1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از ابو تیمور, ‏17 ستمبر 2013۔

  1. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    سستی بھی ہو ـ ہر دم حا ضر بھی ہو ـ ورنہ بجلی کیا ہو ئی بس کو ئی ہر جا ئی محبو بہ ہو گئی ـ

    مگر کیسے حاضر ہو ہر دم سستی بجلی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم پاکستانی ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر سوچنے اور سمجھنے والا انسان تلاش کر رہا ہے ـ

    پوری عمر انجینئرنگ پڑھنے اور پڑھانے کے بعد میں سمجھا ہوں کہ بجلی بنانے والے ساری قِسموں کے فیول (ایندھن)، خود بجلی اور پانی کو معاشیات کے طلب و رسد کے نظام (Demand and Supply Paradigm) سے الگ ہٹ کر دیکھنا اور سمجھنا ہو گا ـ اِن چیزوں کو طلب و رسد کے نظام سے نہیں بلکہ ایک نئے اور الگ قسم کے نظام کے تحت کنٹرول کر نا ہوگا ـ میری تحقیق کے مطابق ایندھن، بجلی اور پانی کو پیداوار اور کھپت کے نظام (Production and consumption Paradigm) کے تحت کنٹرول کر نا ہوگا ـ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ـ

    مگر پہلے وہی پرانا مسئلہ، کیسے حاضر ہو گی ہر دم سستی بجلی پا کستا ن میں؟

    اگر پاکستا ن کے بجلی کے مسئلہ کو حل کر نے میں کوئی واقعی سنجیدہ ہے تو اسے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بجلی درآمد کر نے سےصرف سپلائی بہتر ہوگی، وہ بھی کچھ عرصہ کیلئے ـ بجلی کی ضرورت (رسد) ہر روز بڑھتی رہے گی اور مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا ـ دنیا کے کسی بھی ملک پر توانائی کے معاملے میں انحصار کرنا قومی حماقت ہوگی ـ سرمایا دارانہ نظام کے علمبردار امریکہ میں تو توانائی کے معاملے میں خود امریکی پرائیویٹ سیکٹر پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا تا اور آج بھی بیشتر یوٹیلٹی کمپنیاں آج بھی حکومتی اداروں کے طور پر ہی کام کر رہی ہیں ـ پاکستان درآمد شدہ بجلی پر کیسے انحصار کر سکتا ہے؟ لہذا برادرانِ اقتدار اگر بجلی درآمد کر کے ہر دم سستی بجلی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ صرف وقت ضائع کر رہے ہیں ـ یہ بیل نہیں منڈھے گی ـ

    آسان بات یہ ہے کہ بجلی کی کھپت کو بجلی کی پیداوار کے برابر کر دیں ـ مسئلہ حل ہو جا ئیگا ـ مگر کیسے؟

    پہلی بات، اس کیلئے مرکز اور صوبوں کے حکمرانوں کو لیڈر نہیں بلکہ رہنما بن کر سوچنا ہوگا ـ خمینی کی طرح، فیڈل کاسترو کی طرح اور نیلسن منڈ یلا کی طرح ـ مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنا ہونگے ـ ہمت اور استقامت کا راستہ اپنانا ہوگا ـ کوئی تیار ہے تو حل آسان بھی ہے اور حاضر بھی ـ میری تجویزات کا محور فی الحال بجلی کی بچت ہے ـ بجلی کی پیداوار پر بعد میں گفتگو ہو گی ـ

    بجلی کی ضرورت اور کھپت میں تقریبا ٪۳۰ کا فرق ہے ـ

    اگر ہم تمام کاروباری مراکز اور دفاتر کے اوقات صبح ساڑھے سات بجے سے شام ساڑھے چار بجے تک محدود کردیں تو بجلی کی کھپت میں ۷ تا ۱۰ فیصد کمی ہو سکتی ہے ـ

    رات ساڑھے ۹ بجے کے بعد استعمال کی جانے والی بجلی مہنگی کر دیں ـ لوگ جلدی سونا اور جلدی جاگنا شروع کر دیں گے اور بجلی کی گھریلو کھپت میں مزید کمی ہو جا یئگی ـ

    پبلک لا ئٹس کو رات ۱۱ بجے کے بعد بند کر دیجئے، فرانس میں اب یہی ہو رہا ہےـ

    ایک مقررہ حد سے زیادہ بجلی استعمال کرنے واے گھریلو صارفین پر کاربن تیکس کا نفا ز کیجئے ـ بجلی کا استعمال کم ہو جا ئیگاـ

    بجلی پیدا کرنے کے مقابلہ میں بجلی ضائع ہونےسے روکنا آسان ہے ـ
    پاکستان میں ۳۰ سے چالیس فیصد بجلی لائن میں ہے ضائع ہو جا تی ہے ـ
    اگر ہمارےبجلی کی لائن سےوابستی نقصانات میں ۳۳ فیصد کمی ہوجائے
    تو ہماری بجلی کی کھپت مزید۸ تا ۱۰ فیصد کم ہو جا ئیگی ـ

    صرف ان اقدامات سے ہم بجلی کی کھپت میں ۲۰ فیصد تک کمی لا سکتے ہیں ـ
    باقی دس فیصد کمی پورا کرنے کیلئے ہم فوری طور پر نئے بجلی گھر نہیں بنا سکتے ـ
    ایسے مشورے دینے والے صرف غلط فہمی مں مبتلا ہیں ـ

    آسان حل یہ ہے بجلی کی چوری کم کی جا ئے ـ بجلی کی چوری پر قابو پانا ہوگا ـ
    اگر حکومت بجلی کی چوری کو کنٹرول کر کے ۵۰ فیصد کم کر دے تو بجلی کی کھپت ۱۰ سے پندرہ فیصد مزید کم ہو جا ئیگی ـ ہما را شارٹ فال ختم ہو جا ئیگا اور ہم بغیر ادھار اور انحصار کے بجلی کے مسئلہ پر تقریبا ۱۰۰ فیصد قابو پالیں گے ـ صرف چند ماہ میں ـ درآمد شدہ بجلی مہنگی ہوگی اور ہما ری کمزور معیشت پر مزید بوجھ بنے گی ـ بس قوم سے سچ بولنے اور قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ـ

    ان اقدامات کے بعد ہمیں بجلی پیدا کرنے کے نئے ذرائع تلاش کرنا ہونگے ـ میرے تجویز کردہ اقدامات کے نتیجے میں حکومت کو بجلی کی پیداوار بڑھانے کا وقت مل جا ئیگا اور قومی خزانے پر کوئی بڑا بوجھ بھی نہیں آئیگا ـ اس طرح ہرجا ئی بجلی کو قابو کرنا اتنا مشکل بھی نہیں رہے گا ـ بس ایک اچھے لیڈر کی ضرورت ہے ـ برادرانِ اقتدار چا ہیں تو لیڈر کی فراہمی کیلئے سید منور حسن سے رابطہ کر سکتے ہیں ـ
    ڈاکٹر مسعود محمود خان آسٹریلیا کی کر ٹن یو نیورسٹی میں مکینیکل انجینرنگ کے لیکچرر ہیں اور توانائی سے متعلق مضامین پڑھاتے ہیں ـ
     
    ھارون رشید اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    بجلی سستی بھی ہو ـ ہر دم حا ضر بھی ہو ـ مگر کیسے حاضر ہو ہر دم سستی بجلی؟

    گزشتہ مضمون میں ہم نے تجزیہ کیا تھا کہ بجلی کی سپلا ئی کو عمومی معاشیات کے طلب و رسد (Demand and Supply) کے نظام سے الگ ہٹ کر پیداوار اور کھپت کے نظام (Production and consumption Paradigm) کے تحت کنٹرول کر نا ہوگا ـ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ـ آج اس بات پر مزید گفتگو کر تے ہیں ـ

    فرض کریں کہ ہم بہت سارے ڈیم بنا لیتے ہیں اور ملکی ضرورت سے بہت زیا دہ، خوب زیادہ، بجلی پیدا کر لیتے ہیں اور بجلی کی سپلائی کا کام پرا ئیوٹ کمپنیوں کو دے دیتے ہیں . تو کیا پھر ہم بجلی سستی قیمت پر فراہم کر سکیں گے؟

    سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل امریکہ اور دیگر مغر بی ممالک میں بجلی اور پانی کی پیداوار، سپلائی اور تقسیم کا کام حکومتی اداروں کی زیر نگرانی ہوتا ہےـ نہ جانے کس برزجمہر نے ہماری حکومتوں کو یہ سمجھا دیا ہے کہ بجلی اور پانی کی پیداوار، سپلائی اور تقسیم کا کام پرائیوٹ سیکٹر کو دے دینا چا ہئے ـ پرائیوٹ سیکٹر کے سرمایہ دار صرف اپنے مفادات اور منافع میں دلچسپی رکھتے ہیں، سستی بجلی سپلائی کرنا ان کے مقاصد میں شامل نہیں ہوتا ـ دنیا میں جہاں بھی بجلی اور پانی کی پیداوار، سپلائی اور تقسیم کا کام پرائیوٹ سیکٹر کو دیا گیا ہےوہاں عوام کی زندگی مشکل ہی ہوئی ہےـ کیا کرا چی میں کے ای ایس سی کو ایک غیر ملکی کمپنی کے حوالے کر نے سے عوام کی مشکلات میں کوئی کمی آئی ہے؟ کیا کراچی میں بجلی کی قیمتیں باقی ملک سے زیادہ نہیں؟ افسوس یہ ہے کی کراچی سے ووٹ لے کر جیتنے والی جماعتوں نے کے ای ایس سی کی فروخت کی بھر پور حمایت کی اور عوام کے معاشی قتل کے منصوبے میں اپنا اپنا حصہ وصول کیا ـ سوائے جماعت اسلامی کے کسی پارٹی نے اس پر احتجاج نہں کیا اور آج کراچی کے عوام کیلئے بجلی مہنگی بھی ہے اور غائب بھی ـ

    اگر عوام کو سستی بجلی مہیا کرنی ہے تو ملک کے بجلی پیدا اور تقسیم کر نے والے ادارے اونے پونے بیچنے کی بجائے ان کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں ـ اگر برادرانِ اقتدار نے واپڈا بھی بیچ دی تو بجلی اتنی مہنگی ہو جائیگی کہ سندھ اور پنجاب کا کسان اپنے ٹیوب ویل عجائب خانوں میں رکھوانے پر مجبور ہو جا ئیگا ـ

    سستی اور ہر دم بجلی کی فراہمی کیلئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کر نا ہو گا ـ بجلی کی چوری اور زیاں (waste) کو روکنا عوام کی زمہ داری ہےـ جب تک عوام خود بجلی کی چوری اور زیاں کے خلاف ایک ما حول نہیں بنائیں گے، ہر دم سستی بجلی نہیں مل سکے گی ـ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو بھی عوام کی تر بیت کرنا ہوگی اور بجلی کی چوری اور زیاں کے خلاف جہاد کر نا ہوگا ـ افسوس یہ ہے کے ہمارے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین خود بھی بجلی کی چوری اور زیاں کے گناہگار ہیں ـ عوام بھی ان ہی لو گوں کو ووٹ دیتے ہں جو بجلی اور پانی کی چوری میں عوام کی مدد کر تے ہیں ـ پھر کیوں اور کیسے ملے گی ہر دم سستی بجلی؟
    جب ہم شارجہ سے پہلی مر تبہ آسٹریلیا آئے تو ہمٰ یوں محسوس ہوا کہ آسٹریلیا میں عوام اور حکومت دونوں بجلی استعمال کرنے سے ڈرتے ہیں ـ شام کے بعد گھروں میں لوگ بمشکل ایک یا دو لا ئٹیں جلاتے نظر آتے تھے اور گھر کے باہر صرف سرکاری لا ئٹیں ہی روشن نظر آتی تھیں ـ دور دور لگے کھمبوں میں لگے ھلکےھلکے بلب کفا یت شعاری (بلکہ کنجوسی) کی چغلی کھاتے محسوس ہو تے تھے ـ بہت عر صہ بعد ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ لوگ بجلی اور پانی کے استعمال میں کفا یت شعاری سے کام نہیں لتے بلکے اپنے احساسِ زمہ داری کی وجہ سے بجلی اور پانی کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کر تے ہیں ـ کراچی اور لاہور میں ہم نے تین افراد کے گھر میں دس بارہ بلب، شام سے رات گئے تک جلتے دیکھے ہیں، کنڈے والوں کے یہاں بھی اور میٹر والوں کے گھروں میں بھی ـ ہمارے لوگ بجلی اور پانی کے استعمال میں کفا یت شعاری کر نا اپنی تو ہین سمجھتے ہیں مگر بجلی اور پانی کی چوری کو جا ئز سمجھتے ہیں ـ

    دنیا کے سرد ترین ممالک میں سے ایک ملک سوئٹزرلینڈ میں ہم نے بڑی بڑی سوپر مارکیٹس کو بھی ہلکی بجلی اور تھوڑی حرارت پر گزارہ کر تے دیکھا ہے ـ مگر پاکستا ن میں ہمارے محلے کے دودھ والے کی دکان ایسے روشن ہوتی ہے جیسے اس نے دکان کی چھت پر سورج کو ٹانگ رکھا ہے ـ بر طانیہ کا تو تزکرہ کرناہی بیکا ر ہے کہ وہاں گورا ہیٹر اسی وقت چلاتا ہے جب جان پر بن جا ئے ورنہ گرم کپڑے پہن کر گزارہ کرنے میں ہی عا فیت سمجھتا ہے ـ

    مقرر عر ض ہے کہ بجلی بنانے والے ساری قِسموں کے فیول (ایندھن)، خود بجلی اور پانی کو معاشیات کے طلب و رسد کے نظام (Demand and Supply Paradigm) سے الگ ہٹ کر دیکھنا اور سمجھنا ہو گا ـ اِن چیزوں کو طلب و رسد کے تحت نہیں بلکہ پیداوار اور کھپت یا خرچ کے نظام (Production and consumption Paradigm) کے تحت استعمال کر نا ہوگا ـ
    پاکستان مں بہت سارے نیم حکیم کبھی ہمیں کوئلے کی کانوں سے سورج طلوع ہونے خوشخبری د یتے ہیں تو کبھی سورج کی روشنی چرا کر ہماری چھتوں پر ٹا نگتےنضر آتے ہیں ـ کو ئی ھوا سے تو کو ئی پانی سے بلب جلاتا، پنکھے گھماتا اور گاڑیاں دوڑاتا نظر آتا ہے ـ کاش ان لوگوں کو معلوم ہوتا کہ کسی بھی قسم کی توانائی کو بجلی میں بدلنے پر کتنی لا گت آتی ہےـ

    بجلی کی پیداوار پر آئندہ مضمون میں گفتگو کا وعدہ رہا ـ


    ڈاکٹر مسعود محمود خان آسٹریلیا کی کر ٹن یو نیورسٹی میں مکینیکل انجینرنگ کے لیکچرر ہیں اور توانائی سے متعلق مضامین پڑھاتے ہیں ـ
    بشکریہ: ہماری ویب
     
    ھارون رشید، پاکستانی55 اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن ان باتوں پر عمل کرے گا کون
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    میرے خیال میں ان میں زیادہ باتیں اجتماعی سے زیادہ انفرادی عمل والی ہیں ، میں تو انشاء اللہ آج سے ہی شروع کررہاہوں اور سب دوستوں کو بھی کہوں گا
     
    ابو تیمور نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    بلال بھائی، ھارون بھائی نے تو مسئلہ حل کر دیا ہے۔
    ہم ہر کام کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کام حکومت کا ہے۔ حکومت تو کہتی ہے، کہ بجلی چوری نہیں کرو اگر کسی کو بجلی چوروں کا معلوم ہے تو وہ اس کی اطلاع کریں۔
    بڑے مقصد کے لئے چھوٹی قربانیاں تو ہر کوئی دیتا ہے۔ ہمیں بھی لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ چاہے وہ جس صورت میں بھی ہو
    اس وقت بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ بجلی چوری ہو رہی ہے۔اور اسی چوری ہونے کی وجہ سے اور لائن لاسز کی وجہ سے بجلی مزید مہنگی ہو رہی ہے۔

    پاکستان میں کم از کم تقریبا 1سے ڈیڑھ کروڑ کے قریب گھر ہیں۔ اگر ہر گھر روزانہ کم از کم 5 واٹ بجلی بچائے تو ڈیڑھ کروڑ گھروں کے حساب سے 310 میگاواٹ فی گھنٹہ بجلی کی بچت کر سکتے ہیں۔

    آج ھارون بھائی کی یہ سوچ ہے اور دوستوں کو بھی کہنے کی بات کر رہے ہیں۔ اگر اس پر عمل کرنے والے بڑھتے جائیں اور حکومت مزید اچھے اقدامات کرتی جائے تو بجلی کاشارٹ فال خود بخود کم ہوتا جائے گا۔ ضرورت ہے تو صرف اور صرف عمل کرنے کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون پہلے عمل کرتا ہے کیونکہ کسی نہ کسی کو تو پہل کرنی ہی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں