1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وہ پہلی فصلِ بہار

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏5 جنوری 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    وہ پہلی فصلِ بہار​


    ماہِ کامل ربیع الاول کی آمد قریب ہے۔

    (ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء)
    کتنے مہینوں سے دیدہ و دل فرشِ راہ اور اُمیدِ کرم کی دنیا چشم براہ تھی۔اور کتنی مدت سے ارمان سینوں میں مچل رہے تھے۔اور آرزوئیں پہلو میں گدگدا رہی تھیں۔کتنی مدت سے ولولہءدست ِطلب دراز کیے تھا۔اور حوصلہ و ہمت بندھا رھا تھا۔سووہ گھڑیاں آ گئی ہیں۔اور ماہِ عظیم شروع ہوچکا ہے جسکی منا سبت سے اللہ نے قرآنِ پاک میں جا بجا اپنے محبوب کی آمد کا ذکر کیا ہے۔ارشادِربانی ہے ”لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمو منین رو ف الرحیم“۔(التوبہ : ۰۲۱)ترجمہ : بےشک تمھارے پاس تم میں سے(ا یک باعظمت)رسولﷺ تشریف لائے۔تمھارا تکلیف و مشقت میں پڑنا اُنہیں سخت گراں (گزرتا)ہے۔

    ۔(اے لوگو!)وہ تمھارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے)بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں۔(اور)مومنوں کے لیے نہایت(ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ اسی مناسبت سے فخرِ زمانہ ،نازشِ گیتی،موسمِ تجلیات ،مطلعِ انوار مہبطِ فیوض،برشگالِ رحمت یعنی ماہ ربیع الاول کا وردِ مسعود ہو چکا ہے۔یہی وہ مقدس مہینہ ہے جس کے دنوں کو دن سلام کرتے ہیں۔اور راتیں اسکی راتوں کے آگے سر تسلیمِ خم کرتی ہیں۔ایک ایک ساعت رحمت ِحق کی پیامی اور ایک ایک لمحہ حیاتِ جاوداں کا سرمایہ ہوتا ہے۔ا س کا ہر روز روزِ عید ہوتاہے اور ہر شب شبِ قدر بن جاتی ہے۔


    لو شبِ ولادت کا دن آ پہنچا ۔شبِ ولادت عرش جھوما ستارے زمیں کی طرف مائل،گھر گھر مبارکبادی کی دھوم ،شورِمرحبا سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی،بشرٰی لکم کی صدائیں بلند،درودیوار پر بہاریں لوٹیں ،خزاں وشیطان قید،نسیمِ بہار چلی ،شاخ شاخ سے گلے ملی ،کوئل شورِ کوکو کو چھوڑ کر منتظرِ لقا،بلبلِ ناشاد کے دن پھرے،گل فرطِ مسرت سے پھولے نہ سمائیں،کلیوں کی چٹک سے صلاةاللہ و سلامہ علیک کی آواز آئی ،سرو آزاد منتظر،نرگس کو پلک مارنا دشوار،سحابِ رحمت درود پڑھتا گھر آیا،بوندیں شوقِ دیدار میں درود پڑھتی اُتریں بجلیوں نے سورة نور وردِ زباں کی،سبحان اللہ سمک سے سماک تک ایک غلغلہ ء شادمانی و طنطنہءکامرانی بلند،ذرہ ذرہ قطرہ قطرہ اپنی قسمت پر شاداں ،زمین آسمان کے آگے سر جھکائے کہ آج تو جلوہ ءِ گاہ شاھی ہے۔ مداح کو جنت،جنت کو اُمت،اُمت کو شفاعت ،شفاعت کو وجاھت ،فقیروں کو ثروت،ذلیلوں کو عزّت،ضعیفوں کو قوّت ،حزینوں کو عشرت ،آنکھوں کو نور ،دل کو سرور اور ھم سب جیسے بے دست پا کو لطفِ حضور عطا ہوا۔

    ہاں ہاں کتنا بلند بخت ہے یہ ماہ، نور جس کی بارھویں صبح کو جانِ نور ، آنِ نور اور ایمانِ نور تشریف لائے۔محدثین ِ کرام جن میں علامہ قسطلانی ،ابنِ حجر مکی اور شیخ وعبد الحق جیسے لوگ شامل ہیں نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ حضورﷺ کے ماہِ ولادت میں مسلمان ہمیشہ محفلیں منعقد کرتے۔،دعوتیں کرتے۔اسکی راتوں کو عبادتوں سے سجاتے،صدقات دیتے۔خوشی مناتے اور میلاد پڑھنے کا اھتمام کرتے آئے ہیں۔اور اللہ کا ان پر خصوصی فضل و کرم اور برکتوں کا ظہور ہوتا آیا ہے۔میلاد کے خواص میں یہ بات تجربہ شدہ ہے کہ جس سال (میلادِ مصطفٰی ﷺ)منایا جاتا ہے۔اس کی برکت سے تمام دلی مرادیں جلد بر آ تی ہیں۔(زرقانی علی الموا ہب) ۔۔۔۔۔سلمان فارسی کہتے ہیں کہ جبرائیل ؑ نے نبی ﷺ کے پاس حاضر ہو کر کہا کہ آپ کا رب فرماتا ہے،میں نے ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل بنایاہے تو آپ کو اپنا حبیب بنایا اور کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کی جو میرے نزدیک آ پ سے زیادہ بزرگ ہو اور یقین جانئیے کہ میں نے دنیا والوں کو اسی لیے پیدا کیا کہ اُن کو آپ کی بزرگی اور مرتبت جو میرے نزدیک ہے معلوم کرواﺅں ۔اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا(انوارِ احمدی : ص ۴۱)۔۔۔۔۔اورجودل حضور ﷺ کی محبت سے محروم ہے تو امام احمد رضا خان نے اُن کے بارے کیا خوب فرمایا ہے۔

    کوئی جان بسکہ مہک رہی
    کس دل مےں اس سے کھٹک رہی
    نہےں اس کے جلوے مےں ےکبرہی
    کہےں پھول ہے، کہےں خار ہے

    سو اسی نقطہ ءِ نظر کے تحت مسلمان عشقِ مصطفٰےؑﷺ کے فروغ کے تحت تمام دنیا میں لگاتار محفلےںمنعقد کرواتے ہیں۔چنانچہ علامہ اسمعٰیل حقی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔(من تعظیمہ عمل المولد اذا لم یکنفیہ منکراً)۔۔۔۔۔۔ترجمہ: میلاد شریف منانا بھی حضور ﷺ کی تعظیم ہی تو ہے بشرطیکہ کوئی بری بات اس میں شامل نہ ہو۔(تفسیر روح البیان)۔۔۔۔۔غلامانِ رسول کو چاہیے کہ منکرین کے شور و غوغا سے بے نیاز ہو کر قرآن و سنّت اور اکابر کی تصرےحات کے مطابق ،سلف الصالحین کی روش پر چلتے ہوئے عشق و ایمان کی رسمیں جاری رکھیں ورنہ دشمن تو عظمت ِ حبیبﷺ کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہر کام بند کرنا چاہتے ہیں۔وہ توہر مستحب کام کے بھی مخالف ہیں لہذا اُن کی باتوں کا کیا اعتبار سو ہمیں دھوم دھام سے عیدِ میلادُالنّبی ﷺ منا نی چاہیے اور مستحب ہے کیا اس کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔۔۔۔


    جو کام اپنی ہیئت اور اصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع نہ ہونہ واجب کی طرح ضروری ہوبلکہ عام مسلمان اسے مستحسن امرسمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کے نہ کرنے والا گناہگار بھی نہیں ہوتالیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے۔جیسے مسافر خانوں اور مدارس کی تعمیر وغیرہ،ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا بھی مستحب عمل یا بدعتِ مستحبہ ہے۔جیسے نمازِ تراویح کی جماعت،تصوف و طرےقت کے باریک مسائل کا بیان،محافلِ میلاد یا محافلِ عرس وغیرہ۔جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر کرتے ہیں اور ان میں شرکت نہ کرنے والا گناہگار بھی نہیں ہوتا۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ۔۔۔( فما رآہ المو من حسناً فھو عنداللہ حسن،فما رآہ المومن قبیحاً فھو عنداللہ قبیح)۔۔۔ترجمہ: جس کو(بالعموم)مومن اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے،اور جس کو مومن برا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی برا ہے۔۔۔۔۔اور یہ واحد بہار ہے جس کہ کبھی کوئی خزاں نہیں چھو سکتی ۔اس کائناتِ رنگ و بو میں بہت سی بہاریں مہکیں اور خزاں کے دامِ قفس کا شکار ہو گئیں،بہت سے خورشید(سورج) اُبھرے اور فنا ہو گئے ،بہت سے بدرِتمام (چاند)اپنی ضیاءبکھیر کے گہنا گئے ،بہت سے چمن کھلے اور خزاں کا شکا ر ہو گئے لیکن ایک ایسی ابدی بہار بھی ہے جس کو کبھی زوال نہیں جو سب بہاروں کی جان ہے خزاں جس کے قریب نہیں آسکتی ،ایک ایسا سراجِ منیر کہ جس سے غروب کی ظلمتیں کبھی آنکھیں نہ چار کر سکیں،اور ہاں طلعت و زیبائی کا ایسا پےکر کہ کوئی دھندلکا سایہ اس کے جلووں کو گہنانہ سکا،ایسا رشکِ گلستان کہ جس کے تلووں کو چوم لینے کا شرف رکھنے والی پتیاں بھی مرجھانے سے محفوظ رہیں۔

    اور وہ جانِ بہاراں ،حاملِ قرآن،صاحبِ قاب قوسین ،مولائے کل،ختم الرسل،فخرِآدمیت و رہبر آدمیت،یتیمِ عبداللہ ،جگر گوشہ ءِ آمنہ ،دعائے خلیل،تمنائے کلیم،نویدِ مسیحا اور امام الاولین والاخرین حضرت محمدﷺہیں جو ہر مومن و مسلمان کی نظر کا نور،روح کا قرار اور دل کا سرور ہیں۔ آپﷺ سے وفاداری کے دو پہلو ہیں۔ایک ہے آپﷺ سے محبت اور دوسرا ہے آپﷺ کی اطاعت۔ اگر انسان اپنے والدین سے محبت و اطاعت کا دعوٰی تو کرے لیکن جب وہ کسی چیز کا حکم دیں یا کسی کام سے روکیں تو اُن کی حکم عدولی کرنا تو اُس کا یہ ظاہر کرنا کہ وہ اُن سے محبت و اطاعت کرتا ہے، بے معنی سا ہو جائے گا۔اسی طرح اگر وہ اُن کی فرماں برداری تو کرے لیکن محبت کا جذبہ نہ رکھے تو اُسکی اطاعت بے اثر ہو گی۔اطاعت اور محبت نہ صرف ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو با اثر بھی بناتے ہیں۔اسی طرح ایک دوسرے کے بنا اُدھورے اور بے اثر بھی ہیں۔عیدِ میلاد النبی ﷺ کے روز اورربیع الاول کے چند دنوں کے علاوہ ہماری اطاعت بے اثر ہو جاتی ہے، ہم پھر سے آپﷺ کے احکامات کے خلاف شب و روز مصروفِ عمل ہو جاتے ہیں۔یعنی وہی جھوٹ بولنا،کم تولنا،غیبتیں کرنا،تہمتیں اور بہتان باندھنا،جوری چکاری اور کبیرہ گناہوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔کیونکہ ہم آپ ﷺ سے سچی محبت کرتے ہی نہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اسی طرح کی محبت دکھا کر ہم جنت میں داخل ہو جائیں گے،تو یہ ہماری خام خیالی ہے ۔محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے محبت کی جائے اُسکی ہر با ت پر آمنّا و صدقنا کہہ کر عمل کیا جاتا ہے ۔ ان سب سوالوں کے جواب ہم سب پر سوچنا فرض ہے۔اگر آج میلاد النبی ﷺ پر ہماری خوشی اور عشقِ رسول ﷺ میں آپ ﷺ کی اطاعت بھی شامل ہو تو دنیا میں کسی ملعون کو آپﷺ کی گستاخی کرنے کی جرات نہ ہو۔اور اس کے ساتھ ہی میلاد النبی ﷺ کو اس کی اصل روح کے ساتھ منانے کے بھی حقدار بن سکیں۔وگرنہ ہم رسول اللہ ﷺکو بروزِ قیامت کیا منہ دکھائیں گے۔اسی لیے ہمیں حضور ﷺ کی دی ہوئی تعلیمات پر حرف بحرف یقین کرنے کے ساتھ عمل بھی کرنا ہوگا۔کیونکہ اُمتِ مسلمہ کے زوال کا حل صرف اور صرف تعلیماتِ نبویﷺاور اطاعت نبویﷺ میں مضمرہے۔


    تحریر: محمد عرفان صدیقی
    روزنامہ لاہورپوسٹ: 16 فروری 2011
     

اس صفحے کو مشتہر کریں