1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میں وہاں صدیوں بعد پہنچا

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از سموکر, ‏4 جون 2006۔

  1. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بہت تاخیر ہو گئی۔ میں جب وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ میں ساڑھے پانچ سو برس لیٹ ہوں۔ رومن ایمپائر کی آخری نشانی قسطنطنیہ کو استنبول بنے صدیاں گزر چکی ہیں اور عثمانی فاتح سلطان محمد دوم کے سفید گھوڑے کے سموں سے نکلنے والی چنگاریاں بجھ چکی ہیں۔ میں اس جگہ پتھر کے ایک بنچ پر بیٹھا تھا جس کے سامنے سے یہ فاتح رومیوں کے گرجے ایاصوفیہ کی طرف جاتے ہوئے گزرا تھا اور شاید اس گرجے کے سامنے ہی وہ جگہ تھی جہاں سے گزرتے ہوئے اس فاتح کے دل میں غرور کا فتنہ جاگا تھا اور اس کی خوش نصیبی کہ اس نے فوراً ہی اپنا گھوڑا روکا، اس کی زین پر سے نیچے اترا ، اپنی شاہی دستار اتار کر اس راستے سے مٹی اٹھائی اور اپنے سر میں ڈال لی کہ غرور کس بات کا یہ سب اللہ تعالیٰ کی نصرت ہے اور کچھ نہیں۔ یہ منظر جو میں چشم تصور سے بھی نہیں دیکھ سکا کچھ خوش نصیب انسانوں نے کبھی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہو گا ایک ناقابل تسخیر شہر کو مسخر ہوتے ہوئے ، تہلکہ خیز رومن ایمپائر کی آخری نشانی بازنطینی حکمرانوں کا آخری پایہٴ تخت۔ عثمانی سلطان محمد ثانی نے جو اس فتح کے بعد تاریخ میں محمد فاتح کہلایا رومن ایمپائر کی داستان ہمیشہ کے لیے لپیٹ دی۔ محمد فاتح نے قسطنطنیہ کا نام بدل کر اسلامبول (اسلام آباد) رکھا جو بعد میں استنبول کہلانے لگا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کتنا خوش نصیب اور شاندار ہو گا وہ لشکر جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا۔ مسلمانوں نے کئی بار کوشش کی مگر یہ شہر فتح نہ ہو سکا۔ یہ شاندار کارنامہ محمد فاتح کی قسمت میں لکھا تھا اور حضور پاک کی اسی خواہش کے جواب میں اس نے لشکر کشی کا ایک منفرد انداز اختیار کر کے اس شہر کو فتح کر لیا۔ اس ساحلی شہر میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ تھا آبنائے کا سمندری راستہ جس کے منہ پر ایک گرانڈیل زنجیر باندھ دی گئی تھی ۔ کوئی کشتی اس زنجیر کو عبور نہیں کر سکتی تھی۔ محمد فاتح کو جب کوئی راستہ نہ ملا تو اس نے ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا۔ تبرک کے لیے اپنے ساتھ لائے ہوئے شیخ کے خیمے میں وہ رات بھر موٴدّب ہو کر خاموش بیٹھا رہا۔ صبح سویرے پیر و مرشد نے کہا جاؤ خدا تمہیں فتح دے گا۔ اس نے جو کشتیاں تیار کی تھیں پانی پر نہیں پہاڑ اور زمین پر چلنے کے لئے۔ تاریخ کے منفرد جنگی منصوبے کے تحت اس نے چربی کی دیگیں پگھلانے کا حکم دیا اور یہ چربی ان کشتیوں کے نیچے اور ان کے راستے پر لیپ دی گئی اور ایک رات کو کشتیوں کا یہ بیڑا خشکی پر پھسلتا بہتا ہوا اس زنجیر کی دوسری طرف شہر کے سامنے اندر پہنچ گیا جب صبح ہوئی تو قسطنطنیہ کے لوگ اس جنگی بیڑے کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ پھر دست بدست جنگ شروع ہوئی جس میں پادریوں سمیت اس شہر کے باشندوں نے حصہ لیا۔ فوج جان توڑ کر لڑی مگر سلطان فاتح کی قسمت میں فتح لکھ دی گئی تھی۔ فتح کا نقارہ بلند ہونے پر وہ اپنے سفید رنگ کے گھوڑے پر سوار ہوا اور اس غیر معمولی فتح کے سُرور اور حضور پاک کی دعا کے مستحق ہونے کی خوشی میں اس سلطان کے دل و دماغ میں غرور نے راہ پا لی جس کا علاج اس نے فوراً ہی راستے کی خاک سر میں ڈال کر،کر لیا۔ اسی واقعہ کی 553ویں سالگرہ گزشتہ ماہ استنبول میں منائی گئی۔ سلطان محمد نے 29مئی 1454ء کے دن یہ شہر فتح کیا تھا۔ ایک ہزار برس سے زائد عرصہ تک باقی رہنے والی مسلمان سپر پاور نے جو دنیا کی تاریخ کی طویل ترین برتر طاقت تھی اپنے اس طویل دور میں لاتعداد فتوحات حاصل کیں۔ فتوحات کا دائرہ یورپ، ایشیا اور افریقہ تک پھیلتا چلا گیا لیکن لاتعداد فتوحات کے اس شاندار سلسلہ کی سب سے بڑی فتح اس شہر کی فتح تھی جو پیغمبر اسلام کی سب سے پسندیدہ فتح تھی اور جس فاتح لشکر کے لیے حضور پاک نے دعا فرمائی تھی یہی وہ دعا تھی جس کا مستحق بننے کے لیے مسلمانوں کے ایک لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاری بھی شامل ہو گئے تھے۔ 95برس کے اس بزرگ صحابی نے جو مدینہ میں حضور ا کے پہلے میزبان تھے لشکر کو وصیت کی کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو مجھے قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب ترین لے جا کر دفن کر دیا جائے۔ میں جب ان کے مزار پر کھڑا تھا تو تاریخ کے صفحات پھڑاپھڑا رہے تھے اور ان کے مزار سے ملحق صاحب مزار سے عقیدت کے اظہار کے لیے سلطان سلیمان نے جو بے مثال مسجد تعمیر کی تھی اور سنان جیسے تاریخی معمار نے جس کی نگرانی کی تھی اس میں مجھے نماز جمعہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس مسجد کا صحن حضرت انصاری کے مزار تک پھیلا ہوا ہے۔ ترکی کی شاید یہ واحد مسجد ہے جس کا صحن بھی ہے ورنہ ترکی کی حیران کن حد تک خوبصورت مسجدوں کے صحن نہیں ہوتے۔ ایک بہت بڑا گنبد ہوتا ہے یا کئی گنبد جن کے نیچے پوری مسجد ہوتی ہے۔ شدت موسم کی وجہ سے شاید صحن استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسجد سے ملحق ایک ریستوران ہے جہاں سلاطین کے دور میں مسافروں اور شاہی مہمانوں کے کھانے کا بندوبست ہوتا تھا۔ اب یہ شاہی مطبخ وغیرہ تو ختم ہو گئے لیکن اس جگہ جو ریستوران بنایا گیا ہے اس کے تمام عملے کا لباس وہی ہے جو سلطان سلیمان کے زمانے میں تھا۔ جیسے ترک فوج کا بینڈ وہی قدیم بینڈ ہے جو عثمانی سلاطین کے وقت ہوتا تھا۔ یہ بینڈ پاکستان اور لاہور بھی آ چکا ہے۔ فتح قسطنطنیہ کے لیے آنے والے ایک مسلمان لشکر کے شہید صحابی کا ترک سلاطین نے بے حد احترام کیا اس حد تک کہ جب کسی سلطان کی تاجپوشی ہوتی تو وہ حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر جا کر تلوار باندھتا تھا اور تب وہ سلطان کہلاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تلوار حضرت انصاری کی تھی۔ سلطان محمد فاتح نے فتوحات کا سلسلہ قسطنطنیہ پر ہی ختم نہ کیا بلکہ اس نے اپنے سفید گھوڑے کو یورپ جانے والے راستوں پر ڈال دیا اور بلقان کی ریاستوں کو فتح کر لیا ۔ وہ آگے بڑھ رہا تھا کہ ایک یہودی اس کو کھانے میں زہر دینے میں کامیاب ہوگیا اور وہ پچاس برس سے بھی کم عمر میں اپنی فاتحانہ زندگی سے محروم ہو گیا۔
     
  2. ثناء
    آف لائن

    ثناء ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    میں وہاں صدیوں بعد پہنچا

    جب میں نے یہ عنوان دیکھا تو مزاح کرنے کے موڈ میں ‌یہاں‌ آئی لیکن جب یہ تحریر پڑھی تو مجھے خود بھی احساس ہوا کہ میں خود بھی صدیوں بعد آئی ہوں۔
    اور اس وقت آئی ہوں جب اسلام کا سب کچھ اجڑ چکا ہے۔ اور دیکھنے کو اس کے صرف کھنڈرات نظر آتے ہیں اور گزرے ہوؤں کی داستانیں پڑھنے، سننے کو ملتی ہیں۔
    آہ کاش کہ آج پھر اسلام کو وہ سر بلندی عطا ہو جس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔
     
  3. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    زبان مبارک

    اللہ آپ کی زبان مبارک کرے
    اے خدا دین اسلام کو پھر سے وہی سر بلندی عطا فرما
     
  4. فاطی
    آف لائن

    فاطی ممبر

    شمولیت:
    ‏28 مئی 2006
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت خوب بلکہ بہت ہی خوب

    عجیب دلگرفتگی سی محسوس ہوتی ہے جب اپنے گزرے شاندار ادوار کے ‘‘ اپنی کوتاہیوں‘‘ کے طفیل کھو جانے کا ادراک ہوتا ہے۔
    مبارک ہے وہ لمحہ جب ‘‘سموکر ‘‘ نے اس شاندار ‘‘دَور‘‘ کا نظارہ اپنی چشمِ تصور سے کیا اور اسے ہم تک پہنچایا ،،، !
    ہزار برس پر محیط اس باوقار اور پُر شکوہ دور کی بنیاد جس خوبصورتی سے عجز و انکساری ، احترامِ مُرشد ، اور اسلامی عقیدہء فتح و سرحد پر رکھی برملا لائقِ تعریف ہے۔
    اللہ ہمارے سلاطین و جنرلز کو بھی اس ‘‘ بنیادپرستی‘‘ سے انکار و شرمندگی کی بجائے فخر کرنے اور عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
    زندہ باد سموکر زندہ باد ، ، ، مگرکیایہ تحریر سموکر کی ہی ہے ؟
    اللہ نہ کرے ورنہ مجھے بھی سموکنگ،،،،،،،،،،
     
  5. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    اعتراف

    مجھے اعتراف ہے کہ یہ تحریر میری نہیں
    میں نے کہیں پڑھی اچھی لگی تو دوستوں کے پڑھنے کیلے یہاں رکھ دی اس سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں یاد دلانے کا شکریہ
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    سموکر صاحب پرچہ حل کرو

    محترم سموکر صاحب!

    ذرا یہاں تشریف لا کر پرچہ تو حل کریں، وقت ختم ہونے کو ہے۔ ذرا جلدی کر لیں۔
     
  7. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    Re: بہت خوب بلکہ بہت ہی خوب

    حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے
    اس سے بچنا چاہے
    شکریہ
     
  8. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اس خوبصورت تحریر پر سموکر صاحب کو واقعی
    دلی مبارک باد
     
  9. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    واہ سموکر بھائی واہ

    انتخاب بہت خوب
    اور
    اعتراف اس سے بھی خوب
     
  10. شہزادی
    آف لائن

    شہزادی ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    155
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    Re: بہت خوب بلکہ بہت ہی خوب

    واہ بھئی پٹھان نے تو بڑی عقل مندی کی بات کی
     
  11. ڈی این اے سحر
    آف لائن

    ڈی این اے سحر ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مئی 2006
    پیغامات:
    191
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت خوب لکھا سموکر نے !!!

    اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔۔۔ !!!
    ضرورت ہے ہم سبکو اس دیری کےاحساس کے ساتھ ساتھ بچے کھچے موجود وقت کو ضائع کرنے کی بجائے کچھ کر گزرنے کے احساس کی۔۔۔۔ !!!
     
  12. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    Re: بہت خوب لکھا سموکر نے !!!

    دیر آئے درست آئے
    خوش آمدید
     
  13. ڈی این اے سحر
    آف لائن

    ڈی این اے سحر ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مئی 2006
    پیغامات:
    191
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    دیر ہی سے سہی !!!

    دیر ہی سے سہی !!!

    پھر بھی کہنے کا شکریہ !!!

    میں تو ترس گئی تھی کہ کوئی مجھے خوش آمدید کہے!!!
     
  14. موٹروے پولیس
    آف لائن

    موٹروے پولیس ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    1,041
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    سموکر جی آپ اپنا یہ سلوگن رکھ لو

    سحر جی خوش آمدید
     
  15. ڈی این اے سحر
    آف لائن

    ڈی این اے سحر ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مئی 2006
    پیغامات:
    191
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    پھر آپ کیا رکھو گے ؟

    پھر آپ اپنا سلوگن کیا رکھو گے ؟
     
  16. موٹروے پولیس
    آف لائن

    موٹروے پولیس ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    1,041
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    سوچنا پڑے گا :(
     
  17. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    یہ تحریر جس کی بھی ہے مگر ہم تک تو سموکر صاحب کی وجہ سے پہنچی ہے نہ شکریہ سموکر صاحب
    نہایت فکر انگیز تحریر ہے اسے سب مسلمانوں تک پہنچانا چاہیئے
     
  18. موٹروے پولیس
    آف لائن

    موٹروے پولیس ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    1,041
    موصول پسندیدگیاں:
    2
  19. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    سموکر صاحب ماضی کی بہت اچھی سیر کروانے پر آپ کا شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں