نہ منتظر ہے آنکھ ہی، نہ دل ہی بے قرار ہے کہ اب ہمیں نہ آس ہے، نہ کوئی انتظار ہے مٹا ہی ڈالی ذات ہم نے، آپ کے ہی واسطے کہ روح کو کیا تمہی نے میری آج تار تار ہے تھے جس قدر بھی اشک وہ بہا دئیے ترے لئے لو مطمئمن رہو کہ دل ہمارا غمگسار ہے ان الفتوں کی راہ میں سبھی کو ملتے خار ہیں خبر نہیں کسی کو کیوں کٹھن یہ رہگزار ہے نجانے کیوں تڑپ اٹھی ہوں آج بھی ترے لئے کہ درد جو دیا تھا تو نے اب تو دل کے پار ہے سخن میں میری غم کو وہ سمو گیا کچھ اس طرح بس اب پر ایک شعر میں یہ درد آشکار ہے یہ تیری یاد ہے مکین ِ دل مرے او ہم نشیں کہ جیسے ایک تیر سا ہے جو دل کے آر پار ہے ٹٹولنے سے لاکھ کو ملے تو اب ملے گا کیا کہ کچھ وفا کی گرد ہے یا دل کا کچھ غبار ہے میں مر مٹی تو صرف میں مروں گی اس کے واسطے خبر نہیں کیوں اسے یوں ہم پہ اعتبار ہے کنول ہے اس کا ساتھ کیا، کنول ہے اسک کی بات کیا نہ جس کا کوئی عہد ہے، نہ قول نا قرار ہے
کنول جی ۔ آپ کی غزل بہت عمدہ ہے۔ ماشاءاللہ آپ کی شاعری ہماری اردو کے شاعرانہ چوپال میں بہت خوبصورت اضافہ ہیں۔
اگرچہ یہ غزل جون میں ارسال کی گئ تھی مگر ہم نے آج پڑھی ہے، اس لئے آج ہی تعریف کئے دیتے ہیں۔ بھئ واہ، بہت روانی ہے غزل کے زیادہ تر اشعار میں، اور پہلا شعر تو ہر لحاظ سے بہت ہی عمدہ ہے۔
بہت عمدہ کوشش ہے اور آپ میں ٹیلنٹ بہت ہے اس لیے میرا مشورہ ہے کہ کسی اچھے سے شاعر سے اصلاح لے لیا کیجئے تاکہ اور نکھار آجائے۔