1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کس طرح ہوتی ہے ؟

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از نوید, ‏31 مارچ 2013۔

  1. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے ۔

    پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کس طرح ہوتی ہے، اوریامقبول جان کی زبانی سنیں



    خوش رہیں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہی تو وہ گندا نظام ہے جس کے ذریعے چند درجن خاندانوں نے 18 کروڑ کو غلام بناکررکھا ہوا ہے۔ 18 کروڑ سادہ لوح عوام کے منہ پر ہرچند سال کے بعدووٹ کے نام پر جمہوریت کا جوتا مارا جاتا ہے ۔عوام اپنے گال کو سہلاتے سہلاتے 4-5 سال گذارتے ہیں۔ اتنی دیر میں اگلے جوتے کے لیے "گال" پھر تیار ہوتا ہے۔
    خداجانے کب تک ہم عوام یہ "جمہوری جوتے" کھاتے رہیں گے۔ ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی ان چند سو وڈیروں، سرمایہ داروں اور بدمعاشوں، ٹھگوں کی غلامی میں دیے رکھیں گے۔۔۔ خدا جانے کب تک !!!
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    ليكن نعيم بھائی حل کیا ہے؟؟ بائیکاٹ ہرگز حل نہیں۔۔۔
    اگر ہم نہیں آئیں گے تو دوسرے آجائیں گے۔۔۔۔ اور اپنا کام جاری رکھیں گے۔۔۔۔
    ہمیں کوشش کرنی چاہیے اچھے اور مخلص لوگوں کو اسمبلیوں تک پہنچائیں۔۔۔۔ تاکہ یہ اسمبلی میں اچھے قوانین پاس کریں۔۔
    یا دوسرا طریقہ انقلاب کا ہے۔۔۔ جو کہ پاکستان جیسے ملک میں بہت بعید نظر آتا ہے۔۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    یقینا ! میں ہمیشہ سے اس بات سے متفق ہوں کہ موجودہ نظام ٹھیک نہیں ہے مگر اس کا حل یہ نہیں کہ بائیکاٹ کیا جائے ، اور جیسا کہ حسینی بھائی نے بھی کہا ، ہمیں نظام رہتے ہوئے ہی تبدیلی کرنی ہو گی ۔ کوئی دوسرا حل ہے تو بتائیں ؟
     
    عباس حسینی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    میں آصف بھائی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں ہمیں ان لٹیروں کو پارلیمنٹ سے دور رکھنا ہے
     
    عباس حسینی نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بات اپنی عقل سمجھ سوچ کی ہوتی ہے۔ مایوس قوموں کی سوچ بھی مایوسی پر مبنی بن جاتی ہے۔
    حالانکہ ووٹ نہ دینا بھی عین جمہوریت ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ۔ وطنِ عزیز کی اعلی عدالت سپریم کورٹ نے بقلم خود فیصلہ سنایا اور الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کی ہیں کہ الیکشن میں "Vote for None" کا آپشن بنایا جائے۔ اب غیر آئینی طریقے سے یعنی مک مکا سے بنائے گئے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کتنا عمل درآمد کیا ہے یہ سب کے سامنے ہے۔
    [​IMG]
    سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ سے یہ فیصلہ صفحہ نمبر4 براہ راست یہاں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
    اب بتائیے "Vote for None" کی آپشن کا استعمال عین آئینی حق ہے یا نہیں ؟ یاد رہے کہ ہندوستان، بنگلہ دیش سمیت دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں یہ آپشن باقاعدہ ووٹ کی پرچی پر درج ہوتی ہے اور عین جمہوریت کا حصہ شمار ہوتی ہے۔
    یہاں تک تو یہ دلیل تھی کہ ووٹ نہ دینا "غیر جمہوری " نہیں بلکہ عین جمہوری رویہ اور ایک شہری کا حق ہے۔
    ------------------------------------------
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کیا موجودہ نظام کے علاوہ اور کوئی جمہوری نظام نہیں ہے ؟؟؟
    موجودہ کرپٹ نظام کے علمبرداروں اور محافظوں کی ایک چال :
    چونکہ میڈیا رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم رول ادا کرتا ہے اس لیے غیر منصفانہ نظام انتخاب کا جال بننے والے ہاتھوں نے ہمیشہ طاقت وسرمائے کی بنیاد پر میڈیا جیسے ہتھیار کو پہلے ہی اپنے مقاصد کے لیے تیار کیا ہوتا ہے (الا ماشاءاللہ) چنانچہ یہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا جہاں ان کرپٹ و مفاد پرست سیاستدانوں اور گروہوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے وہیں قوم کو یہ باور بھی کروایا جاتا ہے کہ دنیا میں موجودہ نظام کے علاوہ کوئی اور نظام ہی نہیں چنانچہ 18 کروڑ عوام کو اسی میں سے اپنے حقوق تلاش کرنے ہوں گے۔ چنانچہ مایوس قوم پھر سے اسی گلے سڑے نظام میں چند نئے چہروں میں اپنے دکھوں کا مداوا تلاش کرنے میں سرگرداں ہوجاتی ہے۔
    سیاسی چال یہ ہوتی ہے کہ ظالمانہ اور عوام دشمن نظام کو پرورش دینے والے اور اسے قائم رکھنے والے اندرونی و بیرونی تھنک ٹینکس عوامی نفسیات اور عوامی رویوں کے ماہرین ہوتے ہیں ۔ ماہرین عمرانیات ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قوموں کے اندر لمبی مایوسی کے بعد تبدیلی کی خواہش جنم لیتی ہے۔ اگر اس فطری خواہش کے آگے بند باندھا جائے تو عوام مجبور ہوکر نظام بدلنے کی طرف سوچنے لگتے ہیں ۔ چنانچہ ایسے عوام کش نظام کے علمبردار اور محافظ قبل از وقت ایسے جذبات کا ادراک کرتے ہیں اور ہر چند سال کے بعد ایک آدھ نیا چہرہ اسی نظام میں سے نکال کر "نسبتاچھوٹی برائی"کے طور پر سامنے لے آتے ہیں۔ عوام کا ہجوم ان کے پیچچے لگ جاتا ہے کہ اب "تبدیلی" یہ چہرہ لے کر آئے گا۔
    گذشتہ 30-35 سالہ ادوار کا ایک مختصر جائزہ :
    میری بات کی تصدیق کے لیے گذشتہ 30-35 سال کی پاکستانی سیاست پر نظر دوڑائیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب عوام "نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم " کے لیے اٹھی۔ نوستاروں کا اتحاد بنا ۔دلچسپ امر یہ ہےنوستاروں میں ایسی جماعتیں اور سیاستدان بھی شامل تھے جو سیکولرزم کے علمبردار تھے ۔ عوام نے لاہور کی سڑکوں پر خون کا نذرانہ دیا۔ تو اچانک جنرل ضیاء الحق ایک اسلام پسند رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ 90 دن کا وعدہ کرکے شاید 90 ماہ سے بھی تجاوز کرگئے۔ انہیں طالع آزما سیاستدانوں پر مشتمل "مجلس شوریٰ" بنائی گئی۔ جس کی حیثیت ربڑ سٹیمپ سے زیادہ نہ تھی۔ اسلام کے عملی نفاذ کے لیے "اسلامی نظریاتی کونسل" کی سفارشات کو ہمیشہ ردی کی ٹوکری میں ڈالا جاتا رہا۔ شریعہ کورٹ بنائی گئی لیکن اسے پاکستان میں جاری "سودی نظام" پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہ دیا گیا۔
    عوام کی اکتاہٹ اور "اسلام اسلام " کی رٹ کے پردہ فاش ہونے کے ڈر سے 1985 میں غیرجماعتی الیکشن کے نام پر "نیم مارشل لائی جمہوریت" کو متعارف کروایا گیا۔ جس میں نواز شریف کو ایک "اسلام پسند چہرے" کے طور پر عوام کے سامنے لایا گیا۔ لیکن یہ دال زیادہ دیر نہ گل سکی۔
    بالآخر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا دکھائی دیا تو بےنظیر بھٹو جیسا "عوامی چہرہ" سامنے آیا۔جس کی لاہور آمد پر فقید المثال استقبال ہوا تو نام نہاد اسلام پسندوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی چنانچہ خفیہ ایجنسیوں کی ملی بھگت سے طالع آزما اور خاندانی سیاستدانوں پر مشتمل "اسلامی جمہوری اتحاد المعروف آئی جے آئی" کا ملغوبہ بنا دیا گیا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بھٹو خاندان کو اس وقت بڑی برائی بنا کر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف یا آئی جے آئی کو "چھوٹی برائی" یا اسلام پسندوں کا ٹائیٹل بھی دیا گیا۔
    دونوں سیاسی بہن بھائیوں کی طویل عرصہ دھینگا مشتی سے جب عوام اکتا گئے اور عوام کو انکے بنیادی حقوق نہ مل سکے ۔ 1998 میں ایک عوامی احتجاجوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جسے بہانہ بنا کر اچانک جنرل مشرف صاحب آن وارد ہوئے ۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا ۔ اور انکے دور میں جو جو کارنامے اس دھرتی پر ہوئے مورخ کا قلم انہیں لکھتے ہوئے سو بار کانپے گا۔ ملک کو عملی طور پر امریکیوں کے حوالے کردیا گیا۔ نام نہاد جمہوری اسمبلی اس دور میں بھی بنائی گئی جس میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق سیٹیں تقسیم کی گئیں۔ اس سے قبل کہ عوام ایک بار پھر کسی بڑی تبدیلی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
    اچانک جنرل مشرف جیسے "کمانڈو" اور "نڈر جنرل" کو کسی ان دیکھی چھڑی کے ذریعے این آر او بنانے اور دونوں جمہوری "بہن بھائی" کو ملک میں واپس لانے پر مجبور کردیا گیا جیسے یہ دونوں کرپٹ حکمران قائد اعظم کو جہیز میں لارڈ وائسرائے سے ملے تھے کہ پاکستان میں جمہوریت ان دونوں کے سوا اور کوئی چلا ہی نہیں سکتا۔
    الغرض عوام کو پھر سے نئی امید دلائی گئی۔ بےنظیر کو راہ سے ہٹا کر اور نواز شریف کو الیکشن سے دور رکھ کر نئے چہرے سامنے لائے گئے۔
    5 سال جمہوریت کے گذرے جس میں عوام کو سوائے مایوسیوں، خود کشیوں، بم دھماکوں، لوڈ شیڈنگ، گیس لوڈ شیڈنگ، تباہی و بربادی، برین ڈرین اور قتل و غارت گری اور کرپشن جیسے تحفوں کے اور کچھ نہ مل سکا۔ سیاستدان 5 سال کا جشن مناتے رہے ۔ عوام تبدیلی کی راہ دیکھتے رہے۔
    اچانک اسی نظام میں عمران خان ایک "نسبتا بہتر آپشن" کے طور پر سامنے آیا جونہی عمران کے پیچھے عوام لگے۔ یہی چور، لٹیرے کرپٹ ٹولے جو ماضی میں لال مسجد، ڈرون حملوں اور پاک فضائیہ کے اڈے امریکیوں کے حوالے کرنے کے جرم میں شریک تھے وہی عمران خان کے آگے پیچھے ہولیے۔ عمران خان جیسا بااصول شخص بھی یہ کہہ کراس نظام سے اپنی مایوسی کا اظہار کرگیا کہ "میں فرشتے کہاں سے لاوں" ؟؟؟ گویا وہ ذہنی طور پر اسی عوام دشمن نظام کو قبول کرگیا۔
    اللہ کرے عمران خان کلین سویپ کرجائے۔ لیکن اگر خدانخواستہ نہیں کرتا اور وہی چور لٹیرے پھر سے اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو بتائیے اگلے 5 سال میں پھر اس ملک کا کیا حشر ہوگا؟ کون ہماری معیشت کو سنبھالا دے گا؟ قرضوں پر قرضے لیتے جانا اور آئندہ نسلوں کو مقروض بناتے جانا کیا یہ معیشت کا چلانا ہوتا ہے؟ زرداری و نواز شریف کیا اپنی کھربوں کی جائیدادیں سوئس اکاونٹس، پیرس، لندن اور سعودی عرب سے واپس ملک میں لائیں گے ؟ ہرگز نہیں۔
    موجودہ نظام ِ انتخابات دھن، دھونس اور سرمائے کا نظام ہے۔ کسی شریف، اہل، لائق اور ایماندار کے لیے ہے ہی نہیں۔
    موجودہ نظام کی بنیادی خرابی سمجھنے کا آسان ترین طریقہ :
    میرے پیارے پاکستانیو ! سیدھی ، سادہ اور صاف سی بات ہے جو ایک کم سے کم عقل والے کو بھی سمجھ آتی ہے۔ کہ اس نظام میں اگر ایک آدمی 5-7 یا 10 کروڑ لگا کر اسمبلی میں پہنچتا ہے تو کیا وہ فرشتہ ہے کہ وہ اپنے 8-10 کروڑ واپس نہیں نکلوائے گا؟ اوپر لیڈر چاہے عمران خان ہو یا قائد اعظم جیسا کوئی ایماندار ۔۔ یہ ارکان پارلیمنٹ اپنے کروڑوں واپس ضرور لیں گے۔۔ اور 10 کروڑ لگا کر صرف 10 واپس لینا بھی کوئی دانش مندی نہیں ۔ 10 کے ساتھ کم از کم 20 یا 30 کروڑ تو بندہ کماتا ہے نا ؟ آخر مہنگائی ہوتی ہے۔ اگلا الیکشن بھی لڑنا ہے کیونکہ انکا تو بزنس یہی ہے۔
    تو بتائیے جب کسی بھی ایماندار لیڈر کے لیے کیا راستہ بچے گا ؟ یا تو وہ ان کرپٹ ارکان پارلیمنٹ کو راضی رکھے گا ۔۔ وگرنہ یہ لوٹے جست لگا کر کسی اور کے بنچوں پر بیٹھ جائیں گے۔
    یا پھر ایسا ایماندار لیڈر (خدانخواستہ) قائد اعظم کی طرح سلو پوائزنگ کا شکار کر اپنا مزار بنوا لے گا۔
    لیکن یہ نظام کسی بھی بہتر شخص کو انفرادی طور پر کبھی آگے نہیں آنے دے گا۔ موجودہ نظام کے تحت 10 الیکشن بھی قوم کو نہ تو حقیقی جمہوریت دے سکتے ہیں نہ ہی بنیادی حقوق دے سکتے ہیں۔
    اس لیے آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ۔۔۔ عوام کو اس نظام کے خلاف اٹھنا ہوگا۔
    یہ نظام اس ملک کا رضا شاہ پہلوی ہے۔
    یہ نظام اس ملک کا فرعون ہے۔
    یہ نظام اس ملک کا یزید ہے۔
    جس دن ہم عوام اس نظام سے نفرت کرکے اسے بدلنے پر راضی ہوگئے اس دن ہماری تقدیر بدلنا شروع ہوجائے گی۔
     
    نصراللہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی کے پیغام میں کوئی ایسی بات نہیں۔ جس کی میں تردید کر سکوں
    اس لئے میں ان کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ طاقتیں عوامی نفسیات سے کس طرح کھیلتی ہیں۔
    میری اوپری پوسٹ کی تصدیق ڈاکٹر شاہد مسعود کے مندرجہ ذیل کلپ سے ہوجاتی ہے۔
    سارا کلپ بہت اہم ہے لیکن خاص طور پر 9ویں منٹ سے گفتگو سننے لائق ہے۔
     
  10. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    جعلی ڈگری ہر شعبہ زندگی میں داخل ہوچکی ھے۔اور یہ بھی اسی نظام کا تسلسل ہے۔
    [​IMG]
     
    پاکستانی55 اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    افسوس الیکشن کمیشن کی اس ڈرامہ بازی پر ہے جو دعائے قنوت و دوسرے تیسرے کلمے کے نام پر نہ صرف آئین کے آرٹیکل 62، 63 کو مذاق بنا رہے ہیں بلکہ ٹیکس چوری، قرضہ خوری اور دیگر بدعنوانوں کی طرف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انہیں پھر سے اسمبلیوں میں براجمان ہونے کا راستہ بھی ہموار کررہا ہے۔
    جبکہ آئین کا آرٹیکل 62 ، 63 ، دعائے قنوت ، سورہ اخلاص یا دوسرے تیسرے کلمے پر مشتمل نہیں ۔۔ ممبر اسمبلی کی سکروٹنی ہے کوئی پرائمری کے پہلی دوسری جماعت کا اسلامیات کا امتحان نہیں ہے۔
    آئین کاتقاضا ہے کہ بدعنوان م کرپٹ ، چور لٹیرے ، جھوٹے، جعل ساز اور بدکردار عناصر پارلیمنٹ سے باہررہ سکیں جبکہ ایسا کوئی واضح قدم نہیں اٹھایا جارہا۔
     
    احتشام محمود صدیقی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    افسوس الیکشن کمیشن کی اس ڈرامہ بازی پر ہے جو دعائے قنوت و دوسرے تیسرے کلمے کے نام پر نہ صرف آئین کے آرٹیکل 62، 63 کو مذاق بنا رہے ہیں بلکہ ٹیکس چوری، قرضہ خوری اور دیگر بدعنوانوں کی طرف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انہیں پھر سے اسمبلیوں میں براجمان ہونے کا راستہ بھی ہموار کررہا ہے۔
    جبکہ آئین کا آرٹیکل 62 ، 63 ، دعائے قنوت ، سورہ اخلاص یا دوسرے تیسرے کلمے پر مشتمل نہیں ۔۔ ممبر اسمبلی کی سکروٹنی ہے کوئی پرائمری کے پہلی دوسری جماعت کا اسلامیات کا امتحان نہیں ہے۔
    آئین کاتقاضا ہے کہ بدعنوان ،کرپٹ ، چور لٹیرے ، جھوٹے، جعل ساز اور بدکردار عناصر پارلیمنٹ سے باہررہ سکیں جبکہ ایسا کوئی واضح قدم نہیں اٹھایا جارہا۔

    رہ گئی پاکستانی قوم ! تو ہمارا قومی مزاج تماش بینی ہے۔ ٹی وی پر ٹالک شوز اور خبروں میں پہلے دوسرے کلمے اور دعائے قنوت کی خجالت کو بڑھا چڑھا کر پیش بھی کیا جاتا ہے اور ٹالک شوز میں اس پر تبصرے کرکے بیزارِ اسلام دانشوروں اور جاہل و بدکردار مولویوں کے ذریعے آئین کا سرعامِ مذاق اڑاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ قوم میں کوئی ایماندار، دیانتدار ایسا ایک بھی نہیں جو آئین کے تقاضے پورے کرسکے ۔ ایسا کہنا دراصل نہ صرف آئین پاکستان کی توہین ہے بلکہ پاکستانی قوم کی بھی توہین ہے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ بعض تبصرہ نگار پاکستان ميں ہونے والی سياسی پيش رفت کو اب بھی "بيرونی ہاتھ" اور "ان ديکھی قوتوں" جيسی دقيانوسی سوچ کے پيراۓ میں ديکھتے ہيں۔ کيا يہ درست نہيں ہے کہ يہی تبصرہ نگار گزشتہ 5 برسوں سے يہی راگ آلاپ رہے ہیں کہ موجودہ مخلوط پاکستانی حکومت امريکی حمايت کے نتيجے ميں پاکستان پر "مسلط" کی گئ ہے تا کہ امريکہ خطے ميں اپنا اثرورسوخ بڑھا سکے۔ سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ امريکہ کيونکر اپنی ہی کٹھ پتلی اور تابع حکومت کو کمزور کرنے کی سازش کرے گا۔

    سازشی کہانيوں کی تخلياتی دنيا کے تناظر ميں بھی يہ دونوں متضاد دلائل بيک وقت درست نہيں ہو سکتے۔ ليکن ان کہانيوں پر يقين رکھنے والے منطق اور دانش کو اپنی ذہنی اختراع کی راہ ميں حائل نہيں ہونے ديتے۔

    حقيقت کی دنيا میں پاکستان کے طويل المدت اسٹريجيک اتحادی اور دوست کی حیثيت سے امريکی حکومت نے پاکستان ميں جمہوری اداروں کے استحکام اور ان کی حمايت کے لیے ہر ممکن قدم اٹھايا ہے۔ اس کے ليے آپ گزشتہ 5 برسوں کے دوران امريکی حکومت کے تعاون اور امداد سے شروع کيے جانے والے ان بے شمار ترقياتی منصوبوں کا جائزہ ليں جو ملک بھر ميں حکومت سازی سے متعلق اداروں کی مضبوطی کا سبب ہيں۔ ميں نے ايسے بے شمار منصوبوں کی تفاصيل بارہا فورمز پر پوسٹ کی ہيں۔بعض راۓ دہندگان کی سوچ کے مطابق اگر ہمارا مطمع نظر حکومت پاکستان کو کمزور کر کے اپنی سياسی کٹھ پتليوں کو اجاگر کرنا ہوتا تو يقينی طور پر امريکی حکومت اس مشکل معاشی دور میں اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ضائع نہيں کرتی جو ہم نے مختلف ترقياتی منصوبوں کی مد ميں پاکستان کو ديے ہيں۔

    ايک جمہوری معاشرے کے حوالے سے ہماری پوزيشن بالکل واضح ہے۔ ايک آزاد ميڈيا، عدليہ اور عوام کے سامنے جوابدہ حکومت ہی مضبوط جمہوريت کا حصہ ہیں۔ ليکن ايسے قائدين کے انتخاب کا فيصلہ جو قوم کی امنگوں کے حقيقی ترجمانی کرتے ہیں، ملک کے عوام کے ہاتھوں ميں ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
    http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فواد صاحب محض امریکہ وفاداری کا حق ادا کرکے اپنی پوسٹیں بڑھا کر مزید ڈالر کمانے کے لیے یہاں پوسٹ لگا گئے۔
    وگرنہ اوپر دیے گئے کلپ میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہیں یا میں نے کہیں بھی بطور خاص امریکہ کا ذکر نہیں کیا۔
    لیکن وکی لیکس کے مطابق سابقہ حکومت دور میں اگر پاکستان آرمی میں اعلی افسران کی ترقی اور صوبائی گورنر جیسے فیصلہ جات بھی امریکی سفارت خانے سے منظور ہوتے تھے تو کیا امریکی مداخلت ثابت نہیں ہوتی ؟؟؟؟
     
  15. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    جو کوئ بھی ايک جمہوری معاشرے ميں کسی پاليسی کی تشکيل کے عمل سے واقف ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ ايسے عمل ميں ہر فرد کو يہ موقع اور رعايت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی تجربات اور مشاہدات سے آگاہ کرے۔ لیکن اس کا ہرگز يہ مطلب نہيں ہے کہ بيان کردہ ہر راۓ اور تجزيے کو کسی بھی ايشو کے حوالے سے امريکہ کی حتمی سرکاری پاليسی کا درجہ ديا جاۓ۔

    پاکستان ميں امريکہ کی مبينہ مداخلت کے حوالے سے آپ نے جو راۓ دی ہے اس سے يہ تاثر ملتا ہے کہ گويا امريکی سفیر اور پاکستان ميں امريکی سفارت خانہ پاکستان ميں ہونے والے ہر سياسی اور فوجی فيصلہ سازی کے عمل کے ليے کلی ذمہ دار ہيں۔ اس طرح کی سوچ اور دليل واضح طور پر ايک بيرونی ملک میں موجود سفير کے اختيارات اور ذمہ داريوں سے ناواقفيت اور کم علمی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی سفير پاکستان کی تمام اہم سياسی جماعتوں اور ان کے نمايندوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے اہم اراکين، ميڈيا کے نمايندوں اور مذہبی جماعتوں کے قائدين سے مسلسل رابطے ميں رہتے ہيں۔ ليکن يہ تمام ملاقاتيں عوام کی نظروں سے ہرگز اوجھل نہيں تھيں۔

    يہ تاثر دينا کہ صرف امريکی سفارت کار ہی پاکستانی ليڈروں سے کسی سازش کے تحت مسلسل رابطے ميں ہيں، بالکل بے بنياد ہے۔ پاکستان ميں موجود تمام غیر ملکی سفارت کار اس عمل کا حصہ ہے۔ اسی غرض سے سفارت کاروں کی تعنياتی کی جاتی ہے۔

    مختلف سفارتی اہلکار ملکی قائدين، راۓ عامہ سے متعلق اکابرين اور سول سوسائٹی کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں کے ذريعے دو طرفہ امور پر خيالات اور نظريات سے ايک دوسرے کو آگاہ رکھتے ہيں۔ يہ معمول کی ملاقاتيں خفيہ نہيں بلکہ پہلے سے طے شدہ ايجنڈے کی بنياد پر ہوتی ہيں اور ان ميں سب کی باہم مشاورت اور مرضی شامل ہوتی ہے۔ امريکی سفير اور ديگر سفارت کار کسی کی مرضی کے برخلاف زبردستی ملاقات نہيں کر سکتے۔يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ ان ملاقاتوں کا دائرہ کسی ايشو کے حوالے سے ايک مخصوص نقطہ نظر رکھنے والے سياسی قائدين تک محدود نہيں ہوتا۔ عام طور پر امريکی اہلکار ملک ميں حکومت اور اپوزيشن سميت تمام اہم قائدين سے ملاقاتيں کرتے ہيں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور ديگر ممالک کے سفارت کار بھی واشنگٹن ميں سفارت کاری کے اس مسلسل عمل کا حصہ ہوتے ہيں۔

    جيسا کہ ميں نے پہلے بھی اس فورم پر کہا تھا کہ مختلف سطح پر سفارتی رابطے کوئ غير معمولی بات نہيں۔ سفارت کاروں سے يہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جس ملک ميں موجود ہوں اس ملک کے حکام سے مسلسل رابطے ميں رہیں اور ملک ميں ہر متوقع تبديلی سے اپنی حکومت کو آگاہ رکھيں۔ يہ عمل ڈپلوميسی کے زمرے ميں آتا ہے نا کہ کسی ملک کے اندرونی معاملات ميں مداخلت۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
    http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/

     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ محترم۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آپ نے اقرار کرلیا کہ امریکی سفیر پاکستان کے خصوصا تیسری دنیا کے ممالک کی ہر پارٹی ، ہر جماعت اور ہر لیڈر کو اپنی نظر میں رکھنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ جبھی تو ملاقاتیں کرتے ہیں۔
    وکی لیکس نے کیا کچھ ظاہر کردیا ہے۔ وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ اس کا انکار نہیں کرسکے۔
     
  17. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    جو راۓ دہندگان امريکی اور پاکستانی عہديداران کے مابين ملاقاتوں کو شک کی نگاہ سے ديکھتے ہيں، ان سے گزارش ہے کہ امريکہ ميں تعينات پاکستانی سفير شيری رحمان کی مصروفيات پر ايک نظر ڈالیں جو تواتر کے ساتھ امريکی عہديداروں اور سياست دانوں سے ملاقاتيں کرتی رہتی ہيں۔

    http://sherryrehman.com/?cat=5


    عالمی سطح پر يہ ايک طے شدہ حقیقت ہے کہ سفیر دراصل اپنی ذات ميں اپنے ملک کے ليے تشہير کا ذريعہ ہوتا ہے جس کا کام ہر موڑ پر ہر ممکنہ طریقے سےاپنے ملک کے بہترين مفادات کو ملحوظ رکھنے کے علاوہ اپنے ملک کی مارکٹنگ کرنا بھی ہوتا ہے۔

    ايک سفير کی يہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی نمايندگی کے لیے پرزور اور ہر ممکن کاوش کرے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
    http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/

     

اس صفحے کو مشتہر کریں