1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

واک اور خوشگوار حیرت کا باہمی تعلق

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏16 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    واک اور خوشگوار حیرت کا باہمی تعلق

    ایک نئی نفسیاتی سٹڈی کے مطابق عام واک کے دوران جب ہم اپنے اردگرد موجود دنیا کے چھوٹے چھوٹے عجائبات کو بغور دیکھتے ہیں تو اس کے انسان کی ذہنی صحت پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سٹڈی کو ’’Awe Walks‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سٹڈی کے مطابق وہ لوگ جنہوں نے اپنی واک کے دوران اردگرد موجود اشیا اور مناظر پر تازہ نظر ڈالی‘ انہیں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ خوشگوار اور امید افزا احساس کا تجربہ ہوا۔ ان انکشافات کا تعلق باطنی تجربے سے ہے مگر اس سے یہ اشارہ ملتا ہے حیرت انگیز واک آپ کو تفکرات اور اضطراب سے نمٹنے میں مدد دیتی ہے۔ اس سے یہ پہلو بھی اجاگر ہوتا ہے کہ ایکسر سائز کے دوران ہمارا سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز ہماری زندگی کو‘ ورک آئوٹ کی طرح ہی متاثر کر سکتا ہے۔

    پہلے ہی اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ واک سمیت ہر طرح کی ایکسر سائز ہمارے موڈ کو بہتر بنا دیتی ہے۔ ماضی میں کی گئی سٹڈیز میں جسمانی سرگرمیوں، زیادہ خوشی اور کم انزائٹی، ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کے درمیان ایک تعلق قائم کیا گیا ہے۔ خوشگوار حیرت کا احساس ہمارے اندر خوشی کے مجموعی احساس کو تقویت دیتا ہے اور صحت کو بہتر بناتا ہے۔ یہ حیرت جو دراصل ایک ایسا جذبہ اور احسا س ہوتا ہے کہ جب آپ خود کو کسی اپنے سے بڑی اور اہم شے کی موجودگی میں پاتے ہیں جو پُراسرار بھی ہو اور ناقابل بیان بھی۔

    ماضی کی سٹڈیز میں وہ لوگ جنہوں نے اپنے خوشگواراور تعجب انگیز احساسات رپورٹ کئے تھے‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں کم جذباتی سٹریس کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے جسم میں بہت کم سوزش دیکھنے میں آئی؛ تاہم کسی بھی سٹڈی میں یہ نہیں بتایاگیا کہ کیا اس خوشگوار حیرت اور جسمانی سرگرمی کو ملانے سے دونوں کے فوائد میں اضافہ ہوتا ہے یا کمی واقع ہوتی ہے۔ نئی سٹڈی جو ایک جریدے ’’ایموشن‘‘ میں ستمبر میں شائع ہوئی‘ کے مطابق‘Memory and Aging Center یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے منسلک سائنسدانوں اور دیگر اداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ واک کرنے والے عمر رسیدہ افراد کو یہ سکھایا جائے کہ وہ اپنے اندر خوشگوار حیرت کے احساس کو کیسے پروان چڑھائیں۔

    انہوں نے 60، 70 اور 80سال کی عمر والے لوگوں پر توجہ دی۔ یہ ایسی عمر ہوتی ہے کہ جب لوگوں کی ذہنی صحت زوال پذیر ہوتی ہے۔ ریسرچرز کے پاس یونیورسٹی میں رضاکاروں کا ایک ریڈی میڈ پول تھا اور یہ سب وہ لو گ تھے جو اس سے پہلے بھی ایک سٹڈی میں حصہ لے چکے تھے‘ جس کا موضوع تھا ’’How to age well‘‘۔ سائنس دانوں نے 52 رضا کاروں سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی نارمل واک میں ہفتہ وار پندرہ منٹ کا اضافہ کرنا پسند کریں گے؟ تمام لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست تھے۔ ان کی ذہنی صحت کی تازہ ترین سٹڈی سے معلوم ہوا کہ وہ سب نفسیاتی طور پر بہت بہتر حالت میں تھے۔ تاہم ان میں قدرے انزائٹی اور ڈپریشن کے آثار تھے۔

    سائنس دانوں نے ان رضا کاروں کو دو عمومی گروپوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلا جو کنٹرول گروپ تھا‘ اسے کہا گیا کہ وہ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ پندرہ منٹ کے لئے کھلی فضا میں واک کیا کرے؛ تاہم انہیں کچھ اور بھی آفرز کی گئی تھیں۔ دوسرے گروپ کو بھی ہفتے میں یک مرتبہ واک کرنے کے لئے کہا گیا؛ تاہم انہیں یہ بھی سکھایا گیا تھا کہ انہوں نے واک کے دوران اپنے اندر خوشگوار حیرت کے احسا س کو کیسے پروان چڑھانا ہے۔

    کیلیفورنیا یونیورسٹی کی پروفیسر آف نیورولوجی ورجینیا سٹرم‘ جنہوں نے اس سٹڈی کی نگرانی کی تھی‘ کا کہنا ہے ’’بنیادی بات یہ ہے کہ ہم نے انہیں بتا دیا تھا کہ وہ کوشش کریں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے‘ انہیں چاہئے کہ وہ ہر بار کسی نئی جگہ واک شروع کریں کیونکہ ہمیشہ نئی چیزوں کو دیکھ کر ہی انسان کے اندر حیرت کا احساس پیدا ہوتا ہے‘‘۔

    ریسرچرز نے یہ بھی تجویز کیا تھاکہ واک کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ واک کے دوران اپنے اردگرد موجود اشیا پر خصوصی توجہ دیں اور ہر چیز کو ایک تازہ اور نئی چیز اور بچے کی نظر سے دیکھیں۔ ڈاکٹر ورجینیا کہتی ہیں ’’جزوی طور پر حیرت کا احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنے دماغ سے باہرکی دنیا پر فوکس کرتے ہیں اور ہم ایسی باتوں کا کھوج لگاتے ہیں جو حیرت سے بھری ہوتی ہیں‘‘۔

    کنٹرول گروپ سے کہاگیا تھا کہ وہ باہر کھلی فضا میں واک کریں‘ کسی بھی گروپ سے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی واک کو پارکس تک محدود کرے یا شہری علاقوں میں جانے سے گریز کرے۔ دونوں گروپوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ریکارڈ کے لئے مقامی مناظر کی کچھ سیلفیز بھی لے سکتے ہیں مگر اس کے علاوہ انہیں اپنے فونز استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

    دونوں گروپس کے واکرز سے اپنی اپنی سیلفیز کو ایک لیب ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے لئے کہا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے موڈ کی روزانہ کے حساب سے آن لائن اسیسمنٹ کریں اور موازنہ کریں، نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا اس دن انہوں نے واک کی تھی اور اگر کی تھی تو واک کے دوران انہوں نے کیسا محسوس کیا۔

    آٹھ دن کے بعد ریسرچرز نے دونوں گروپس کے ردعمل اور فوٹوز کا موازنہ کیا۔ حیران کن طور پر انہیں پتا چلا کہ ایک رضاکار نے بتایا کہ اس کی ساری توجہ موسم خزاں کے رنگوں اور ہرے بھرے جنگلات میں ان رنگوں کی عدم موجودگی پر تھی۔ ریسرچرز نے ان گروپس میں کئی ایک چھوٹے مگر اہم نوعیت کے اختلافات بھی محسوس کئے مثلاً پہلے سے بہتر ہونے کا احساس۔

    مجموعی طور پر دوسرے گروپ نے کنٹرول گروپ کے مقابلے میں خود کو زیادہ خوش‘ کم پریشان اور سماجی طور پر ایک دوسرے کے سے زیادہ قریب پایا۔ کنٹرول گروپ کے رضاکاروں نے اپنے موڈ میں کچھ بہتری پائی مگر انہیں بہت کم فوائد حاصل ہوئے۔ ریسرچرز نے جو سب سے حیران کن بات محسوس کی وہ گروپس کی سیلفیز کا تنوع تھا۔ ان آٹھ ہفتوں کے دوران دوسرے گروپ کے رضاکاروں کے حلیے ان کے ارد گرد کے مناظرکے مقابلے میں سکڑ گئے تھے ان کے چہرے چھوٹے ہوگئے تھے اور دنیا بڑی لگ رہی تھی؛ تاہم کنٹرول گروپ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس سٹڈی میں ہونے والے تما م تر انکشافا ت کا تعلق باطنی جذبات سے تھا۔ اس سٹڈی میں شریک ہونے والے تمام رضا کار عمر رسیدہ مگر اچھی صحت کے مالک تھے یہ تو واضح نہیں ہو سکا کہ نوجوانوں یا بیمار لوگوں کو بھی اس کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے یا کسی کو دوڑنے، تیرنے اور گھڑ سواری سے بھی یہ خوشگوار حیرت مل سکتی ہے یا نہیں۔

    (بشکریہ: نیو یارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

     

اس صفحے کو مشتہر کریں