1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میں ہوں منجدھار میں، کشتی بھنور میں

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏22 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ڈاکٹر شفیق ندوی ۔ ریاض
    ----------------------------------------
    وہ یاد آیا ، وہی منظر نظر میں
    ہوئی ہے روشنی پھر میرے گھر میں
    یہ دل انگڑائیاں لینے لگا پھر
    جنوں نے جست لی پھر میرے سر میں
    تمہیں اب بھولتا جاتا ہوں میں بھی
    نئے منظر نظر آئے سفر میں
    سمجھتا تھاکبھی خود کو شناور
    میں ہوں منجدھار میں، کشتی بھنور میں
    صدف میں ڈھونڈتے پھرتے ہو کیا تم
    چمکتے کچھ گہر، اس چشم تر میں
    اگر ہو حوصلہ ذوق سفر کا
    مسافت خود سمٹ آتی ہے گھر میں
    محبت،پیار، الفت، درد سر اک
    مگر اک لطف ہے،اس درد سر میں
    ملا قاتیں سمندر کے کنارے
    کوئی کب بھول پاتا عمر بھر میں
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
    حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

    ہر ایک جسم روح کے عذاب سے نڈھال ہے

    ہر ایک آنکھ شبنمی ہر ایک دل فگار ہے

    ہمیں تو اپنے دل کی دھڑکنوں پہ بھی یقیں نہیں

    خوشا وہ لوگ جن کو دوسروں پہ اعتبار ہے

    نہ جس کا نام ہے کوئی نہ جس کی شکل ہے کوئی

    اک ایسی شے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ندی کا موڑ چشمہ شیریں کا زیرو بم
    چادر شب نجوم کی شبنم کا رقص نم
    موتی کی آب گل کی مہک ، ماہ نو کاخم
    ان سب کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے تو
    کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو
    لہجہ ملیح ہے کہ نمک خوار ہوں تیرا
    صحت زبان میں ہے ،میں بیمار ہوں تیرا
    آزاد شہر ہوں کہ گرفتار ہوں تیرا
    تیرے کرم سے شعرو سخن کا امام ہوں
    لوگوں پہ خندہ زن ہوں کہ تیرا غلام ہوں
     
  4. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    پیاس صدیوں کی ہے لمحوں میں بجھانا چاہے
    اک زمانہ تری آنکھوں میں سمانا چاہے

    ایسی لہروں میں ندی پار کی حسرت کس کو
    اب تو جو آئے یہاں ڈوب ہی جانا چاہے

    آج بکنے سر بازار میں خود آیا ہوں
    کیوں مجھے کوئی خریدار بنانا چاہے

    مجھ میں اور تجھ میں ہے یہ فرق تو اب بھی قائم
    تو مجھے چاہے مگر تجھ کو زمانہ چاہے

    کبھی اظہار محبت کبھی شکوؤں کے لیے
    تجھ سے ملنے کا کوئی روز بہانا چاہے

    جس کو چھونے سے مرا جسم سلگ اٹھا تھا
    دل پھر اک بار اسی چھاؤں میں جانا چاہے

    اس کے جذبات سے یوں کھیل رہا ہوں ناصر
    جیسے پانی میں کوئی آگ لگانا چاہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں