1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رفیق اعلیٰ کی جانب

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏10 جون 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    الوداعی آثار
    جب دعوت دین مکمل ہو گئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات و احساسات، احوال و ظروف اور گفتار و کردار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حیات مستعار کو اور اس جہان فانی کے باشندگان کو الوداع کہنے والے ہیں۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان 10ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا جب کہ ہمیشہ دس دن ہی اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو اس سال دو دفعہ قرآن مجید کا دور کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دور کرایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا مجھے معلوم نہیں شاید میں اس سال کے بعد اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں۔ جمرہ عقبہ کے پاس فرمایا مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو کیونکہ میں اس سال کے بعد غالبا حج نہ کر سکوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایام تشریق کے وسط میں سورہ نصر نازل ہوئی اور اس سے آپ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے اور یہ موت کی اطلاع ہے۔
    اوائل صفر 11ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دامن احد تشریف لے گئے اور شہدا کے لیے اسی طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہوں۔ پھر واپس آکر منبر پر فروکش ہوئے اور فرمایا میں تمہارا میر کارواں ہوں اور تم پر گواہ ہوں۔ بخدا میں اس وقت اپنا حوض (حوض کوثر)دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اور بخدا مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا طلبی میں باہم مقابلہ کرو گے۔ (متفق علیہ۔ بخاری 2\585)
    ایک روز نصف رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع تشریف لے گئے اور اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی۔ فرمایا اے قبر والو! تم پر سلام! لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکروں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں اور بعد والا پہلے والے سے زیادہ برا ہے۔ اس کے بعد یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔

    مرض کا آغاز

    29 صفر 11ھ روز دوشنبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے۔ واپسی پر راستے ہی میں درد سر شروع ہو گیا اور حرارت اتنی تیز ہو گئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت 13 یا 14 دن تھی۔

    آخری ہفتہ

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جا رہی تھی۔ اس دوران آپ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا؟ میں کل کہاں رہوں گا؟ اس سوال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقصود تھا ازواج مطہرات اسے سمجھ گئیں چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں رہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں منتقل ہو گئے۔ منتقل ہوتے ہوئے حضرت فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کا سہارا لے کر درمیان میں چل رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی تھی اور پاؤں مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اسی کیفیت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں تشریف لائے اور پھر حیات مبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گزارا۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا معوذ ذات اور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دم کرتی رہتی تھیں اور برکت کی امید میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر پھیرتی رہتی تھیں۔

    وفات سے پانچ دن پہلے

    وفات سے پانچ دن پہلے روز چہار شنبہ (بدھ ) کو جسم کی حرارت میں مزید شدت آگئی جس کی وجہ سے تکلیف بھی بڑھ گئی اور غشی طاری ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر مختلف کنووں کے سات مشکیزے بہا ؤتاکہ میں لوگوں کے پاس جا کر وصیت کر سکوں ۔ اس کی تکمیل کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک لگن میں بٹھا دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اتنا پانی ڈالا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”بس ۔بس “ کہنے لگے۔
    اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تخفیف محسوس کی اور مسجد میں تشریف لے گئے --------- سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی --------- منبر پر فروکش ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا۔ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین )گردا گرد جمع تھے۔ فرمایا ”یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ------ کہ انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مساجد بنایا “۔
    ایک روایت مین ہے یہود و نصاری پر اللہ کی مار ، کہ انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ” تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے“۔ (صحیح بخاری 1\62، موطا امام مالک صفحہ 65)
    پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا ”میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے وہ بدلہ لے لے۔ اور کسی کی بے آبروئی کی ہو تو یہ میری آبرو حاضر ہے وہ بدلہ لے لے“ ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور عداوت وغیرہ سے متعلق اپنی پچھلی باتیں دھرائیں۔ ایک شخص نے کہا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا انہیں ادا کردو۔ اس کے بعد انصار کے بارے میں وصیت فرمائی۔ فرمایا؛
    میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں ۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ لہذا ان کے نیکوں کاروں سے قبول کرنا اور ان کے خطا کاروں سے در گزر کرنا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہو جائیں گے۔ لہذا تمہارا جو آد می کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی ہو تو وہ ان کے نیکو کاروں سے قبول کرے اور ان کے خطا کاروں سے درگزر کرے۔ (صحیح بخاری 1\ 536)
    اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے دے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کر لے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کر لیا“۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ بات سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ۔ اس بات پر ہمیں تعجب ہوا۔ لوگوں نے کہا اس بڈھے کو دیکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کے بارے میں یہ بتا رہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو چاہے اللہ اسے دے دے یا وہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کر لے اور یہ بڈھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان۔ (لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ )جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔
    پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحب احسان ابو بکر ہیں۔ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا۔ لیکن (ان کے ساتھ ) اسلام کی اخوت و محبت (کا تعلق) ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازما ً بند کر دیا جائے سوائے ابو بکر کے درازے کے ۔(متفق علیہ مشکوہ 2 \546،554۔ صحیح بخاری 1\ 516)

    چار دن پہلے

    وفات سے چار دن پہلے جمعرات کو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیف سے دوچار تھے فرمایا ”لا ؤمیں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہو گے“۔ اس وقت گھر میں کئی آدمی تھے جن میں حضرت عمر صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے۔ بس یہ اللہ کی کتاب تمہارے لیے کافی ہے۔ اس پر گھر کے اندر موجود لوگوں میں اختلاف پڑ گیا اور وہ جھگڑ پڑے۔ کوئی کہہ رہا تھا لا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ دیں اور کوئی وہی کہہ رہا تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ اس طرح لوگوں نے جب زیادہ شور و شغب اور اختلاف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے پاس سے اٹھ جا ؤ “۔ (متفق علیہ صحیح بخاری 1\22، 429، 449، 2\ 638)
    پھر اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک اس بات کی وصیت کہ یہود و نصاری اور مشرکین کو جزیرہ العرب سے نکال دینا۔ دوسرے اس بات کی وصیت کی کہ وفود کی اسی طرح نوازش کرنا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ البتہ تیسری بات کو راوی بھول گیا غالبا یہ کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی وصیت تھی یا لشکر اسامہ کو روانہ کرنے کی وصیت تھی۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تھا کہ ”نماز اور تمہارے زیر دست “ یعنی غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھنا۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی شدت کے باوجود اس دن تک یعنی وفات سے چار دن پہلے (جمعرات ) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے پڑھائی اور اس میں سورۃ والمرسلات عرفا پڑھی۔ (صحیح بخاری 2\ 637)
    لیکن عشا کے وقت مرض کا ثقل اتنا بڑھ گیا کہ مسجد میں جانے کی طاقت نہ رہی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کہا ” نہیں یا رسول اللہ ۔ سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں “۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لیے لگن میں پانی رکھو ۔ ہم نے ایسا ہی کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا اور اس کے بعد اٹھنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئ۔ پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ؛ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کہا ”نہیں یا رسول اللہ ! سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں “۔ اس کے بعد دو بارہ اور پھر سہہ بارہ وہی بات پیش آئی جو پہلی بار پیش آچکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا ‘ پھر اٹھنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی ۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان ایام میں نماز پڑھائی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ان کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے ۔ (متفق علیہ ۔ مشکوٰۃ 1/ 102)
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین یا چار بار مراجعہ فرمایا کہ امامت کا کام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بجائے کسی اور کو سونپ دیں ۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ لوگ ابو بکر کے بارے میں بدشگون نہ ہوں ‘ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار انکار فرما دیا اور فرمایا ” تم سب یوسف والیاں ہو ابو بکر کو حکم دو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں “۔

    ایک دن یا دو دن پہلے

    ہفتہ یا اتوار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی ‘ چنانچہ دو آدمیوں کے درمیان چل کرظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے ۔ اس وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے ۔ وہ آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں اور لانے والوں سے فرمایا کہ مجھے ان کے بازو میں بٹھا دو ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بائیں بٹھا دیا گیا ۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تکبیر سنا رہے تھے۔ (صحیح بخاری 1/ 98, 99)

    ایک دن پہلے

    وفات سے ایک دن پہلے بروز اتوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد فرمادیا ۔ پاس میں سات دینار تھے انہیں صدقہ کردیا ۔ اپنے ہتھیار مسلمانوں کو ہبہ فرما دئیے ۔ رات میں چراغ جلانے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تیل پڑوسن سے ادھار لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع ( کوئی 75 کلو ) جو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔

    حیات مبارکہ کا آخری دن

    حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ دو شنبہ کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ امامت فرما رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ ہٹایا اور صحابہ کرام پہ جو صفیں باندھے نماز میں مصروف تھے نظرڈالی ۔ پھرتبسم فرمایا ۔ ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیں کے پیچھے ہٹے کہ صف میں جا ملے ۔ انہوں نے سمجھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں ۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے اس اچانک ظہور سے ) مسلمان اس قدر خوش ہوئے کہ چاہتے تھے کہ نماز کے اندر ہی فتنے میں پڑ جائیں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج پرسی کے لئے نماز توڑ دیں )۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کرلو۔ پھر حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ گرا لیا۔ (صحیح بخاری 2 /240)
    اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔
    دن چڑھے چاشت کے وقت آپ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان سے کچھ سرگوشی کی ۔ وہ رونے لگیں ۔ پھر آپ نے انہیں بلایا اور کچھ سر گوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ (پہلی بار ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ اسی مرض میں وفات پائیں گے۔ اس لیے میں روئی۔ پھر آپ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے اہل و عیال میں سب سے پہلے میں آپ کے پیچھے جاؤں گی ۔ اس پر میں ہنسی ۔ (بخاری 2 / 638)
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بشارت بھی دی کہ آپ ساری خواتین عالم کی سیدہ (سردار )ہیں ۔
    اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس شدید کرب سے دوچار تھے اسے دیکھ کر حضرت فاطمہ بے ساختہ پکار اٹھیں وا اکرب اباہ ! ” ہائے اباجان کی تکلیف “۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تمہارے ابا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں “۔ (صحیح بخاری 2/ 641)
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا کر چوما اور ان کے بارے میں خیر کی وصیت فرمائی ۔ ازواج مطہرات کو بلایا اور انہیں وعظ و نصیحت کی۔
    ادھر لمحہ بہ لمحہ تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیبر میں کھلایا گیا تھا۔ چانچہ آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے ” اے عائشہ ! خیبر میں جو کھانا میں نے کھا لیا تھا اس کی تکلیف برابر محسوس کر رہا ہوں ۔ اس وقت مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس زہر کے اثر سے میری رگ جان کٹی جا رہی ہے “۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بھی وصیت فرمائی ۔ فرمایا ” الصلاۃ الصلاۃ وما ملکت ایمانکم “نماز, نماز, تمہارے زیر دست(یعنی لونڈی غلام )۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الفاظ کئی بار دہرائے۔

    نزع رواں

    پھر نزع کی حالت شروع ہو گئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اوپر ٹیک لگوادی۔ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی ایک نعمت مجھ پر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں، میری باری کے دن ، میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے وفات پائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے وقت اللہ نے میرا لعاب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب اکٹھا کر دیا۔ ہوا یہ کہ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم آپ کے پاس تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ آپ مسواک چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا " آپ کے لیے لے لوں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں۔ میں نے مسواک لے کر آپ کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کڑی محسوس ہوئی۔ میں نے کہا اسے آپ کے لیے نرم کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے اشارے سے کہا ہاں۔ میں نے مسواک نرم کردی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اچھی طرح مسواک کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کٹورے میں پانی تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے " لا الٰہ ال اللہ " اللہ کے سواکوئی معبود نہیں۔ موت کے لیے سختیاں ہیں۔ (صحیح بخاری2/640)
    مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ یا انگلی اٹھائی‘ نگاہ چھت کی طرف بلند کی اور دونوں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کان لگایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے " ان انبیاء ‘صدیقین‘ شہداء اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔ اے اللہ !مجھے بخش دے ‘ مجھ پر رحم کر اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے۔ اے اللہ رفیق اعلےٰ "۔
    آخری فقرہ تین بار دہرایا اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا اور آپ رفیق اعلیٰ سے جالا حق ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
    یہ واقعہ 12 ربیع الاول 11ھ یوم دوشنبہ کو چاشت کے وقت پیش آیا۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال چار دن ہو چکی تھی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں