1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان میں ناروے

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏1 اکتوبر 2014۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    یہ گرانڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) پر اسلام آباد سے 140 کلومیٹر کی پرسکون ڈرائیو کے فاصلے پر واقع ہے۔

    جی ٹی روڈ کو ضلع گجرات کے قصبے کھاریاں کے وسط میں سے چھوڑ دیں اور ایک تنگ روڈ کے ذریعے آگے بڑھیں جو ایک مصروف بازار سے گزرتا ہوا بالآخر ایسی جگہ لے جائے گا، جہاں ایکڑوں پر پھیلے ہوئے وسیع مناظر اور ایکڑوں پر پھیلا ہوا گھنا سرسبز و شاداب جنگل آپ کا استقبال کرے گا۔

    ایک فوجی اڈّے کو پیچھے چھوڑتی ہوئی یہ سڑک ایک دیہاتی علاقے میں آپ کو لے جاتی ہے۔

    یہاں ٹریکٹروں اور ٹریلروں کے انجنوں کا شور اور ان کے اسپیکروں پر بجتے ہوئے عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کے پنجابی اور سرائیکی گیت سنائی دیں گے۔

    پنجاب کے روایتی دیہات میں مٹی کے آتشدانوں سے نکلتے دھوئیں کے مرغولے، اردگرد چرتی ہوئی بھینسیں، بکریاں اور بھیڑوں کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں پہنچ کر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے، کہ یہاں ایسا کوئی گاؤں نہیں۔
    http://i.dawn.com/primary/2014/09/54252301bcdf8.jpg?r=19972923

    گاؤں عالم پور گوندلاں کو جانے والی ایک سڑک سے مغرب کے وقت کا منظر۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا
    اس کے بجائے یہاں جیسے ہی آپ مرکزی سڑک پر داخل ہوتے ہیں تو وسیع و عریض بنگلوں کی قطاریں، نوعمر لڑکے نفیس ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس اپنے جدید نوکیلے ہیئر اسٹائل کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔

    لگژری کاریں ان بنگلوں کے باہر پارک ہیں، ایئرکنڈیشنر ان کی بالائی منزلوں پر نصب ہیں اور لوڈشیڈنگ کے اوقات کے دوران بجلی کی فراہمی کے لیے جنریٹرز چل رہے ہیں۔

    یہ پاکستان میں ایک منی ناروے ہے۔

    گاؤں عالم پور گوندلاں میں رہنے والے تقریباً دو ہزار افراد میں سے چار سو ناروے میں جابسے ہیں۔ دوسرے برطانیہ، اسپین، یونان، کینیڈا، اٹلی اور خلیج کے ملکوں میں اپنا رزق تلاش کرنے چلے گئے ہیں۔

    یورپ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں اس نقل مکانی نے اس گاؤں میں زندگی کی قدروں کو یکسر تبدیل کردیا ہے، جہاں اب صرف چار سو افراد مستقلاً رہائش پذیر ہیں۔

    یہاں کی اکثریت ناروے میں مقیم ہے، جس کی کل آبادی پچاس لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔

    اس حقیقت نے عالم پور گوندلان کو ناروے کے باشندوں کے ساتھ ساتھ پڑوسی دیہاتوں میں مقیم لوگوں کے لیے دلچسپی کا مرکز بنادیا ہے۔

    ناروے کے سفارتکاروں نے متعدد مرتبہ اس جگہ کا وزٹ کیا ہے۔
    http://i.dawn.com/primary/2014/09/542527a5de7ae.jpg?r=1564733745

    یومِ آزادی کے موقع پر عالم پور گوندلاں کے ایک گھر پر قومی پرچم لہرا رہا ہے۔ —. فوٹو چوہدری احسان الہٰی مکی
    اس گاؤں کے ایک بزرگ محمد اصغر نسیم کہتے ہیں ’’ناروے چلے جانے والے بہت سے نوجوانوں نے اپنے بوڑھے والدین کو بھی اپنے پاس بلالیا ہے، تاکہ انہیں سوشل سیکورٹی، صحت کی دیکھ بھال کے پروگراموں اور پنشن کی سہولت مل سکے۔‘‘

    انہوں نے کہا ’’اس گاؤں میں اب کوئی غریب نہیں، اس لیے کہ ہر ایک ناروے کی کرنسی میں کما رہا ہے۔ لیکن ایک وقت تھا جب یہ لوگ غریب اور محروم تھے۔‘‘

    عالم پور گوندلاں سے ناروے منتقل ہونے والے بہت سے لوگوں کے پیچھے ایک ناکام سیاستدان چوہدری نائک عالم کی کہانی گردش کرتی ہے۔

    زراعت میں پونا یونیورسٹی (ہندوستان) سے گریجویشن کرنے اور پنجاب کے محکمہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے چوہدری نائک عالم کے دل میں برّصغیر کی تقسیم کے بعد اپنے اردگر کام کرنے والے چھوٹے کسانوں اور مزدوروں کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی۔ ان کی اس ہمدردی اس علاقے سے غربت کے خاتمے کے ایک مشن میں تبدیل ہوگئی۔

    انہوں نے 1956ء میں اپنی سیاسی جماعت مساوات پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنے ہم جماعت فضل الٰہی چوہدری کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، اور ناکام رہے۔

    یاد رہے کہ ستّر کی دہائی میں فضل الٰہی چوہدری ملک کی صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔

    محمد اصغر نسیم جو چوہدری نائک عالم کے بھتیجے بھی ہیں، نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان انتخابات میں فضل الٰہی نے انہیں اس علاقے کے بااثر لوگوں اور بڑے زمینداروں کی حمایت کے ذریعے شکست دی تھی، جبکہ نائک عالم کو صرف چند مزدوروں اور غریب لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔‘‘

    لیکن نائک عالم کو اس شکست نے سیاست سے دور نہیں کیا۔ وہ 1977ء تک ہر ایک انتخابات میں حصہ لیتے رہے، پھر بھی وہ پارلیمنٹ میں پہنچنے کی خواہش کی تکمیل کبھی نہیں کرسکے۔
    http://i.dawn.com/primary/2014/09/5425287da639a.jpg?r=1724033479

    گورمنٹ پرائمری اسکول جس کا نعرہ ہے، مار نہیں پیار۔ —. فوٹو چوہدری احسان الہٰی مکی
    لیکن اس ناکامی نے ان کو محروم لوگوں کی مدد کا مزید حوصلہ بخشا اور انہوں نے اس کے لیے ایک راستہ تلاش کرنے پر غور شروع کردیا۔

    1960ء میں انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر برطانیہ چلے جائیں اور وہاں کام کے مواقع تلاش کریں۔ ان کے بیٹے اعجاز عالم اس وقت پاکستان ایئرفورس میں فلائٹ لیفٹننت تھے، انہوں نے لندن پہنچ کر اطلاع دی کہ یہاں حالات بہت سازگار ہیں۔

    چوہدی نائک عالم نے لوگوں کو برطانیہ بھیجنا شروع کردیا۔ جلد ہی انہوں نے دریافت کیا کہ ناروے میں مواقع کہیں زیادہ ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنی توجہ کا رُخ تبدیل کردیا اور اب ان کی منزل ناروے تھا۔

    محمد اصغر نسیم نے یاد کرتے ہوئے بتایا ’’اس وقت یورپ کے سفر کے اخراجات دو ہزار روپے تھے۔ لوگ عام طور پر بسوں کے ذریعے کابل، ایران اور ترکی ہوتے ہوئے یورپ جاتے تھے۔‘‘

    لیکن نائک عالم کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ ان کے گاؤں کے زیادہ تر لوگوں اتنی رقم بھی نہیں تھی۔ لہٰذا انہوں نے اپنی ذاتی اور مالی ضمانتوں پر کوآپریٹو بنک سے قرضے کا بندوبست کیا۔

    اصغر نسیم نے وضاحت کی کہ ’’لگ بھگ پینتس ہزار پاکستان اس وقت وہاں رہتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً دس ہزار کو نائک عالم نے بھجوایا تھا۔ ہر ایک نے اپنا قرضہ ادا کردیا تھا۔‘‘

    انہوں نے عالم پور گوندلاں کی تاریخ کو دستاویزی صورت میں ریکارڈ کیا ہے۔

    نائک عالم نے 1970ء کے انتخابات کے وقت اپنی مساوات پارٹی کو بھوک کڈھ (بھوک مٹاؤ) پارٹی میں تبدیل کردیا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آخری الیکشن 1977ء میں لڑا تھا، اور اس میں بھی وہ ہار گئے تھے۔ ان کی وفات 1981ء میں ہوئی۔
    http://i.dawn.com/primary/2014/09/5425278e2eba1.jpg?r=1104046265

    عالم پور گوندلاں کی ایک گلی کا منظر۔ —. فوٹو چوہدری احسان الہٰی مکی
    آج ان کے گاؤں کی اکثریت بہت امیر ہے۔ انہوں نے اس علاقے میں بڑے بڑے محلات تعمیر کیے ہیں، لیکن زیادہ تر ان محلات میں رہتے نہیں ہیں۔

    ان گھروں کی دیکھ بھال کے لیے انہوں نے نگران ملازم رکھے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اردگرد کی آبادیوں کے غریبوں کے لیے ملازمتیں پیدا ہوگئی ہیں۔

    انہوں نے اس گاؤں میں سماجی بہبود کے منصوبوں اور ترقیاتی کاموں میں اپنے فنڈز کے ذریعے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

    علاوہ ازیں ناروے میں عالم پور گوندلاں کے تارکین وطن کی ایک تنظیم ہر سال چوہدری نائک عالم کی برسی مناتی ہے۔

    نائک عالم کے بچے اور پوتے پوتیاں سب کے سب ناروے میں رہتے ہیں۔

    لیکن وہ شخص جس نے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا اور ان کے لیے دنیا کا راستہ کھولا، کبھی اپنے ملک کو چھوڑ کر نہیں گیا۔ وہ جس دھرتی پر پیدا ہوئے، وہیں ان کی تدفین ہوئی۔
     
    آصف احمد بھٹی اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں