1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نازک ہاتھوں میں بھاری اوزار تھامے پاکستان کی پہلی خاتون مکینک

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏18 اکتوبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نازک ہاتھوں میں بھاری اوزار تھامے پاکستان کی پہلی خاتون مکینک
    [​IMG]
    عظمیٰ نے مکینکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور ورکشاپ پر ملازمت بھی کررہی ہیں—فوٹو اے ایف پی

    ہاتھوں میں اوزار تھامے گاڑیوں کی مرمت کرتی عظمیٰ نواز کو پاکستان میں عمومی طور پر حیرت زدہ رویے کے سامنا کرنا پڑتا ہے جو بعدازاں احترام میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

    ملتان سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ پہلی خاتون مکینک نے صنفی رجحانات کو مسترد کرتے ہوئے نہ صرف مکینکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی بلکہ اس کے بعد گاڑیوں کے مرمتی گیراج میں ملازمت بھی حاصل کرلی۔

    فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے عظمیٰ نواز کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے خاندان کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے فرسودہ خیالات کے برعکس جا کر اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا، جب لوگ مجھے کام کرتا دیکھتے ہیں تو بہت حیران ہوتے ہیں۔

    پنجاب کے مشرقی حصے کے نواحی گاؤں دنیا پور سے تعلق رکھنے والی اس باہمت لڑکی نے اپنا تعلیمی سفر تعلیمی وظائف کے بل بوتے پر پورا کیا اور تعلیم حاصل کرنے کی لگن میں اگر پیسوں کی کمی ہوئی تو فاقے بھی کیے۔

    [​IMG]
    عظمیٰ کو اپنا شوق پورا کرتے ہوئے دیکھ کر والد بھی خوش ہیں—فوٹو:اے ایف پی


    خیال رہے کہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں جہاں خواتین کو اپنے حقوق کے لیے بھی جدو جہد کرنے پڑتی ہے اور عموماً دیہی علاقوں میں کم عمری میں شادیاں کر دی جاتی ہیں وہاں عظمیٰ نواز کی یہ کامیابی حیران کن ہے۔

    پر عزم آواز میں ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی مشکل میرے حوصلے اور عزم کو توڑ نہیں سکتی، انہی قربانیوں اور مشکلات کو جھیلنے کی بدولت آج میں تعلیم مکمل کر کے ملتان میں ٹویوٹا ڈیلرشپ میں کام کررہی ہوں۔

    ایک سال سے ملازمت کرنے والی عظمیٰ نواز کو ٹائر نکالتے، انجن کا جائزہ لیتے اور اوزاروں سے کام کرتا دیکھ کر گیراج میں آنے والے گاہک کچھ لمحے کے لیے ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔

    اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایک شخص ارشد احمد کا کہنا تھا کہ ایک لڑکی کو بھاری بھرکم ٹائر نکالتے اور گاڑیوں میں واپس لگاتے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔

    دوسری طرف عظمیٰ کے ساتھ کام کرنے والے دیگر افراد اس کی صلاحیتوں سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے وہ تمام کام خود کرتی ہے اسے جو بھی کام دیا جاتا ہے وہ پوری لگن اور ہمت کے ساتھ اسے انجام دیتی ہیں۔

    اس بارے میں عظمیٰ کے والد نواز کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے ورکشاپس میں کام کرنے کی ضرورت نہیں یہ مناسب نہیں لگتا ، لیکن یہ اس کا شوق ہے ، مجھے خوشی ہے کہ وہ اسے پورا کررہی ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں