1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ناصر کاظمی، ۔۔۔۔۔۔ باصر سلطان کاظمی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏9 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ناصر کاظمی، ۔۔۔۔۔۔ باصر سلطان کاظمی


    اُن کے بارش اور دریا جیسے لفظوں میں سمندر جیسی گہرائی ہوتی تھی
    پھر ایک روز دل کی صورت کا ایک پتہ ،سربکف لوگوں کے ہار،چاند ، دل میں جلتا سورج ،سورج کے دل میں کانٹااور کاغذی پیکر کے دل میں چنگاری، سب سمجھ میں آ گیا
    آج اردو زبان کے معروف شاعر سید ناصر حسین کاظمی کاجنم دن ہے۔وہ 8دسمبر 1925ء کو انبالہ میں پیدا ہوئے ۔ قیام پاکستان کے بعد اگست 1947ء میں پاکستان آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ اپنی زندگی شاعری کے لئے وقف کر دی ، ان کے الفاظ سادہ ہوتے ۔ چاند، رات، بارش، موسم، یاد، تنہائی ، دریا۔۔ یہ تمام الفاظ ان کی شاعری کی خاص پہچان ہیں ۔لیکن انہی معمولی سے الفاظ میں سمندر جیسی گہرائی ہوتی۔پہلی بارش، برگ نے، ہجر کی رات کا ستارہ اور نشاط خواب ان کے مجموعہ کلام ہیں۔ان کی گہری فلسفیانہ معنی رکھنے والی شاعری میں زندگی کے معنی بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ان کی شاعری، شاعر کی معنویت اور فلسفہ زندگی پر مبنی ان کے بیٹے کا ایک مضمون ذیل میں شائع کیاجا رہا ہے۔

    میں سکول میں پڑھتا تھا ، نیا نیا شعر کہنا سیکھا تھا، میرا ایک محبوب مشغلہ پاپا کے کمرے میں ان کی غیر موجودگی میں نئے اور پرانے رسالوں کو کھنگالنا تھاایک روز ’’نیا دور‘‘ رسالے میں پاپا کی ایک ساتھ کئی غزلیں ملیں۔ان کے بارے میں انوکھی بات یہ تھی کہ یہ سب کی سب ایک ہی زمین میں تھیں۔ حیرت تھی کہ پاپا جو ایک غزل میں ایک قافیہ ایک سے زیادہ بار استعمال کرنے سے گریز کرنے کو کہا کرتے تھے، خود ایک ہی زمین میں اتنی غزلیں کہہ گئے۔اور کئی قافیے کئی کئی دفعہ استعمال کئے۔اچھنبے کی دوسری بات یہ تھی کہ ان کی غزلوں کی زبان اس قدر سادہ تھی کہ پہاڑ اور گلہری ، اور گائے بکری کی یاد تازہ ہو گئی۔اور لب و لہجہ روزمرہ کی گفتگو کے اتنا قریب تھا کہ لگتا جیسے نثر کو اوزان کا پابند کر دیا گیا ہو۔شعر کہنا بہت آسان دکھائی دینے لگا۔کئی بار تو بے اختیارہنسی بھی آ گئی۔

    سینے پر دو کالی کلیاں

    پیٹ کی جھیل میں کنول کھلا تھا

    پاپا ریڈیو سٹیشن سے لوٹے تو میں نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ ’’پاپا؛ کچھ غزلیں پڑھیں آج، اوپر آپ کا نام تھا آپ ہی کی ہیں؟‘‘۔ ہاں ہاں، میری ہیں بالکل میری۔۔ کیوں؟۔بہت سیدھی غزلیں ہیں پھیکی پھیکی ۔ کچھ زیادہ ہی آسان اور سادہ ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’کوئی بھی لکھ سکتا ہے بات نہیں بنی‘‘۔اب سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ پاپا سے میں نے ان کے پہلے مجموعہ کلام ’’پہلی بارش‘‘ کے بارے میں یہ بات کیسے کہہ دی۔ پھر جہالت کو معصومیت کا نام دے کر دل کوتسلی دیتا ہوں۔ ان کا رد عمل ایسا تھا کہ وہ کچھ سمجھانے کی بجائے کچھ کہنے کو جیسے بے سود سمجھ رہے ہوں۔مذکورہ واقعے کے بعداپنی وفات سے پہلے انہوں نے اپنا کلام اکھٹا کرنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ڈائری کے پہلے صفحے پر وہی نظمیں درج کر رہے تھے جو میرے پاس بھی محفوظ تھیں۔ اب مجھے یہ محسوس ہوا کہ ان کا یہ مجموعہ ان کے دوسرے مجموعوں سے کہیں مختلف تھا جن سے میں پہلے واقف تھا۔ پاپا اکثر میرا امتحان لیا کرتے تھے۔ ایک روز رات کو اپنے لکھنے پڑھنے کے اوقات میں مجھے بلایا اور پوچھا، اس شعر کے کیا معنی تمہاری سمجھ میں آتے ہیں؟

    دل کی صورت کا ایک پتہ

    تیری ہتھیلی پر رکھا تھا

    میں سوچنے لگا، پان کا پتہ میرے ذہن میں آ رہا تھا۔لیکن غزل کے شعر کے معنی ایک پہیلی کے حل کی طرح بتاتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔

    ’’دل کی صورت کا پتہ نہیں دیکھا کبھی‘‘؟

    ’’پان‘‘ میں نے فوراََ جواب دیا۔

    ٹھیک اب شعر دیکھو!

    کاغذ کے دل میں چنگاری

    خس کی زباں پر انگارہ تھا

    ’’سیگریٹ ، ماچس؟‘‘

    خوب۔اب یہ شعر

    چاند کے دل میں جلتا سورج

    سورج کے دل میںکانٹا تھا

    یہ، میں نہ بوجھ سکا۔آخر انہوں نے خود ہی بتا دیا فرائڈ انڈہ۔

    تو کیا پہیلیاں ہیں؟

    ہاں پہلیاں بھی ہیں؟وہ مسکرانے لگے۔

    پھر پاپا کا یہ شعر ذہن میں پھرنے لگا،

    پھول کو پھول کا نشاں جانو

    چاند کو چاند سے ادھر دیکھو

    پھر ایک روز دل کی صورت کا ایک پتہ ان کی ہتھیلی پر رکھا دیکھا۔سربکف لوگوں کے ہار۔پھر وہ چاند ، دل میں جلتا سورج ،سورج کے دل میں کانٹا،کاغذی پیکر کے دل میں چنگاری، سب سمجھ میں آ گیا۔اور خس کی زباں پر انگارہ بھی دیکھا۔اب ان اشعار میں پہیلیاں کم اور کہانیاں زیادہ نظر آنے لگیں۔میرے حیرت کے صحرا میں ان کی کتاب پہلی بارش سے نت نئے گلہائے معنی کھلے۔جن باتوں پرپہلے ہنسی آتی تھی اب ان پرآنسوئوں کے دریا بہتے۔وہ لکھتے ہیں’’ بظاہر یہ شعر آدمی کے سستے اور عمودی جذبات کو اس قدر برانگیختہ کر سکتا ہے کہ معقول قاری کو بھی انکی رو میں بہہ کر اس طرح قہقہے لگانے لگے کہ اپنے مبتذل ہونے پر کوئی شک نہ رہے۔رد عمل کے طور پر ایسا معقول قاری بالکل ویران ہو سکتا ہے، اور انہی ویران لمحوں میں یہ شعر اپنا آپ دکھاتا ہے۔اس میں بھونڈے قہقہوں کی گونج کے ساتھ وہ المناک تجربہ اپنی پوری شدت کے ساتھ سمویا ہوا ہے جس پر دھاڑیں مار مار کر رویا بھی جا سکتا ہے‘‘۔

    صدیوں پرانی روایت ہے کہ شعراء (مغربی و مشرقی) طویل نظم کی ابتداء دیوی دیوتائوں سے خطاب کر کے کرتے تھے۔ ’’پہلی بارش‘‘ اور روایتی طویل نظم کاایک اور مشترک وصف آغاز ہے،

    میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
    پہلے تیرا نام لکھا تھا

    اس شعر کے بارے میں پاپا خود کہا کرتے تھے کہ اس کا شمار چند بہترین حمدیہ اشعار میں ہو گا۔شروع میں ہی پڑھنے والا جان لیتا ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کی تخلیق ہے جو اللہ کو ماننے والا اور اس کی کتاب کا بغور مطالعہ کرنے والا ہے،اللہ ہی کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے وہ قرآنی آیات پڑھ کر تدبر کرتا ہے،اور غور و فکر کے ذریعے ان آیات کو اپنی رگ و پے کاحصہ بنا لیتا ہے۔ وہ آدمی کے مقام اور کائنات میں اس کے کردار سے بخوبی واقف ہے،

    میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے

    بار امانت سر پہ لیا تھا

    میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو

    جن و ملک نے سجدہ کیا تھا

    یہ شخص اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتا ہے،

    پہلی بارش بھیجنے والے

    میں ترے درشن کا پیاسا تھا

    یہ اشعار غزلوں میں بیان کی جانے والی کہانی کے موضوع کی طرف ایک اشارہ ہیں۔

    یہاں اگرمیں یہ کہوں کہ پاپا کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی تھی توبے جا نہ ہوگا۔اپنے دعوے کی حمایت میں ان کے دو بیانات درج کرتا ہوں۔’’سویرا‘‘ کے ایک مذاکرے میں وہ لکھتے ہیں، ’’میں عصر کے قرآنی معنی پر توجہ دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔ میں ادب کے معاملے میں قرآن مجید کا ذکر کرتا ہوں۔تو میری گزارش ہے کہ میں اپنی زبان کے بعض لفظوں کے معنی پر زور دیتاہوں ‘‘۔

    اپنی زندگی کے آخری ایام میں ٹیلی ویژن کے لئے انتظار حسین کو انٹرویو دیتے ہوئے لائیے، میں تمہیں کچھ اشعار سناتا ہوں،یہ غزل، اس میں تھوڑی سی خطابت بھی ہے۔مگر یہ غزل بعض وجوہ سے مجھے بہت پسند ہے۔ طلوع غروب کے مناظر ہیں۔ حیرت وعبرت ہے، کہ دنیا میں کیاہوتا ہے، کس طرح چیزیں ڈوبتی ہیں کس طرح ابھرتی ہیں۔ کس طرح صبح شامیں ہوتی ہیں، اور قرآن کریم پڑھنے والوں کے لیے بھی،

    ساز ہستی کی صدا غور سے سن
    کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن

    کیوں ٹھہرجاتے ہیں دریاسر شام
    روح کے تار ہلا، غور سے سن

    یاس کی چھائوں کی سونے والے
    جاگ اور شوردرا غور سے سن

    کبھی فرصت ہو تو اے صبح جمال
    شب گزیدوں کی دعا غور سے سن

    کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
    کیا سناتی ہے صبا، غور سے سن

    دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
    میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن

    ان کے اشعار کہتے ہیں کہ انسان دنیا میں نہ صرف اکیلا آتا ہے اور یہاں سے اکیلا جاتا ہے،بلکہ وہ یہاں رہتا بھی اکیلا ہے۔اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد اپنے اندر جھانک کر اپنی ذات کی مسلسل نشو و نما کرتے رہنے سے ہی ہو سکون کی منزل (یا جنت) تک پہنچ سکتا ہے۔انسان کی ضرورتیں اسے دوسروں کے پاس لے جاتی ہیں اور ان سے جدا بھی کرتی ہیں۔ہر تعلق اور دوستی کی ایک معیاد ہوتی ہے۔ان کا شعر پڑھیے،

    دوست بچھڑے جاتے ہیں
    شوق لیے جاتا ہے دور

    ۔۔

    اب ان سے دور کابھی واسطہ نہیں ناصر
    وہ منوا جو مرے رتجگوں میں شامل تھے

    اب یہ عظیم شاعر بھی ہمارے درمیان موجود نہیں ہے،لیکن ان کے کبھی نہ بھولنے والے اشعار ان سے ہمارا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی نہ ٹوٹنے والا انمٹ رشتہ۔

    مجھے آج بھی پاپا اپنے آس پاس ہی نظر آتے ہیں جیسے ابھی ہاتھ پکڑ کر پوچھیں گے ،بیٹا اس شعر کا آپ کیا مطلب سمجھتے ہو۔اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
    آمین یا رب العالمین

     

اس صفحے کو مشتہر کریں