1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نئے نقشے میں نیا کیا ہے؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏6 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    نئے نقشے میں نیا کیا ہے؟
    map.png
    گزشتہ روز پاکستان نے اپنا نیا سیاسی نقشہ جاری کر دیا۔ اس نقشے کی اہمیت کیا ہے یہ جاننے سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ضروری تاکہ معلوم ہوسکےکہ پاکستان نے آخر یہ نیا نقشہ جاری کیوں کیا۔ گزشتہ سال 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ختم کر دیا اور اس اقدام کے لگ بھگ 3 ماہ بعد، 2 نومبر 2019 کو بھارت نے اپنا نیا سرکاری نقشہ جاری کیا جس میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی یونین ٹیریٹری کے طور پر دکھایا گیا تھا بلکہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی بھارت کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اس نقشے میں بھارت کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہوئی دکھائی گئی ہیں اور یوں بھارت اس نقشے کی مدد سے نہ صرف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر ملکیت کا دعویٰ کیا بلکہ خود کا افغانستان کا ایک ہمسایہ ملک ظاہر کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس اقدام سے بھارت کو جغرافیائی طور پر تو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر ملکیت کا دعویٰ کرکے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں طویل فوجی محاصرے سے توجہ ہٹانے اور خود کو افغانستان کا ہمسایہ دکھا کر کابل میں جاری امن مذاکرات میں خود کو فریق بنانے کی لا حاصل کوشش کی۔

    کچھ عرصہ بعد بھارت اور نیپال کے تعلقات خراب ہوگئے اور ساتھ ہی نئی دلی نے بیجنگ کے ساتھ بھی سینگ اڑاناشروع کردیا۔ نیپال جو ایک عرصے سے بھارت کی طفیلی ریاست کے طور پر پس منظر میں تھا، اچانک بھارت کو آنکھیں دکھانے لگا اور 20 مئی 2020 کونیپالی حکومت نے نیا سرکاری نقشہ جاری کردیا جس میں بھارت کے زیر قبضہ جن علاقوں پر نیپال کا دعویٰ ہے، ان کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا اور یوں بھارت کے ساتھ نیپال کی سرحد ایک متنازعہ سرحد بن کر رہ گئی۔

    یہاں پر کہانی میں چین کی انٹری ہوتی ہے۔ رواں سال مئی کے مہینے میں ہی چین اور بھارت کے درمیان لداخ میں کشیدگی کی خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں اور متعدد بار دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی جس کی تصدیق دونوں جانب سے کی گئی۔ 16 جون 2020 کو بھارتی اور چینی اہلکاروں کے درمیان لائن آف ایکچوئیل کنٹرول کے پاس جھڑپیں ہوئیں جس میں 20 سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے لیکن چین کی جانب سے کسی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوئی۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان ایک جنگی صورتحال پیدا ہوگئی تاہم بھارت نے چین کی عسکری طاقت اور علاقے میں چینی برتری کا اندازہ کرتے ہوئے اپنے 20فوجیوں کی ہلاکت کو پس پشت ڈال کر بات چیت کے ذریعے سرحدی تنازعہ حل کرنے کے کوششیں شروع کردی۔ یہ تنازعہ تاحال جاری ہے اور متعدد بھارتی دعوؤں کے باوجود چینی فوج جہاں تک پیش قدمی کر چکی تھی وہیں ڈٹی ہوئی ہے۔

    اب آتے ہیں پاکستان کے نئے نقشے کی جانب اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نقشے میں نیا کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو نقشہ جاری کیا اس میں اوپر سے لے کر نیچے تک مشرقی سرحد پر متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ سب سے اوپر لداخ کی سرحد پر اکسائے چین اور لداخ کے درمیان سرحدی علاقہ خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی وزراء نے موقف اپنایا کہ یہ نقشہ جاری کرنے سے پہلے چین کے ساتھ طویل مشاورت کی گئی تھی جس میں یہ طے پایا کہ فی الحال اکسائےچین اور لداخ کے درمیان سرحد میں کوئی تقسیم نہیں ہوگی۔ کشمیر کی آزادی کے بعد پاکستان، چین اور کشمیر باہمی گفت و شنید سے اس علاقے میں سرحد کا تعین کریں گے۔

    لداخ سے مشرق کی جانب سیاچین گلیشئرز موجود ہے جہاں 80کی دہائی میں بھارت قابض ہوگیا تھا جبکہ اس سے پہلے یہ علاقہ نومین لینڈ کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا۔ نئے نقشے میں سیاچین کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ سیاچین پاکستان کا حصہ تھا اور رہے گا۔ سیاچین سے مزید مشرق کی جانب جائیں تو گلگت بلتستان کے شمالی اضلاع غزر اور یاسین کو پاکستان کا مستقل حصہ دکھایا گیا ہے اور یہ اضلاع تاریخی طور پر بھی کبھی کشمیر کا حصہ نہیں رہے۔ انگریزوں سے پہلے غزر اور یاسین ریاست چترال کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ مہتر امان المک کی وفات کے بعد جب انگریز چترال میں آئے تو انہوں نے انتظامی طور پر غزر اور یاسین کے ساتھ ساتھ مستوج کو بھی الگ کر کے وہاں اپنے نمائندے مقرر کردیے لیکن بعد ازاں مہتر چترال سر شجاع الملک نے مستوج کو دوبارہ چترال میں ضم کردیا جبکہ غزر اور یاسین کے انتظامی امور گلگت کے حوالے کیے گئے۔ اس اقدام سے بھارت کے اس خواب کو چکنا چور کردیا گیا جو وہ غزر اور یاسین کو اپنا حصہ ظاہر کرکے خود کو افغانستان کا ہمسایہ ملک قرار دینے کی کوشش کر رہا تھا۔

    اس کے علاقہ موجود مقبوضہ جموں، کشمیر اور لداخ کو نئے نقشے میں پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اس علاقے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریفرینڈم ہونا ہے جس کے بعد کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ یوں پاکستان نے مقبوضہ جموں کشمیر پر ملکیت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قرار داروں کی پاسداری بھی کی جن میں وادی کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

    مقبوضہ کشمیر کے علاوہ نئے نقشے میں سرکریک اور جونا گڑھ کوبھی ایک بار پھر پاکستان کے نقشے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ سرکریک سندھ اور بھارتی گجرات کی سرحد پر واقع تقریبا 100 کلومیٹر کا علاقہ ہےجہاں کئی خلیج موجود ہیں۔ 1960میں سرکریک کا تنازع سامنےآیا اور 1965 کی جنگ سےپہلےسرکریک میں ہونےوالی جھڑپوں میں پاکستان کوخاطر خواہ کامیابیاں بھی ملیں تاہم یہ سرحدی تنازع اب تک حل نہ ہوا۔ چند وجوہات کی بنا پر سرکریک پر پاکستان کا دعویٰ پس منظر میں چلا گیا تھا لیکن اس نقشے کے اجراء یہ تنازعہ ایک بار پھر زندہ ہوگیا ہے۔

    جوناگڑھ کامعاملہ زیادہ اہم ہے۔ ریاست جوناگڑھ کے نواب محمد مہابت خان سوم نےستمبر1947میں پاکستان کےساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ نواب کاخیال تھا کہ زمینی سرحد نہ ہونےکےباوجود جوناگڑھ کی سمندری سرحد کراچی سےملتی ہےاس لیے پاکستان سے الحاق کے بعد جغرافیائی مسائل جنم نہیں لیں گے۔ تاہم جوناگڑھ میں ہندؤوں کی اکثریت کوعذربنا کر بھارت نے نومبر1947 میں حملہ کرکےریاست پرقبضہ کر لیا۔ اس وقت پاکستان کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا اور مہاجرین کا مسئلہ الگ سے درد سر بنا ہوا تھا اس لیے جوناگڑھ کی جانب کسی نے توجہ ہی نہیں دی اوریوں بھارت جوناگڑھ پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان نےبھارتی قبضے کا معاملہ سیکیورٹی کونسل میں اٹھایا تاہم آج تک اس پہ کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا اور معاملہ جوں کا توں پڑا ہے۔ نئے نقشے میں جوناگڑھ کو پاکستان کا حصہ دکھا کر اس تاریخی تنازعہ کو دوبارہ منظر عام پر لایا گیا ہے۔

    بظاہر بے ضرر معلوم ہونے والے اس اقدام سے پاکستان نے کئی محاذروں پر بھارت کے لیے چیلنجز پیدا کردیے ہیں۔ پاکستان اگلے اقدام کے طور پر اس نقشے کو اقوام متحدہ میں پیش کرے گا جس کا عندیہ صدر پاکستان عارف علوی نے بھی دیا ہے۔ اگر یہ نقشہ منظوری کے لیے اقوام متحدہ کے سامنے رکھا جاتا ہے تو چین کی حمایت حاصل ہونے کے باعث پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔ پاکستان نے 70سالوں سے جاری اپنے موقف میں تبدیلی کرکے کشمیر سے متعلق اپنی پالیسی کو نئی شکل دی ہے لیکن اس پالیسی شفٹ سے علاقائی جغرافیہ پر کیا اثر پڑتا ہے یہ آنے ولا وقت ہی بتائے گا​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں