1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نئی بوتل اور پرانی شراب

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از عدنان بوبی, ‏29 مئی 2009۔

  1. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    آپ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کے لیے پریشان ہیں اور کوئی آپ کو ایک ایسے رشتے کے بارے میں بتائے جو ہر اعتبار سے موزوں اورہم پلہ ہو تویقیناً آپ بہت خوش ہوں گے۔ لیکن بات چیت کے دوران میں اگر آپ کو علم ہوجائے کہ لڑکا جواری ہے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا۔ بلاشبہ آپ کی خوشیوں پر اوس پڑجائے گی۔ آپ اگر اس سوسائٹی کے ایک نارمل شخص ہیں تو فوراً اس رشتہ سے انکار کردیں گے۔ خواہ اس کے بعد اپنی بچی کو مزید کچھ عرصے کے لیے گھر میں بٹھا کر رکھنا پڑے۔

    آپ ایسا کیوں کریں گے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ جوا ہمارے ہاں ایک مذہبی گناہ بلکہ اس سے بڑھ کر ایک شدید درجے کی معاشرتی برائی ہے۔ اس کے ایک مذہبی اور سماجی عیب ہونے پر معاشرے میں دو آرا نہیں پائی جاتیں ۔ مگر جوئے کے حوالے سے مجھے ایک دلچسپ تجربہ اس وقت ہوا جب میں اٹلانٹک سٹی گیاجو امریکہ میں لاس ویگاس کے بعد جوئے کا دوسرا بڑا اڈا ہے۔

    یہاں بنائے گئے جوئے خانے ہمارے روایتی تصور سے بالکل مختلف ہیں ۔ جوئے خانے کے نام سے ہمارے ذہن میں بدمعاشوں کا ایک ایسا اڈہ آتا ہے جہاں جوئے کی باطنی خباثت وہاں کے تنگ و تاریک ماحول سے پوری طرح عیاں ہوتی ہے۔ مگر امریکہ کے یہ جوئے خانے حسنِ تعمیر، رنگ و روشنی اور آرائش و زیبائش میں بادشاہوں کے عالیشان محلات کو بھی پیچھے چھوڑدیتے ہیں ۔ میرے جیسے لوگ جوا کھیلنے نہیں صرف ان جوئے خانوں کودیکھنے کے لیے دوردور سے کشاں کشاں چلے آتے ہیں ۔ وہاں کے ظاہر ی ماحول کی بنا پر جوئے سے وابستہ نفرت اور برائی کا ہر تاثر ذہن سے نکل جاتا ہے اور جب تک مذہبی حوالوں سے جوئے کی برائی ذہن میں تازہ نہ کی جائے، اس کی شناعت کا کوئی تاثر دل و دماغ پر نہیں بیٹھتا۔

    اس مثال سے ظاہر ہے کہ اگر طریقۂ کار بدل دیا جائے تو جوئے کو باآسانی معاشرتی طور پر قابلِ قبول بنایا جاسکتا ہے۔ رہا مذہب کا سوال تو مذہبی اعتبار سے معیوب اور بھی بہت سی چیزیں سوسائٹی میں چل ہی رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے ذہین کاروباری لوگ اس راز سے واقف ہیں ۔ ان کے طریقۂ واردات کو بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جوئے کے اصل فلسفے کو بیان کردیا جائے۔ جوئے میں صرف قسمت کی بنیاد پر بہت سے لوگ رقم لگاتے ہیں ۔ جن کی قسمت یاوری کرتی ہے انہیں اپنے حصے سے کہیں زیادہ رقم مل جاتی ہے جبکہ باقی لوگوں کی رقم ڈوب جاتی ہے۔

    اب وہ کاروباری لوگ جنہیں میڈیا کے ذریعے سے عوام کے بہت بڑے گروہ تک رسائی حاصل ہے، میڈیا اور کمیونیکیشن کی جدید سہولیات کا فائدہ اٹھآ کر انعام کے نام پر عوام الناس کو جوئے میں شریک کرلیتے ہیں۔ اس عمل میں راتوں رات امیر بن جانے کے خواہشمند کسی ایسے سوال کا جواب ٹیلیفون کے ذریعے دیتے ہیں جس میں پانسہ پھینکنے سے زیادہ محنت اور صلاحیت درکار نہیں ہوتی۔ مثلاً پاکستان کے کتنے صوبے ہیں؟ یہ فون کال عام نرخ سے زیادہ مہنگی ہوتی ہے۔ یہ گویا اس ’جواری‘ کی لگائی ہوئی رقم ہوتی ہے جو ’جوئے خانے‘ والے وصول کرتے ہیں ۔

    میڈیا کی وسیع تشہیر کی بنا پر لاکھوں ’جواریوں‘ کی لگائی ہوئی اس رقم میں سے کچھ حصہ انعام کے نام پر بذریعہ قرعہ اندازی جیتنے والے چند ’جواریوں‘ میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ جبکہ بقیہ رقم ’جوئے خانے‘ والوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ رقم کم ہونے کی بنا پر ہارنے والوں کو بھی دکھ نہیں ہوتا اور وہ ہر دم نیا پانسہ پھینکنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ اس امید پر کہ کبھی نہ کبھی تو قسمت ان پر مہربان ہوگی۔

    یہ ہے دورِ جدید کا ہمارا جوا جس میں انعامی مقابلے کے نام پر خالق اور مخلوق دونوں کو تکنیکی طور پر مطمئن کرنے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مگر ہر صاحبِ بصیرت جانتا ہے کہ نئی بوتل میں یہ وہی پرانی شراب ہے۔ نام بدل دینے سے جوئے کی روح ختم نہیں ہوئی۔ لیکن آخرت فراموشی اور دنیا پرستی کے اس دور میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ایسی باتیں سوچے۔ اللہ کا ہر حکم ہمارے فائدے کے لیے ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرکے ہم آخرت ہی نہیں بلکہ اپنی دنیا کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ کاش یہ بات لوگ اس وقت کے آنے سے پہلے سمجھ لیں جب سمجھنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھی بات کہی‌ ہے۔ واقعی ہم لوگوں نے ناجائز کاموں‌کو جائز لیبل لگا کر اپنا رکھا ہے۔

    کسی عالم دین سے ایک بار سنا تھا

    " ہم وہ قوم ہیں جو رشوت یا حرام کی کمائی سے بازاروں میں حلال ذبح شدہ گوشت تلاش کرتے ہیں "
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بوبی جی یہ تحریر ہم تک پہنچانے کا بہت شکریہ
     
  4. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ آپ سب کا جی ریحان احمد یوسفی کی تحریر کو پسند کرنے کا
     
  5. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    بہت شکریہ بھئی ۔۔ہم سے شیئر کرنے کے لیئے۔۔۔خوش رہیں۔۔۔
     
  6. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    آپ بھی خوش رہیں‌کاشفی بھائی آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں