1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وسیع البنیاد تعلیم کا اصل مقصد

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏6 مارچ 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    وسیع البنیاد تعلیم کا اصل مقصد (1)
    February 24, 2017

    ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ بارہ سال کی عمر تک مسلمان بچے ہمارے حوالے کر دو، ہم اس کو ایسی تعلیم دیں گے جس سے یہ معاشرے کا کارآمد فرد بن کر ابھرے گا۔ ہم اسے اچھا مسلمان نہیں اچھا انسان بنائیں گے۔ دنیا کے ہر بچے کو وسیع النیاد ”Broad Based” تعلیم دینا چاہیے۔ مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی جب چند دن پہلے ایک صاحب نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اسی ’’وسیع البنیاد‘‘ تعلیم کا ذکر کیا۔


    سوال یہ تھا کہ موجودہ دہشتگردی جو مسلمانوں میں سرایت کر گئی ہے اس کا حل کیا ہے۔ انھوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے پہلے چار وجوہات بیان کیں اور پھر تین حل بتائے۔ یہ سات کے سات فقرے وہ اس یقین اور اعتماد کے ساتھ بول رہے تھے کہ جیسے یہی آخری سچائی ہے اور اس کی وضاحت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وجوہات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ مسلمانوں میں دہشت گردی دراصل دینی مدارس میں دی جانے والے تعلیم کے چار نکات ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ یہ چاروں نکات ہر مدرسہ پڑھاتا ہے اور ساتھ یہ بھی ’’انکشاف‘‘ کیا کہ وہ سامنے نہ پڑھائے لیکن چھپا کر ضرور پڑھاتا ہے۔


    1. پہلی بات یہ کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کفر، شرک یا ارتداد ہے اس کی سزا موت ہے۔
    2. دوسری بات یہ پڑھائی جاتی ہے کہ دنیا میں غیر مسلم صرف محکوم ہونے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ کسی کو دنیا پر حکومت کرنے کا حق نہیں ہے۔ ہر غیر مسلم حکومت ناجائز حکومت ہے، جب ہمارے پاس طاقت ہو گی ہم اس کو الٹ دیں گے۔
    3. تیسری بات یہ کہ دنیا میں مسلمانوں کی ایک ہی حکومت ہونی چاہیے جس کو خلافت کہتے ہیں۔ یہ الگ الگ حکومتیں، اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
    4. چوتھی بات یہ کہ جدید قومی ریاستیں دراصل ایک کفر ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
    ان کے نزدیک ان کی بنائی ہوئی یہ چار چیزیں ہماری مذہبی فکر کی بنیاد ہیں جو مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اس کے تین حل بتائے،

    1. سب سے پہلی بات یہ کہ اس مذہبی فکر کے مقابلے میں پوری مسلم امہ کو ایک متبادل فکر یا بیانیہ جسے آج کل Narrative کہا جاتا ہے وہ پیش کیا جانا چاہیے اور مسلم امہ کی اس پر ہی تربیت کرنا چاہیے۔
    2. دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ ’’وسیع البنیاد‘‘ یعنی Broad Based تعلیم ایک بچے کا بنیادی حق ہے۔ آپ بارہ سال تک تمام بچوں کو یہ تعلیم دیں پھر اس کے بعد بے شک مدرسے کے حوالے کر دیں اور ڈاکٹر بنائیں یا عالم دین۔
    3. تیسری بات یہ کہ مسجد کا منبر علماء کا نہیں ریاست یعنی حکمران کا حق ہے۔ اسے ریاست کو واپس لے کر حکمران کے حوالے کرنا چاہیے۔
    میں نے پوری دیانت سے ان کے ’’ارشادات عالیہ‘‘ کو درج کر دیا ہے۔ پوری مسلم امہ میں دہشتگردی کی اس قدر آسان، سہل اور فوری قسم کی تشریح اور مدارس کی تعلیم کے حوالے سے ایشا نقطہ نظر شاید کسی مغربی تجزیہ کار یا مفکر نے بھی نہیں پیش کیا ہو گا۔ مسلمانوں میں خودکش بمباری کا آغاز تاریخی طور پر فلسطین میں ہوا تھا۔

    اگرچہ کہ دنیا بھر میں اس کے بانی وہ جاپانی تھے جو ان کے نزدیک ’’مقدس‘‘ قومی ریاست کے لیے اپنے جسموں پر بم باندھ کر دشمن کے بحری جہازوں کی چمنیوں میں کود جاتے تھے۔ ان لوگوں کو خاص طور پر وطن پر نچھاور ہونے کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور ان کا لباس ایک ہزار کنواریاں مل کر تیار کرتی تھیں۔ اس کے بعد یہ خودکش حملہ آور سری لنکا کے تامل جنگجوؤں میں نظر آتے ہیں۔

    راجیو گاندھی کو جس خاتون خودکش بمبار نے ہلاک کیا تھا وہ کسی مدرسے کی فارغ التحصیل نہیں تھی اور نہ ہی مسلمان۔ فلسطین میں خودکش حملہ آوروں کا آغاز اگر کوئی شخص ان چار نکات سے منسلک کرتا ہے تو اسے سب سے پہلے گزشتہ ساٹھ سالہ اسرائیلی مظالم کی تاریخ کو کھرچنا ہو گا۔ صابرہ اور شطلیہ کے کیمپوں میں ہونے والی اس بمباری اور ان میں مرنے والے ہزاروں بچوں اورعورتوں کے لاشوں کو فلسطینیوں کے حافظے سے محو کرنا ہو گا۔

    فلسطین کی آزادی کی جدوجہد تو ایک قومی ریاست کی آزادی کی جدوجہد ہے جو دنیا بھر میں بہت ’’مقدس‘‘ ہے۔ مسلمان اگر اس کی جدوجہد بھی کریں تو دنیا انھیں اس زمانے سے دہشتگرد کہتی چلی آئی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں ہر جگہ خاموشی تھی۔ کئی دہائیوں کے بعد مسلم امہ میں دہشتگردی کے ’’جراثیم‘‘ دسمبر 1979ء کے بعد افغانستان میں نظر آتے ہیں جب روسی افواج اپنے پڑوسی ملک افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ بیچارے افغانوں کی چودہ سالہ جدوجہد بھی ان کے نزدیک ’’مقدس قومی ریاست‘‘ کی آزادی کی جدوجہد تھی۔

    افغان پوری دنیا میں خلافت کا پرچم لے کر نہیں اٹھے تھے بلکہ اپنا ملک افغانستان روسی تسلط سے آزاد کروانے کے لیے لڑ رہے تھے۔ کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ امریکا ویت نام میں داخل ہو، اس کے پڑوس میں موجود چین اس کی مدد کرے۔ ویت نامی کئی سال خون کے نذرانے دیں۔ ان کی گوریلا جنگ کی تکنیک پر کتابیں لکھی جائیں۔ وہ آزادی اور حریت کے ہیرو ٹھہریں۔ لیکن افغان چونکہ مسلمان ہیں اس لیے ان کی ساری جدوجہد دہشتگردی اور فساد۔ لیکن یہ جنگ بھی اس وقت تک ’’مقدس اور محترم‘‘ رہی جب تک روس کے خلاف لڑی جا رہی تھی۔
    جیسے ہی روس کی جگہ امریکی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، آزادی اور حریت کی یہ جنگ دہشتگردی بن گئی۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے دوران کتنے خودکش حملے ہوتے تھے، کتنے شہر برباد اور لوگ مرتے تھے۔ امریکا کے عراق میں داخل ہونے سے پہلے کیا وہاں مدارس موجود نہ تھے۔ عراق میں لڑنے والے بھی اسی قومی ریاست کی آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ اس میں ایک گروہ کو ’’امریکی لاڈلا‘‘ بنا کر اقتدار دیا گیا اور دوسرے گروہ پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے۔ نتیجہ وہ دہشتگردی ہے جس سے پورا مشرق وسطیٰ جل رہا ہے۔

    مصر، تیونس، مراکش، یمن اور شام میں جو آمروں، ڈکٹیٹروں اور مطلق العنان سیکولر حکمرانوں کے خلاف تحریکیں چلیں کیا ان سب کو مدرسوں میں دی جانے والی تعلیم نے سڑکوں پر لاکھڑا کیا۔ کیا مصر کے جمال عبدالناصر کو لاکھوں شہریوں کو قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا گر مدارس نے سکھایا تھا اور پھر اس کے دور سے لے کر حسنی مبارک کے دور تک جس طرح اخوان المسلمون کا خون جس بے دردی سے بہایا گیا اس نے مصر میں تحریک کو جنم دیا، کیا تحریر چوک کے مظاہرے، مرسی کی ’’مقدس جمہوری‘‘ جیت اور اس کے بعد فوج کا قبضہ اور ظلم کی ایک نئی تاریخ کا دہشتگردی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

    ان صاحب کے فلسفہ کو مان لیا جائے تو مصر میں لوگ کس قدر امن کے ساتھ رہ رہے تھے۔ عراق میں ان کی زندگیاں خوشگوار تھیں اور امریکی سپاہی ان میں من و سلویٰ تقسیم کرتے تھے۔ افغانستان میں امریکی فوج شاندار تحائف لے کر آئی تھی۔ شام میں حافظ الاسد نے جو لاکھوں لوگ مارے، مسلسل تین دہائیوں میں قتل کیے تھے وہ تو ناکارہ اور دھرتی کا بوجھ تھے۔

    بشارالاسد تو لوگوں کو اس لیے مار رہا تھا کہ یہ سب کے سب ڈاکو اور چور تھے۔ ان صاحب کے اصول کے مطابق قومی ریاستیں بننے کے بعد تمام سیکولر مسلمان ریاستیں چین کی بنسی بجا رہی تھیں۔ کہیں ظلم، آمریت، ریاستی قتل وغیرہ کچھ نہ تھا بس چٹائی پر بیٹھے ہوئے مدرسے کے مولوی نے کہا اٹھو اور دہشتگرد بن جاؤ اور لوگ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور مسلم امہ میں قتل و غارت شروع ہو گئی۔ یہ مولوی افغانستان میں روس کے آنے سے پہلے کہاں سویا ہوا تھا۔

    صدام حسین نے عراق میں اسے کیا نشہ پلا دیا تھا۔ روس کے چیچنیا اور یوگوسلاویہ کے بوسنیا ہرزوگوینا میں جو لاکھوں بے گناہ شہری مارے گئے وہ سب کے سب اس لیے مار دیے گئے کہ انھیں مدرسے کا مولوی جہاد کے لیے تیار کر رہا تھا۔ کشمیر میں ایک لاکھ شہداء بھی دراصل مدرسوں نے تیار کر کے اس امت کو خون کا تحفہ دیا تھا۔ دہشتگردی کی وجوہات کی اس قدر آسان تشریح ممکن نہ تھی جیسی کر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ انھیں مزید سادگی عطا فرمائے۔ غالبؔ نے خوب کہا تھا۔


    سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
    حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا


    تحریر: اوریا مقبول جان
    (جاری ہے)
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    پير 27 فروری 2017

    دہشتگردی کی اس قدر آسان اور سادہ تشریح صرف یہ موصوف نہیں کرتے بلکہ جدید سیکولر معاشرے کا میڈیا جو کارپوریٹ سودی معیشت کے بل بوتے پر استوار کیا گیا ہے اس کا ہر لبرل سیکولر اور جدید مغربی تہذیب کا دلدادہ دانشور ضرور کرتا ہے۔ لیکن موصوف کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک عالم دین کے لبادے میں شاندار پیرائے میں ان تمام تصورات کا دفاع کرتے ہیں جو جدید مغربی تہذیب کی علامت ہیں اور مسلمانوں میں تمام خرابیوں، برائیوں، بیماریوں، قتل و غارت اور دہشتگردی کو صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام اور پھر پوری دنیا میں اس کا واحد ذمے دار مدرسوں میں دی جانے والی تعلیم کو گردانتے ہیں۔

    گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد کے اخبارات، ٹیلی ویژن پروگرام، کتب اٹھا لیجئے۔ جب بھی کہیں کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوا، ان تمام ’’عظیم‘‘ دانشوروں نے مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو ہدف تنقید بنایا۔ ایسا کرنے سے ان کا ایک شاندار مقصد حل ہوتا ہے۔

    موصوف کے سامعین کے نزدیک محلے کے مدرسے کے مولوی اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی محترم اور مقتدر شخصیات میں کوئی فرق باقی نہیں ہوتا۔ اسی لیے جب دنیا کے اخبارات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی توہین آمیز کارٹون چھپتا ہے تو ان جدید اخلاقیات کے پروردہ دانشوروں کے علوم سے فیض یافتہ نوجوانوں کو کسی قسم کی حیرت نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ الٹا یونیورسٹیوں میں یہ بحث کر رہے ہوتے ہیں کہ ’’یار مغرب کمال کا معاشرہ ہے، وہ حضرت عیسیٰ کے بھی کارٹون بناتے اور فلموں میں ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔‘‘


    یہ سب ان کے اذہان میں اس لیے آتا ہے کہ کوئی ان کو یہ نہیں بتاتا کہ ’’گیارہ ستمبر‘‘ کے واقعہ سے پہلے اس امت مسلمہ کی چودہ صدیاں گزری ہیں اور ان چودہ صدیوں میں آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ نہیں بلکہ یہی مدارس تھے جن سے نکلنے والے کیمیا دانوں، ماہرین ارضیات و فلکیات، ماہرین طب بلکہ دنیا کے ہر علم کے ماہرین نے پوری دنیا کو اپنے علم سے منور کیا تھا بلکہ آج کے اکثر جدید علوم کے بانی ان مدرسوں کے طالب علم ہی تھے۔ وہ یہی تفسیر، یہی حدیث اور یہی فقہ بھی ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ انھیں تو کسی نے متعصب نہ بنایا۔

    ان ہزاروں شیعہ اور سنی مدارس سے لاکھوں لوگ ایک ہزار سال تک پڑھ کر نکلتے رہے، کتنے تھے جو ویٹیکن سٹی میں پوپ اور اس کے حواریوں کو قتل کرنے جانکلے۔ بھارت میں کاشی وشواناتھ کے مقدس مندر میں بیٹھے پروہت اور برہمن پر حملہ آور ہوئے، انھیں 15 جولائی 1099ء میں یروشلم کے شہر میں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا، دس ہزار مسلمان مسجد اقصیٰ کی چھت پر پناہ لیے ہوئے تھے ‘انھیں جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا۔


    یروشلم کی گلیاں اس قدر خون سے تر ہوئیں کہ گھوڑوں کی سُمیں بھیک گئیں، اس کے بعد جب صلاح الدین ایوبی نے واپس یروشلم حاصل کیا تو ایک بھی انتقامی قتل اس کے کھاتے میں تاریخ میں نظر نہیں آتا ہے‘ کوئی نہیں بتاتا کہ وہ یہ اخلاقیات آکسفورڈ اور ہارورڈ سے نہیں بلکہ تکریت اور دمشق کے مدارس سے سیکھ کر آیا تھا۔

    یہ مدارس مدتوں سے شیعہ، سنی، حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مسالک میں تقسیم تھے اور گزشتہ چار سو سالوں سے تو اپنے مسلک کی فقہ کے علاوہ اور کچھ اگر پڑھاتے بھی تھے تو تنقیدی نقطۂ نظر سے۔ ان کے ہاں تو کوئی ایسی دہشتگرد تنظیم نے جنم نہ لیا۔ البتہ ان مدارس نے ان حریت کے پیکر، آزادی کے علمبردار مجاہدین کو ضرور جنم دیا جو انگریزوں، فرانسیسیوں، ولندیزیوں اور پرتگیزوں کے خلاف لڑے۔ لیکن میرے یہ جدید مفکرین اور دانشور آزاد ہند فوج کے سبھاش چندر بوس کو ہیرو گردانتے ہیں۔


    انگریزوں کو بم پھاڑ کر ہلاک کرنے والے بھگت سنگھ کا یوم مناتے ہیں لیکن آج ان کی تحریریں اٹھا لیں یہ سید احمد شہید، شاہ اسمعیل شہید، مولانا کفایت اللہ کافی، مولانا محمود الحسن اور مولانا جعفر تھانیری ایسے دیگر ہزاروں مدارس کے علماء کو فساد فی الارض لکھتے ہیں جو انگریز کے خلاف لڑے اور جام شہادت نوش کیا اور کالا پانی کی سزائیں بھگتیں۔

    مسلمانوں میں دہشتگردی کی اتنی آسان تعبیر شاید ہی دنیا میں کسی نے کی ہو۔ ایک صاحب اور ہیں کہ میں جن کی تحریر کا بہت پرستار ہوں کہ اپنے مؤقف کو خوبصورت دلیل سے پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے بھی گزشتہ روز مزارات پر حملے کا سارا ملبہ مدارس پر گرا دیا۔ تاریخ ڈھونڈ کر لائے کہ کیسے 2005ء میں جھل مگسی میں پیر رکھیل کے مزار پر پہلا حملہ ہوا۔ کتنی سادگی سے مزارات پر حملوں کی ٹائم لائن نکال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مدارس کی تعلیم اس کی وجہ تھی۔

    2005ء سے پہلے کے گزشتہ چار سالوں کو تاریخ کے صفحات سے ایسے کھرچ دیا جاتا ہے جیسے وہ تھے ہی نہیں۔ اس مزار سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ایئرپورٹ ہے جسے جیکب آباد ایئرپورٹ کہتے ہیں۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد جب سیکولر لبرل ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے فیصلہ کیا کہ ہم نے امریکا کا ساتھ دینا ہے تو اسی ایئرپورٹ سے 57 ہزار دفعہ امریکی جہاز اڑے اور انھوں نے اپنے پڑوس میں افغان مسلمانوں پر بم برسائے۔ بلوچستان کی سرحد کے آر پار ایک طرح کے قبائل بستے ہیں، ان سب کو علم تھا کہ یہ کون کررہا ہے۔ کہاں سے ہورہے ہیں اور کیوں ہورہے ہیں۔ پھر بھی کسی مزار پر حملہ نہ ہوا۔ چار سال خاموشی سے گزرے۔

    میں ذرا یاداشت کو تازہ کردوں، رینڈ کارپوریشن کی سول ڈیموکریٹک اسلام رپورٹ آئی‘ اور امریکا کو یہ مفید مشورہ دیا گیا تھا کہ صوفی اسلام کو پوری دنیا میں اپنا ہمنوا اور ساتھی بناؤ۔ اسی صوفی اسلام کی بنیاد پر مشرف نے ایک صوفی کونسل بنائی تھی جس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین تھے۔ اس کے بعد لاہور میں امریکی قونصلیٹ جنرل برائن ہنٹ Brian Hunt نے پاکستان کے تمام مزارات کی تزئین و آرائش کے لیے ڈالروں کے منہ کھول دیے۔


    جہانگیر کے مقبرے میں تمام گدی نشینوں اور مزارات کے وارثوں اور والیوں کو بلایا گیا۔ یہ ناچیز ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ کے طور پر وہاں بدقسمتی سے موجود تھا۔ وہاں مذہبی نعروں کے ساتھ برائن ہنٹ کے بھی نعرے بلند ہوئے۔ مشرف کے محکمۂ اوقاف نے خود کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امن کا نقیب ثابت کرنے میں سارا سرکاری اثرو رسوخ استعمال کیا اور میڈیا پر موجود سیکولر لبرلز نے اس کا ساتھ دیا، یہ وہ زمانہ تھا جب انتظامی سطح پر یہ پلاننگ ہوتی تھی کہ ساری دہشتگردی چونکہ دیوبندیوں کی جانب سے ہو رہی ہے اس لیے بریلویوں کو ان کے خلاف منظم کیا جائے۔

    میں نے اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں بار بار ہاتھ باندھ کر عرض کیا ایسا کر کے تم آگ سے کھیل رہے ہو۔ آپ دہشتگرد کو دہشتگرد رہنے دو، کوئی مسلک مت دو۔ میں ان عظیم دانشوروں اور کالم نگاروں کے نام بھی جانتا ہوں جو یہ نظریہ سرکاری سطح پر آ کر پیش کرتے تھے کہ ان بریلویوں کو ان کے پیچھے لگاؤ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں یہ منطق سنتا اور کانپ اٹھتا۔ ادھر برائن ہنٹ اور امریکی سفیر ریان سی کروکر پورے ملک کے دورے کر رہے تھے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب امریکی افغانستان اور عراق میں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے تھے۔ لیکن کون سنتا ہے۔

    امریکی پالیسی، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں انھوں نے اس مسلکی آگ کو ہوا دی، لیکن اللہ بھی تو تدبیروں کو الٹنے والا ہے۔ جن لوگوں کے تعصب کا یہ عالم ہو کہ انھیں ولیم ڈار لپل آخری مغل ”The Last Moughal” لکھ کر بتائے کہ 1857ء کی جنگ آزادی دراصل جہاد تھا جس کا پرچم دلی کی جامع مسجد سے بلند ہوا تھا اور اس میں صرف مدارس اور مساجد کے مولویوں نے قربانیاں دی تھیں اور انگریز نے فتح کے بعد پھانسیاں بھی انھی مدارس اور مساجد کے مولویوں کو دی تھیں۔ لیکن ان کے تعصب کا یہ عالم ہے کہ پھوٹے منہ سے بھی اس آخری جنگ میں مولوی کا نام لے جائیں۔


    تاریخ میں ذکر کریں گے اور نہ گفتگو میں۔ لیکن اگر کہیں کوئی مسلمانوں کا منفی پہلو مل جائے تو فقرہ ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ ہیں مسلمان، یہ ہے ان کا اسلام۔ ان سب کو مذہبی دلیل فراہم کرنے والے جدیدیت کے پرستار عالم دین نے پوری ملت اسلامیہ کے مدارس کی تعلیم کو دہشتگردی کی وجہ قرار دیتے ہوئے ایک منٹ کے لیے بھی دنیا میں ہونے والے بڑے بڑے دہشتگردی کے واقعات پر نگاہ تک نہ ڈالی۔ سب سے بڑی دہشتگردی گیارہ ستمبر کو ہوئی جن میں چودہ کے چودہ خودکش افراد ان یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ تھے جہاں سیکولر تعلیم دی جاتی ہے۔

    مدارس کو دہشتگردی کا واحد ذمے دار قرار دینے والے یہ موصوف یورپ کے ان چوبیس ممالک سے سیکولر نظام تعلیم کے پروردہ اور اعلیٰ یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے ان 15 ہزار جنگجوؤں پر کس مدرسے کا اثر ثابت کریں گے جو آج شام اور عراق میں داعش کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔


    تحریر: اوریا مقبول جان

    (جاری ہے)
     
  3. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    وسیع البنیاد تعلیم کا اصل مقصد (3)
    جمعرات 2 مارچ 2017

    جس طرح یہ بات پورے تیقن اور بغیر کسی دلیل کے کی جاتی ہے کہ دنیا بھر میں دہشتگردی کا صرف ایک ہی سبب ہے اور وہ مذہبی فکر ہے جو مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ جدید علوم سے مرعوب عالم دین اس کا اس قدر آسان اور ’’مجرب‘‘ حل بتاتے ہیں جیسے یہ فوری طور پر نافذ العمل کر دیا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ ان کے نزدیک پوری امت مسلمہ کو ایک نئے ’’بیانیے‘‘ پر متفق کرنا ضروری ہے اور یہ ’’بیانیہ‘‘ ان کا اپنا ترتیب دیا ہوا ہے جسے وہ اسلام کا اصل بیانیہ کہتے ہیں۔

    ان کے نزدیک مدارس میں پڑھایا جانے والا بیانیہ جو گزشہ چودہ سو سال سے ایک تسلسل سے پڑھایا جارہا ہے اسلام کا اصل بیانیہ نہیں ہے۔ ان کے اس بیانیے کے جواب میں گزشتہ سال میں کئی کالم تحریر کر چکا ہوں۔ لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان جن کے ہاتھوں میں قرآن پاک، اس کی تفاسیر، احادیث اور ان کے تراجم، فقہ کی کتب کا ایک ذخیرہ اور ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی تاریخ کا ایک تسلسل اور روایت موجود ہے۔ وہ کیسے ’’موصوف‘‘ کے بیانیے پر اتفاق کر سکتے ہیں جو اسلام کی تاریخ اور تعلیمات سے اجنبی ہے۔

    ’’حضرت‘‘ کو یقینا علم ہو گا کہ اس وقت مسلمانوں میں جو شدت پسندی کا ’’بیانیہ‘‘ مقبول ہو رہا ہے، یہ اچانک اور فوری نہیں ہے۔ ایک خاموش، مرنجا مرنج اور سوئی ہوئی قوم اچانک کیسے جاگ گئی کہ وہ ہر اس محاذ پر اپنے افراد مرنے کے لیے بھیجنے لگی جہاں ان سے مخالف نظریے کے لوگ انھیں محکوم بنا رہے تھے، قتل کر رہے تھے، بستیاں اور گھر اجاڑ رہے تھے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ کے سامنے جدید مغربی تہذیب نے ایک ’’بیانیہ‘‘ پوری طاقت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ چونکہ یہ تمام اقوام طاقتور ہیں۔ اس لیے وہ اپنے اس بیانیے کو طاقت سے نافذ کرتی ہیں اور انھوں نے ایسا کر کے دکھایا ہے۔ یہ بیانیہ اسلام اور اس کی تعلیمات کے بالکل منافی ہے۔ اس بیانیے کی بنیادیں معاشی ہیں اور خالصتاً سودی معیشت اور کارپوریٹ اقتصادیات پر مبنی ہیں۔

    اس کا نفاذ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد شروع ہوا۔ خلافت عثمانیہ مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اسے جس طرح ایک عالمی جنگ میں ملوث کر کے اس علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ان سب کو نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کر کے قومی ریاستوں کو تشکیل دیا گیا۔ یہاں بھی کوئی اصول کار فرما نہیں رکھا گیا۔ قطر، بحرین، کویت، عراق، اردن، شام، مسقط، یمن، دبئی اور ابو ظہبی جیسے علاقے ایک زبان بولتے، ایک رنگ و نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان سب کا مذہب بھی ایک تھا، لیکن جس کے پاس جتنا زیادہ تیل تھا، اتنا ہی چھوٹا ملک بنا دیا گیا تاکہ اسے قابو کرنا آسان ہو۔ پھر ان سرحدوں کو مقدس اور محترم بنانے کے لیے 1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن منظور کیا گیا اور ویزا ریگولیشن نافذ کیے گئے۔ دنیا کی تقسیم کا یہ عمل دوسری جنگ عظیم میں اس وقت تیز ہو گیا جس دن نارمنڈی فتح ہوا اور اس ’’بیانیے‘‘ کو نافذ کرنے کی طاقت ان قوتوں کے پاس آ گئی۔

    فوری طور پر امریکا کے علاقے برٹن ووڈ میں یہ تمام قوتیں اکٹھی ہوئیں اور دنیا بھر کو ایک سودی نظام کے تابع کرنے کے لیے کانفرنس منعقد ہوئی۔ وہاں جو فیصلے ہوئے وہ آج دنیا بھر میں بزور طاقت نافذ کرنا ان طاقتوں کا معمول ہے۔ فیصلے یہ تھے کہ دنیا کے تمام ممالک کاغذ کے نوٹ جاری کریں گے جس کی قدرو قیمت کا تعین ایک بینک کرے گا جس کا نام Bank of International Settlement ہے۔ کاغذ کی یہ مصنوعی دولت اپنے پیچھے موجود سونے کے ذخائر کی بنیاد پر ہو گی اور پھر آہستہ آہستہ یہ صرف کاغذ ہی رہ گئے اور 1971ء میں ایک نئی تجویز پیش ہوئی اور نافذ کر دی گئی۔ اب سونے کے ذخائر ضروری نہیں، اب کسی ملک کی حالت good will اس کے کرنسی نوٹ کی قیمت متعین کرے گی اور یہ ہم متعین کریں گے۔


    کس قدر حیرت کی بات ہے کہ بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ کے تحت نائیجیریا جو تیل سے مالا مال ملک ہے اس کے نوٹ کی قیمت کم ہے اور آئس لینڈ جہاں کچھ بھی نہیں اگتا اس کی قیمت مضبوط ہے۔ آئی ایم ایف بنا، دنیا پر سود کی بنیاد پر مبنی ’’بیانیہ‘‘ نافذ کر دیا گیا۔ اب دنیا میں کسی بھی ملک کو یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ سونے اور چاندی کے سکے جاری کرے اور ان میں عالمی کاروبار کرے۔ اسے دنیا کے اس مصنوعی کرنسی اور سود کے کاروبار سے منسلک ہونا پڑے گا۔ جو نہیں کرے گا وہ اس بیانیے کا منکر ہے، اس کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ لیبیاء کے سربراہ معمر قذافی نے افریقہ کی تیل پیدا کرنے والی حکومتوں کو سونے کے بدلے تیل بیچنے پر متفق کرنا شروع کیا تو پورا مغرب نیٹو کے نام پر بھیڑیوں کی طرح اس ملک پر چڑھ دوڑا اور اسے نشان عبرت بنا دیا۔ اس بیانیے کا دوسرا اہم نکتہ سیکولر آئینی جمہوریت کا نفاذ ہے جو ممالک یہ نکتہ تسلیم نہیں کرتے، ان پر زور بازو اور قوت سے یہ نافذ کیا جاتا ہے۔

    افغانستان اور عراق اس کی بدترین مثالیں ہیں۔ پہلے ان دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے لیے خطرہ ثابت کیا گیا، پھر ان کے ملکوں پر حملہ کیا گیا۔ اپنی مرضی کے آئین مرتب ہوئے، مرضی سے الیکشن کرائے گئے اور اپنی ٹوڈی حکومتیں بنوا کر دنیائے اسلام پر یہ واضح کیا گیا کہ اس دنیا میں ہمارا بیانیہ ہی نافذ ہو گا کیونکہ ہمارے پاس طاقت ہے اور یہ اندھی طاقت ہے۔ ہم چاہیں تو سعودی عرب اور عرب ریاستوں میں بادشاہتوں کو قائم رہنے کی منظوری دے دیں اور ہماری مرضی ہو تو پرویز مشرف جیسے فوجی ڈکٹیٹر کو حکومت بھی کرنے دیں اور اسے اپنا اتحادی بھی کہیں۔ یہ بیانیہ ایک اور تصور کا دنیا میں نفاذ چاہتا ہے اور اس کا ہدف اسلامی دنیا ہے۔

    یہ لائف اسٹائل یا جدید مغربی تہذیب کا نفاذ، ایک ایسے ماحول کی تخلیق جس میں فیشن انڈسٹری سے لے کر حسینہ عالم کے مقابلوں تک، فاسٹ فوڈ کے ریستورانوں سے لے کر ویلنٹائن ڈے جیسے تہواروں تک، ملبوسات، مشروبات، رہن سہن یہاں تک کہ اشتہاری مہمات کے ہیروز اور ہیروئنیں بھی مختلف نہ ہوں۔ عورت کو گھر کی ذمے داری سے نکال کر کیسے مارکیٹ کے نظام کا حصہ بنایا جائے۔ وہ اس بیانیے کو بھی طاقت سے نافذ کرتے ہیں۔ سودی بینکاری کے نظام نے تمام ممالک کو گزشتہ پچاس سالوں سے قرضے کی لعنت میں جکڑ لیا ہے۔

    حیرت کی بات ہے کہ برصغیر پاک و ہند پر 1947ء سے پہلے ایک روپے کا قرضہ نہیں تھا اور اس زمانے کی ترقی دیکھ لیں، ریلوے، نہری نظام، تعلیمی ادارے، ڈاک کا نظام، مواصلاتی نظام، غرض کیا کچھ تھا، لیکن آج ہم اس سودی معیشت کے تحت بال بال قرضے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جب یہ مسلمان ممالک قرضے میں ڈوب جاتے ہیں تو پھر ان پر وہ تمام تصورات نافذ کیے جاتے ہیں، معاہدوں کا حصہ بنائے جاتے ہیں، بچوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، آزاد معیشت جیسے خوشنما ناموں کے تحت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اپنی مخصوص شقوں کو معاہدے کا حصہ بناتا ہے۔ اقوام متحدہ آپ کو مجبور کرتی ہے کہ آپ اس لائف اسٹائل پر مبنی معاہدے پر دستخط کریں۔

    لائف اسٹائل کا یہ بیانیہ دو راستوں یا دو ذریعوں سے نافذ ہوتا ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ نصاب تعلیم ہے اور طریقۂ تعلیم ہے جسے یہ ’’موصوف‘‘ وسیع البنیاد تعلیم کا نام دیتے ہیں اور دنیا بھر میں یونیورسل ایجوکیشن کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ تہذیبی بیانیہ ان مسلمان ملکوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے یہ طاقت ور ممالک ان ملکوں کے نصاب تعلیم کو ’’مغربی بیانیہ‘‘ کے مطابق ڈھالنے کے لیے قرض میں جکڑے ہوئے ان ممالک میں اپنی مرضی سے اس وسیع البنیاد تعلیم کا نفاذ کراتے ہیں۔ جس کے بارے میں میرے یہ ’’استاد اور جدید مذہبی مفکر‘‘ کہتے ہیں کہ بارہ سال تک وسیع البنیاد تعلیم ایک بچے کا بنیادی حق ہے۔

    یہ بارہ سال کی شرط کیوں اور پھر وسیع البنیاد کی کیا تعریف ہے۔ بارہ سال اس لیے کہ تمام تعلیمی نفسیات کے ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ اس عمر تک بچے کا ذہن ایک صاف سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔ اس پر جس طرح کے نقوش بنائے جائیں گے وہ مستقل ہوجائیں۔ وہ جیسی کہانیاں پڑھے گا، کرداروں کو جس طرح کے لباس میں دیکھے گا، جو نظمیں اس کو یاد کرائی جائیں گے۔ جس طرح کی اخلاقیات اس کو سکھائی جائیں گی، جس طرح کے تہواروں کو اس سے روشناس کرایا جائے گا اور سب سے بڑھ کر جس طرح کے ہیروز اس کے دماغ پر نقش کیے جائیں گے وہ مستقل ہو جائیں گے۔ یہ اس کا بنیادی ماحول ہو گا جو تمام عمر اس کا حوالہ بنے گا۔

    ت
    حریر: اوریا مقبول جان
    (جاری ہے)
     
  4. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    پير 6 مارچ 2017

    وسیع البنیاد تعلیم یا یونیورسل ایجوکیشن دراصل جدید مادہ پرستانہ طرز زندگی کی وہ بنیاد ہے جس پر اس کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ بارہ سال کی عمر تک کے بچے کو جو تعلیم آپ دیتے ہیں وہی اس کی تمام زندگی میں رہنما اصولوں کی طرح ساتھ رہتی ہے۔

    اگر یہ تعلیم مذہبی اخلاقیات‘ ایمان بالغیب اور مذہی قوانین اور اصولوں کو آخری سچائی ultimite truth کے طور پر بتاتی ہے اور سائنسی حقیقتوں کو عارضی اور سائنس کو مذہب کے پرکھنے کا پیمانہ نہیں بتاتی تو پھر تمام زندگی اس کا ایمان متزلزل نہیں ہوگا‘ وہ ا للہ کے بنائے ہوئے کسی بھی کائناتی اصول پر شرمندہ نہیں ہو گا‘ بلکہ اس کا یقین اس بات پر محکم ہو گا کہ سائنس کی اس کائنات تک رسائی محدود ہے۔


    جوں جوں سائنس کی رسائی بڑھے گی‘ یہ قرآن میں بتائی گئی سچائیوں کی تصدیق کرے گی۔ لیکن وسیع البنیاد تعلیم یا یونیورسل ایجوکیشن کا کمال یہ ہے کہ وہ سائنس کو آخری سچائی کے طور پر بتاتی ہے اور اس کا بنیادی جوہر یہ ہے کہ جب انسان اس پوری کائنات پر دسترس حاصل کر لے گا تو پھر تو وہ ایک دن یہ راز دنیا پر ضرور کھول دے گا کہ یہ کائنات بغیر کسی مافوق الفطرت ہستی کے مادہ کے قوانین کے تحت چلتی رہی ہے۔ چونکہ ہم سیلاب‘ زلزلوں‘ آسمانی بارشوں وغیرہ سب کو اب کنٹرول کر سکتے ہیں‘ اس لیے کسی اللہ‘ خدا‘ ایشور‘ یزداں یا گاڈ کے وجود کو تسلیم کرنے کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔

    وسیع البنیاد تعلیم اور اسلامی اصولوں کے تابع سائنسی اور معاشرتی تعلیم میں یہی بنیادی فرق ہے جو معاشرے کو دو مختلف قسم کے افراد عطا کرتا ہے۔ ایک مذہب کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے والے اور اتنا ہی مذہب کو ماننے والے جتنا عقل کی دسترس میں آئے‘ یعنی ایک مادہ پرست مذہب جس کی آخری منزل الحاد یعنی خدا کا انکار ہے‘ اور دوسری قسم کے افراد وہ جو اسلام یا مذہب کی تعلیمات کو آخری‘ حتمی اور بنیادی سچائی مان کر دنیا میں غور و فکر اور جستجو کر کے اللہ کی بنائی کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھائیں اور حقیقت جاننے کے بعد اللہ کی حمد و ثناء میں مشغول ہو جائیں اور ان کے منہ سے قرآن پاک کی یہ سچائی ضرور نکلے۔

    ’’اے رب تو نے اس کائنات کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔‘‘

    (آل عمران: 191)

    وسیع البنیاد تعلیم کے ادارے بے شک نیک‘ متقی‘ پرہیز گار اور عالم دین نے ہی کیوں نہ بنائے ہوں اور ان کی نیت بھی خالص ہو کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کروانا ہے‘ لیکن اگر ان اداروں میں جدید تعلیم مذہبی اخلاقیات کے تابع نہ ہو گی تو بچے کی شخصیت ایک مادہ پرستانہ عمارت کے طور پر استوار ہو گی۔ برصغیر پاک وہند میں اس کی سب سے بڑی مثال سرسید احمد خان کی ہے جو ایک نیک‘ متقی‘ پرہیزگار اور عالم دین فرد تھے۔ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔

    ہندوستان میں اہل حدیث مسلک کے شیخ الکل سید نذیر حسین تھے‘ بہت بڑے عالم دین‘ وہ لوگوں کے سامنے مصلحت کی وجہ سے رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ سرسید نے انھیں احادیث اور امت کے تواتر کے حساب سے لاجواب کیا اور وہ بھی رفع یدین کرنے لگے۔ سرسید کے گھر میں خواتین کے پردے کا یہ عالم تھا کہ سرولیم میور جو بہت بڑا مستشرق مصنف اور انڈین سول سروس کا ممبر تھا‘ برطانوی ہندوستان کا سیکریٹری خارجہ بھی رہا‘ اس نے رسول کریم ؐ کی سیرت پر کتاب بھی لکھی جس کے ماخذ ا سلامی تاریخ کے متنازعہ مصنفین‘ واقدی‘ طبری اور ابن اسحاق تھے۔ اس نے خواہش ظاہر کی کہ میرے گھر کی خواتین آپ کی خواتین سے ملنا چاہتی ہیں۔

    سرسید نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہماری خواتین اجنبی خواتین سے بھی پردہ کرتی ہیں۔ اس قدر مذہب پر کاربند رہنے والے اور متقی شخص کی نیک نیتی بھی وسیع البنیاد تعلیم کی مادہ پرستانہ سوچ کی بنیاد کو ختم نہ کر سکی اور علی گڑھ نے ایک ایسی نسل کو تیار کیا جو سول سروس‘ حکومتی معاملات‘ سائنس و فلسفہ اور دیگر مادہ پرستانہ امور میں تو کامیاب رہی لیکن دین کے معاملے میں ہمیشہ اس نے ایسی توجیہات اختیار کرنے کی کوشش کی جن سے دین سائنس کے چوکٹھے میں فٹ ہو جائے۔ مثلاً ایک اللہ‘ ایشور‘ یزداں یا گاڈ کو تو سب مان لیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں تو سائنس نے مادہ یا فطرت کا آغاز کرنا ہوتا ہے اور منطق و سائنس اس کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں‘ لیکن اس کے بعد کی تمام مافوق الفطرت اشیاء کا یا تو انکار کر دیا گیا یا پھر ان کی سائنسی توجیہات بنا لی گئیں۔ مثلاً فرشتوں کے وجود کو فطرت کی طاقتیں Forces of nature بتایا گیا‘ جنات کے تصور کی یہ تفسیر کی گئی کہ دراصل یہ وہ اکھڑ اور غصے والے انسان ہوتے ہیں جو دراصل آگ کی طرح ہوتے ہیں۔


    فطرت کی طاقتوں کو ویسے ہی بتایا گیا جیسے کشش ثقل ہے‘ اس طرح اس کائنات کے مادے کے اندر جو طاقتیں ہیں وہ فرشتے ہیں۔ آسمانی معراج کیسے ثابت ہو سکتا تھا۔ یہ تو نیوٹن کا زمانہ تھا‘ ابھی آئن سٹائن نہیں آیا تھا جو یہ بتاتا کہ اگر روشنی کی رفتار سے کسی جسم کو کائنات کے گرد گھمایا جائے تو اس پر وقت اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس وقت کی محدود سائنس کے مطابق اسلام کو فٹ کرنے کے لیے معراج کو ایک خواب یا روحانی تلازمہ کہہ دیا گیا۔

    اسی طرح وحی کے بارے میں بھی یہ جواز دیا گیا کہ یہ براہ راست رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب پر اترتی تھی۔ اس لیے کہ فرشتوں کا انکار تو کر چکے تھے‘ تو پھر جبرائیل امین علیہ السلام کے واسطے کو کیسے مانتے‘ گویا یہ قرآن دراصل سرسید کے نزدیک براہ راست رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اصحاب کو سنایا۔

    اسی طرح جنت و دوزخ کو بھی سرسید نے دو مقامات نہیں بلکہ دو کیفیات سے تعبیر کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک فرینک ٹپلر Frank J.Tipler نہیں آیا تھا جو سٹفین ہاکنگ کا ساتھی ہے اور اس نے Physics of immortality لکھ کر یہ ثابت نہیں کر دیا تھا کہ یہ کائنات جب ختم ہو گی تو بالکل ویسے ہی جنت‘ دوزخ اور اعراف جیسے مقامات میں تقسیم ہو جائے گی جیسے آسمانی کتابوں قرآن ‘ تورات‘ زبور اور انجیل میں بتایا گیا ہے۔


    یہ تحقیق 1994ء میں برٹش لائبریری نے چھاپی جو 530 صفحات پر مشتمل ہے۔ چونکہ سرسید کے وسیع البنیاد علم یا یونیورسل ایجوکیشن کی اڑان اور معراج اپنے دور کے سائنسی علم تک تھی اس لیے انھوں نے جنت اور دوزخ کو دو کیفیات کا نام دے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دین کی ایک ایسی تعبیر متعارف ہوئی جو آج کے سیکولر‘ لبرل اور مادہ پرست افراد میں مقبول ہے اور جدید مذہبی مفکرین بھی اسے تعبیر دین کا اصل سمجھتے ہیں۔ یہ قرآن کی ان آیات جن میں ’’اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول ؐ کی اطاعت کرو‘‘ میں سے رسول ؐ کی اطاعت کو ان کے زمانے تک محدود کر دیتے ہیں۔

    غلام احمد پرویز اس فکر کو لے کر آگے بڑھے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ’’مرکز ملت‘‘ قرار دیا اور کہا اب جو بھی ’’مرکز ملت‘‘ اور امیر ہو گا وہ اپنی تعبیر سے قرآن کی روشنی میں کوئی بھی اصول وضع کر سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اطاعت دائمی نہیں ہے۔ یہیں سے میرے ’’ممدوح‘‘ استاد اور جدید اسلامی فکر کے ’’عظیم مفکر کے علم کے سوتے پھوٹتے ہیں اور وہ قرار دیتے ہیں کہ یہ پردہ‘ مرتد کی سزا‘ توہین رسالت کی سزا اور دیگر احکام رسول اکرم صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی تک خاص ہیں۔ یہاں تک کہ جہاد بھی انھی حکمرانوں سے ہو سکتا ہے جن کو رسول اکرم ؐ نے خط تحریر کیئے تھے اور دعوت اسلام دی تھی۔ یہ ہے وہ شخصیت جو وسیع البنیاد اور یونیورسل ایجوکیشن سے نکل کر سامنے آتی ہے۔

    اب اگر یہ وسیع البنیاد تعلیم کے ادارے کوئی تہجد گزار‘ عابد و زاہد بہت نیک نیتی کے ساتھ بھی قائم کرے تو ان کی کوکھ سے مادہ پرست افراد ہی نکلیں گے جو دین کا ایک معذرت خواہانہ تصور رکھتے ہوں گے۔ اگر پہلے بارہ سالوں میں آپ نے بچوں کو یہ تعلیم دے دی تو پھر آپ ان کو دین کی اصل روح تک بہت مشکل سے واپس لا سکو گے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس وسیع البنیاد تعلیم کو ان ’’عظیم عالم دین‘‘ نے دہشتگردی کا حل تجویز کیا گیا۔

    یہ تعلیم اٹھارویں صدی میں یورپ کو ملنا شروع ہوئی اور اب تک ان تعلیمی اداروں سے پڑھے لوگوں نے دو عظیم جنگیں لڑیں‘ دس کروڑ لوگ مارے‘ ویت نام سے لے کر جنوبی امریکا‘ افریقہ سے لے کر فلسطین‘ عراق‘ افغانستان‘ شام‘ لیبیا میں آج تک قتل کیے جا رہے ہیں۔ انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ قتل اس یونیورسل ایجوکیشن کے تعلیم یافتہ انسان نے کیے اور لوگ اسے دہشتگردی کے علاج کا نسخہ بتاتے ہیں۔


    تحریر: اوریا مقبول جان
    (ختم شد)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں