1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نواز شریف کو نقصان ہو گا

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏19 اپریل 2018۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    نواز شریف کو نقصان ہو گا

    چوہدری حیات محمد خان ہمارے چوہدری شجاعت حسین کے پردادا تھے‘ درمیانے درجے کے کاشتکار تھے‘ گجرات میں دریائے چناب کے کنارے چھوٹے سے گاؤں ’’نت وڑائچ‘‘ میں رہتے تھے‘ سادہ طبیعت کے درویش انسان تھے‘ لوگوں کو کھانا کھلانے میں مشہور تھے‘ ان کا ایک قول آگے چل کر چوہدری خاندان کی مہمان نوازی کی بنیاد بنا۔

    وہ اپنے بچوں کو کہا کرتے تھے ’’دیکھو کسی کو کھانا کھلانے سے کوئی غریب نہیں ہو جاتا‘‘ بچوں نے یہ بات پلے باندھ لی چنانچہ آج چوہدری برادران کی پانچویں نسل ہے‘ ان کے گھر سے کوئی شخص کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جا سکتا خواہ وہ ان کا جانی دشمن ہی کیوں نہ ہو‘ چوہدری برادران کے گھر میں سب کچھ بند ہو سکتا ہے‘ لائیٹس تک بجھ سکتی ہیں لیکن کچن 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے‘ یہ بند نہیں ہوتا اور یہ چوہدری برادران کی قومی شناخت ہے۔

    چوہدری شجاعت حسین نے ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کے نام سے معرکۃ الآراء بائیو گرافی لکھی‘ مجھے یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔’’سچ تو یہ ہے‘‘ محض ایک کتاب نہیں‘ یہ سیاست کی پانچ دہائیوں کی ایف آئی آر ہے‘ ہماری سیاست میں پچاس سال سے کیا ہو رہا ہے‘ یہ کتاب اس کا دستاویزی ثبوت ہے‘ میں یہ کتاب پڑھ کر تین نتائج پر پہنچا

    1. سیاست میں کوئی چیز مستقل اور حتمی نہیں ہوتی
    2. حکومتوں کے فیصلے ووٹ سے نہیں ہوتے اور
    3. یہ کتاب پاناما لیکس کے بعد میاں نواز شریف کو شدید نقصان پہنچائے گی‘ یہ ان کے امیج کو مزید لے کر بیٹھ جائے گی۔

    کیسے؟
    آپ واقعات ملاحظہ کیجیے اور آخر میں فیصلہ کیجیے اس کتاب سے میاں نواز شریف کا کیا امیج سامنے آ رہا ہے‘

    مثلاً چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا‘ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء کے مارشل لاء کے بعد نوے دنوں میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا‘ میرے والد چوہدری ظہور الٰہی لاہور سے بھٹو کے خلاف الیکشن لڑنا چاہتے تھے‘ ہم لاہور میں اپنے دفتر میں بیٹھے تھے‘ ہمارے ملازم نے بتایا‘ باہر ایک نوجوان آیا ہے۔ یہ چوہدری صاحب سے ملنا چاہتا ہے‘

    والد صاحب نے پرویز الٰہی کو باہر بھجوا دیا‘ پرویز الٰہی نے دیکھا‘ ایک گورا چٹا نوجوان برآمدے میں بیٹھا ہے‘
    نوجوان نے پرویز الٰہی کو اپنا وزیٹنگ کارڈ دے کر کہا‘مجھے میرے والد میاں محمد شریف نے چوہدری ظہور الٰہی کی الیکشن مہم میں فنڈز دینے کے لیے بھیجا ہے‘
    پرویز الٰہی نے جواب دیا ’’ہم کسی سے فنڈ نہیں لیتے‘‘ یوں یہ ملاقات ختم ہو گئی‘ وہ نوجوان میاں نواز شریف تھا۔

    • 1985ء کے غیر جماعتی الیکشنز کے بعد جنرل ضیاء الحق ملک اللہ یار خانچوہدری عبدالغفور اور مخدوم زادہ حسن محمود میں سے کسی ایک کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نے خود ہی اپنا نام فلوٹ کرا دیا‘
    • ہمارا گروپ مضبوط تھا‘ ہم نے اپنا چیف منسٹر لانے کے لیے گھر میں میٹنگ بلوائی‘ میٹنگ میں خواجہ سعد رفیق کی والدہ بھی شامل تھیں‘ فیصلہ ہوا ہم پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنائیں گے‘ ہم نے رابطے شروع کر دیے لیکن پھر ہمیں گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے گورنر ہاؤس بلا لیا‘ بریگیڈیئر قیوم بھی وہاں موجود تھے۔
    جنرل جیلانی نے ہمیں پیشکش کی‘ آپ اپنی مرضی کی وزارتیں‘ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے لے لیں اور وزارت اعلیٰ میاں نواز شریف کو دے دیں‘
    • ہم نے دو دن کا وقت مانگا‘ ہماری اگلی میٹنگ میاں محمد شریف کے ایمپریس روڈ کے دفتر میں ہوئی‘ بریگیڈیئر قیوم بھی موجود تھے‘ ہم میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے پر رضا مند ہو گئے‘
    • میٹنگ کے آخر میں میاں شہباز شریف قرآن مجید لے آئے اور کہا‘ یہ قرآن مجید ضامن ہے‘ ہم آپ سے کوئی وعدہ خلافی نہیں کریں گے‘ ہم نے قرآن مجید کی ضمانت لینے سے انکار کر دیا۔
    • ہم نواز شریف کے لیے ایم پی ایز کی حمایت لینے کے لیے نکلے تو پہلی ملاقات انور علی چیمہ کے گھر ہوئی‘
    • چوہدری انور علی کی تقریر کے بعد پرویز الٰہی نے تقریر کی‘ میاں نواز شریف کی تقریر کی باری آئی تو یہ گھبرا گئے اور پرویز الٰہی سے کہا ’’آپ ہی میری طرف سے بات کر دیں‘‘
    • ہم نے اصرار کیا آپ وزیر اعلیٰ بن رہے ہیں‘ آپ کو تقریر کرنی چاہیے‘ یہ اٹھے لیکن بمشکل ایک دو منٹ تقریر کر سکے۔

    یہ شاید میاں نواز شریف کی پہلی تقریر تھی‘ میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد وہ تمام وعدے توڑ دیے جن کے لیے شہباز شریف قرآن مجید لے کر آئے تھے‘ یہ ہمارا گروپ بھی توڑنے لگے‘ ہم گلہ کرتے تو شہباز شریف صفائیاں دینے لگتے‘ ہم جنرل جیلانی اور بریگیڈیئر قیوم سے شکایت کرتے اور وہ بے چارگی سے ہماری طرف دیکھنے لگتے‘ پرویز الٰہی تنگ آ کر صدر ضیاء الحق کے پاس چلے گئے۔

    • جنرل ضیاء الحق نے ہمیں نواز شریف کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اشارہ دے دیا‘ ہم نے نواز شریف کو ہٹانے کی تیاری کر لی
    • لیکن میاں صاحب نے عین وقت پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کو راضی کر لیا‘ جنرل حمید گل نے ضیاء الحق کو منا لیا اور یوں نواز شریف فارغ ہونے سے بچ گئے‘
    • چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا‘ نواز شریف نے چند دن بعد ہمیں صلح کے لیے بلایا‘ بریگیڈیئر قیوم کے گھر ملاقات ہوئی‘ جنرل جیلانی بھی وہاں موجود تھے۔
    • نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے ہم سے معافی مانگی‘ نواز شریف نے دوبار پرویز الٰہی کا ماتھا چوما‘ شہبا زشریف نے دس منٹ میں دس بار پرویز الٰہی کو گلے لگایا اور یوں ہماری صلح ہو گئی لیکن یہ لوگ تھوڑے دن بعد دوبارہ پرانی روش پر چل پڑے‘
    • ہم نے جنرل جیلانی سے شکایت کی‘ وہ بھی ان سے نالاں ہو چکے تھے‘ جنرل جیلانی نے ہمیں کہا ’’ہم آپ کے قصور وار ہیں‘ ہمیں اس معاملے میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا‘ ہمارے ساتھ بھی اب ان کا یہی رویہ ہے‘‘۔

    ہمارے اختلافات کی خبریں جنرل ضیاء الحق تک پہنچیں تو صدر نے نواز شریف کو راولپنڈی بلا کر حکم دیا‘ پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کو فوراً دوبارہ کابینہ میں شامل کرو‘ صدر کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ نواز شریف کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔

    چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا بے نظیر بھٹو 10 اپریل 1986ء کو پاکستان واپس آئیں‘
    میاں نواز شریف محترمہ کو لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار کرنا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا ’’ہم محترمہ کو ائیر پورٹ ہی سے پک کر لیں گے‘‘
    لیکن وزیراعظم محمد خان جونیجو نے ڈانٹ کر کہا ’’میاں صاحب وہ ایک بڑی پارٹی کی لیڈر ہیں‘ یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں‘‘

    میاں نواز شریف 1988ء میں لاہور ہائی کورٹ میں اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگوانا چاہتے تھے‘
    میں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا آپ سینئر ترین جج کو چیف لگا دیں۔
    محمد خان جونیجو نے میری بات مان لی اور یوں جسٹس عبدالشکور سلام کو چیف جسٹس بنا دیا‘ میں اطلاع دینے کے لیے چیف جسٹس کے گھر گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا وہ دو کمروں کے معمولی سے گھر میں رہتے تھے‘

    1988ء کے الیکشنوں سے قبل میاں محمد شریف ہمارے گھر آئے‘ ہماری والدہ سے ملے اور وعدہ کیا‘ میاں نواز شریف جب بھی وزیراعظم بنیں گے‘ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوں گے۔

    الیکشن ہوئے‘ ہمارا گروپ تگڑا تھا‘ بے نظیر بھٹو نے فاروق احمد لغاری کے ذریعے پرویز الٰہی کو پیش کش کی آپ وزیراعلیٰ بن جائیں‘ ہم آپ کی مدد کریں گے
    لیکن ہماری والدہ میاں محمد شریف کو زبان دے چکی تھیں چنانچہ ہم نے دوسری بار میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنوا دیا‘

    بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں وزیراعظم بننے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی فیملی کو آرمی چیف ہاؤس خالی کرنے کا حکم دے دیا‘
    جنرل ضیاء الحق کے خاندان کے پاس کوئی ذاتی گھر نہیں تھا۔
    بیگم شفیقہ ضیاء نے نوازشریف سے رابطہ کیا‘
    نواز شریف نے بیگم صاحبہ کو یہ مشورہ دے کر ٹال دیا ’’آپ کرائے پر کوئی گھر لے لیں‘‘
    میری والدہ کو پتہ چلا تو انھوں نے ہم سے ویسٹریج راولپنڈی کا گھر خالی کرایا اور یہ گھر ضیاء الحق خاندان کے حوالے کر دیا‘
    ہم نے اسلام آباد میں کرائے کا گھر لے لیا‘ ضیاء خاندان ساڑھے تین سال ہمارے گھر میں رہا‘یہ لوگ اپنا گھر تعمیرہونے کے بعد شفٹ ہوئے‘ چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:

    اسلامی جمہوری اتحاد
    (آئی جے آئی) 1990ء میں میاں نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں بنانا چاہتا تھا‘ آئی جے آئی کا خیال تھا وزیراعظم چھوٹے صوبے سے ہونا چاہیے
    لیکن آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے کور کمانڈرز کی میٹنگ میں یہ کہہ کر نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا
    ’’یہ سوچ غلط ہے کہ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود کسی پنجابی کو وزیراعظم نہیں ہونا چاہیے‘ اگر نواز شریف کو مطلوبہ تعداد میں ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے تو ان کے وزیراعظم بننے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔

    یوں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بن گئے‘
    • وزیراعظم بننے کے بعد میاں محمد شریف کے وعدے کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے ساتھ تیسری بار دھوکا ہو گیا‘
    • نواز شریف نے غلام حیدر وائیں کو کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بنا دیا‘
    • چوہدری صاحب نے انکشاف کیا‘ جنرل آصف نواز کے بعد میاں نواز شریف اپنا آرمی چیف لانا چاہتے تھے‘
    • چوہدری نثار کور کمانڈر راولپنڈی جنرل غلام محمد ملک
    • اور جنرل مجید ملکجنرل رحم دل بھٹی کے حق میں تھے۔
    • میں نے مشورہ دیا ‘ آپ میرے تیرے جنرل کے چکر میں نہ پڑیں‘ سینئر ترین جنرل کو چپ چاپ آرمی چیف بنا دیں
    • لیکن یہ نہ مانے اور یوں صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف بنا دیا‘ چوہدری صاحب نے انکشاف کیا۔
    میاں شہباز شریف 1993ء میں پنجاب کے اپوزیشن لیڈر تھے‘
    یہ وزیراعلیٰ منظور وٹو سے گھبرا کر کمر درد کا بہانہ کر کے لندن چلے گئے اور میاں صاحبان نے چوہدری پرویز الٰہی کو اس مشکل وقت میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا‘
    لندن جانے سے پہلے میاں شہباز شریف نے پرویز الٰہی کو اپنے گھر بلایا‘ شہباز شریف کے وکیل آفتاب فرخ بھی وہاں موجود تھے۔
    شہباز شریف نے جب پرویز الٰہی کو اپنی بیماری کے بارے میں بتایا تو آفتاب فرخ نے ہنس کر کہا ’’میاں صاحب آپ کم از کم پرویز الٰہی کو تو سچی بات بتا دیں‘ آپ مقدمات سے بچنے کے لیے لندن بھاگ رہے ہیں‘‘۔

    (باقی کل ملاحظہ کیجیے)
    جاوید چوہدری
    جمعرات ۱۹ اپریل ۲۰۱۸
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    شریفوں میں ایک صفت ہے کہ یہ سچ نہیں بولتے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ملک بھی بیچنے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔
     
    کنعان نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    یہ تمام باتیں تو اس وقت کی ہیں جب نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ تھے اور ان کو فوج کا مکمل آشیرواد حاصل تھا
    اس لئے ہمارے خیال سے فوج کی مرضی کے بغیر نواز شریف کوئی بھی فیصلہ نہیں کرسکتے تھے چاہے وہ غلط ہو یا صحیح
     
  5. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    چوہدری شجاعت کی کتاب

    چوہدری شجاعت حسین نے ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں مزید لکھا‘ میاں محمد شریف 1997ء کے الیکشن سے پہلے بھی ہمارے گھر تشریف لائے‘ میری والدہ سے ملاقات کی اور کہا ’’میرا خاندان آپ کا احسان مند ہے‘ آپ لوگوں نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔

    ہمارے لیے جیل بھی کاٹی‘ میں نے فیصلہ کیا ہے الیکشن کے بعد جب میاں نواز شریف وزیراعظم بنیں گے تو پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے‘ یہ نہیں ہو سکتا ایک بھائی وزیراعظم ہو اور دوسرا بھائی وزیراعلیٰ‘ انشاء اللہ اس بار اقتدار کا ہما آپ کے بچوں کے سر پر ضرور بیٹھے گا‘‘ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا لیکن الیکشن میں اکثریت کے بعد نواز شریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ بن گئے۔

    ہمارے ساتھ ایک بار پھر وعدہ خلافی ہو گئی‘ چوہدری صاحب نے انکشاف کیا‘ ہماری حکومت میں چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے فون بھی ٹیپ ہوتے تھے اور ان کی سائیڈ ٹیبل کے نیچے ریکارڈنگ ڈیوائس بھی تھی‘ چیف جسٹس نے ریکارڈنگ ڈیوائس کے ساتھ پریس کانفرنس کا فیصلہ کیا‘ نواز شریف پریشان ہو گئے‘ میں نے بڑی مشکل سے چیف جسٹس کو منایا‘ میاں نواز شریف چیف جسٹس کو پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی میں بلا کر سرزنش بھی کرانا چاہتے تھے اور جیل میں بھی بند کرنا چاہتے تھے‘ گوہر ایوب نے انھیں بڑی مشکل سے روکا۔

    چوہدری شجاعت نے انکشاف کیا 28 نومبر 1997ء کو سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تو میاں شہباز شریف حملہ آوروں کو اسپیکر پر کہہ رہے تھے تمام کارکن پنجاب ہاؤس سے کھانا کھا کر جائیں‘ وہاں قیمے والے نانوں کا بندوبست کر دیا گیا ہے‘ چوہدری صاحب نے انکشاف کیا‘ 12 اکتوبر 1999ء کو غوث علی شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ اور رانا مقبول احمد (یہ مارچ 2018ء میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ووٹوں سے سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں) آئی جی تھے۔

    میاں نواز شریف نے غوث علی شاہ کو حکم دیا آپ خود کراچی ائیرپورٹ جائیں اور جب جنرل پرویز مشرف کا جہاز لینڈ کرے تو آپ اسے اپنے سامنے گرفتار کروائیں‘
    آئی جی رانا مقبول نے چیف منسٹر کو کہا‘ ہم ائیرپورٹ چلتے ہیں‘
    ہم اگر جنرل مشرف کو گرفتار کر سکے تو ٹھیک ورنہ ہم کہیں گے سر ہم آپ کے استقبال کے لیے آئے ہیں‘
    یہ دونوں ائیرپورٹ پہنچے‘ وہاں فور اسٹار گاڑی کھڑی تھی‘ گاڑی دیکھ کر رانا مقبول احمد غائب ہو گئے۔

    میاں برادران جب دسمبر 2000ء میں سعودی عرب جا رہے تھے تو غوث علی شاہ لانڈھی جیل میں ان کے ساتھ تھے‘ غوث علی شاہ نے میاں شہباز شریف سے پوچھا‘ آپ کہاں جا رہے ہیں‘ شہباز شریف نے جواب دیا‘ میں کسی سے ملنے جا رہا ہوں‘ ایک دو گھنٹے میں واپس آ جاؤں گا لیکن غوث علی شاہ نے بعد ازاں ٹیلی ویژن پر میاں برادران کو سعودی جہاز پر سوار ہوتے دیکھا تو یہ حیران رہ گئے۔

    یہ واقعہ غوث علی شاہ نے خود مشاہد حسین سید کو سنایا اور کہا ’’شاہ صاحب کیا اس جہاز میں ہمارے لیے ایک سیٹ بھی نہیں تھی‘‘ چوہدری صاحب نے انکشاف کیا‘ جنرل مشرف نے مجھے بتایا‘ 12 اکتوبر کے ٹیک اوور سے پہلے میاں محمد شریف نے مجھے رائے ونڈ بلایا تھا‘میاں صاحب نے مجھے وہاں اپنا چوتھا بیٹا بنا لیا
    میں نے جنرل مشرف کو بتایا‘ آپ سے ملاقات کے بعد بڑے میاں صاحب نے ہمیں بلا کر کہا تھا’’میں نے نواز شریف کو کہہ دیا ہے جنرل مشرف کو فوراً فارغ کر دو‘ میں نے اس کی آنکھیں دیکھی ہیں‘ یہ بڑی خطرناک آنکھیں ہیں‘‘۔ چوہدری صاحب نے انکشاف کیا۔

    ہم نے اعجاز حسین بٹالوی کو میاں نواز شریف کا وکیل کر کے دیا تھا‘ میاں نواز شریف نے جدہ جانے سے پہلے حمزہ شہباز کے ذریعے اعجاز حسین بٹالوی کو اٹک قلعہ بلوایا اور انھیں دس سال کے معاہدے کی کاپی دکھائی‘ بٹالوی صاحب نے کاپی دیکھ کر کہا‘ میاں صاحب آپ نے اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دیے ہیں‘ میاں نواز شریف کے ساتھ جیل میں کسی قسم کی بدسلوکی نہیں ہوئی۔

    یہ دن میں تین مرتبہ اپنی مرضی کا کھانا کھاتے تھے‘ میجر ان کے پاس باقاعدہ مینیو لے کر آتا تھا‘ ہماری حکومت کے دوران پاکستان میں رہ جانے والے شریف خاندان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی‘ حمزہ شہباز ہمیں فون کرتے تھے اور ان کا مسئلہ چند منٹوں میں حل ہوتا تھا‘ ان کے ملازمین اور گارڈز کو تنخواہیں تک ملتی تھیں‘ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی حمزہ شہباز کی شوگر مل کے گنے تک کے ایشو حل کرتے تھے۔

    نواز شریف کی والدہ ’’ای سی ایل‘‘ پر تھیں‘ یہ جدہ جانا چاہتی تھیں‘ ایف آئی اے نے انھیں روک لیا‘ انھوں نے مجھے کراچی ائیر پورٹ سے فون کیا‘ وہ جب تک جہاز میں سوار نہ ہو گئیں میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھا۔ آپ جوں جوں یہ کتاب پڑھیں گے آپ کو یہ کتاب شریف برادران پر پاناما سے بڑا تودا بن کر گرتی نظر آئے گی‘ یہ ان کے کردار کو مشکوک کرتی دکھائی دے گی‘ اس کا کس کو فائدہ ہو گا ہم اس کا فیصلہ مستقبل کے مورخ پر چھوڑتے ہیں۔

    چوہدری شجاعت حسین نے کتاب میں بے شمار دلچسپ واقعات بھی تحریر کیے‘ مثلاً چوہدری صاحب نے لکھا‘ پاکستان میں لیلین (بریزے) کا کپڑا تایا چوہدری منظور الٰہی (چوہدری پرویز الٰہی کے والد) اور والد چوہدری ظہور الٰہی نے متعارف کرایا‘ چوہدری ظہور الٰہی حالات کی وجہ سے پولیس میں کانسٹیبل بھی بھرتی ہوئے‘ جنرل ضیاء الحق کی حکومت شیخ رشید کو کوڑے مارنے لگی تھی‘ چوہدری ظہور الٰہی تہجد کے وقت جنرل ضیاء الحق کے گھر پہنچے یوں شیخ رشید کوڑوں سے بچ گئے۔

    وزیراعظم محمد خان جونیجو نے صدر ضیاء الحق کے مالی کو ایکسٹینشن دینے سے انکار کر دیا تھا‘ یہ واقعہ بھی جونیجو حکومت کے خاتمے کا باعث بنا‘ جونیجو حکومت کا فوج سے رویہ اچھا نہیں تھا‘ وزیراعظم نے سیکریٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن کو ہٹا دیا‘ صدر ضیاء چین کے دورے پر جا رہے تھے‘ وزیراعظم نے صدر کا ایک فوٹوگرافر کم کر دیا۔

    تحائف کے لیے لے جانے والے قالین بھی کم کر دیے گئے اور وزیر دفاع رانا نعیم نے ایک جنرل کو اپنے دفتر بلایا اور سامنے سے کرسی اٹھوا دی‘ جنرل دیر تک کھڑا رہا‘ یہ تمام واقعات جونیجو حکومت کی برطرفی کی وجہ بنے تاہم جونیجو حکومت کے خاتمے پر مطمئن تھے‘ صدر نے انھیں سرکاری جہاز پر کراچی جانے کی پیشکش کی لیکن جونیجو نے معذرت کر لی۔

    بینظیر بھٹو نے 1990ء میں اپنی حکومت بچانے کے لیے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو صدر غلام اسحاق خان کے پاس بھجوایا‘ صدر نے امریکی سفیر کو بتایا‘ میں حکومت ختم نہیں کر رہا لیکن صدر نے اسی شام حکومت برطرف کر دی‘
    بینظیر نے صدر سے پوچھا‘ آپ نے صبح کہا تھا میں حکومت برطرف نہیں کر رہا‘
    غلام اسحاق خان نے جواب دیا‘ میں نے یہ فیصلہ دوپہر کے بعد کیا تھا‘
    مولانا فضل الرحمن 2002ء میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔

    صدر مشرف‘ میر ظفر اللہ جمالی کو سست سمجھتے تھے‘ ان کا کہنا تھا‘ وزیراعظم 12 بجے اٹھتے ہیں‘ فائلیں ڈیلے ہوتی ہیں اور امریکا کے دورے کے بارے میں بھی انھوں نے غلط بتایا چنانچہ میں انھیں تبدیل کرنا چاہتا ہوں‘ میں 45 دن کے لیے وزیراعظم تھا‘ حکومت نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شوکت عزیز کو بلٹ پروف گاڑی دے رکھی تھی‘ ایوان صدر نے یہ گاڑی واپس مانگ لی‘ میں نے ملٹری سیکریٹری کو کہا‘ آپ ایوان صدر کو ٹال دیں۔

    شوکت عزیز پر اگلے دن اٹک میں خودکش حملہ ہو گیا‘ وہ گاڑی اگر واپس چلی جاتی تو شوکت عزیز حملے میں مارے جاتے‘ میں نے اکبر بگٹی اور جنرل مشرف کی ملاقات کا بندوبست کیا لیکن یہ ملاقات عین وقت پر منسوخ ہو گئی جس کے بعد اکبر بگٹی کو قتل کر دیا گیا‘ افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس میں نے بنوایا تھا‘ میں انھیں اپنے ساتھ ایوان صدر لے کر گیا تھا‘ افتخار محمد چوہدری نے جنرل مشرف اور طارق عزیز کو یقین دلایا وہ ان کے اعتماد پر پورے اتریں گے‘ یہ ان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کریں گے‘ جنرل مشرف مطمئن ہو گئے اور یوں افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس بن گئے۔

    میں نے چیف جسٹس کو صلح کے لیے منا لیا تھا لیکن شوکت عزیز نے عین وقت پر چیف جسٹس کے گھر سے سرکاری گاڑیاں منگوا کر معاملہ بگاڑ دیا‘ لال مسجد کے ایشو پر شوکت عزیز نے کہا تھا ’’اچھا ہے میڈیا کی توجہ عدلیہ سے ہٹ جائے گی‘‘ اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر محمد علی درانی نے بھی وزیراعظم کے خیالات سے اتفاق کیا‘ این آر او جنرل مشرف کی طرف سے بینظیر اور امریکا کو ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ تھا‘ 2008ء کے الیکشن فکسڈ تھے‘۔

    مجھے الیکشن کے دن صدر مشرف نے فون کر کے کہا ’’آپ کو 45 نشستیں ملیں گی‘ آپ انھیں قبول کر لیجیے گا‘‘ تین امریکی سینیٹرز جوبائیڈن جان کیری اور چک ہیگل الیکشن سے پہلے پرویز الٰہی سے ملے اور کہا ’’آپ کی پارٹی الیکشن جیت گئی تو ہم نتائج تسلیم نہیں کریں گے‘‘ ہم 2008ء کے الیکشن کے بعد بلوچستان میں حکومت بنا سکتے تھے لیکن ہمیں جنرل پرویز مشرف نے روک دیا۔

    ہم نے وجہ پوچھی تو جنرل مشرف نے کہا‘ میں آصف علی زرداری کو ’’کمفرٹ لیول‘‘ دینا چاہتا ہوں‘ الیکشن کے ایک سال بعد رچرڈ آرمٹیج لاہور میں ہم سے ملے‘ ہم نے 2008ء کے الیکشن کا ذکر کیا تو رچرڈ آرمٹیج نے بتایا ’’آپ کو الیکشن میں آپ کے دو دوستوں جنرل پرویز مشرف اور طارق عزیز نے ہروایا تھا‘‘ اور آخری بات’’الیکشن کے بعد آصف علی زرداری نے مجھے پارٹی کی قیادت سے ہٹوانے کی کوشش کی‘ حامد ناصر چٹھہ‘ زرداری صاحب سے ملے تو زرداری صاحب نے کہا‘ میں چوہدری شجاعت کو نہیں‘ میں جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانا چاہتا ہوں‘ یہ مستعفی نہ ہوئے تو ہم ان کے خلاف مواخذے کی تحریک لائیں گے‘ یہ بات جب جنرل مشرف کے نوٹس میں آئی تو انھوں نے زیر لب آصف علی زرداری کے خلاف ایسے کلمات کہے جو درج نہیں کیے جا سکتے‘‘

    جاوید چوہدری
    جمعہء 20 اپريل 2018
    شکریہ ایکسپریس نیوز


     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    مریم نواز کا میڈیا سیل اس کتاب کے متعلق پتہ نہیں کتنا پیگنڈا کر چکا ہو گا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں