1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نواز شریف کی نااہلیت کیس معاملے پر سپریم کورٹ نے نظر ثانی کی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏7 نومبر 2017۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    نواز شریف کی نااہلیت کیس معاملے پر سپریم کورٹ نے نظر ثانی کی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق نظر ثانی کی درخواستوں پر جسٹس اعجازافضل خان نے 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا جس کے مطابق کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے بتانا امیدوار کی قانونی ذمہ داری ہوتی ہے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کاشائبہ تک نہیں ہوناچاہیۓ، امیدوارنے عوام کی قسمت کی فلاح و بہبود کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے، منتخب ہونے کے بعد رکن اسمبلی کو اس قانون کی خلاف ورزی پر رعایت دینے سے سیاست میں تباہی کا آغاز ہو گا۔ افسوس کی بات ہے کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر قوم کو بیوقوف بنایا، فیصلہ قانون اور انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر مرتب کیا گیا اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فیصلے سے نواز شریف کو حیران کیا گیا۔
    ایف زیڈ ای کمپنی کے اقامے کے معاملے پر عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ نوازشریف کمپنی کے ملازم تھے، تنخواہ کمپنی پر واجب الادا تھی اور ساڑھے 6 سال کی تنخواہ نوازشریف کا اثاثہ تھی۔اس لئے یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اثاثوں میں غلطی حادثاتی یا غیرارادی طور پر ہوئی، نوازشریف نے جان بوجھ کر اثاثے چھپائے اور کاغذات نامزدگی میں جھوٹا بیان حلفی دیا۔ تفصیلی فیصلے میں جسٹس اعجازالاحسن نے جے آئی ٹی کو ایف زیڈ ای کمپنی معاملات کی مزید تحقیقات کا بھی کہا ہے۔
    تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پاناما فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ اس پر نظرثانی کی جائے، نااہلی کے معاملے کا محتاط ہو کر جائزہ لیا گیا،یہ امر واضح ہے کہ نواز شریف کی نااہلیت سے متعلق حقائق غیر متنازع تھے۔ فیصلے میں نگران جج کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ نگران جج کا تقرر کوئی نئی بات نہیں اس کا مقصد ٹرائل کو شفاف بنانا ہوتا ہے، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ نگران جج ٹرائل پر اثر انداز ہوں گے۔ احتساب عدالت شواہد کا قانون کے مطابق جائزہ لے سکتی ہے، احتساب عدالت شواہد کی بنیاد پرفیصلہ کر سکتی ہے، ٹرائل کورٹ کمزورشواہد کو رد کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ احتساب عدالت شواہد کا قانون کے مطابق جائزہ لینے میں آزاد ہے، پاناما فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہیں، 6 ماہ میں ٹرائل کی ہدایت ٹرائل کورٹ کو متاثر کرنا نہیں بلکہ یہ مدت اسے جلد مکمل کرنے کے لئے ہے۔
    فیصلے کے مطابق مریم نواز بادی النظر میں لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ہیں، اور یہ کہ یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیپٹن صفدر کا لندن فلیٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں