16 کلو تک ہو جاتا ہے انٹرنیشنل گیم فشنگ ایسوسی ایشن کے مطابق بنسی سے شکار کی گئی سنیک ھیڈ کا وزن 8 کلو ہے
     
    Last edited: ‏7 جون 2015
    تانیہ، دُعا، ملک بلال اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ٹرائوٹ مچھلی
    وادی کاغان میں جو ندی نالے پائے جاتے ہیں ان کی تہہ پتھریلی ہے‘ پانی کا بہائو تیز ہے‘ پتھروں کے ساتھ پانی کے ٹکرائو سے اضطراب آمیز نغمہ پھوٹتا ہے۔ دریائے نین سکھ یا دریائے کنہار سڑک کے ساتھ ساتھ کسی سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا مست اونٹ کی طرح جھاگ دیتا ہوا اور ہاتھی کی طرح چنگھاڑتا ہوا بہہ رہا ہے۔ اگر کوئی انسان بدقسمتی سے اس میں گرپڑے تو لاش تو کیا اس کا نشان تک بھی نہ ملے۔ کیا ایسے تندو تیز دریا اور ندی نالوں کی خوفناک موجوں میں نباتات اور حیوانات کی زندگی ممکن ہے؟ یقین جانیے کہ ایسا ہے بعض حیوانات اور پودے ان ندی نالوں اور دریا میں بڑے سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اگر ان کو میدانی علاقوں کے ندی نالوں اور دریا میں رکھا جائے تو یہ زندہ نہیں رہ سکتے۔
    ان علاقوں میں جو مچھلیاں پائی جاتی ہیں ان مچھلیوں کی جسمانی ساخت اور فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ نہ صرف یہ پانی کی مخالف سمت میں بڑی تیزی سے تیر سکتی ہیں بلکہ پتھروں کے ساتھ چمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ اس طرح پتھروں کی موجودگی ان مچھلیوں کیلئے بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔ یہاں کے ندی نالوں میں عام قسم کے پودے پیدا نہیں ہوتے۔ کائی کی بعض قسمیں ایسی ہیںجو پتھروں کیساتھ چمٹ جاتی ہیں اور پانی اپنی پوری قوت کے باوجود انہیں علیحدہ نہیں کرسکتا۔ اکثر مچھلیاں اسی کائی پر گزارا کرتی ہیں مگر بعض مچھلیاں پتنگوں کے کِرم بھی کھاتی ہیں۔ یہ خاص قسم کے کِرم پتھروں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔
    کاغان کی مچھلیوں میں سب سے خوبصورت اور طاقتور ”ٹرائوٹ مچھلی“ ہے ۔ آج سے بیسیوں سال پہلے یہ مچھلی یورپ سے کشمیر لائی گئی پھر کشمیر سے اس کی افزائش نسل وادی کاغان میں شروع کردی گئی۔ اب پاکستان کے دوسرے پہاڑی علاقوں میں بھی اس کی پرورش کی جارہی ہے۔ یہ مچھلی تقریباً 10 سے 16 انچ لمبی ہوتی ہے۔ سر کے علاوہ باقی جسم چھوٹے چھوٹے چانوں سے ڈھکا ہوتا ہے۔ پشتی پنکھوں‘ سر اور جسم کے بالائی حصوں پر سرخ سیاہ دھبے ہوتے ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جسم کے زیریں حصے کا رنگ خاکستری ہوتا ہے۔ منہ میں تیز دانت ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ دوسری مچھلیوں کے علاوہ چھوٹی ٹرائوٹ مچھلیوں کو بھی ہڑپ کرجاتی ہے۔ اس وجہ سے اب اس کا وجود کاغان کی قدیم مچھلیوں کیلئے بلائے ناگہانی بن چکا ہے۔
    اس کے جسم میں کانٹے بہت کم ہوتے ہیں۔ ذائقہ نہایت ہی لذیذ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر شکاری لوگ اسے باقی مچھلیوں پر ترجیح دیتے ہیں اور مزے لے لے کر اس کا گوشت کھاتے ہیں۔
    ٹرائوٹ مچھلی اپنی عادات و اطوار کے لحاظ سے بڑی عجیب و غریب ہے۔ بڑی مچھلیاں اپنا ایک چھوٹا سا احاطہ منتخب کرتی ہیں۔ اس احاطے میں کسی دوسری مچھلی کا داخل ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ پانی کے بہائو کے خلاف برق رفتاری سے سفر کرنے والی یہ طاقتور مچھلی جب دریا کی تہہ میں پتھروں پر جلوہ فگن ہوتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شاہسوار گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر بیٹھا ہو۔
    جب مادہ مچھلی کا انڈے دینے کا موسم قریب آتا ہے تو اس کے نر کا رنگ قدرتی طور پر زیادہ چمکدار ہوجاتا ہے۔ مادہ دریا کے کنارے پتھروںمیں چھوٹا سا گڑھا یا گھونسلا اپنی دم کی مدد سے تعمیر کرتی ہے۔ اس گھونسلے کا قطر 8 سے 12 انچ تک ہوتا ہے۔ مادہ مچھلی اس میں انڈے دیتی ہے نر ان انڈوں پر تولیدی مادہ چھڑک دیتا ہے اس کے بعد وہ انڈوں کی حفاظت شروع کردیتا ہے کسی دوسری مچھلی کو ان کے پاس پھٹکنے نہیں دیتا‘ حتیٰ کہ ان انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں جب یہ بچے ذرا بڑے ہوجاتے ہیں تو نر مچھلی کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ اگر نر ایسا نہ کرے تو عین ممکن ہے کہ دوسری مچھلیاں ان انڈوں اور مچھلیوں کو کھاجائیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ قدرت نے نر کے دل میں پدرانہ شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی ہے اور ان بچوں کاکافی حد تک اسی پدرانہ شفقت پر انحصار ہے۔
    بشکریہ
    [​IMG]
    [​IMG]
    پس نوشت
    صرف یہ مضمون اوپر دئے گئے ربط سے نقل کیا گیا ہے باقی تمام میرے ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے
     
    Last edited: ‏7 جون 2015
    تانیہ، دُعا، ملک بلال اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    کیٹ فش فیملی کی مچھلیاں
    پاکستان میں یوں تو کیٹ فش کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں مگر ان میں قابل ذکر تین ہیں آگے فرداَ فرداَ ان کا ذکر آئے گا۔
    سنگھاڑہ یا سنگھاڑی
    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    کیٹ فش کے خاندان میں یہ سب سے نفیس مچھلی ہے اسکا رنگ ہلکا سرمئی اور چمکدار ہوتا ہے دائیں بائیں اور پشت والے پنکھ میں مضبوط اور نوکدار کانٹے ہوتے ہیں جسم لمبوترا تھوتھنی لمبی اور سخت ہڈی کی ہوتی ہے منہ کے اگلے سرے پر اوپری اور نچلے لب پر چار سے چھ اینٹینا نما مونچھیں ہوتی ہیں یہ چیز کیٹ فش کیتمام اقسام میں مشترک ہے ان کے ذریعے انہیں اپنے شکار کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے یہ گوشت خور مچھلی ہے اسکی خوراک میں چھوٹی مچھلیاں اوردیگر آبی جانور شامل ہیں اس کا گوشت ہلکا ذردی مائل رنگ کا ہوتا ہے ذائقے کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی ہے اور کافی مہنگےداموں فروخت ہوتی ہے اسکا وزن 12 کلو تک دیکھا گیا ہے برصغیر کے تمام دریاؤں میں عموماَ اور دریائے سندھ میں بالخصوص تونسہ بیراج اور چشمہ بیراج میں کثرت سے پائی جاتی ہے
    اس کا زیادہ سے زیادہ وزن 18 کلو تک ریکارڈ کیا گیا۔
     
    Last edited: ‏7 جون 2015
    تانیہ، دُعا، ملک بلال اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ملّی یا wallago attu
    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    ملّی کیٹ فش خاندان کی سب سے زیادہ خونخوار مچھلی ہے یہ ہر چیز ہڑپ کر جاتی ہے بہت ایگریسو( غصہ ور ) مچھلی ہے جس کی وجہ سے اسے میٹھے پانی کی شارک مچھلی کہا جاتا ہے اس کا منہ چوڑائی میں زیادہ بالائی اور زیریں ہونٹ سخت اور ان میں سوئی کی طرح باریک اور نوکدار کانٹے ہوتے ہیں جو شکار کو گرفت میں لینے اور اسے چیرنے پھاڑنے میں مددگار ہوتے ہیں اس کا جسم چپٹا گہرائی میں زیادہ اور رنگت سیاہی مائل سرمئی ہوتی ہے زیریں حصے میں معقد سے لے کر دم تک جھالر نما پنکھ ہوتا ہے جو اس کو تیزی سے حرکت کرنے میں مدد دیتا ہے کبھی یہ 40 کلو تک عام پائی جاتی تھی مگر بے ذریع شکار پانی کی کمی اور کاحولیاتی آلودگی کی وجہ سے 14 یا 15 کلو سے زیادہ کی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے اس کے بارے میں ہمارے گاؤں کے ایک بوڑھے نے چشم دید واقعہ سنایا تھا جو محفلین کی معلومات میں اضافے کے لئے شریک کر رہا ہوں"یہ غالباَ 1978 کی بات ہے کہ میں ھیڈ قادر آباد پر ملازم تھا ایک دن میں حسب معمول گشت پر تھا کہ پانی میں مسلسل زوردار چھپاکوں کی آواز آئی میں اس طرف بھاگا جدھر سے آواز آ رہی تھی
    کیا دیکھتا ہوں کہ بہت بڑی ملّی نے پانی میں اچھل کود مچائی ہوئی ہے جیسے سخت تکلیف میں مبتلا ہو مچھلی بار بار پانی کی سطح پر اچھلتی اپنے جسم کو زور زور سے دائیں بائیں مارتی کافی دیر پانی میں اچھل کود مچاتی کنارے کے قریب ہوتی گئی اور یکبار چھلانگ لگا کر کنارے پر چڑھ گئی مچھلی کا وزن محتاط اندازے کے مطابق 50 کلو تک تھا میں نے ایک آدمی کو دوڑایا اور ریڑھے پر لاد کر مچھلی کو گھر لے گیا جب گھر جا کر مچھلی کا پیٹ چاک کیا تو اس میں سے گیدڑ برامد ہوا گمان غالب ہے کہ گیدڑ اپنی پیاس بچھانے یا کسی شکار کی تلاش میں پانی میں داخل ہوا اور مچھلی کا لقمہ بن گیا مچھلی نے گیدڑ کو تو نگل لیا مگر گیدڑ کے پنجوں اور دانتوں کی ضرب سے بے چین ہو گئی اور آخر خود بھی شکار ہو گئی "
     
    فیصل میمن، تانیہ، دُعا اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    گونچ یا سندھی کھگہ

    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    یہ ایک بے ڈھنگی شکل کی مچھلی ہے اس کا شمار تازہ پانی کی سب سے زیادہ وزن والی مچھلیوں میں ہوتا ہے اس کا وزن 80 کلو تک ہو جاتا ہے 60 کلوکی میں نے خود دیکھی ہےعادتاَ بہت خونخوار ہوتی ہے اسکا منہ چوڑائی میں بہت زیادہ ہونٹ موٹے موٹے اور سخت ہوتے ہیں جن میں اوپر اور نیچے کی طرف نوکدار دانت ہوتے ہیں اس کا رنگ کمانڈو کی وردی کی طرح ہوتا ہے جوکہ ماحول سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے اس کا شمار بھی گوشت خور مچھلیوں میں ہوتا ہے یہ ایک بہت ہی بیسار خور مچھلی ہے غالباَ اسی لئے اس کا وزن دوسری مچھلیوں کی نسبت تیزی سے بڑھتا ہے اسی وجہ سے یہ بہت سست ہوتی ہے کانٹے میں پھنسنے کے بعد یہ پانی کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے اسی وجہ سے وزنی ہونے کے باوجود اسے پانی سے باہر نکالنے میں مشکل پیش نہیں آتی اس میں دیگر مچھلیوں کی طرح کانٹے نہ ہونے کے برابر ہیں درمیان میں کے بجائے فقاریہ جانوروں کی طرح ہڈی ہوتی ہے ذائقے میں کچھ خاص نہیں ہوتی البتہ اس کا شوربہ اچھا بنتا ہے اس کی عادت ہے ہر متحرک چیز پر حملہ آور ہوتی ہے اور اسے اپنے نوکیلے دانتوں سے کتر دیتی ہے یہ دنیا کے کئی ممالک میں پائی جاتی ہے انڈیا میں اکثر ایسے واقعات سننے میں آئے ہیں کہ اس مچھلی نے چھوٹے جانوروں اور بچوں پر حملہ کیا اور بعض اوقات انہیں گھسیٹ کر پانی میں بھی لے گئی اس سلسلے میں انگریز ما ہر حیاتیات جرمی ویڈ کی دستاویزی فلم ریور مانسٹرز دیکھنے والی فلم ہے جو کہ گونچ کےبارے میں ہے
     
    فیصل میمن، تانیہ، ملک بلال اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھی معلومات ہیں ہمارے ہاں زیادہ ملی اور رہو ہوتی ہے ویسے الکرم جی سول کی بہت تعریف کرتے ہیں

    ان کے مطابق


    مچھی صرف سول
    باقی سب مخول


    سندھ میں ایک مچھی پلّا اور کرڑا ہوتی ہے اردو میں جانے انہیں کیا کہتے ہیں ان کا ذکر خیر بھی ہوجائے
     
    تانیہ، پاکستانی55 اور سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    پزیرائی کا شکریہ :)
    آپ نے ٹھیک کہا پاکستان کے ندی نالوں اور دریاؤں میں ذیادہ تر ملیّ ہی پائی جاتی ہے کیونکہ یہ ایک بہت سخت جان مچھلی ہے اور ہر طرح کے ماحول سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے دوسرے یہ ہر چیز کھا جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے خوراک کی کمی کا مسلئہ بھی درپیش نہیں ہوتا
    سول نہ صرف میری بلکہ تمام شکاریوں کی پسندیدہ مچھلی ہے ایک تو اس کا گوشت بہت نفیس ہوتا ہے دوسرے اس میں کانٹے بھی بہت کم ہوتے ہیں شاید اسی لئے کہا جاتا ہے
    سول سول اے
    تے باقی سب مخول اے
    پاپلیٹ میٹھے پانی کی مچھلی نہیں ہے پلاّ کے بارے میں بھی کچھ معلومات شریک کروں گا اگرچہ اسکے شکار کا اتفاق نہیں ہوا اوپر جن مچھلیوں کی اقسام بیان کی گئی ہیں ان میں سے ٹراؤٹ کو چھوڑ کر سب مچھلیوں کے شکار کا تجربہ ہے پلاّ کے شکار کا موقع نہیں ملا اور ویسے بھی پلاّ ہک سے شکار نہیں کی جا سکتی اسے جال سے ہی پکڑا جاتا ہے
     
    دُعا, ملک بلال, ھارون رشید اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست معلوماتی شئیرنگ جناب بہت شکریہ
     
    آصف اقبال، ھارون رشید اور سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    حوصلہ افزائی کا شکریہ
    سلامت رہیں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    دریائے سندھ اور پلا مچھلی

    [​IMG]

    قدرت نے سات سمندر، کئی دریا اور جھیلیں پیدا کی ہیں جن میں مختلف اقسام کی مچھلیاں رہتی ہیں جس میں وہیل سے لے کر ایک انچ سے چھوٹی مچھلیاں بھی ہیں اور ہر مچھلی کا اپنا رنگ اور ذائقہ ہوتا ہے۔ مچھلی جسے وائٹ میٹ (یعنی سفید گوشت) کہا جاتا ہے، کھانے میں صرف لذیز ہی نہیں بلکہ کئی امراض میں مفید ہے اور اس کے گوشت میں پروٹین کی مقدار آنکھوں اور جلد کے لیے فائدہ مند ہے۔

    دریائے سندھ میں جو مچھلی پائی جاتی ہے اس کی لذت بہت اچھی ہوتی ہے کیونکہ اس کا پانی طاقت والا اور میٹھا ہے جب کہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہاں سے ملنے والی مچھلیوں میں نمکیات زیادہ ملتی ہیں۔ مگر سمندر میں رہنے والی ایک مچھلی ایسی بھی ہے جو رہتی تو سمندر میں ہے مگر وہ انڈے دینے کے لیے دریائے سندھ میں آتی ہے کیونکہ اس کے بچے سمندر کے کڑوے نمکین پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے ۔ پلا مچھلی کی کہانی صدیوں پرانی ہے اور اس کا زیادہ تر تعلق سندھ کے حوالے سے رہا ہے۔ یہ مچھلی سندھ کے معاشی استحکام کے حوالے سے بھی اہم رہی ہے کیونکہ پلا مچھلی دوسری مچھلیوں سے کافی مہنگی ملتی ہے اور جب سے دریائے سندھ میں کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہیں پہنچتا ہے تب تک یہ مچھلی دستیاب نہیں ہوتی ہے۔

    کئی برس پہلے پلا مچھلی یہاں اتنی بڑی مقدار میں ملتی تھی کہ ہر غریب اور امیر آدمی اسے کھاتا تھا مگر اب حال کچھ سالوں سے یہ رہا ہے کہ سندھ کے علاقوں میں دریائے سندھ میں پانی پورا نہیں ملتا ہے جس کی وجہ سے پلا مچھلی دستیاب نہیں ہوتی کیونکہ جب پانی ڈیلٹا سے ہو کر سمندر میں گرے گا تب وہاں سے پلا الٹی سمت میں دریا کے پانی کے اندر گھس آئے گی اور وہاں سے ہوتی ہوئی کوٹری ڈاؤن اسٹریم تک پہنچ جاتی ہے جہاں ہر تین دن کے اندر وہ انڈے دیتی ہے۔ یہ انڈے دریائے سندھ کے پانی میں پلنا اور بڑھنا شروع ہو تے ہیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے وہ آگے کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں ان کے وزن اور لمبائی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

    ایک وقت تھا کہ پلا یہ سفر کرتی ہوئی سکھر تک پہنچ جاتی تھی اور اس وقت اس کا وزن 5 کلو تک ہوجاتا تھا۔ مگر اب یہ صرف جامشورو تک ملتی ہے کیونکہ جب سے وہاں پر پل بنایا گیا ہے اب اس کے گیٹوں سے پلا کراس نہیں کر پاتی ہے۔ اب جیسے پانی کا اخراج زیادہ ہو گیا ہے اور ملک کے اندر سیلاب آ چکا ہے تو پانی کے بہاؤ کو آگے سمندر کی طرف چھوڑنے کے لیے جامشورو کے پل کے دروازے کھول دیے گئے ہیں جہاں سے کچھ پلا مچھلی نکل کر سکھر کی طرف روانہ ہو گئی ہے اور کچھ پلا وہاں بھی مل سکتی ہے اور یہ پلا وزن میں زیادہ ہو گی اور اس کی لمبائی بھی بڑی ہو گی اور اس کو کھانے میں بھی زیادہ مزا آئے گا۔ جب دریائے سندھ میں پانی اس مقدار میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ڈیلٹا سے ہو کر سمندر میں گرے تو پلا مچھلی نے سندھ میں رکنے سے منہ موڑ لیا اور پھر آگے کہیں اپنا مسکن تلاش کیا مگر پھر بھی کچھ سمندر میں ملتی تھی۔ اب تو تین سال سے جیسے ہی دریائے سندھ کے پانی کی خوشبو پلا مچھلی کو ملی تو وہ اس طرف لوٹ آئی ہے۔ دریائے سندھ میں پلا جون، جولائی اور اگست تک رہتی ہے پھر واپس سمندر کی طرف لوٹ جاتی ہے اور باقی جو رہ جاتی ہے وہ بھی شکار ہو جاتی ہے۔

    پلا مچھلی بڑی حساس ہوتی ہے اور پھینکنے کے فوراً بعد لمحوں میں مر جاتی ہے۔ جیسے ہی وہ جال سے ٹکرائے گی دم توڑ دے گی اور کبھی کبھی یہ زندہ پکڑی جاتی ہے اور جیسے ہی اسے انسانوں کا ہاتھ لگتا ہے وہ دم توڑ دیتی ہے۔ پلا کو پکڑنے کے لیے ایک خاص قسم کا جال ہوتا ہے جسے بڑی احتیاط کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ پلا مچھلی کو اس وقت تک نہیں پکڑنا چاہیے جب تک وہ پوری بڑھ نہ جائے کیونکہ چھوٹی پلا مچھلی ایک تو وزن میں کم ہوتی ہے اور دوسرا اس میں ابھی دریا کے پانی کا ٹیسٹ آنا باقی ہوتا ہے مگر لالچی اور بھوک سے تنگ آئے ہوئے مچھیرے اپنے اصول بھول کر اس کا شکار کرتے ہیں جس کے دام ان کو ایک ہزار تک مل جاتے ہیں۔ ملاح جو کسی زمانے میں بڑے خوشحال ہوتے تھے مگر اب پانی دریائے سندھ میں نہ ہونے کی وجہ سے بھوکے مر رہے ہیں۔

    دریائے سندھ کے کنارے ہزاروں ملاح فیملیز بستی تھیں جو کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور آہستہ آہستہ انھوں نے پنجاب اور بلوچستان کا رخ کر لیا ہے۔ کیونکہ ان کا زیادہ تر گزارہ صرف مچھلی پکڑنے پر ہی ہے۔ اب جیسے ہی ان کو پتہ چلا ہے کہ دریائے سندھ میں سیلاب آیا ہے اور پانی ڈیلٹا سے ہوتا ہوا سمندر میں جا گرے گا تو وہاں سے ہلا مچھلی کود کر دریائے سندھ میں آئے گی پھر وہ اس طرف کا رخ کرتے ہیں کیونکہ پلا مچھلی کے شکار میں انھیں زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ عام مچھلی تین سے چار سو روپے میں بکتی ہے جب کہ پلا ایک ہزار سے دو ہزار روپے فی کلو تک فروخت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ پلا مچھلی ٹنوں کے حساب سے مرتی تھی اور مچھیرے بڑے خوش ہوتے تھے۔

    اب جب پلا مچھلی دریائے سندھ میں آ گئی ہے تو مچھیروں نے بڑے جشن منائے ہیں اور اس میں سے ہونے والی آمدنی کو خرچ کرنے کے بڑے بڑے منصوبے بنا لیے ہیں۔ نہ صرف مچھیرے بلکہ لوگوں نے بھی بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے کہ اب وہ دوبارہ پلا مچھلی کی لذت سے اپنے دسترخوان سجائیں گے۔ مگر ایک دکھ کی خبر یہ ہے کہ کچھ لالچی با اثر لوگ نائلون کے جال استعمال کر رہے ہیںجن سے پلا مچھلی کو بڑا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ جال میں چھوٹی مچھلی بھی پھنس جاتی ہے جس کی وجہ سے پلا کی نسل بڑھنے میں دشواری ہو رہی ہے اور اس چھوٹی مچھلی کی وہ لذت نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ مچھلی کوٹری ڈاؤن اسٹریم پر پہنچنے کی وجہ سے وہاں کے مچھیروں کو نقصان ہو رہا ہے اور وہ پھر ایک بار ناانصافی اور بھوک و افلاس کے پھندے میں پھنسے رہیں گے بلو اور گجو جالیں جن پر حکومت کی طرف سے Ban لگا ہوا ہے کیونکہ ان جالوں کی وجہ سے نہ صرف پلا بلکہ دوسری مچھلیوں کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے حکومت سندھ اور حکومت پاکستان اس میں اپنا کردار نبھائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

    اب ستمبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور کچھ ہی دنوں میں پانی دریائے سندھ سے کم ہونے لگے گا اور پلا اب اپنی واپسی کا سامان کر رہی ہو گی اس لیے چھوٹی پلا مچھلی کے شکار کو روکا جائے تا کہ اس ماہ کے آخر تک پلا مچھلی جوان ہو جائے۔ پلا مچھلی ایران، بنگلہ دیش، مصر وغیرہ میں بھی ملتی ہے مگر اس میں وہ دریائے سندھ والی لذت نہیں ہے کیونکہ دریائے سندھ میں پہنچ کر پلا اپنا رنگ ، وزن اور لذت تبدیل کر دیتی ہے کیونکہ سمندر کے مقابلے میں دریائے سندھ کا پانی میٹھا ہے۔ جب دریائے سندھ میں پانی نہیں آتا تھا کہ وہ ڈیلٹا میں گرے تو مچھیرے ایران اور بنگلہ دیش کی پلا سندھ لا کر بیچتے تھے۔ یہ پلا کئی دنوں اور مہینوں سے برف میں پڑی رہتی ہے اور پھر پاکستان بھیجی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی لذت اور کم ہو جاتی ہے۔
    ربط
    http://www.express.pk/story/171079/
     
    Last edited: ‏7 جون 2015
    دُعا، ملک بلال اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
     
    ملک بلال اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    واہ جی واہ

    کمال کی شئرنگ ہے دل خوش ہوگیا اتنی باتیں پہلے مجھے پتا نہیں تھیں
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    جے پڑھ لکھ جاندے تے ایہہ حال نہ ہندا :wsp:
     
    ھارون رشید، ملک بلال اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    سفید پاپلیٹ
    [​IMG]
    کالا پاپلیٹ
    پاپلیٹ یا سُرمئی پاپلیٹ "Sole" مچھلی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے جن کی حیوانیاتی نوع "Brama" ہے اور اس خاندان کی تمام مچھلیاں چپٹی، پھیلی ہوئی اور جسامت میں چھوٹی ہوتی ہیں۔ سول یا پاپلیٹ مچھلی میں بنیادی طور پر ایک ہی کانٹا ہوتا ہے جو دُم سے پکڑ کر کھینچنے پر نکل آتا ہے۔ پاپلیٹ کا وطن تو یورپ کے علاقے ہیں لیکن بھارت اور پاکستان میں سیاہ اور سفید پاپلیٹ بھی پائی جاتی ہیں جو ذائقہ میں انتہائی لذیذ ہوتی ہیں۔ پاپلیٹ مچھلی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ پانی کے چڑھاؤ پر چڑھتی ہے اسی لیے ریچھ بہتے پانی کے قریب پتھروں پر کھڑے ہوکر اس کا شکار کرتے ہیں اور اسی پانی کی دھار پر چڑھنے کی وجہ سے پاپلیٹ کو "مہاشیر" کہا جاتا ہے۔ ذائقہ میں انتہائی لذیذ ہونے کی بنا پر اس کا شکار بھی کثرت سے کیا جاتا ہے۔ پاپلیٹ مچھلی بحرالکاہل، بحرِ ہند اور بحرِ اوقیانوس وغیرہ میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔
     
    ھارون رشید، ملک بلال اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    یہ بھی سلمن مچھلی کی طرح ہے ۔سلمن مچھلی پیدائش کے بعد بہتی ہوئی چلی جاتی ہے اور پھر واپس پانی کے مخالف سفر کرتی ہوئی اپنی جائے پیدائش تک پہنچ کر انڈے دے کر مر جاتی ہے ۔اسکا یہ سفر ہزاروں میل بھی ہو سکتا ہے
    [​IMG]
    سلمن مچھلی
     
    ملک بلال اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    واہ جی واہ
    مچھلی کی اتنی ساری اقسام اور ان کے بارے میں دلچسپ معلومات :)
    2،3 بار شکار کی کوشش کی بچپن میں لیکن کچھوکمے ہی لگے :(
    اب صرف کھا لیتا ہوں شوق سے وہ بھی ماں جی کے ہاتھ کی پکی ہوئی یا پھر گوجرانوالہ میں معراجدین مچھلی فروش کی :)
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    چائنہ کا اتنا اثر
     
    ملک بلال اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ہاہاہاہاہا
    ملک بلال صاحب شاید یہ کہنا چاہتے تھے کہ اب مچھلی کا شکار نہیں کرتا صرف کھا لیتا ہوں
    اور ھارون رشید صاحب اپنی طبعیت سے مجبور ہو کر بات کو کہاں سے کہاں لے گئے
     
    دُعا، ملک بلال اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    سمندر اور میٹھے پانی کی مچھلیوں (سامن) کے بارے میں ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے، جس کی مدد سے اس راز سے پردہ اٹھ سکتا ہے کہ وہ دریاؤں تک پہنچنے کے لیےکھلے سمندر میں ہزاروں میل کا سفر کیسے کرتی ہیں۔
    یہ مچھلیاں انڈے دینے کی عمر سے پہلے سمندر میں ہزاروں میل کا سفر کرتے ہوئے اپنے دریاؤں میں پہنچتی ہیں۔ سائنسدانوں نے اُن کے اس سفر کے طریقہ کار کا پتہ چلانے کے لیے فشریز کے دستاویزات پر مبنی 56 سال کے ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے، جو ان مچھلیوں کے کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں دریائے فریزر میں لوٹنے سے متعلق ہے۔
    ان مچھلیوں نے جزیرہ وینکور کے گرد جو راستہ اختیار کیا اس سے زمین کی مقناطیسی فیلڈ کی شدت میں تبدیلوں سے تعلق کا پتہ چلتا ہے۔
    یہ تحقیق کرنٹ بائیولوجی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس مطالعے کی ٹیم کے سربراہ نتھان پٹمان کہتے ہیں: ’’ہمارے خیال میں ہوا یہ کہ سامن نے انڈے دینے کی عمر سے قبل دریا کو چھوڑا اور وہ سمندر میں داخل ہوئیں تو انہوں نے مقناطیسی فیلڈ کو نقش کرتے ہوئے راستے کے طور پر نشان لگا لی۔‘‘
    [​IMG]
    انہوں نے مزید کہا: ’’جب وہ انڈے دینے کی عمر تک پہنچنے کے بعد واپس لوٹتی ہیں تو یہ ان کے لیے پراکسی کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ انہیں ان کے دریائی نظام کے قریب لے جاتا ہے اور پھر دیگر نشانیاں بھی مل جاتی ہوں گی۔‘‘
    یہ اعدادوشمار اس لیے جمع کیے گئے کیونکہ سامن مچھلیاں فشریز کی صعنت کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس نو کی دیگر آبی حیات، یعنی کچھوؤں کے بارے میں پہلے سے ہی یہ بات جانی جاتی ہے کہ وہ مقناطیسی فیلڈ کی مدد سے راستہ تلاش کرتے ہیں۔
    ہمارے سیارے (زمین) کی ارضِ مقناطیسی یکساں ہے اور اس کے بارے میں پیشن گوئی کی جا سکتی ہے۔ پولز سے خط اُستوا کی جانب بڑھنے پر یہ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔
    مقناطیسی قطبِ شمالی کی ڈھلان تقریباﹰ 58 مائیکروٹیسلا (مقناطیسی فیلڈ کا یونٹ) جبکہ خطِ استوا کی 24 ہے۔
    اورگون سے نکلنے والی سامن مچھلیاں کینیڈا یا الاسکا کے شمال میں بحرالکاہل میں دو سے چار سال بسر کرنے کے بعد انڈے دینے کی عمر میں واپس لوٹتی ہیں۔
    سائنسدانوں کی قیاس آرائیوں کے مطابق وہ ساحل سے جنوب کی جانب اس وقت تک سفر کرتی ہیں جب تک وہ اس مقام پر نہ پہنچ جائیں جہاں کی مقناطیسی فیلڈ اس وقت کے برابر ہو جب وہ انڈے دینے کی عمر سے قبل وہاں سے گزری تھیں۔
    پٹمان کا کہنا ہے کہ دریائے کولمبیا کے حوالے سے ماضی میں کیے گئے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ مقناطیسی شدت میں ہر تین برس کے عرصے میں کسی بھی جانب 30 کلومیٹر سے کم فاصلے پر تبدیلی ہوتی ہے۔
     
    دُعا، ملک بلال اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    میں اپنی رائے دینے میں بہت احتیاط کرتا ہوں آب کی بات سننے کے بعد تلاش بیسار کے باوجود اس بارے میں کوئی حوالہ نہ ملا سالمن اور پلا ان مچھلیوں میں سے ہیں جو سمندر سے دریا کا سفر کرتی ہیں جن میں سے سالمن مچھلی کا سفر فطرت کا ایک بہت بڑا ایونٹ ہے جس پر دستاویزی فلمیں بھی بن چکی ہیں پاپلیٹ کے بارے میں یہ نہیں سنا اگر کوئی معلومات ہو تو شریک کریں
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    اب تک جو انفارمیشن میرے پاس ہے وہ آپ کی پوسٹ سے لی ہے یا پڑھنے میں شاید غلطی کی ہے ۔میں پوری کوشش کروں گا اگر کچھ مل گیا تو ضرور شئیر کروں گا ۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    میرا نہیں خیال کہ پاپلیٹ سمندر سے دریا کا سفر کرتی ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا گوشت بہت لذیز ہوتا ہے اور کانٹے برائے نام ہوتے ہیں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    سالم تلی جانے والی مچھلی پاپلیٹ (نسل) کی ہوتی ہے جس کے کَھپرے اور آلائش صاف کرنے کے بعد اسے فرائی پان پر روغن کے ساتھ کباب کی طرح تل لیا جاتا ہے،تلنے سے پہلے پاپلیٹ پر مسالے حسب منشاء لگا کر کچھ دیر رکھ دیتے ہیں۔ پاپلیٹ مچھلی میں چونکہ صرف ایک کانٹا ہوتا ہے لہٰذا نہایت رغبت کے ساتھ کھائی جاتی ہے، اس نسل میں "سُرمئی پاپلیٹ " نہایت لذیذ اور مقبول عام ہوتی ہے ۔ برصغیر کے کئی علاقوں میں اس کا استعمال خوب کیا جاتا ہے۔ خواص کے کھانوں میں ایک پسندیدہ ڈش کے طور پر دستر خوان کی زینت بنائی جاتی ہے
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    شاید میں نے آپ کے ان الفاظ سے :پاپلیٹ مچھلی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ پانی کے چڑھاؤ پر چڑھتی ہے اسی لیے ریچھ بہتے پانی کے قریب پتھروں پر کھڑے ہوکر اس کا شکار کرتے ہیں:غلط مطلب نکا ل لیا ہے ۔
     
    Last edited: ‏8 جون 2015
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    اس سطر سے مجھے بھی اتفاق نہیں البتہ مچھلی کی شکل و صورت ایسی ہے کہ اس قسم کی مچھلیاں عموماََ چڑھاؤ کی جانب تیرتی ہیں
     
    دُعا اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ بہت جانفشانی سے مضمون تیار کیا ہے آپ نے۔۔۔۔ شیئرنگ کا شکریہ
     
    دُعا اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ماسوائے پاپلیٹ ٹراوٹ سالمن ا ور پلا باقی تمام میر ذاتی تجربات اور مشاہدات ہیں
    حوصلہ افزائی کا شکریہ
    سلامت رہیں
     
    دُعا، پاکستانی55 اور واصف حسین نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں