1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وہ دن کہ جسکا وعدہ ہے۔ ہم دیکھیں گے۔ ایازامیر

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏14 اگست 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    وہ دن کہ جس کاوعدہ ہے۔۔۔۔۔۔ہم دیکھیں گے
    ایازامیر

    بے کار اور لاحاصل بحث و مباحث اورظن وتخمیں کا سلسلہ جاری ہے کہ آئینی طور پر کیا ہونا چاہیے یا کس عمل سے گریز کرنا چاہیے لیکن برق رفتاری سے ہونے والی پیش رفت ، جس کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کو بھی قدم سے قدم ملاکر چلنے میں دقت پیش آرہی ہے، تیزی سے موڑ کاٹتے ہوئے حالات اور ہر شام سورج کی ڈھلتی دھوپ ایک ہی نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہیں… اختتام قریب ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت کے ہاتھ سے اتھارٹی پھسل رہی ہے اور گزرنے والا ہر لمحہ ان کے لیے مزید خرابی لاتا ہے۔ آج کے بعد پنجاب کاطربیہ ادب وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات، پرویز رشید اور پنجاب کے وزیرِ قانون رانا مشہود کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوگا۔ ان دنوں حضرات کی پرفارمنس کسی تھیٹر پر عوام کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر سکتی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب حالات سنگین ہیں۔
    حکومت کی اتھارٹی کازوال اور اس سے پیدا ہونے والا خلأ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔
    شریف برادران کا آخری دفاعی مورچہ پنجاب پولیس تھی لیکن اس وقت اس دفاعی لائن کا جوحال ہے، وہ سب پر عیاں ہے۔ پانچ دریاؤں کی اس سرزمین پر اس سے زیادہ زبوں حال فورس کبھی دکھائی نہیں دی تھی۔ اس کا حال اس وقت یہ ہے جو پنجابی کے لافانی شاعر نے بیان کیا تھا…’’ککھ جنہاں تھیں بھارے ہو‘‘۔ پنجاب پولیس کی اس حالت کی ذمہ داری کسی حد تک خادمِ اعلیٰ پر عائد ہوتی ہے … ماڈل ٹاؤن میں چودہ افراد کا قتل جبکہ درجنوں افراد کا فائرنگ سے زخمی ہوجانا‘ کسی بھی پولیس فورس پر یہ بوجھ ناقابلِ برداشت ہوتا۔ اس کے علاوہ پولیس کو پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی سخت مزاحمت اور دلیری نے بھی خائف کررکھا ہے۔

    پنجاب پولیس اس صورتِ حال کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھی اور نہ ہی اسے اس طرح کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب اگر پنجاب حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ پولیس فورس چودہ اگست کو علامہ قادری اور عمران خان کے مارچ کو روک لے گی تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔ میں نے ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں پر لگائے گئے کنٹینرز کوبھی دیکھا ہے اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو بھی۔ پنجاب حکومت نے طاہر القادری اور اُن کے پیروکاروں کو محاصرے میں نہیں لیا، اُنھوں نے دراصل اپنے گرد حصار قائم کیا ہے۔ اس طرح دفاعی قدموں پر جاکر انقلابی مارچ نہیں روکے جاسکتے۔ دراصل ، ا س وقت حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، پولیس فورس کچھ نہیں کرسکتی۔ اگر پولیس وحشیانہ تشدد کرتی ہے تو کیا خادمِ اعلیٰ پنجاب میں پھوٹنے والے ہنگاموں کی تاب لاسکیں گے؟

    اب مسئلہ یہ ہے کہ ابھی بھی بہت سے لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ منہاج القرآن کی اصل صورتِحال کیا ہے۔ علامہ قادری کوئی پیرنہیں ہیں اور نہ ہی ان کے کارکن روایتی مرید ہیں۔ وہ ایک نظریاتی رہنما ہیں اور انکے پیروکار سخت جان سیاسی کارکن ہیں اور ان میں سے زیادہ تر تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کا تعلق معاشرے کے درمیانے طبقے سے ہے۔ اس پسے ہوئے مظلوم طبقے کے لیے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے تصور میں بہت کشش ہے کیونکہ وہ اسے اپنی مشکلات کا حل سمجھتے ہیں ۔

    یومِ شہدأ پر پولیس نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ تک آنے والے تمام راستے بند کردیے تھے ، اس کے باوجود مرد ، عورتیں، نوجوان لڑکے ، لڑکیاںاور بچے مختلف راستے اختیار کرتے، پولیس کو چکما دیتے، بھوکے پیاسے پیدل چلتے ہوئے وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے عزم کے سامنے پاکستان کے پراڈو اور مرسڈیز پر سفر کرنے والے استحقاق یافتہ سیاسی طبقے کی کیا حیثیت ہے؟جب علامہ قادری اسلام اورقرآن کے حوالے دیتے ہوئے ایک منصفانہ معاشرے کی بات کرتے ہیں تو یہ لوگ دل کی گہرائیوں سے اس کا وجود سچ سمجھتے ہیں۔ وہ اس کے حصول کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ کرنے والے نہیں۔

    ممی ڈیڈی میڈیا حقوقِ نسواں اور مساوات کی بات کرتا رہتا ہے، لیکن اگر اس مساوات اور خواتین کی جدوجہد کی عملی شکل دیکھنی ہو تو وہ پاکستان عوامی تحریک کے پنڈال میں نظر آتی ہے۔یہاں زیادہ ترلڑکیوں کے سر پر دوپٹہ ہے جبکہ کچھ نے نقاب بھی پہنا ہوا ہے لیکن ان کی آنکھوں سے ہویدا عزم کی چمک دیکھنے کے لیے بہت بڑا دیدہ ور ہونے کی ضرورت نہیں… صرف سیاسی تعصب کی عینک اتارنا ہوگی۔ پاکستان کی کوئی سیاسی طاقت، کوئی تنظیم ، کوئی جماعت’’دخترانِ ملت‘‘ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔

    میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے بذات خود اُنہیں قریب سے دیکھا ہے کہ جب وہ مصطفوی انقلاب کے لیے مکا بلند کرکے نعرے لگاتی ہیں تو ان کے ہمالیہ آسا عزم کے سامنے ان کے ارد گرد رکھے ہوئے کنٹینرز خس وخشاک دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا ہے…’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔ یقینا پاکستان کے سامنے ایک مستقبل ہے، ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں خدشات دل سے دور کرنے ہوں تو کچھ لمحے پاکستان عوامی تحریک کے پنڈال میں گزار آئیں۔ پاکستان کا مستقل پراڈو پر سفر کرنے والے طبقے نہیں، اس پسے ہوئے مظلوم طبقے کے ہاتھ میں ہے۔

    اس دریا کو کنٹینر نامی تنکوں سے کیا ڈر ہے؟اس نے نہنگوں کے نشیمن تہہ وبالا کرنے ہیں …اور وہ دن اب زیادہ دور نہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کاایک اور قابلِ تحسین پہلو یہ ہے کہ اس کے اتحادی، جس میں سنی اتحاد کونسل اور مجلسِ وحدت المسلمین شامل ہیں، معتدل مزاج اور لبرل اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ بلھے شاہ،غلام فرید، شاہ حسین اور حضرت علی ہجویریؒ کا اسلام ہے اور یہ طالبان اور تکفیری عقیدے کی نفی کرتا ہے ۔ اس سے پہلے ، اسے ملک میں اکثریت ہونے کے باوجود سیاسی قوت حاصل نہ تھی ، لیکن علامہ قادری نے اسے قوت بھی عطا کی ہے اورزبان بھی۔ طالبان کے خلاف جنگ صرف فوجی کاروائی تک محدود نہیں ہوگی کیونکہ طالبان صرف ایک فوجی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک نظریے کابھی نام ہے۔

    ان کے خلاف فوج توپوں اور بندوقوں سے کاروائی کرسکتی ہے لیکن انکے نظریے کو مٹانے کے لئے کسی نظریے کی ضرورت ہے۔ اگر عسکری ادارے اس بات کو سمجھ رہے ہیں تو یقین کرلیں کہ پاکستان کو عراق یا شام بننے سے روکنے کا واحد راستہ فوجی طاقت اور وہ لبرل اسلام ہے جس کا پرچار علامہ قادری کرتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے پاکستان کی سرزمین سے کوئی تکفیری فتنہ سر اٹھا ہی نہیں سکتا۔ شریف برادران کاپاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا کردار یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے بنائی جانے والی پالیسوں کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کردی ہے۔ دیگر قوموںکی زندگی میں یہ لمحات کئی صدیوں کے بعد آتے ہیںلیکن خوشا، ہمارے ہاں چھے دہائیوں کے بعد ہی تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ اس پیش رفت کے لیے ہم شریف برادران کے مشکور ہیں۔ اس تمام معاملے میں فیصلہ کن کردار انسانی عزم نے ادا کرنا ہے۔

    ذاتی طور پر میراخیال تھا کہ جب عمران چار حلقوں کو کھولنے کی بات کررہا ہے تو محض سایوں کے تعاقب میں ہے۔بہت مشکل سفر تھا لیکن کپتان پرعزم رہا ، گو بعض مراحل پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بددل ہے، تاہم اب اس نے اپنے عزم سے اس کیس کو ایک بہت بڑے اور فیصلہ کن ایشو میں بدل دیا ۔ ایک عام آدمی اتنی استقامت نہیںدکھا سکتا تھا۔ ان کے عزم اور ثابت قدمی کو سراہا جانا چاہیے۔ علامہ اور عمران کی متحد قوت چودہ اگست کو باہر نکلے گی تو حکومت انہیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کرپائے گی۔ کوئی حکومت بھی اپنی اتھارٹی سے دستبردار ہوکر اپنا بچاؤ نہیں کرسکتی۔ لاہور اور پنجاب کو ہمیشہ کے لیے کنٹینرز لگا کر بند نہیں کیا جاسکتا۔ اگلے تین دنوں میں حکومت کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ اس وقت بھی یہ صرف ٹی وی بیانات کی حد تک ہی اپنی موجودگی رکھتی ہے۔ملک میں پیدا ہونے والا خلأضرور پرہوگا۔پاکستان کی تاریخ کے فیصلہ کن لمحات قریب آن پہنچے ہیں۔

    بشکریہ روزنامہ جنگ
     
    سید انور محمود اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. سید انور محمود
    آف لائن

    سید انور محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏2 اگست 2013
    پیغامات:
    470
    موصول پسندیدگیاں:
    525
    ملک کا جھنڈا:
    بھٹو صاحب کو پھانسی اور علامہ طاہر القادری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: سید انور محمود
    میں نے بھٹو صاحب کو اور پیپلز پارٹی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ضیاالحقء نےبھٹو صاحب کا عدالتی قتل کروایا، اُس سے پہلے صرف راولپنڈی میں چند کارکنوں نے اپنے آپ کو زندہ جلالیا ، جبکہ بھٹو صاحب کے باقی جیالے اور پارٹی لیڈر اپنے اپنے مفادات میں لگے ہوئے تھے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بیگم نصرت بھٹو نے روتے ہوئے کہا تھاکہ اب میرا دوپٹہ بیچ کھاو، کیونکہ رات دن بھٹو صاحب کو بچانے کے لیےاُن سے پیسے لوٹے جارہے تھے۔ آج حکومت کے پاس علامہ طاہر القادری کو روکنے کے سوا کوئی آپشن نہیں، حکومت جانتی ہے اس کے لیے اگر کوئی طاقت ہے اور" اگر کوئی پارٹی مسئلہ بن سکتی ہےاسکے رہنما علامہ طاہر القادری ہیں"۔ حکومت جانتی ہے علامہ صاحب کے کارکن سردی، گرمی اور بارش میں دس بیس دن تک بیٹھ سکتے ہیں جب کہ باقی جماعتوں کے کارکن موبائل کی بیٹریاں ختم ہونے کے بعد دائیں بائیں ہوجائیں گے۔ اگر مساوات اور خواتین کی جدوجہد کی عملی شکل دیکھنی ہو تو وہ پاکستان عوامی تحریک کے پنڈال میں نظر آتی ہے۔یہاں زیادہ ترلڑکیوں کے سر پر ڈوپٹہ ہے جبکہ کچھ نے نقاب بھی پہنا ہوا ہے لیکن ان کی آنکھوں سے ہویدا عزم کی چمک دیکھنے کے لئے بہت بڑا دیدہ ور ہونے کی ضرورت نہیں... صرف سیاسی تعصب کی عینک اتارنا ہوگی۔ پاکستان کی کوئی سیاسی طاقت، کوئی تنظیم ، کوئی جماعت ’’دختران ملت‘‘ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ انہیں دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا ہے...’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔ ایک بچی جس کی کل شادی مقرر تھی وہ اپنی شادی کو منسوخ کرکے علامہ طاہرالقادری کے مارچ میں شامل ہونے کےلیےماڈل ٹاون پہنچ گی ہے۔میں نظریاتی طور پر لاکھ طاہرالقادری کا مخالف ہی کیوں نہ ہوں لیکن آج میں طاہر القادری کے ورکروں کودیکھ کر یہ کہونگا کہ کاش بھٹو صاحب کے پاس ایسے ورکر ہوتے تو ضیاالحقء اور ضمیر فروش عدلیہ بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
     
    پاکستانی55 اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں