1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نیلسن منڈیلا .....کال کوٹھری سے کرسی صدارت تک ۔۔۔۔ خاور نیازی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 اپریل 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    نیلسن منڈیلا .....کال کوٹھری سے کرسی صدارت تک ۔۔۔۔ خاور نیازی

    ''میں ایک مثالی جمہوریت اور آزاد معاشرے کا خواہش مند ہوں جس میں تمام لوگ ایک ساتھ امن سے زندگی بسر کر سکیں اور انہیں ایک جیسے مواقع میسر ہوں ۔یہ میرا مشن ہے جس کی تکمیل کے لئے میں زندہ ہوں لیکن اگر اس مشن کی تکمیل کے لئے مجھے زندگی کی قربانی بھی دینا پڑی تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا‘‘۔
    یہ الفاظ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر اور ملک کو نسلی امتیاز سے پاک کرنے کی جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے رہنما نیلسن منڈیلا کے تھے ۔جو انہوں نے ''ریوونیا کورٹ ‘‘میں اپنے خلاف تشدد کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام کے ایک کیس میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہے ۔وہ معدودے چند ان لیڈروں میں شامل تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر ، ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔ 27سال کی مسلسل قید کے بعد نیلسن منڈیلا کو جب رہائی ملی تو انہوں نے اپنی جدو جہد کا آغاز وہیں سے کیا جہاں ستائیس سال پہلے وہ پابند سلاسل کر دئیے گئے تھے ۔ ایسے لیڈر کے بارے میں مزید کچھ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
    ذاتی زندگی
    نیلسن منڈیلا 1918 ء میں جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے تھیمبو نامی قبیلے میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام رولیہلا ہلا رکھا گیالیکن خاندان میں انہیں ''مادیبا ‘‘ کہا جاتا تھا، سکول میں انکے استاد نے ان کانام تبدیل کر کے انگریزی نام ''نیلسن‘‘ رکھ دیا ۔ یوں انہیں نیلسن منڈیلا کے نام سے شہرت ملی۔
    نیلسن کے والد تھیمبو شاہی خاندان کے سربراہ کے مشیر تھے ۔ قبیلے کے سبھی لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ نو برس کی عمر میں والد وفات پا گئے ۔ تھیمبو قبیلے کے سربراہ نے نیلسن کی ذہانت بھانپتے ہوئے انہیں شاہی خاندان کے ایک اور مشیر کی سر پرستی میں دے دیا تاکہ انکی تربیت بہتر انداز میں ہو سکے ۔ انہوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور اپنے ساتھی اولیور تیمبو کے ساتھ مل کر 1952ء میں جوہانسبرگ میں ایک دفتر بنا کر باقاعدہ قانونی پریکٹس کا آغا ز کیا ۔ ان کی مدد سے بہت سے نادار لوگوں کو انصاف ملا ۔ساتھ ہی وہ '' افریقن نیشنل کونسل ‘‘میں شامل ہو کر نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں شامل ہو گئے ۔
    نیلسن نے 1944ء میں جیل کے ایک پرانے ساتھی کی رشتے دار ایویلن نامی لڑکی سے پہلی شادی کی ۔ ایویلن ایک نرس تھی۔ان کے تین بچے تھے ۔لیکن نیلسن کی سیاسی مصروفیات نے رفتہ رفتہ انکی ازدواجی زندگی کو متاثر کرنا شروع کر دیاحتیٰ کہ ایک دفعہ ایویلن نے نیلسن کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اسے نظر انداز کئے رکھا تو وہ اس پر گرم پانی پھینک دے گی۔لیکن پھر 1957ء میں دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔ 1958ء میں نیلسن نے ایک خوبرو سماجی کارکن ونی میدیکیذ لا سے شادی کر لی۔ دونوں کا ملنا جلنا کئی سال پرانا تھا ۔شادی کے فوری بعد نیلسن کو روپوش ہونا پڑا ۔صدر بننے کے بعد نیلسن نے اپنی قید کے دوران سماجی خدمات کے بدلے میں اپنی بیگم ونی کو بھی کابینہ میں شامل کر لیا۔ جلد ہی ونی پر پارٹی فنڈز کے غلط استعمال کے الزامات زور پکڑتے گئے جس کے سبب نیلسن نے اسے1996ء میں طلاق دے دی۔ 1998ء میں اپنی 80ویں سالگرہ کے موقع پر موزمبیق کے سابق صدر کی بیوہ گریکا مشیل سے تیسری شادی کی۔ گریکا کے سابق شوہر 1996ء میں ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے ۔
    جدو جہد آزادی
    نیلسن منڈیلا کو دور جدید میں ایک قابل احترام لیڈر کی حیثیت سے جو شہرت اور مقام ملا ہے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے ۔ انہوں نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف جو طویل جدو جہد کی اس کا ثمر آج سب کو مل رہا ہے ۔نسل پرستی کے خلاف نیلسن منڈیلا نے اپنے دوست تیمبو کے ساتھ ملکر جو مہم شروع کی آگے چل کر وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔1956ء میں منڈیلا پر اپنے 155 ساتھیوں سمیت غداری کا مقدمہ چلا جو چا ر سال بعد ختم ہو گیا۔1960ء میں افریقن نیشنل کونسل( اے این سی) کو کالعدم قرار دے دیا گیا جس کے سبب منڈیلا کو روپوش ہونا پڑا۔ لیکن نسل پرست حکومت کے خلاف مظاہروں میں شدت آتی گئی ۔ایک دن ستر کے قریب پرامن سیاہ فام مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تو یہ پر امن تحریک نے شدت پسندی کا راستہ اختیار کر لیا جس کی قیادت نیلسن منڈیلا کو کرنا پڑی ۔ چنانچہ منڈیلا کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر حکومت مخالف تحریک کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام لگا کر1964میں عمر قید کی سزا سنا کر پابند سلاسل کر دیا گیاتھا۔1980 میں منڈیلا کے دیرینہ ساتھی اولیور تیمبو نے منڈیلا کی رہائی کے لئے بین الاقوامی تحریک شروع کی۔ اس دباؤ کے نتیجے میں 1990میں جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک نے اے این سی پر عائد پابندی کو ختم کر تے ہوئے نیلسن منڈیلا کو رہا کر دیا۔ 1993ء میں انہیں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
    1994ء میں انہیں جنوبی افریقہ کا پہلا سیاہ فام صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انتہائی کم عرصے میں ان کی سیاسی بصیرت کے چرچے دنیا بھر میں ہوئے ،انہوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفید فاموں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔سفید فام جنگ جو زولو قوم کو بھی دوستی کی دعوت دی۔ انہوں نے نہ صرف اپنے ملک میں امن کی بحالی کی کوششوں میں قائدانہ کردار ادا کیا بلکہ دنیا کے جس بھی کونے میں بد امنی دیکھی اس کے خلاف آواز بلند کرتے پائے گئے۔وہ دنیا کے ایک مدبر لیڈر کے طور پر بھی سامنے آئے اس کا اندازہ ان کو ملنے والی سو سے زائد اعزازی ڈگریوں سے ہوتا ہے ۔ صدارت چھوڑنے کے بعد نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے اعلی ترین سفیر بن کر ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔انہوں نے ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف مہم چلائی اور اپنے ملک کو 2010 کے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی دلوانے میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے 2003 میں عراق امریکہ جنگ میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے مظالم دیکھے تو بش سینئر کو ایک خط لکھا کہ ''اپنے بیٹے کو ان مظالم سے روکو‘‘۔اس موقع پر انہوں نے مزید لکھا کہ ''میں ایسی طاقت کی مذمت کرتا ہوں جس کا صدر دور اندیشی کی صلاحیت سے عاری ہو ، جو صحیح طریقے سے سوچ بھی نہیں سکتااور دنیا کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے‘‘ ۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں